Friday, May 17, 2019

Ahkam06-2019


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

اپنے لیے زندگی میں قبر تیار کرنا
O میرے دادا جان کافی بیمار ہیں اور ہمیں بار بار کہتے ہیں کہ میرے جیتے جی میری قبر تیار کر دو‘ دراصل میرے والد محترم وفات پا چکے ہیں‘ دادا جان کی خواہش ہے کہ وہ ان کے پہلو میں دفن ہوں۔ کیا زندگی میں قبر تیار کروائی جا سکتی ہے؟!
P زندگی موت کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے‘ موت کے متعلق تو کسی کو آگاہی نہیں کہ کب مرنا ہے اور کہاں مرنا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا۔‘‘ (لقمان: ۳۴)
پھر یہ بھی کسی کو علم نہیں کہ وہ کس حالت میں مرے گا؟ آیا اسے قبر نصیب ہو گی یا وہ دریا یا سمندر کی لہروں کی نذر ہو جائے گا؟ آج کل ہمارے سامنے حادثات ہوتے ہیں کہ اس حادثہ میں مرنے والوں کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا‘ جسے کسی قبر میں دفن کیا جائے‘ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق: ’’پھر اس کو موت دی اور قبر میں دفن کر دیا۔‘‘ (عبس: ۲۱)
اس قسم کے حوادث کے شکار ہونے والے حضرات کے اجسام جہاں‘ جس حالت میں ہوں گے ان کی وہی قبر ہے۔ جب صورت اس طرح ہے تو اپنے جیتے جی قبر تیار کرانا بے سود اور لا حاصل تمنا ہے۔ تا ہم مسئلہ کی نوعیت اس طرح ہے کہ قبرستان دو طرح کے ہوتے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
\            کچھ قبرستان ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں‘ کوئی خاندان جگہ خرید کر‘ اسے قبرستان قرار دے دیتا ہے تا کہ وہاں اس خاندان کے افراد کو دفن کیا جائے۔
\            وقف شدہ قبرستان میں ہر مسلمان کو دفن کرنے کی اجازت ہوتی ہے وہاں کسی فرد یا خاندان کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔
پہلی قسم کے قبرستان میں اپنے لیے جگہ مخصوص کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ ذاتی نوعیت کا ہوتا ہے اس میں ہر مسلمان کو دفن کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ سیدہ عائشہr نے رسول اللہe اور سیدنا ابوبکر صدیق کے ہمراہ دفن ہونے کے لیے جگہ مخصوص کر رکھی تھی جو بعد میں ایثار کرتے ہوئے سیدنا عمرt کے لیے چھوڑ دی۔ (بخاری‘ المناقب: ۳۷۰۰)
البتہ وقف شدہ قبرستان میں وفات سے پہلے جگہ متعین کر لینا یا جیتے جی قبر تیار کروانا جائز نہیں کیونکہ وہ قبرستان عامۃ المسلمین کے لیے وقف ہے۔ وہاں ہر مسلمان کو دفن ہونے کا حق ہے۔ مرنے سے پہلے زندگی میں اس حق سے اسے دستبردار کرنا درست نہیں‘ جیسا کہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جگہ مخصوص کر لینا جائز نہیں۔ رسول اللہe نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: ’’یہ جائز نہیں کہ آدمی نماز کے لیے ایک جگہ مقرر کرے جس طرح اونٹ باڑے میں اپنے لیے جگہ مقرر کر لیتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ‘ اقامۃ الصلوٰۃ: ۱۴۲۹)
بہرحال قبرستان میں اپنے لیے زندگی میں جگہ مخصوص کر لینا یا جیتے جی اپنی قبر تیار کروانا درست نہیں۔ واللہ اعلم!
پیدائشی نشان کا علاج
O ہماری بچی جب پیدا ہوئی تو اس کے دائیں رخسار پر کان کے نزدیک ایک ابھرا ہوا نشان تھا جو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وقت گذرنے پر یہ خود بخود ختم ہو جائے گا بصورت دیگر اس کا آپریشن کیا جائے گا۔ اس کے متعلق کوئی دم وغیرہ ہو تو اس کی نشاندہی کر دیں۔
P یہ سوال روحانی معالجین سے متعلق ہے‘ البتہ رسول اللہe جلدی بیماریوں کے لیے ایک دم کیا کرتے تھے۔ آپ بھی اس دم کو عمل میں لائیں‘ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ شفا دے گا۔
سیدہ عائشہr بیان کرتی ہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہو جاتا تو رسول اللہe اپنا لعاب لیتے‘ پھر اسے مٹی لگاتے اور یوں دم کرتے: [تُرْبَةُ اَرْضِنَا، بِرِیْقَةِ بَعْضِنَا یُشْفٰی سَقِیْمُنَا بِاِذْنِ رَبِّنَا] ’’مٹی ہماری زمین کی‘ ہمارے ایک کے لعاب کے ساتھ‘ ہمارے رب کے حکم سے ہمارا مریض شفا پائے۔‘‘ (ابوداؤد‘ الطب: ۳۸۹۵)
صحیح بخاری کی روایت میں اس دم کا آغاز بسم اللہ سے بتایا گیا ہے۔ (بخاری‘ الطب: ۵۷۴۵)
علامہ نوویa نے اس کی عملی ترکیب یوں بتائی ہے کہ دم کرنے والا اپنی انگلی اپنے لعاب سے تر کر کے اس پر مٹی لگائے پھر تکلیف والی جگہ اسے پھیرے اور مذکورہ کلمات کہتا جائے۔
ہماری تجویز کے مطابق گھر کا کوئی فرد اپنی انگلی پر اپنا لعاب دہن لگا کر پھر انگلی کو مٹی سے مس کر کے بچی کے ابھار والی جگہ پر مذکورہ دعا پڑھتے ہوئے صبح وشام پھیرے تو دو تین ہفتوں میں مذکورہ نشان ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ! یہ مسنون دم جلدی بیماریوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔
راقی حضرات سے مشورہ کرنے کے بعد ایک مزید تجویز پیش خدمت ہے کہ عرق گلاب پر‘ سورۂ فاتحہ اور معوذتین سے دم کریں۔ پھر اس دم کردہ عرق گلاب میں مٹی ملا کر مرہم سی بنا لی جائے۔ مذکورہ دعا پڑھتے ہوئے بچی کے ابھرے ہوئے نشان پر لیپ کر دیں امید ہے کہ اس سے جلد فائدہ ہو گا۔ واللہ اعلم!
گندے نالے پر تعمیر شدہ مسجد میں نماز پڑھنا
O ہمارے ہاں ایک مسجد گندے نالے پر بنائی گئی ہے اور نالے میں گٹروں کا پانی ہے‘ جس سے گندی بدبو آتی ہے‘ ایسی مسجد میں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں‘ کیا ایسی مسجد کو باقی رکھا جا سکتا ہے؟!
P مساجد کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ انہیں صاف ستھرے ماحول میں تعمیر کیا جائے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہr کا بیان ہے کہ رسول اللہe نے محلوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا اور انہیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو دار بنانے کا فرمایا۔ (ابوداؤد‘ الصلوٰۃ: ۴۵۵)
نیز وہاں تعفن پھیلانے سے منع فرمایا۔ چنانچہ آپ نے کچا لہسن کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا‘ کیونکہ اس سے دوسرے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ سوال میں جو صورت حال ہے وہ غالباً ایسے معلوم ہوتی ہے کہ کسی برساتی نالے پر مسجد تعمیر کی گئی جہاں لوگوں کی بکثرت آمد ورفت تھی جیسا کہ ہسپتالوں‘ ریلوے اسٹیشن اور اڈوں کے پاس مساجد تعمیر کی جاتی ہیں تا کہ لوگوں کو نماز پڑھنے کی سہولت میسر ہو۔ پھر لوگوں نے اس برساتی نالے میں گھریلو گٹروں کا پانی بھی ڈال دیا ہو گا۔ بصورت دیگر شہری آبادی میں تو گٹر کا پانی باقاعدہ پائپوں کے ذریعے سیوریج ڈسپوزل میں ڈالا جاتا ہے۔ اگر کوئی نالہ بھی ہو تو اس پر باقاعدہ چھت ہوتی ہے تا کہ آس پاس کی آبادی اس کے تعفن سے محفوظ رہے۔ شرعی طور پر مذکورہ بالا مسجد میں نماز پڑھی جا سکتی ہے کیونکہ گٹر کا پانی پلید ہوتا ہے اور اس سے پھیلنے والی تعفن یا بدبو نجس نہیں ہوتی۔ شرائط نماز میں سے ایک شرط یہ ہے کہ محل صلوٰۃ کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اس شرط کا حاصل یہ ہے کہ نمازی جہاں کھڑا ہے اور جس جگہ سجدہ ہو وہ مقام پاک ہونا چاہیے خواہ ماحول کتنا ہی گندا اور نجاست آلود ہو۔ چنانچہ امام بخاریa نے ایک مقام پر فرمایا ہے: امام حسن بصری نے برف اور پل پر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا ہے اگرچہ اس کے نیچے یا اس کے اوپر یا آگے پیچھے پیشاب بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور پیشاب کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔ (بخاری‘ الصلوٰۃ‘ باب نمبر ۱۸)
بہرحال امام بخاریa کے نزدیک اس سلسلہ میں بہت توسع ہے‘ صرف نماز کی جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے۔ ماحول کا گندا ہونا نماز کے لیے رکاوٹ نہیں۔ واللہ اعلم!
خلع کے بعد نکاح
O ایک عورت کا خاوند گھر سے کہیں گیا‘ پھر وہ لا پتہ ہو گیا‘ بیوی نے چار پانچ سال انتظار کرنے کے بعد عدالت سے رجوع کیا اور عدالتی خلع لے لیا‘ اب اس عورت نے عقد ثانی کر لیا ہے‘ دوسرے خاوند سے اس کی اولاد بھی ہے۔ اس دوران پہلا خاوند بھی آگیا ہے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے؟ کیا وہ پہلے خاوند کی بیوی ہے یا دوسرے خاوند کی؟ وضاحت کریں۔
P صورت مسئولہ میں خاوند کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے حالات سے اپنے اہل خانہ کو آگاہ کرتا لیکن موجودہ دور میں ممکن ہے کہ اسے ایجنسیوں نے اٹھا لیا ہو اور وہ اس دوران اپنے گھر والوں کو اطلاع نہ دے سکا ہو۔ تا ہم شرعی طور پر بیوی کو یہ حق ہے کہ وہ زندگی گذارنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے‘ یقینا اس نے اس سلسلہ میں تگ ودو کی ہو گی۔ آخر مایوس ہو کر اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت سے خلع لے لیا۔ خلع کے بعد ایک ماہ عدت گذار کر اس نے عقد ثانی کر لیا‘ دوسرے خاوند سے اولاد بھی ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ خلع سے پہلا نکاح ختم ہو جاتا ہے‘ اس کا دوسرا نکاح شریعت کے عین مطابق ہے۔ قرآن کریم نے بیویوں کے متعلق حکم دیا ہے: ’’ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو۔‘‘ (النساء: ۱۹)
حسن معاشرت کا مطلب اسے معلق چھوڑنا نہیں ہے‘ اس نے شرعی طور پر اپنے حق کے لیے عدالتی چارہ جوئی کی اور خلع لینے کے بعد پھر اس نے عقد ثانی کیا ہے۔ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں۔ لہٰذا ہمارے رجحان کے مطابق وہ اب دوسرے خاوند کی بیوی ہے اور اس کے ساتھ رہنے کی ہی پابند ہے اور دوسرے خاوند سے جو اولاد پیدا ہوئی وہ بھی صحیح ہے۔ پہلا خاوند خلع کے بعد اپنا حق کھو چکا ہے۔ واللہ اعلم!

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)