عدل‘ تقویٰ
کے قریب ہے
معاشرتی امن اور بقائے باہمی کے لیے ضروری امور میں سے ایک اہم ترین امر عدل ہے۔
عدل برابری اور انصاف کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم ہستی خالق ومالک ہو کر بھی عادل
کی بلند صفت سے متصف ہے۔
عدل وانصاف کا قیام جہاں ضروری ہے وہاں اس کے برعکس یعنی متضاد عمل بے انصافی اور
ظلم سے بچنا بھی ضروری ہے۔ ہمیشہ حکومتیں اور اقتدار عدل کی بنیاد پر قائم رہتے ہیں
جبکہ ظلم کی صورت میں ان کا وجود اور نشان مٹ جاتا ہے۔
یہ پڑھیں: توہین رسالت
حدیث قدسی میں پروردگارِ عالم کا ارشاد ہے: ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے نفس پر
ظلم حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی ظلم حرام کر دیا ہے۔ لہٰذا تم ایک دوسرے پر
ظلم نہ کیا کرو۔‘‘ (مسلم)
عدل کا قیام‘ ظلم کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر انبیاء
نے اللہ کے بندوں کو اللہ کے بارے میں اور اس کی مخلوق کے بارے میں عدل اور انصاف کا
حکم دیا ہے‘ عدل کا تعلق قول اور فعل دونوں کے ساتھ ہے۔
انبیاء کرامo میں سے جنہیں ریاست وحکومت ملی انہوں نے خوب عدل قائم کیا‘ پھر ان کے جانشینوں
نے قیام عدل کا سلسلہ جاری رکھا۔
صحابہ کرام] بالخصوص خلفائے راشدین‘ قیام عدل کا نمونہ بن گئے۔ سیدنا عمرt کے متعلق غیر مسلم مفکرین اور ماہرین معاشرت بھی اس بات سے متفق ہیں کہ انہوں
نے حقیقی عدل قائم کیا اور دنیا سے ظلم کو دور کیا۔ ان کے عادلانہ فیصلے انصاف اور
قضاء کے نمائندوں نے بلکہ نوشتوں اور کتب نے بطور مثال پیش کیے ہیں۔
نبی کریمe سرکاری مناصب بالخصوص قضاء کی ذمہ داریوں کے لیے اہل افراد کو متعین فرماتے‘
صحابہ کرام نے بھی اسی طریقے کی پیروی کی۔ صحابہ کرام]‘
تابعین عظامS اور علماء امت اس عہدہ پر کام کرنے سے گریز کرتے تھے کیونکہ وہ اس پر بالخصوص
اُخروی مسئولیت سے لرزاں وترساں تھے۔
امام ابوحنیفہa کی طرح کئی اکابر امت کو یہ عہدہ قبول نہ کرنے پر سزائیں جھیلنا پڑیں‘ کیونکہ
وہ اس شعبے کی نزاکتوں کو سمجھتے تھے۔
آج اس عہدہ کے حصول کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں‘ اس کو اچھا روزگار اور بڑا ذریعہ
معاش سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سائل کسی معاملے میں مبتلاء ہوا وہ ایک
بڑے گروہ کے ہتھے چڑھ گیا جس میں وکیل‘ وکیل کا منشی‘ حج کا منشی‘ ریڈر‘ ان کے دفتری
عملے کے درجہ بدرجہ ماتحت‘ سب ایک کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ جن کی تنخواہیں کم ہیں
یا بعض کی ماہانہ تنخواہیں مقرر ہی نہیں‘ البتہ ہر روز کی ’’دیہاڑی‘‘ اچھی لگ جاتی
ہے۔
بعض سائل مجبور مقہور اور غریب ہوتے ہیں‘ اس نظام کی خرابیوں کے باوصف کئی گھروں
کے مرد بند یا پابند ہوتے ہیں اور صرف عورتیں ہی ان کاروباری لوگوں کے ہتھے چڑھی ہوتی
ہیں۔ پھر یہاں مال کے بعد ان کی عزتیں بھی محفوظ نہیں رہتیں۔
اس نظام کی خرابیوں میں سے من چاہے افراد کو جج بنوانا بھی ہے‘ لاکھوں کی تنخواہیں
پانے والے ان افراد میں سے بعض ہمیشہ مالی منفعت کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ بعض حکومتوں
کی جانب جھکاؤ رکھنے والے اور بعض اپوزیشن کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ اس طرح ان کے
فیصلے سیاسی ہوتے ہیں۔
یہاں پر نظریۂ ضرورت بھی کام دکھاتا نظر آتا ہے۔ نظریۂ ضرورت کی بنیاد پر فیصلے
کیے جاتے ہیں یا بدلے جاتے ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصہ کے دوران اس نظریہ کی بہت تشہیر ہوئی‘ اس سے ان کی عزت میں کمی
ہی آئی‘ یہ لوگ عدلیہ کی عزت ووقار کو بلند نہ کر سکے۔
حکومتیں گرانے اور بنانے میں بھی یہ لوگ رول ادا کرتے ہیں اور کچھ بنا بھی لیتے
ہیں‘ بعض زندہ ضمیر ایسے مواقع پر حق پر ڈٹ گئے۔ انہیں کئی دنیاوی مفادات حتی کہ ان
کے حق میں آنے والی سرکاری مراعات اور سہولیات سے محروم ہونا پڑا یا کر دیا گیا‘ ہاں
وہ نیک نامی ضرور کما گئے۔
ان سطور سے جہاں عمومی گذارشات اور اصطلاحات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے وہاں دو
فیصلوں کی طرف اشارہ بھی مطلوب ہے جو کہ گذشتہ کچھ عرصہ قبل جاری کیے گئے ہیں۔ ایک
فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے اور ایک اس سے ماتحت درجے کی عدلیہ کا۔
پہلے فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعلق جو اہم بنیادیں تھیں وہ ثابت
نہ ہو سکیں حتی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر نے اس کے متعلق جن کاغذات اور درخواستوں
پر دستخط کیے وہ بھی درست نہ تھے۔
دوسرے فیصلے کے مطابق PDM کے جلسے کے بعد مزار قائد کراچی کی بے حرمتی کے بہانے سے بعض اپوزیشن لیڈروں پر کیس
بنائے گئے‘ فیصلے کے نتیجے میں انہیں بد نیتی پر مبنی قرار دے کر خارج کر دیا گیا۔
یہ تو بڑی بد دیانتیاں اور بد نیتی کے معاملات ہیں‘ جہاں ملزم طاقتور تھے اور بدنیتی
سے اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہو گئے۔
ذرا سوچیے ان غریبوں اور کمزوروں کا کیا بنے گا؟ جن کے معاملات سالوں سے لٹکے ہوئے
ہیں جن کے فیصلوں کے انتظار میں دادا اور باپ دنیا سے جا چکے ہیں اور اب پوتے انصاف
کے منتظر ہیں۔ انہیں انصاف نہیں مل رہا کیونکہ وہ انصاف کو خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
یہ پڑھیں: بڑھے چلو
’’جب زندہ درگور کی گئی بچی سے پوچھا جائے گا۔‘‘ کی آیت مبارکہ کے تحت حافظ ابن
کثیرa لکھتے ہیں: ’’عادل کی عدالت کا عدل دیکھو کہ مظلوم کی اپیل سے پہلے ہی وہ منصف
خود سوال اُٹھائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا تھا؟‘‘
قریب ہے یارو روز محشر‘ چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر‘ لہو پکارے گا آستیں کا
No comments:
Post a Comment