حق کو قبول کرنے کی فضیلت
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل الغزاویd
19 جمادی
الآخر 1440ھ
بمطابق 25 جنوری 2019ء
حمد و ثناء کے بعد!
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا
جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بے شمار مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے‘ اُس خدا سے ڈرو
جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات
کو بگاڑنے سے پرہیز کرو‘ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘ (النساء: ۱)
’’اے ایمان لانے
والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے
قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولe کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (الاحزاب:
۷۰-۷۱)
ابن آدم کی طبیعت کا خاصا اور اس کی کمزوری کی دلیل یہ ہے کہ
اس کے احوال متقلب اور معاملات تغیر پزیر رہتے ہیں۔ وہ تردد اور بے اعتمادی کا شکار
ہو جاتا ہے۔ کبھی وہ متضاد فیصلے کرتا ہے اور کبھی چیزوں کو ٹھیک طرح پہچان نہیں پاتا۔
کبھی وہ کوئی بات کرتا ہے اور پھر اسی بات سے رجوع کر لیتا ہے۔ کبھی کوئی رائے رکھتا
ہے اور کبھی اسی رائے کا انکار کر دیتا ہے۔ اس میں کوئی عجیب بات نہیں۔ کیونکہ انسان
کی جسمانی، عقلی اور نفسیاتی ترکیب ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے۔ فرمایا:
’’انسان کمزور پیدا
کیا گیا ہے۔‘‘ (النساء: ۲۸)
انسان ہر طرح سے انتہائی ضعیف ہے۔ اس کی بناوٹ بھی ضعیف ہے۔
اس کا ارادہ بھی ضعیف ہے۔ اس کا عزم بھی ضعیف ہے۔ اس کی عقل بھی کم ہے۔ اس کا علم بھی
کم ہے۔ اس کا صبر بھی کم ہے۔ اس سب کے باوجود ایمان رکھنے والوں کا امتیاز، عقلمندی
اور فرماں برداری کی دلیل یہ ہے کہ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنے
غلط کاموں اور معیوب رویوں کو چھوڑ کر درست راہ اپنا لیتے ہیں۔ وہ اپنے کسی قول، عمل
یا رائے سے رجوع کرنے سے تکبر کبھی نہیں کرتے۔ جب بھی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی
رائے حق کے خلاف ہے تو وہ اس پر ہٹ دھرمی کے ساتھ ڈٹے نہیں رہتے۔ اہل ایمان کو اُن
لوگوں کی بھی کوئی فکر نہیں ہوتی جو انہیں متقلب مزاج یا بار بار رائے بدلنے والے کہتے
ہیں، کیونکہ حق کی طرف لوٹ آنا ہی حقیقی فضیلت ہے۔ اسی میں نفس کی حقیقی عزت ہے۔ شیطان
تو لوگوں کے دلوں میں یہ بات مزیّن کرنے کی کوشش میں رہتا ہے کہ عزت اپنی رائے پر ڈٹے
رہنے میں ہے، چاہے اپنی رائے غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’حقیقت میں جو لو
گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں
چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے
کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔‘‘ (الاعراف: ۲۰۱)
علامہ ابن کثیرa اپنی
تفسیر میں بیان کرتے ہیں: یعنی وہ چوکنے ہو جاتے ہیں کہ اللہ، عذاب اور سزا دینے والا
ہے اور وہی اجر عظیم عطا فرمانے والا ہے۔ اُنہیں اُس کے وعدے بھی یاد آ جاتے ہیں اور
اس کی وعیدیں بھی یاد آ جاتی ہیں۔ پھر وہ توبہ کر لیتے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کر
لیتے ہیں۔ اللہ کی پناہ مانگ لیتے ہیں اور جلد ہی اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
ہمارے لیے ابھی یہ بہترین موقع موجود ہے کہ ہم وقتًا فوقتًا
اپنے کاموں کا محاسبہ کرتے رہیں۔ جب بھی انسان کے قدم پھسلیں، تو فورًا ہی وہ توبہ
کر لے اور اللہ سے معافی مانگ لے، کیونکہ حق کے متلاشی، اپنے رب کے فرماں بردار اور
اللہ کی رضا کے طالب ایسا ہی کرتے ہیں۔ جو شخص ایسا ہو، وہ اس بہترین وصف کا حقدار
ہے جو سردار دو عالم e نے
اسے دیا ہے، فرمایا:
’’آدم کی ساری اولاد
خطاکار ہے اور خطاکاروں میں بہترین، کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں۔‘‘ (ترمذی وابن ماجہ)
اللہ کے بندو! اسلام کا منہج ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ اپنے
نفس کو حق کی طرف رجوع اور استقامت پر کاربند رہنے پر کس طرح آمادہ کیا جائے۔ فرمانِ
الٰہی ہے:
’’جن کا حال یہ ہے
کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے
اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں
کی معافی چاہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو او ر وہ
دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔‘‘ (آل عمران: ۱۳۵)
یعنی وہ اپنے گناہوں پر قائم نہیں رہتے، بلکہ توبہ اور استغفار
کر لیتے ہیں اور راہ راست کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ ان لوگوں جیسے کام نہیں کرتے جن کے متعلق
رسول اللہ e نے
فرمایا ہے:
’’ان لوگوں کے لیے
ہلاکت ہے جو حق بات ایک کان سے سن کر دوسری طرف سے نکال دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے
ہلاکت ہے جو اپنی باتوں پر ڈٹے رہتے ہیں، جو جانتے بوجھتے اپنی غلط باتوں پر قائم رہتے
ہیں۔‘‘ (مسند الامام احمد)
یعنی ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جو حق کی بات سن کر کوئی اثر
نہیں لیتے بلکہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ نبی کریم e نے
ان لوگوں کو وعید سنائی ہے جو حق کی بات سنتے ہیں، مگر اس کا کوئی اثر نہیں لیتے، اس
کی پیروی نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ بات حق ہے، پھر بھی اسے اپنانے یا اس
پر عمل کرنے سے پیچھے رہتے ہیں اور اسے یوں ہی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یا تکبر اور
ہٹ دھرمی کی وجہ سے، یا تعصیب اور تقلید کی وجہ سے یا مبالغہ آرائی اور خود پسندی کی
وجہ سے۔
اے مسلمانو! بڑے لوگ حق کے سر نگوں ہونے میں شرم محسوس نہیں
کرتے، غلطی پر قائم رہنا انہیں ناپسند ہوتا ہے۔ ان کا مقام ومرتبہ انہیں اللہ کے حکم
کی طرف لوٹنے سے نہیں روکتا۔ امام بخاری اور امام مسلم کی روایت کردہ حدیث میں آتا
ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا:
’’اللہ کی قسم! اگر
میں قسم کھا کر کسی کام کو کرنے کا ارادہ پختہ کر لوں، اور پھر کوئی دوسرا اس سے افضل
معلوم ہو جائے تو میں، ان شاء اللہ، اپنی قسم کا کفارہ دوں گا اور بہتر عمل کروں گا۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان کسی کام کو کرنے یا نہ
کرنے کا فیصلہ کر لے اور پھر اسے معلوم ہو جائے کہ کوئی دوسرا کام اس کے لیے زیادہ
بہتر ہے تو موزوں اور مناسب رویہ یہ ہے کہ وہ اپنا ارادہ ترک کر دے۔ یعنی انسان جب
بھی کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے اور پھر اسے معلوم پڑے کہ اس ارادے کو منسوخ
کرنا زیادہ بہتر ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور بہتر کام کرے۔
صدیق اکبرt نے
ایسا ہی کیا تھا۔
سیدہ عائشہr کے
متعلق جھوٹی خبریں پھیلانے میں جب سیدنا مِسْطَحt بھی شریک ہو گئے اور لوگوں کی طرح وہ بھی اسے پھیلانے
لگے تو ابو بکرt نے
کہا: اللہ کی قسم! مِسْطح نے عائشہ کے متعلق جو کچھ کہہ دیا ہے، اس کے بعد میں اس پر
کبھی خرچ نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
’’تم میں سے جو لوگ
صاحب فضل اور صاحب حیثیت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین
اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے‘ انہیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر
کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ
غفور اور رحیم ہے۔‘‘ (النور: ۲۲)
سیدنا ابو بکرt نے
یہ آیت سنی تو کہا: کیوں نہیں! اللہ کی قسم! مجھے بہت پسند ہے کہ اللہ مجھے معاف کر
دے۔ پھر آپt نے
اپنی قسم کا کفارہ دیا اور مِسْطَحt کی امداد جاری کر دی۔ فرمایا: اللہ کی قسم! یہ امداد
پھر کبھی نہیں روکوں گا۔
اسی طرح سیدنا ابو الدرداءt فرماتے ہیں: میں رسول اللہ e کے
پاس بیٹھا تھا تو اسی دوران ابو بکرt اپنی دھوتی کو پکڑے داخل ہوئے، دھوتی کو اتنا اٹھایا
ہوا تھا کہ ان کا گھٹنا بھی نظر آ رہا تھا۔ رسول اللہ e نے
فرمایا: آپ کا یہ بھائی تو خطرے میں کود کر آ رہا ہے۔ سیدنا ابوبکرt نے
کہا: میرے اور ابن خطاب کے درمیان کچھ ناراضگی تھی۔ میں نے اسے کچھ کہہ دیا اور پھر
نادم ہو گیا ہوں۔ میں نے اس سے معافی مانگی مگر اس نے منع کر دیا تو میں آپ کے پاس
چلا آیا۔ اس پر آپ e نے
فرمایا: اے ابوبکر! اللہ تجھے معاف فرمائے! اے ابوبکر! اللہ تجھے معاف فرمائے! اے ابو
بکر! اللہ تجھے معاف فرمائے! پھر عمر t کو بھی ندامت ہوئی، وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے پہلے ان
کے گھر گئے، پوچھا: ابوبکر ہیں؟ کہا گیا: نہیں! پھر رسول اللہ e کے
پاس آئے اور سلام کیا۔ آپ e کا
چہرہ بدلنے لگا۔ یہاں تک کہ سیدنا ابوبکرt کو ڈر لگنے لگا۔ آپ t اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول!
اللہ کی قسم! غلطی میری تھی۔ اللہ کی قسم! غلطی میری تھی۔ رسول اللہ e نے
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سب کی طرف بھیجا۔ تم سب نے کہا: تم جھوٹے ہو، مگر ابوبکر
نے کہا: آپ سچے ہیں۔ پھر اپنے نفس اور مال کے ذریعے اُس نے مجھے سہارا دیا۔ کیا تم
میرے ساتھی کی جان چھوڑ دو گے؟! کیا تم میرے ساتھی کی جان چھوڑ دو گے؟! اس کے بعد ابو
بکرt کو
اذیت نہیں دی گئی۔ (بخاری)
صحابہ کرام سے بھی غلطیاں
سرزد ہو جاتی تھیں۔ وہ غلطیوں سے معصوم نہیں تھے۔ مگر وہ حق کی طرف لوٹنے میں دیر نہیں
کرتے تھے۔ یہی وہ خاصا ہے جس سے وہ ممتاز ہوتے ہیں۔
ابن حجرa بیان
کرتے ہیں: اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان بشر ہونے کے ناطے کبھی بہتر کام چھوڑ
کر ایسا کام کر بیٹھتا ہے جو اس کے منافی ہوتا ہے۔ مگر حقیقی زیادہ دین دار لوگ جلد
ہی افضل کام کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’حقیقت میں جو لو
گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں
چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے
کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔‘‘ (الاعراف: ۲۰۱)
جب عُیَینہ بن حِصْن t نے عمر بن خطاب t کو جا کر یہ کہا کہ اے ابن خطاب! اللہ کی قسم! تم ہمیں
دینے میں کنجوسی کرتے ہو۔ فیصلوں میں عدل سے دور رہتے ہو۔ اس پر عمر t کو
سخت غصہ آیا اور یوں لگا کہ وہ اسے مارنے لگیں گے۔ اس پر حُرّ بن قیس t نے
کہا: اے امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا تھا:
’’اے نبی! نرمی و
درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔‘‘ (الاعراف:
۱۹۹)
سیدنا عمر t نے
جب یہ آیت سنی تو وہیں رک گئے۔ ظاہر ہے کہ عمر t آیات الٰہی پر خوب عمل کرتے تھے۔ جب عمر t کا
غصہ عروج پر پہنچا تو آیت کے ذریعے انہیں یاد دہانی کرائی گئی اور آپ رک گئے۔ آپ کا
غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور فورًا ہی حق کی طرف لوٹ آئے اور انہوں نے یہ بات کرنے والے کو
کوئی سزا نہ دی۔
اسی طرح وہ خط جو عمر t نے ابو موسیٰ t کو بھیجا تھا۔ اس میں آتا ہے: اگر تم کوئی فیصلہ کر
لو، پھر سوچ بچار کے بعد آپ کو حق معلوم ہو جائے تو حق کی طرف پلٹنے سے کبھی نہ ہچکچانا۔
کیونکہ حق ہی سب سے پرانی بات ہے اور حق کو کوئی چیز بدل نہیں سکتی۔ حق کی طرف واپس
پلٹ آنا باطل پر ہٹ دھرمی سے بہتر ہے۔ اس لیے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ جب بھی کوئی
فیصلہ کر لے، یا کوئی فتویٰ دے دے، پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو وہ اپنی
رائے سے رجوع کر لے۔
جب بصرہ کے قاضی، عبید اللہ بن حسن عنبری a سے
ایک ایسے مسئلے کا ذکر کیا گیا جس میں ان سے غلطی ہو گئی تھی تو انہوں نے سر نیچے کر
کے تھوڑی دیر سوچا، پھر سر اٹھا کر کہا: میں سر نگوں ہو کر حق کی طرف لوٹ آتا ہوں۔
میں سر نگوں ہو کر حق کی طرف لوٹ آتا ہوں۔ باطل میں سب سے آگے ہونے کی نسبت حق کی آخری
صفوں میں ہونا مجھے زیادہ پسند ہے۔
بات یہ ہے کہ جب بھی کسی منصف سمجھ دار کو یاد دہانی کرائی جاتی
ہے اور اس کی غلطی کی نشان دہی کی جاتی ہے تو وہ حق کی طرف لوٹ آتا ہے۔
امام شافعیa فرماتے
ہیں:
’’میں نے جتنے فیصلے
کیے ہیں، ان میں سے جس جس مسئلے میں کوئی ایسی حدیث مل جائے جو علم حدیث کے اصولوں
کے مطابق نبی e سے
ثابت ہو، اور میرا فیصلہ اس کے خلاف ہو تو میں اس سے رجوع کرتا ہوں، اپنی زندگی میں
بھی اور اپنی موت کے بعد بھی۔‘‘
یہ اقوال، مواقف اور وصیتیں جو میں نے بیان کی ہیں، یہ سب ان
عظیم لوگوں کے تقویٰ، فضیلت، فقاہت اور انصاف پسندی کی دلیل ہیں۔ ہمیں بھی یہی زیب
دیتا ہے کہ ہم ان ہی کے نقش قدم پر چلیں اور ان ہی کا طرز عمل اپنائیں۔
اے ایمانی بھائیو! اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہو گا
کہ قابل تعریف رجوع، قابل مذمت تبدیلی سے الگ ہے۔ رجوع کا مطلب یہ ہے کہ غلطی کا احساس
ہونے پر انہیں درست کر لیا جائے۔ غلطیوں کا تدارک کی جائے۔ تاکہ انسان اپنے تمام اعمال
میں بھلائی، حق اور درست رویے پر قائم رہے۔ رہی قابل مذمت تبدیلی تو وہ یہ ہے کہ حق
کو ٹھکرا دیا جائے۔ کیونکہ حقِ مبین پر تو اہل ایمان ثابت قدم رہتے ہیں۔ وہ کبھی اس
کو نہیں چھوڑتے، بلکہ وہ حق سے ذرہ برابر بھی نہیں ہٹتے تھے۔
یہ ہیں رسول اللہ e۔ جب مشرکین نے کوشش کی کہ دعوت کے
عزم سے رسول اللہ e کو
ہٹا دیں اور حق کی آواز بلند کرنے سے روک دیں تو آپ e نے پوری عزم وہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ فرمایا: کیا
تم یہ سورج دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: اس سورج سے میرے لیے ایک شعلہ
نکال لانے پر جتنے تم قادر ہو، دعوت کا کام چھوڑنے پر میں بھی اتنا ہی قادر ہوں۔ اسے
ابو یعلی نے جس سند کے ساتھ روایت کیا ہے اس کے تمام راوی قابل اعتماد ہیں۔
یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ e نے
حق کو کتنی مضبوطی سے تھامے رکھا تھا اور کتنی سختی سے اپنے اصولوں پر قائم تھے۔ وہ
اپنے بہترین منہج اور درست راستے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔
ائمہ اور علماء نے حق پر ثابت قدمی میں اور اس پر سمجھوتہ قبول
نہ کرنے میں آپ e کا
یہی طرز عمل اپنایا اور اسی پر ڈٹے رہنے پر پورا زور لگایا۔ خلیفۂ راشد سیدنا ابو
بکر صدیق t قتالِ
مرتدین پر ثابت قدم رہے۔ آپ کا ارادہ بدلنے اور آپ کو روکنے میں کوئی بھی کامیاب نہ
ہو سکا۔ آپ e نے
اس ہولناک وقت میں اپنا مشہور جملہ کہا: اللہ کی قسم! نماز اور زکوٰۃ کے درمیان جو
بھی فرق کرے گا، میں اس کے خلاف جنگ کروں گا۔ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر
یہ زکوٰۃ کے مال میں سے ایک رسے کے برابر چیز بھی روکیں گے جو رسول اللہ e کو
ادا کرتے تھے تو اس کی وجہ سے بھی میں ان کے ساتھ جنگ کروں گا۔
میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اور آپ
کے لیے ہر گناہ اور غلطی کی معافی مانگتا ہوں۔ آپ بھی اسی سے معافی مانگو۔ وہ معاف
کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
No comments:
Post a Comment