سوانح وخدمات ... حافظ محمد
صدیق خلیل
تحریر: جناب پروفیسر
ڈاکٹر حافظ محمد شریف شاکر
حافظ محمد صدیق خلیل بٹ رحمہ اللہ جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ انا اللہ وانا الیہ
راجعون
حافظ صاحبa سے
میری ساٹھ سال رفاقت رہی ؎
وَ کُنَّا کَنَدْمَانَیْ
جَزِیْمَۃ حِقْبَۃً
مِّنَ الدَّھْرِ
حَتّٰی قِیْلَ لَنْ یَتَصَدَّعَا
فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا
کَاَنَّی وَ مَالِکًا
لِطُوْلِ اِجْتِمَاعٍ
لَمْ نَبَتْ لَیْلَۃً مَعَا
یہ پڑھیں: دو یارانِ کہن کا انتقال پر ملال
راقم الحروف حضرت امیر المجاہدین صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کے مدرسہ جامعہ تعلیم
الاسلام اوڈانوالہ میں ۱۹۶۱ء میں دوسری کلاس میں داخل ہوا ، اور اسی سال حافظ محمد صدیق
خلیل پہلی کلاس میں داخل ہوئے، جب کہ حافظ محمد صدیق سلیم حفظہ اللہ (کوٹ رادھا کشن
والے) اس سال تیسری کلاس میں ہوئے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم تینوں کی آپس میں گہری
دوستی ہوگئی۔ ہم اکٹھے اُٹھتے بیٹھتے ، اکٹھے کھانا کھاتے ،اکٹھے سیر کرتے حتیٰ کہ
بعض اوقات اکٹھے ہی سوجاتے۔
ابھی حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ کی اپنی شادی نہیں ہوئی تھی، اور یہ میرے رشتہ
کی بات کرنے حضرت شیخ الحدیث محمد عبداللہ ویرووالوی رحمہ اللہ کے پاس ان کی دکان ممتاز
شربت ہاؤس فیصل آبادپر پہنچ گئے اور میرے رشتہ کی بات شروع کردی تو حضرت ویرووالوی
رحمہ اللہ نے فرمایا تم تو نوعمر ہو کسی ہمارے واقف کار کو بھیجو! تب حافظ صدیق خلیل
رحمہ اللہ نے سید مولا بخش کوموی رحمہ اللہ کا نام ذکر کیا تو حضرت ویرووالوی نے فرمایا
کہ انہیں ہمارے پاس بھیج دیں۔ اس طرح میرا رشتہ حضرت شیخ الحدیث سید مولابخش کوموی
رحمہ اللہ (متوفی ۱۹۷۵ء) کی معرفت طے ہوا اور انہوں نے ہی میرا نکاح پڑھایا۔
حافظ صدیق رحمہ اللہ کا آبائی علاقہ:
حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ کے والد گرامی عبدالغنی بٹ ضلع امرتسر انڈیا سے
ہجرت کرکے سمندری شہر میں آباد ہوئے۔ حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ آپ کی والدہ مرحومہ
کے قول کے مطابق ۱۹۴۴ء میں پیدا ہوئے۔
حفظ القرآن:
سمندری شہر سے مغربی جانب چک نمبر۲۲۴ گ۔ب ورپال میں حافظ عبدالرحمن نابینا رحمہ اللہ قرآن کریم کی
تعلیم دیتے تھے اور خودہی جمعہ اور نمازیں بھی پڑھاتے تھے۔ حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ
اللہ نے ان کے پاس رہ کر قرآن کریم حفظ کیا اور حافظ عبدالرحمن رحمہ اللہ نے مجھے خود
بتایا کہ حافظ محمد صدیق ان کے شاگرد ہیں۔
یہ پڑھیں: ناظم مالیات حاجی عبدالرزاق کا سانحۂ ارتحال
اوڈانوالا میں داخلہ:
حافظ محمد صدیق a، صوفی محمد عبداللہa کے
مدرسہ چک ۴۹۳ گ ب اوڈاں والامیں
۱۹۶۱ء میں داخل ہوئے اور انہوں نے ۱۹۶۶ء میں اوڈاں والا سے فراغت کے بعد جامع مسجد اہل حدیث رجانہ میں تدریس کا آغاز
کیا، حافظ صدیقa اوڈاں
والا میں پڑھائی کے دوران حضرت صوفی محمد عبداللہa کے ہمراہ اکثر اوقات سمندری کے قریبی اہل حدیث دیہات
میں چندہ کی فراہمی کے لیے جاتے تھے ، اس لیے وہ مدرسہ کے لیے چندہ جمع کرنے کو عار
نہیں سمجھتے تھے۔
درسِ نظامی میں آپ کے اساتذہ درج ذیل
ہیں:
1 شیخ الحدیث مولانا
محمد یعقوب ملہوی رحمہ اللہ
2 شیخ الادب مولانا
عبدالصمد رؤف رحمہ اللہ
3 شیخ الحدیث مولانا
عبدالرشید راشد ہزاروی رحمہ اللہ
4 مولانا عبدالرشید
اٹاروی رحمہ اللہ
5 حافظ بنیامین ہزاروی
رحمہ اللہ برادر ِصغیرمولانا عبدالرشید راشد ہزاروی رحمہ اللہ
6 پروفیسر ڈاکٹر
مولانا محمد اسماعیل گورایہ حفظہ اللہ تعالی
پہلے پانچ اساتذہ کرام کے سامنے راقم الحروف نے بھی زانوئے تلمذ تہ کیے اور ان
کی علمی استعداد سے بھرپورفائدہ اُٹھایا اور ان کی شفقت و رأفت کے سائے میں چار سال
گزارے۔ رحمہم اللہ اجمعین (آمین)
اوڈانوالا سے فراغت:
۱۹۶۶ء میں اوڈاں والا سے فراغت کے بعد جامع مسجد اہل حدیث رجانہ
میں تدریس کا آغاز کیا، حافظ صدیقa اوڈاں
والا میں پڑھائی کے دوران حضرت صوفی محمد عبداللہa کے ہمراہ اکثر اوقات سمندری کے قریبی اہل حدیث دیہات
میں چندہ کی فراہمی کے لیے جاتے تھے ، اس لیے وہ مدرسہ کے لیے چندہ جمع کرنے کو عار
نہیں سمجھتے تھے۔
یہ پڑھیں: بانکے رام سے محدث زماں تک
رجانہ کی مرکزی جامع مسجد اہل حدیث کی بنیاد:
اوڈاں والا سے پڑھے ہوئے مولانامحمد صدیق ملک چک نمبر۴۷۹ گ ب سمندری کے رہنے
والے تھے۔ رجانہ کے ایک زمین دار مولوی عزیزالرحمان رحمہ اللہ نے مسجد کے لیے زمین
وقف کی ، مولانا محمد صدیق نے وہاں مسجد تعمیر کی ، مولانا اپنا مسلک ظاہر کیے بغیر
خودہی وہاں امامت وخطابت کیا کرتے تھے اور مولانا نے وہاں حفیظ جنرل سٹور بنا رکھا
تھا جو کہ آپ کے بڑے بیٹے عبدالحفیظ کی طرف منسوب تھا۔ مولانا کے ساتھ ایک شخص محمد
اقبال گجر ہوتا تھا جو مولانا کی خوب توقیر وتعظیم کرتا تھا، مولانا تو حکمت ِعملی
سے کام لیتے ہوئے تبلیغ کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ لیکن اقبال کے کسی شخص کے ساتھ
بحث مباحثہ سے لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ اہل حدیث ہیں اس لیے لوگوں نے مسجد میں نماز
پڑھنا چھوڑ دی۔ مولانا کو مسجد کی آبادکاری زیادہ عزیز تھی،اس لیے مولانا محمد صدیق
رحمہ اللہ نے وہ مسجد چھوڑ دی حالاں کہ آپ نے ان سے تعاون لیے بغیر وہ مسجد خود تعمیر
کرائی تھی۔ آپ نے وہاں کے نمازیوں سے کہہ دیا کہ وہ کسی اور کو اپنا خطیب مقرر کر لیں۔
اس کے بعد رجانہ ہی میں چوک کے نزدیک کمالیہ روڈ پر پیٹرول پمپ کے پیچھے مشرقی جانب
دس مرلہ کا پلاٹ اسی زمیندار نے وقف کیا اور مولانا نے وہاں ایک کمرہ پر مشتمل اہل
حدیث مسجد تعمیر کی، اس کے بعد مولانا محمد صدیق ضلع رحیم یار خان میں اپنی زرعی زمین
پر تشریف لے گئے اور یہ مسجد حافظ محمود احمد رحمہ اللہ کے سپرد کر گئے۔
حافظ محمود احمد اور حاجی محمد اسحاق کا تعارف:
حافظ محمود احمد رحمہ اللہ (حافظ محمود احمدa ہائی سکول رجانہ سے ۱۹۸۸ء میں ریٹائر ہوئے اور ۲۰۱۶ء میں رجانہ میں
۹۲ سال کی عمر میںوفات
پائی۔ آپ نے بھی رجانہ میں اپنے گھر کے پاس مسجد تعمیر کی۔ اللہ ان کی خدمات کو قبول
فرمائے۔) مولانا شیخ الحدیث محمدعبداللہ ویرووالوی رحمہ اللہ کے مدرسہ میں ۱۹۵۴ء سے پہلے تک جامع مسجد اہل حدیث امین پور بازار فیصل آباد میں پڑھاتے رہے ، اور
میرے برادرِ نسبتی حافظ محمد داؤد رحمہ اللہ بھی حافظ محمود احمد رحمہ اللہ کے پاس
پڑھتے رہے، یہ بات حافظ دائود رحمہ اللہ نے مجھے بتائی تھی۔ حافظ محمود احمد ، حافظ
مشتاق احمد پرواز (سابقہ خطیب پتوکی) رحمہ اللہ کے کزن تھے۔ حافظ محمود احمد رحمہ اللہ
میرے بچپن کے زمانہ میں چک ناگرہ میں کئی سال نماز تراویح پڑھاتے رہے آپ کا تعلق چک
نمبر ۲۵۹ جالندھریاں ضلع
ٹوبہ سے تھا ، آپ ہائی سکول رجانہ میں اپنی ریٹائرمنٹ تک پڑھاتے رہے۔
یہ پڑھیں: بانکے رام سے محدث زماں تک (دوسری قسط)
حاجی محمد اسحاق رحمہ اللہ:
حاجی محمد اسحاقa کا
تعلق چک ناگرہ کے مولویوں کے گھرانے سے تھا ، گائوں کے مشرقی کونے پر ایک مسجد اہل
حدیث ہے جس کا نام مولویوں کی مسجد ہے۔ راقم الحروف نے اسی مسجد سے حفظ القرآن کا آغاز
کیا تھا۔ حاجی صاحب کے دو بھائی اور تھے ایک کا نام مولوی محمد تھاجو ندیم کوموی رحمہ
اللہ کے والد تھے۔ (ندیم کوموی ، مولانا محمد اسحاق بھٹی کے دیرینہ دوست تھے۔از قاضی
محمد سلیمان منصورپوری از مولانا اسحاق بھٹی ، ص۷۶)
دوسرے بھائی صوفی احمد تھے ا ن سے میں نے عربی بغدادی قاعدہ پڑھا تھا۔ حاجی صاحب
کے ہم زلف مولوی عبدالکبیر رحمہ اللہ تھے جو گائوں میں نمبردار بھی رہے۔ یہ سب راجپوت
برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ حاجی محمد اسحاق ہائی سکول رجانہ میں انگلش ٹیچر تھے اور
محمدی شکل وصورت رکھتے تھے ، دین اسلام سے کافی لگائو تھا۔
مسجد کی انجمن:
حافظ محمود احمد رحمہ اللہ نے چند جماعتی افراد کو ساتھ ملا کر ایک انجمن تشکیل
دی ، کیوں کہ رجانہ میں جماعت کے بہت کم افراد تھے۔ اس لیے قریبی اہل حدیث دیہاتوں
سے بعض افراد کو ساتھ ملایا گیا، اس انجمن کے روحِ رواں حاجی محمد اسحاق اور حافظ محمود
احمد رحمہما اللہ تھے۔
انہوں نے حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ کی آمد سے پہلے، جھوک دادو سے تعلق رکھنے
والے خان محمد اور اس کے بھائی کو یہاں مسجد کے انتظام اور دیکھ بھال کے لیے ٹھہرایا۔
مسجد ایک چھوٹے کمرہ پر مشتمل تھی اور اس کے بائیں طرف ایک کمرہ تھا جسے انہوں پلستر
کروایا اور سیمنٹ کرید کر ’’خان محمد‘‘ کندہ کردیا۔
حافظ محمد صدیق خلیل کا مسجد اہل حدیث رجانہ میں تقرر:
حافظ محمدصدیق رحمہ اللہ ۱۹۶۶ء میں اوڈانوالہ
سے فارغ ہوکر رجانہ کی اسی مسجد میں آئے اور بچوں کی پڑھائی اور خطابت کی ذمہ داری
سنبھالی۔حافظ محمدصدیق خلیل رحمہ اللہ بے باک اور نڈر خطیب تھے۔ قرآن وسنت کی روشنی
گلی گلی ،کوچہ کوچہ پھیلاتے رہے، رجانہ میں اہل حدیث جماعت کے چند گھر ہیںلیکن نمازِ
جنازہ میں خواص وعوام کی کثرت سے پتا چلا کہ اہل علاقہ میں حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ کا کس قدر اثر ورسوخ تھا۔ حافظ محمدصدیق خلیل رحمہ
اللہ بہترین پنجابی خطیب تھے ، ان کی تقریر میں تصنع اور شوخی نہیں ہوتی تھی اورنہ
ہی آج کل کے واعظین کی طرح تقریر کو شعروں سے مزین کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ اپنا
مسلک قرآن و حدیث کے دلائل سے واضح کرتے تھے۔
یہ پڑھیں: آسمان علم حدیث کے آفتاب ... الشیخ محمد علی آدم الاثیوبی
سالانہ کانفرنس:
حافظ صدیق رحمہ اللہ ہر سال کانفرنس کا اہتمام کرتے اور ملک بھر سے جید علماء کو
دعوت ِ خطاب دیتے تھے۔ مولانا عبداللہ گورداسپوری ، حافظ عبداللہ شیخوپوری ، مولانا
محمد حسین شیخوپوری، حافظ عبدالقادر روپڑی ، مولانا حبیب الرحمن یزدانی ، علامہ حافظ
احسان الٰہی ظہیر شہید ، مولانا محمد رفیق مدن پوری ، مولانا پروفیسر شریف اشرف اور
حافظ ابراہیم کمیرپوری جیسے علمائے کرامS توحید ورسالت ،سیرت رسول e اور
دیگر علمی ، اخلاقی ، مسلک اہل حدیث اور اتحاد اُمت جیسے مفید موضوعات اورخاص کر شانِ
صحابہ کا موضوع بیان کرتے تھے۔
شیعہ آبادی:
مسجد کے مغربی جانب ڈاکٹر انور شاہ اور دیگر شیعہ کے مکانات ہیں ، کانفرنس کے موقع
پر وہ بہت شور شرابہ اور گڑبڑپیدا کرتے۔ ایک دفعہ پروفیسر شریف اشرف رحمہ اللہ سابق
مدرس مدینہ یونیورسٹی تقریر فرما رہے تھے، شیعہ نے آکر سٹیج پر قبضہ کر لیا ، کچھ دیر
کے بعد مطلع صاف ہوا تو شیراہل حدیث ، مدّاح صحابہ اور مناظر مسلک اہل حدیث مولانا
حافظ ابراہیم کمیرپوری رحمہ اللہ ا سٹیج پرآئے اور کتب شیعہ سے عبارتیں پڑھ پڑھ کردلائل
دیتے رہے اور میں نے خود بعض شیعہ حضرات سے سنا کہ مولوی تو یہ ہے خواہ ہمارے خلاف
ہے لیکن دلائل سے بات کر رہا ہے۔
میرے ایک دوست ملک محمود احمد صاحب نے بتایا کہ میں رجانہ میں کانفرنس میں گیا
ہوا تھا، مولانا عبدالرشید چیچہ وطنی والے اسٹیج پر تقریر کر رہے تھے تو شیعوں نے اسٹیج
کے قریب آکر مولوی صاحب کی طرف بندوق سیدھی کردی۔ ان سخت حالات کے تحت بھی حافظ محمد
صدیق خلیل رحمہ اللہ نے یہ تبلیغی سلسلہ جاری رکھا اور ۲۰۰۸ء تک سالانہ کانفرنس کراتے رہے۔اس کے بعد
طویل علالت کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔
مولانا عبدالمجید فردوسی حفظہ اللہ نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ کھدر والا چک نمبر
۲۰۲ گ ب میں بریلویوں
نے جلسہ کا پروگرام بنایا تو اہل حدیث جماعت کے ذمہ داروں نے حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ اللہ کو رجانہ پہنچ کر
تقریر کرنے کی دعوت دی۔ حافظ صاحب وہاں پہنچ گئے اور بریلوی مسلک کے کئی مولوی وہاں
پہنچے ہوئے تھے۔ حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ
اللہ نے بریلویوں سے پہلے اپنی مسجد میں تقریر شروع کی جو چھ گھنٹے تک جاری رہی اس
دوران سارے بریلوی ، حافظ محمد صدیق خلیل رحمہ
اللہ کی تقریر ختم ہونے سے پہلے ہی بوریا بستر لپیٹ کر جا چکے تھے۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ اِنَّکَ
اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔
یہ پڑھیں: مدیر اعلیٰ بشیر انصاری سے لیا گیا ایک یاد گار انٹرویو
شادی خانہ آبادی:
ہمارے دوست حافظ محمدصدیق خلیل رحمہ اللہ کی شادی حافظ آباد میں جناب عبداللہ بٹ
مرحوم کی بیٹی سے سات ستمبر۱۹۶۹ء کو ہوئی اور راقم
الحروف بھی آپ کی بارات اور دعوتِ ولیمہ میں شامل ہوا۔
مساجد کی تعمیر:
حافظ محمدصدیق رحمہ اللہ نے خوب صورت طریقہ سے اس مسجد کو دومنزلہ تعمیر کرایا۔
آپ نے سمندری سے یہاں آکر مسجد سے متصل اپنے لیے تین سو پچاس روپے مرلہ کے حساب سے
پانچ مرلہ جگہ خریدی ، سمندری والا مکان پچپن ہزار روپے میں فروخت کرکے اسے تعمیر کیا
اور اس کے بعد دو تین پلاٹ اور بھی خریدے۔
اس مسجد کے علاوہ رجانہ کے گوداموں کے پاس ایک مسجد اہل حدیث تعمیر کی جس میں حافظ
صاحب کے چھوٹے بھائی حافظ نذیر امامت اور بچوں کی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جامعہ صدیقیہ:
رجانہ چوک سے ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر پیرمحل روڈ پر کسی مخیر شخص نے اڑھائی کنال
زمین وقف کی جس میں فی الحال ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ حافظ محمدصدیق خلیل رحمہ اللہ
کے داماد حکیم حبیب اللہ بٹ تعلیم اور خطابت وامامت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
یہ پڑھیں: پروفیسر عبدالرحمن لدھیانوی
طویل بیماری :
حافظ محمدصدیق رحمہ اللہ جسیم ولحیم ،سرخ وسفید رنگت کے خوب صورت صحت مند جوان
تھے، لیکن طویل بیماری کی وجہ سے آپ کی صحت جاتی رہی۔ ۱۹۹۹ء میں آپ کے مثانہ کا پہلا آپریشن ہوا جو کامیاب نہ ہوسکا، آپ کو پیشاب کی شکایت
بڑھتی رہی۔اور کئی بار آپریشن ہوا لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی‘‘۔
کینسر:
اس کے ساتھ ساتھ آپ کو کینسر کا عارضہ بھی لاحق ہوگیا ، لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت
سے اس کا بالکل خاتمہ ہوگیا۔ حافظ صاحب کے بیٹے حافظ قاسم نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے
آپ کا چیک اَپ کرنے کے بعد بتایا کہ ان کو کینسر ہوگیا ہے اور ایک ٹیکہ لکھ کر دیا
کہ ٹیکہ لگوائیں اور اس کے بعد دوبارہ چیک کرائیں۔ ٹیکہ وین میں لگانا تھا ، لیکن غلطی
سے گوشت میں لگا دیا گیا جس کی وجہ سے گوشت کے لوتھڑوں کی شکل میں کینسر کا مواد پاخانے
کے راستے خارج ہوگیا۔ جب ڈاکٹر نے دوبارہ چیک اَپ کیا تو وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ
وہاں کینسر کا نام ونشان تک نہ تھا۔ تقریباً آٹھ ماہ سے آپ روٹی نہیں کھاتے تھے بلکہ
دلیہ ، ساگودانہ کی کھیر اور پتلا حلوہ کھاتے تھے اور دو ماہ قبل تو یہ بھی چھوڑ چکے
تھے ، صرف دودھ اور دہی پر گزارہ کرتے تھے۔ ویسے چلتے پھرتے تھے البتہ کافی کمزور ہوچکے
تھے، وفات سے پندرہ بیس دن پہلے گھر کے نزدیک ہی دُکان سے چینی خرید کر لا رہے تھے
کہ گھر میں داخل ہونے لگے تو گھر کی سیڑھیوں پر گر گئے اور ٹانگ پر گہرا زخم آیا اور
ٹانگ پر کافی سوجن ہوگئی جو دیسی علاج سے درست ہوگئی لیکن نقاہت اور کمزوری بڑھ گئی
حتیٰ کہ بلند آواز سے بول بھی نہیں سکتے تھے۔ چینی بہت کھاتے تھے ، ان کے بیٹے شوگر
چیک کرتے رہتے جو تقریباً ایک سو ساٹھ تک رہتی تھی ، بیٹوں نے چینی چھڑوا دی تو وفات
سے پہلے شوگر پہلے سے بھی بڑھ گئی اور دو سو تک پہنچ گئی۔
وفات:
سترہ اکتوبرکو عشاء کی نماز کے لیے حافظ محمدصدیق رحمہ اللہ کو وضو کرایا گیا اور
آپ نے لیٹ کر تقریباً پونے نو بجے عشاء کی نماز شروع کی ، آپ کی بیٹی کچن میں دَلیہ
پکانے چلی گئی ، اسی وقت ڈاکٹر صاحب آگئے جو پہلے بھی روزانہ اسی وقت چیک اَپ کرنے
آیا کرتے تھے۔ جب حافظ صاحب کو چیک کیا تو پتا چلا کہ آپ نماز کے دوران ہی وفات پا
چکے ہیں۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون، ان للّٰہ
ما اخذ ولہ ما اعطٰی وکل شیء عندہ بمقدار
یہ پڑھیں: یادوں کے امین ... مدیر اعلیٰ بشیر انصاری مرحوم
نمازِ جنازہ:
حافظ محمدصدیق خلیل رحمہ اللہ کا اپنے علاقے میں بڑا اثر ورسوخ تھا ، اس لیے جماعتی
حلقوں سے بہت زیادہ لوگ آپ کے جنازہ میں شریک ہوئے۔ مدرسہ تقویۃ الاسلام اوڈاں والا
کے شیخ الحدیث مولانا حافظ محمدامین حفظہ اللہ نے ۱۸ اکتوبر۲۰۲۰ء کو دو بجے ہائی سکول رجانہ میں آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ مولانا عبدالمجید
فردوسی ، مولانا عبدالغفور اور دیگر احباب بھی نمازِ جنازہ میں شریک ہوئے۔ سمندری سے
مولانا بہادر علی سیف ، جامعہ کریمیہ کے مہتمم رانا ثناء اللہ ، حکیم عبدالحفیظ ، مولانا
عبدالشکور خطیب مرکزی جامع مسجد اہل حدیث سمندری‘ قاری عامر شہزاد اور مرزا سعود صاحب
جنازہ میں شریک ہوئے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جامعہ شرعیہ کے بانی مولانا برق التوحیدی اور
ٹوبہ کی مساجد کے خطبائے کرام اور حافظ عبدالوہاب‘ کمالیہ سے امیر ضلع ٹوبہ جناب مولانا
عالم گیر اور دیگر احباب نے شرکت کی‘ چک نمبر۲۹۲ ج۔ب سید محمود اور
میرے کلاس فیلو محترم جناب حافظ یوسف حفظہ اللہ جنازہ میں شریک ہوئے۔ گوجرہ سے مولانا
عبدالقادر عثمان ساتھیوں سمیت شریک ہوئے پیر محل سے مولوی سعید، حافظ عبداللطیف اور
۳۰۸ گ ب سے حافظ عبدالرزاق،
قریبی دیہاتوں شیروں ، بیریانوالہ ، سیٹھ والا گائوں سے کافی لوگ جنازہ میں شریک ہوئے۔
چک نمبر۳۵۱ ناگرہ سے ٹوبہ ٹیک
سنگھ کے سابق امیر ضلع مفتی محمد اسلم خاں حفظہ اللہ نے اپنے بیٹوں سمیت جنازہ میں
شرکت کی۔ علاوہ ازیں چک ناگرہ سے حافظ محمدصدیق خلیل رحمہ اللہ سے محبت کرنے والے بہت
سے احباب جنازہ میں شریک ہوئے۔ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے اساتذہ مولانا حافظ
محمد رفیق ، مولانا امین شاہد ، حافظ عطاء اللہ ، مولانا منیر شاکر اور پروفیسر افتخار
قدیر صاحب بھی جنازہ پڑھنے والوں میں شامل تھے۔
اقرباء کی جنازہ میں شرکت:
نارووال ، حافظ آباد اور سمندری شہر سے تعلق رکھنے والے آپ کے اعزہ واقربا بھی
آپ کے جنازہ میں شریک ہوئے۔
حافظ محمدصدیق رحمہ اللہ کے والدین کئی سال پہلے رجانہ میں فوت ہو چکے تھے۔ آپ
تین بھائی تھے ، آپ سے چھوٹے بھائی کا نام عبداللطیف تھا جو آپ کے ہم زلف بھی تھے وہ
کافی عرصہ پہلے فوت ہوچکے ، آپ کا چھوٹا بھائی حافظ محمد نذیر حیات ہے جس کی عمر تقریباً
ساٹھ سال ہے اور وہ رجانہ ہی میں غلہ کے گوداموں کے پاس مسجد اہل حدیث میں بچوں کو
تعلیم دے رہے ہیں۔
یہ پڑھیں: صحافتی افق کا درخشاں ستارہ ... مدیر اعلیٰ بشیر انصاری مرحوم
پسماندگان:
آپ کے پسماندگان میں آپ کے چھوٹے بھائی حافظ نذیر ، ایک بیوہ دو بیٹیاں اور چھ
بیٹے: 1 محمد
طاہر 2 محمد
ابراہیم 3 حافظ
محمد قاسم 4 حافظ
محمد اسماعیل 5محمد بلال 6 حافظ
محمد وقاص موجود ہیں۔ ان کے بیٹوں کے علاوہ آپ کے پہلے اور بڑے بیٹے کا نام محمد طیب
ہے جو ماہِ جون۷۲ ۱۹ء کو پیدا ہوئے۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی جہاد افغانستان میں
شریک ہوئے اور غازی کا تمغہ سجا کر واپس ہوئے۔ پھر مقبوضہ کشمیر میں چاراپریل ۱۹۹۶ء کو جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
صدقہ جاریہ:
مرکز جامعہ صدیقیہ اور مرکزی جامع مسجد اہل حدیث آپ کا صدقہ جاریہ ہیں، مرکزی مسجد
میں مدرسہ حفظ القرآن موجود ہے۔ آپ کے بیٹے حافظ قاسم اور حافظ وقاص تدریسی فرائض انجام
دیتے ہیں۔ جب کہ مرکز جامعہ صدیقیہ میں حافظ محمدصدیق خلیل رحمہ اللہ کے داماد حکیم
حبیب اللہ بٹ تدریسی فرائض ادا کر رہے ہیں۔
یہ پڑھیں: سوانح وخدمات ... حاجی محمد صدیق خلیل
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مرکز ومسجد کوہمیشہ قائم و دائم رکھے۔
آمین!
No comments:
Post a Comment