Friday, November 06, 2020

نبی کریمﷺ کا بچپن 20-25

ھفت روزہ اھل حدیث, سیرت النبیﷺ, نبی کریمﷺ کا بچپن,
 

سیرت النبی

نبی کریمﷺ کا بچپن

 

تحریر: جناب ڈاکٹر عبدالغفار حلیم

فرمان الٰہی ہے:

﴿فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۰۰۱۶﴾ (یونس)

یہ پڑھیں:              سیرت النبی ﷺ (اول) بعثت سے پہلے

آپ e کے والد ِ محترم کا نام عبداللہ ہے، عبودیت آپ e کے خون میں شامل ہے۔آپe کی والدہ ماجدہ کا نام آمنہ ہے۔امن کے شکم میں آپe نے پرورش پائی۔آپ کی دائیہ کا نام حلیمہ ہے آپ نے حِلم اوربردباری کا دودھ پیا ہے۔عقیقہ اورختنہ کے بعد عرب کے دستورکے مطابق بچوں کی صحیح نشوونمااورخالص عربی زبان سیکھنے ، جسم و قویٰ کو مضبوط بنانے کے لیےبچوں کو دیہاتی ماحول میں بھیجتے۔دیہات کے غریب لوگ شہرکے نومولودبچوں کی پرورش کرکے اپنی روزی کا بندوبست کرتے۔ ابھی آپe ڈیڑھ ماہ کے ہوئے تھے کہ بنوسعد کے دس گھرانے نومولودبچوں کو حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے۔ حلیمہ سعدیہ کہتی ہیں کہ میں بھی ان میں شامل تھی۔ میری سواری کمزورہونے کے سبب سب سے بعد مکہ مکرمہ پہنچی۔اتنے میں امیرگھرانوں کے بچوں کو میری ساتھی عورتوں نے پرورش کے لیے لے لیا۔ پہلے میں نے بھی محمدe کواس لیے چھوڑ دیا کہ یہ بچہ یتیم ہے ہمیں پرورش کی اجرت کون دے گا لیکن جب کوئی اوربچہ نہ ملا تو مجبوراََ محمدe کو گلے لگا لیا۔باپ نہیں تو داد اورچچا تو ہیں وہ ہمیں اجرت دیں گے۔ اپنے خاوند حارث سے مشورہ کیا اس نے بھی کہا کہ خالی جانے سے بہترہے یتیم کو قبول کرلیں۔ میں نے اس بچے محمد کو اٹھایا اور سینے سے لگایا۔ بچہ ایسا خوبصورت اور خوبرو تھا کہ ایسا پہلے زندگی میں نہیں دیکھاتھا۔

نمے گویم چنانے یا چنینے

بہر صورت تسر الناظرینے

ز سر تا پا ز پا تا سر بہر عضوے

حسینے ناز نینے دل نشینے

حضرت آمنہ نے باوجود بیوہ ہونے کے بچے کی پرورش وکفالت کی اجرت بھی دے دی۔حلیمہ کہتی ہیں کہ میں بھوکی پیاسی تھی لیکن جب بچے کو چھاتی سے لگایا تو میری چھاتی میں دودھ اتر آیا اور جو سواری سست رفتارتھی جب بچے کو لے کر اس پر سوار ہوئی تو وہ پہلے روانہ ہونے والیوں سے بھی آگے نکل گئی۔وہ پوچھتی ہیں کہ تیری سواری تو ہمیشہ پیچھے رہتی تھی کیا سواری بدل لی ہے؟ حلیمہ کہتی ہیں میں نے سواری نہیں سواربدل لیا ہے۔ جب حلیمہ اس بچے کو لے کر اپنے گھر پہنچیں تو حلیمہ کے گھر میں اس قدر برکات ہوئیں کہ جس گھر میں فاقہ تھا وہ سیر ہوکر روٹی کھانے لگے۔حلیمہ کہتی ہیں کہ ہماری اونٹنی اوربکریاں جن کا بھوک کی وجہ سے دودھ خشک ہوچکا تھا اب وہ وافر دودھ دینے لگیں۔ بکریاں اور اونٹنی موٹی تازی ہوگئیں۔ حلیمہ کہتی ہیں کہ میرے سینے سے دودھ خشک ہوگیا تھاجس وقت اس بچے کا منہ مبارک میری چھاتی سے لگا تو میری چھاتی دودھ سے بھر گئی۔ آپ ؐ میری دائیں چھاتی سے دودھ پیتے اور بائیں چھاتی اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے لیے چھوڑ دیتے۔آپ نے کبھی میری گود، میرے بستر یا کپڑے پر بول وبزار نہیں کیا۔ (البدایہ والنہایہ، جلد نمبر۲،صفحہ نمبر ۲۷۴۔دلائل النبوہ للبہیقی ،جلد نمبر۱،صفحہ ۱۳۵)

یہ پڑھیں:              سیرت النبیﷺ (دوم) ... ولادت با سعادت

آپ e نے اعجازکے طورپر اپنی ماں کی گود میں گفتگوکی ہے۔ علامہ سیوطی ؒ نے لکھا ہے کہ تاریخ میں گیارہ بچوںنے اپنی مائوں کی گود میں گفتگوکی ہے۔

جن بچوں نے اپنی ماؤں کی گود میں کلام کیاہے۔ان میں حضرت محمدe سرِفہرست ہیں۔

تَکَلَّمَ فِی الْمَھْدِ النبی مُحمد

وَیَحْیَیٰ وَعِیْسٰی والخلیلُ وَمَرْیَمُ

نوٹ: ان گیارہ بچوں کا منظوم ذکر راقم کی کتاب’’تحفۃ الواعظین‘‘ کے صفحہ نمبر ۹۸ پر ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت حلیمہ کہتی ہیں کہ آنحضرت محمدe نے دودھ پیتے فرمایا تھا

[اللہ اکبر کبیرا والحمد اللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا.] (تفسیر مظہری اردو صفحہ۱۴۲، تفسیر روح المعانی جلد ۲صفحہ۲۲۰،تیسیر الباری شرح بخاری جلد۴ صفحہ۴۹۸)

آپe نے بچپن میں سات ماؤں کا دودھ پیا ہے:

1       حضرت آمنہ (حقیقی والدہ)

2       عاتکہ (۱)آپ ؐ کی پھوپھی

3       عاتکہ (۲)

4       عاتکہ(۳)

5       ثویبہ

6       اُم ایمن

7       حلیمہ سعدیہ

یہ پڑھیں:              سیرت النبی ﷺ (سوم) ... تاریخ ولادت رسول اللہﷺ

آپe کے رضائی بہن بھائی کل سات یا نو ہیں:

1       سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب

2       ابو سلمہ ؓبن عبدالاسد

3       ابوسفیانؓبن حارث

4       عبداللہ

5       انیسہ

6       حذافہ

7       شیما

آپ کی بہن شیما کی آپe سے خصوصی محبت تھی، وہ آپe کو اٹھاتی،کھلاتی اوراکثر وقت آپ کے ساتھ گزارتی۔اور آپ ؐ کو لوری دیتی۔

یا رب ابق لنا محمدا

حتی اراہ یافعا وامردا

ثم اراہ سیدا و مسودا

واکبت اعادیہ معا والحسدا

واعطہ عزا یدوم ابدا

۲سال کے ہوئے تو حلیمہ آپ کو واپس مکہ مکرمہ لے آئیں۔مکہ مکرمہ میں اس وقت حالات مخدوش تھے یعنی کوئی وبا پھیلی ہوئی تھی۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے اپنے بچے کو دوبارہ واپس بھیج دیا۔حلیمہ کے گھر پر بچے کی برکت کی وجہ سے بھی حلیمہ بچے کو واپس کرنے میں تامل کرتی رہیں۔چنانچہ مزید دو سال آپ ؐحلیمہ کے پا س رہے۔اس دوران حلیمہ آپe کو گاہے بگاہےآپe کی والدہ سے ملواتی رہیں۔اس عرصہ میں آپ نے اپنے رضائی بہن بھائیوں کے ساتھ حلیمہ کی بکریاں بھی چرائی ہیں۔بکریاں چراتے ہوئے شق صدر کا واقعہ پیش آیا،اس وقت آپ کی عمر ۴ سال تھی۔ دو آدمی آئےانہوں نے بکریاں چرانے والے بچوں کو تھوڑا دور کر دیا اور محمد e کو لٹایا،سینہ چاک کیا ،ایک لوتھڑا نکا ل دیااورکہاکہ یہ شیطان کا حصہ ہے ۔دل کو زمزم سے دھو کر دوبارہ سی دیا۔ادھر بچوں نے دوڑ کر حلیمہ کو بتایا کہ محمد قتل کر دیے گئے ہیں۔حلیمہ سمیت سب گھر والے پہنچے دیکھا تو محمدe صحیح سالم تھے صرف آپکا چہرہ اترا ہوا تھا۔ (مسلم عن انس)۔

یہ پڑھیں:             سیرت النبی ﷺ (چہارم) ... عظمت مصطفیٰﷺ

اس واقعے کے بعد حلیمہ کو خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے آپ e کو مکہ مکرمہ لیجا کر آپ کی ماںحضرت آمنہ کے حوالے کر دیا۔

اس عرصہ میں شیما کا بیان ہے کہ جب ہم نے محمدe کو واپس لوٹانے کا ارادہ کیا تو میں نے محمدe سے کہا کہ تم چارسال ہمارے پاس رہے ہو ایک مرتبہ بھی تم نےستایا نہ روئے ۔ضدکی نہ غصہ میں آئے ، گالی دی نہ کسی کے اوپر پیشاپ پاخانہ کیا، نہ کبھی ناراض ہوئے اب تم جانے لگے ہو توکوئی نشانی دے کرجائو تاکہ ہم آپ e کو اس نشانی سے یاد رکھا کریں۔ایسے کریں کہ میری کلائی پردانتوں سے کاٹ دیں۔ شیما کے کہنے پر آپe نے شیما کی کلائی پر دانتوں کے نشان چھوڑدیے۔اس پر شیما اورباقی رضائی بھائی بہت خوش ہوئے۔ شیما کے تاثرات کو کسی نے پنجابی میں منظوم کیا ہے۔

جُگ جُگ مان جوانیاں شالا ویرا تیریاں دور بلائیں

وِنگا بال نہ ہووے تیرا میں منگاں روز دعائیں

 نبی پاک اپنی ماں کی آغوش میں:

آپکی والدہ اپنے نور نظر لخت جگر کی زیارت کے لیے کب سے مشتاق ومنتظر تھی ۔بچے کو لیکر دلی سکون حاصل ہوا کیونکہ آمنہ کی دولت و اثاثہ تو آپe ہی تھے ،باپ تو ولادت سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے لیکن ماں کے ساتھ داداسردار عبدالمطلب نے اپنے حقیقی بیٹوں سے بڑھ کر پیار دیا۔آپؐ چھ سال کی عمر تک والدہ کی آغوشِ محبت میں ہی رہے۔جب آپe چھ سال کے ہوئے تو حضرت آمنہ نے سفرِ یثرب کا ارادہ کیا۔ چنانچہ وہ اپنے یتیم بچے محمدؐ،اپنی خادمہ ام ایمن اوراپنے سرپرست سردارعبدالمطلب کی معیت میں مدینہ تشریف لے گئیں۔وہاں ایک ماہ قیام کیا۔ واپسی پر سفرکی ابتدا ہی میں بیماری نے آلیا۔بیماری شدت اختیارکرتی رہی یہاں تک کہ مکہ اورمدینہ کے درمیان مقام ابوا میں پہنچ کر رحلت کرگئیں۔ آپ ؐ اپنے دادا کی شفقت میں مکہ مکرمہ پہنچے۔

والدہ کی وفات کے بعد دوسال حضورe نے اپنے دادا کے سایہ عاطفت میں گزارے۔عبدالمطلب کے جذبات میں پوتے کے لیے ایسی محبت تھی کہ ان کی اپنی صلبی اولاد میں سے بھی کسی کو حاصل نہ تھی۔قسمت نے آپ ؐ کو تنہائی کے جس صحرا میں لاکھڑاکیا سردارعبدالمطلب اس میں آپؐ کو تنہا چھوڑنے کے لیے تیارنہ تھے۔ابنِ ہشام کا بیان ہے کہ عبدالمطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سائے میں بچھونا بچھایا جاتا۔ ان کے سارے لڑکے بچھونے کے اطراف میں بیٹھتے جب عبدالمطلب تشریف لاتے تو رسول اللہ ؐ کو اپنے ساتھ بچھونے پربٹھاتے اور ہمیشہ اُن کو اپنے ساتھ رکھتے۔آپ ؐ کی عمر ابھی ۸ سال ۲ ماہ ۱۰ دن ہوئی تھی توداداسردارعبدالمطلب کا بھی سایہ سر سے اُٹھ گیا۔دادا وفات سے پہلے زبیر بن عبدالمطلب کو کفالت کی وصیت کر گئے۔ داداکی وفات کے بعد آپؐ یتیم دریتیم ہو گئے۔ باپ، ماں اوردادا کی وفات کا صدمہ آپؐ کو گھلائے جارہا تھا۔

یہ پڑھیں:              سیرتِ رسول ﷺ کے چند اہم واقعات

پیدا ہوئے تو باپ کا سایہ سر سے اُٹھا دیا

گھٹنوں چلے تو دادا عدم کو روانہ تھا

چلنے لگے تو مادر و عم ہونے لگے جدا

اک ایک سایہ سر سے اُٹھتا چلا گیا

سائے پسند آئے نہ پروردگار کو

بے سایہ کر دیا گیا یوں سائے دار کو

قدرت سب سہاروں سے بے نیازکررہی تھی تاکہ جب آپ اعلانِ نبوت کریں تو کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس کی لیاقت و اقبال میں ماں، باپ ،دادا یا استاد کا ہاتھ ہے۔اللہ تعالیٰ نے سارے سہارے چھین کراپنے خصوصی سہارے اورنگہداشت میں لے لیا۔ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْماَ فَاٰوٰی۔ کہ ہم نے آپ ؐ کو یتیم در یتیم پایا۔مگر اپنے درِشفقت میں آپؐ کو لے لیا۔

آنحضرت ﷺ چچا ابوطالب کی کفالت میں

پھر جناب ابوطالب نے آپؐ کی کفالت کا حق ادا کر دیا اور لمبا عرصہ آپ ؐ کو کوئی پریشانی نہیں آنے دی۔وہ ہرمعاملہ میں اپنے بیٹوں سے آپؐ کو مقدم رکھتے تھے۔آپؐ لڑکپن میں داخل ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے لڑکپن کی عمر میں آپ ؐ سے پیغمبرانہ فہم و فراست کا اظہار کروانا شروع کروا دیا۔ آپ دوسرے بچوں کی طرح کھیلا نہیں کرتے تھے، بچپن سے ہی آپؐ سنجیدہ تھے، ہرکسی کو ادب سے بلاتے جس کی وجہ سے سب اہلِ مکہ آپ کو عزت و شفقت سے دیکھتے۔مولانا علی محمدصمصام نے آپؐ کے اوصاف کی عکاسی کی ہے۔

نہ گڈی پتنگاں غبارے لفافے

میں صدقے کدی نہ کبوتر اڈائے

نہ مٹی اڈائی نہ کنڈے کھلا رے

نہ رولا نہ رپا نہ روڑے چلائے

نہ تیتر بٹیرے نہ بلبل چکوراں

نہ بجڑے نہ کتے نہ ککڑ لڑائے

نہ دن ویلے سرمہ نہ شوکت نہ شاناں

ننگے بدن ہوئے نہ بودے رکھائے

گیا بچپنا تے آئی سوہنی جوانی

میں صدقے میرا پیر انج کر کے رہیا

کیوں آیا محمدؐ کی وھندا سی ایتھے

کیوں ایتھے کھڑا سی کسے نے نہ کہیا

یہ پڑھیں:              معلم انسانیت اور حکمت وتدریس

اہلِ مکہ کو آپؐ کی ایک بات پر اعتراض تھا کہ آپ ؐ بچوں میں نہیں کھیلتے تھے بلکہ بیت اللہ میں جہاں بت رکھے ہوئے تھے وہاں چلے جاتے اور انہیں آگے پیچھے کردیتے۔اُن سے توہین آمیرکلمات کہتے اور اُن سے کچھ نہ ہونے کا تذکرہ کرتے۔قوم کو آپؐ کی یہ بات ناگوارگزرتی کہ محمدؐ بچوں کی بجائے ہمارے خدائوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔مشرکینِ مکہ نے کئی بار آپؐ کے چچا ابوطالب سے آپؐ کی شکایت کی۔

روایت ہے اکثر محلوں کے لڑکے

جو مکے کی گلیوں میں جا کھیلتے تھے

جو لڑکے باہم جا بجا کھیلتے تھے

نہ اُن میں کبھی مصطفٰیؐ کھیلتے تھے

سُجھاتے تھے ان کو بھی راہِ ہدایت

عجب کھیل یہ مصطفٰیؐ کھیلتے تھے

کبھی لات ماری ، کبھی توڑ ڈالا

بتوں میں رسولِ خدا کھیلتے تھے

(جاری ہے)


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)