اداریہ ... فریضۂ حج اور حج
پالیسی 2019ء
اسلام کی بنیاد
پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود حق نہیں
اور حضرت محمد رسول اللہe اللہ
تعالیٰ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا‘ زکوٰۃ دینا‘ حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
حج ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے اور
حج مبرور کی جزا جنت ہی ہے۔ یہ بھی حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے حج کرے
پھر وہ گناہ کا کام کرے نہ ہی فحش گوئی کو اختیار کرے تو وہ اس روز کی طرح واپس ہوتا
ہے جس روز اس کی والدہ نے اسے جنم دیا تھا۔ حج کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا
جا سکتا ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا کہ مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔
فریضہ حج ادا کرنے کے لیے پوری دنیا سے اہل ایمان اللہ تعالیٰ
کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے حرم پاک کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں اور میدان عرفات میں
حجاج کرام لاکھوں کی تعداد میں ایک ہی لباس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت‘ بندگی اور تقویٰ
کے حصول کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں آیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور تقویٰ
اختیار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیا وآخرت کی نعمتیں عطا کر دیتا ہے اور تمام
معاملات میں ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت ووقار کا معیار صرف
تقویٰ ہے اور اس کے نزدیک سب سے معزز وہ شخص ہے جو متقی ہو۔ حقیقی بات یہ ہے کہ متقی
لوگ ہی جہنم سے بچا لیے جائیں گے اور اسلامی عبادات کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ انسان
متقی بن جائے اور جو شخص جہنم سے بچ گیا یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
اسلام کے نزدیک حج ایک مقدس فرض ہی نہیں بلکہ ایک نہایت اشرف
اور افضل عمل بھی ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہt سے ایک مشہور روایت ہے کہ رسول مکرمe سے
جب یہ دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ تو آپe نے
فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ اور رسول اللہe پرایمان لانا۔‘‘ عرض کیا گیا: پھر کونسا؟ تو آپe نے
فرمایا: ’’جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘ عرض کیا گیا: پھر کونسا؟ تو آپe نے
فرمایا: ’’حج مبرور۔‘‘
اسلامی تاریخ بتلاتی ہے کہ ۹ ذی الحجہ ۱۰ھ کو جمعۃ المبارک
کے دن جبل الرحمت کے پاس میدان عرفات میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ حاضرین کے سامنے رسول پاکe نے
جو خطبہ ارشاد فرمایا اسے انسانیت اور انسان کے آفاقی حقوق کا منشور اعظم کہا جائے
تو بالکل صحیح ہے۔ اس میں زندگی کے تمام اہم امور اور اہم گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
درحقیقت یہ خطبہ تعمیر انسانیت کے اصولوں‘ حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے منصوبوں‘ عالمی
امن کی تدبیروں‘ قانون الٰہی کی بالا دستی کے ضابطوں‘ روا داری کے طریقوں‘ عدل وانصاف
کی تجویزوں اور اخوت ومساوات کی ہواؤں کا لازوال مجموعہ ہے۔ اس خطبہ میں آپe نے
یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’جس طرح تم آج کے دن کی‘ اس مہینہ کی‘ اس شہر مقدس میں حرمت
کرتے ہو‘ اسی طرح تمہارا خون اور تمہارا مال بھی حرمت والا ہے۔ اچھی طرح سن لو کہ جاہلیت
کی تمام بُری رسموں کو آج میں اپنے دونوں قدموں سے کچل ڈالتا ہوں‘ بالخصوص زمانۂ جاہلیت
کے انتقام اور خون بہا لینے کی رسم بالکل مٹا دی جاتی ہے۔ میں سب سے پہلے اپنے بھائی
ابن ربیعہ کے خون کے انتقام سے دست بردار ہوتا ہوں۔ جاہلیت کی سود خوری کا طریقہ بھی
مٹا دیا جاتا ہے اور سب سے پہلے خود میں اپنے چچا عباسؓ بن عبدالمطلب کے سود کو چھوڑتا
ہوں۔ پروردگار! تو گواہ رہنا‘ پروردگار! تو گواہ رہنا‘ پروردگار! تو گواہ رہنا کہ میں
نے تیرا پیغام بندوں تک پہنچا دیا۔‘‘
نبی اکرمe جب
خطبہ سے فارغ ہوئے تو اسی مقام پر یہ آیت نازل ہوئی {اَلیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ
نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا} ’’آج کے دن میں نے تمہارے دین کو بالکل مکمل کر دیا ہے اور
تم پر اپنے احسانات پورے کر دیئے اور اسلام کو تمہارے لیے دین پسند کیا ہے۔‘‘ … معلوم
ہوا کہ اسلام مکمل ہو چکا ہے اور اس کے احکامات میں کمی وبیشی نہیں ہو سکتی۔
افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے مسائل کا حل دشمنوں سے حاصل کرنا
چاہتے ہیں‘ حالانکہ ہمارے مسائل کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں مضمر ہے۔ عمران خان
نے ریاست مدینہ کا نام تو لیا ہے اور کچھ نہیں ہو سکتا تو سر دست سود کو معیشت سے دیس
نکالا دے دیا جائے؟
حکومت نے حج پالیسی ۲۰۱۹ء کا اعلان کر دیا ہے اور ۲۰۱۸ء کے مقابلہ میں
اب کے اخراجات میں ناروا اضافہ کر دیا ہے جو متوسط طبقہ کے لیے بہت بڑا بوجھ ہے۔ اخباری
اطلاعات کے مطابق شمالی علاقوں کے لیے ۴ لاکھ ۳۱ ہزار روپے اور جنوبی علاقوں کے لیے ۴ لاکھ ۲۶ ہزار روپے اخراجات کر دیئے ہیں۔ ہر چند کہ حکومت نے ۴۵ ہزار روپے کی سبسڈی
دینے کے لیے وزارت خزانہ کو سمری بھیج دی ہے لیکن تا ہنوز منظوری کی صورت نظر نہیں
آتی۔ اگر یہ سمری منظور ہو جائے تو کسی حد تک حجاج کرام کو ریلیف مل جائے گا بصورت
دیگر حج کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے عازمین حج بے حد پریشان ہیں۔ آج جب کہ ضروریات زندگی
کی اشیاء کی گرانی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے‘ حکومت کے لیے کسی طرح یہ مناسب نہیں کہ
وہ حج کے اخراجات میں بہت سا اضافہ کر کے ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے۔ ہمارا مطالبہ
حق بجانب ہے کہ حج کے اخراجات میں اضافہ کو واپس لیا جائے یا کم از کم سبسڈی دی جائے۔
یہ بات بھی بڑی تکلیف دہ ہے کہ منٰی میں قربانی کی رقم میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment