اسوۂ رسول ﷺ
تحریر: جناب الشیخ مولانا محمد اعظم
ارشاد ربانی ہے:
{لَقَدْ كانَ لَكمْ
فِیْ رَسُوْلِ الله اُسْوَة حَسَنَة لِّمَنْ كانَ یَرْجُوا الله وَ الْیَوْمَ
الْاٰخِرَ وَ ذَكرَ الله كثِیْرًا٭} (احزاب:۲۱)
’’جو شخص اللہ اور
آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے آنحضرت e کی اقتدا ہی بہترین طریق ہے۔‘‘
اسوۂ :
اسوۂ اس حالت کا نام ہے جس میں انسان کسی کی پیروی کرے۔ یہ
اقتداء اچھائی میں یا برائی میں ہو‘ اسی لیے اس آیت مبارکہ میں آپ کی اقتداء کو حسنہ
سے مقید فرمایا ہے۔ تاکید سے فرمایا کہ نبی رحمت کے ارشادات اور افعال میں ان کی پیروی
بہترین نمونہ ہے۔ یہ اتباع اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آخرت پر یقین کی دلیل ہے۔ اگر
کسی دل میں جذبہ اتباع نہیں تو اس کا نہ اللہ پر ایمان ہے نہ آخرت پر ایمان ہے۔ مدار
نجات اس بات پر ہے کہ آدمی خدا کو ماننے اور خدا کی کتاب کے قانون کے ماننے میں رسول
اللہe کے
پیش کردہ نمونے کو اختیار کرے۔ کیونکہ اصول، اتھارٹی قرآن ہے اور تشریحی اتھارٹی آنحضرتe کا
اسوۂ حسنہ ہے۔ قرآن مجید میں بار بار تاکید ہے:
{وَ مَآ اٰتٰیكمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْه۱ وَ مَا نَهٰیكمْ عَنْه فَانْتَهوْا٭} (الحشر:۷)
’’رسول جو کچھ تمہیں
دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں رک جاؤ۔‘‘
یعنی آنحضرتe جس
چیز کا حکم دیں اس کی پابندی واجب ہے اور جس چیز سے روکیں اس کا کرنا حرام ہے۔
{وَ مَآ اَرْسَلْنَا
مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰه٭}
’’ہم نے رسول بھیجا
ہی اس لیے ہے کہ لوگ اس کی اطاعت کریں۔‘‘
(النساء:۶۴)
اس آیت میں مقصد رسالت کو اطاعت رسول قرار دیا ہے۔ اگر کوئی
اطاعت نہیں کرتا تو مقصد سے ناواقف ہے۔
{فَلَا وَ رَبِّك
لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكمُوْك فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا
فِیْٓ اَنْفُسِهمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا٭} (النساء:۶۵)
خدا کی قسم! ’’ان میں کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک یہ لوگ آپ کو حاکم نہ
مانیں۔ پھر آپ کے فیصلوں کو دلی رضا مندی سے بے چوں و چراں قبول کریں۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ میں رسول اللہe کی حیثیت کو اتھارٹی اور سند کی حیثیت سے بیان کیا ہے
کہ وہ دنیوی حیثیت سے حاکم اور امیر ہیں اور اپنے روحانی منصب کے لحاظ سے پیغمبر ہیں۔
جو آپ کے فیصلے کا انکار کرے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ جو آپ کے روحانی منصب اور اسوۂ
حسنہ کا انکار کرے وہ بطریق اولیٰ کافر ہو جائے گا۔
{وَ مَا كانَ لِمُؤْمِنٍ
وَّ لَا مُؤْمِنَة اِذَا قَضَی الله وَ رَسُوْلُهٓ اَمْرًا اَنْ یَّكوْنَ لَهمُ الْخِیَرَة
مِنْ اَمْرِهمْ وَ مَنْ یَّعْصِ الله وَ رَسُوْلَه فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا٭} (احزاب:۳۶)
’’اللہ اور رسول
کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی صوابدید اور پسند
کو اس امر میں مداخلت کا موقع دیں اور اگر کسی نے اس کی خلاف ورزی کی تو اس کی گمراہی
بالکل ظاہر ہے۔‘‘
{لَا تَجْعَلُوْا
دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكمْ كدُعَآءِ بَعْضِكمْ بَعْضًا۱ قَدْ یَعْلَمُ الله الَّذِیْنَ
یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكمْ لِوَاذًا۱ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِیْبَهمْ
فِتْنَة اَوْ یُصِیْبَهمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ٭}
’’رسول اللہe کی
دعوت اور پکار کو تم اپنی باہمی دعوت و پکار کی طرح مت سمجھو۔ بلکہ رسول اللہe کی
پکار واجب القبول ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دوسروں کی آڑ میں حیلوں
اور بہانوں سے آنحضرتe کی
اطاعت سے بچنا چاہتے ہیں۔ جو آنحضرتe کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں
کسی آزمائش یا دردناک عذاب میں نہ مبتلا ہو جائیں۔‘‘ (النور:۶۳)
اس آیت سے بھی واضح ہے کہ جو نبیe کے احکام اور آپe کے اسوۂ حسنہ کی مخالفت کرتے ہیں وہ عذاب الیم کے مستحق
ہیں۔
اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضابطہ حیات
ضابطہ حیات ماخذ قانون صرف قرآن ہی نہیں بلکہ آنحضرتe کا
اسوۂ حسنہ اسی طرح ضابطہ حیات، دستور زندگی مستند ماخذ قانون ہے جس طرح خود اللہ تعالیٰ
کا قرآن مجید ہے۔ یہ دونوں ایمان کے لیے لازم و ملزوم ہیں‘ ان میں سے ایک کا انکار
پورے اسلام کا انکار ہے۔ قرآن مجید نے آپe کے اس منصب و مقام کو پوری طرح وضاحت سے ذکر کیا ہے:
{وَ اَنْزَلْنَآ
اِلَیْك الذِّكرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهمْ وَ لَعَلَّهمْ یَتَفَكرُوْنَ٭} (النحل:۴۴)
’’اور ذکر تم پر
نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کے سامنے اس کی تشریح و توضیح کرتے جائو جو ان کے لئے اتاری
گئی ہے اور تا کہ لوگ خود بھی غور و فکر کریں۔ ‘‘
اس آیت میں آپe کے
منصب کو واضح کیا ہے کہ صرف ذکر قرآن کو پیش کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے عمل، اپنی
راہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کرنا آپe کی
ذمہ داری ہے۔ منکرین حدیث کا یہ کہنا غلط ہے کہ ہم قرآن کو اپنی مرضی سے عربی لغت
کی روشنی میں سمجھیں گے۔ قرآن کی تشریح و توضیح آپe کا فرض منصبی ہے۔ آپ کی تشریح کے بغیر قرآن نہیں سمجھا
جا سکتا۔ جبریل جب آپe کے
پاس وحی لے کر آتے تو آپe جلدی
پڑھنے کی کوشش کرتے۔ حکم آیا۔ لا تعجل بہٖ جلدی نہ کرو۔ ہم آپe کے
سینہ میں محفوظ کریں گے۔ پھر اس کا بیان وضاحت بھی ہمارے ذمہ ہے، ثم علینا بیانہ پھر
اس کی وضاحت ہمارے ذمہ ہے۔ یہ آیت اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ آپe کے
اسوۂ حسنہ یعنی سنت و حدیث کے بغیر قرآن مجید کو سمجھا نہیں جا سکتا۔
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه٭}
’’جس نے رسولe کی
اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
(النساء:۸۰)
{فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوة
وَ اٰتُوا الزَّكٰوة وَ اَطِیْعُوا الله وَ رَسُوْلَه۱ وَ الله خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ٭} (المجادله:۱۳)
’’نماز قائم کرو
اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور رسولe کی
اطاعت کرو اور اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‘‘
مذکورہ آیات سے یہ حقیقت واضح ہے کہ کتاب و سنت دونوں اہل ایمان
کے لیے مکمل ضابطہ حیات، دستور زندگی ہیں ان دونوں کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔
راہِ نجات
ارشاد خداوندی ہے:
{قُلْ اِنْ كنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ الله فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكمُ الله وَ یَغْفِرْ لَكمْ ذُنُوْبَكمْ۱
وَ الله غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ٭} (آل عمران:۳۱)
’’اگر تم اللہ سے
محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، تمہاری غلطیاں معاف کر دے
گا، اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں ایک اہم مطلوب چیز اللہ کی محبت کو واضح
کیا ہے کہ وہ آنحضرتe کی
اتباع سے حاصل ہوتی ہے‘ مختلف خیالات کو باطل قرار دیا ہے۔ مشرکین مکہ کا دعویٰ تھا
کہ ہم کو محبت خداحاصل ہے۔ کیونکہ ہم کو بیت اللہ کی تعمیر اور حجاج کرام کی خدمت و
ضیافت کا شرف حاصل ہے۔ ہم خانۂ خدا کے ہمسایہ ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا خیال کہ
ہم پیغمبروں کی اولاد ہیں ہم کو یہ شرف نسب حاصل ہے۔ ’’پدر ما سلطان بود‘‘ اس لیے ہم
خدا کے محبوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں واضح فرما دیا ہے کہ دعویٰ محبت
صرف اس کا درست ہے جو میرے مصطفیe کی پیروی کرے گا۔
آپe کا
ارشاد گرامی ہے:
[من احب سنتی فقد
احبنی ومن احبنی كان معی فی الجنة]
’’جو میری پیروی
کرے گا اور میری سنت سے محبت کرے گا اس نے مجھ سے محبت کی جو اس طریق سے محبت کرے گا
وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔‘‘ (جامع ترمذی،
مشکوٰۃ ص:۳۰)
نجات کا راستہ صرف اسوۂ رسولe کی اتباع و پیروی ہے۔ لوگ نجات کے لیے مختلف راہیں اور
راہنما تلاش کرتے ہیں حالانکہ نجات کا راستہ اسی ہادی زماں پیغمبرe کا
ہے جس کا کلمہ پڑھا ہے۔
عزیزان را ازیں
معنی خبر نیست
کہ سلطان جہاں باما
است امروز
تمام کامیابیوں کا دارومدار تمام مشکلات کا حل آپe کی
اتباع و پیروی ہے۔
سیدنا جابرt سے
روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ فرشتے رسول اللہe کے پاس آئے اور آپe سو رہے تھے۔ فرشتوں نے آپس میں کہا کہ آنحضرتe کی
مثال کیا ہے۔ بعض فرشتوں نے کہا آپe سو رہے ہیں‘ اس نے کہا آپe کی
آنکھ سوتی ہے اور دل جاگتا ہے۔ پھر فرشتوں نے کہا کہ ان کی مثال اس شخص کی مانند ہے۔
جس نے گھر بنایا اور کھانا تیار کیا اور بلانے والے کو بھیجا۔ جس نے بلانے والے کو
قبول کیا وہ گھر میں داخل ہو گا اور کھانا کھائے گا اور جس نے قبول نہ کیا وہ گھر میں
داخل ہو گا اور نہ ہی کھانا کھائے گا۔ بعض فرشتوں نے کہا اس کی وضاحت کرو تا کہ نبی
کریمe سمجھ
لیں۔ بعض فرشتوں نے کہا آپe سو
رہے ہیں بعض نے کہا آپe کی
آنکھ سوتی ہے اور دل جاگتا ہے۔ فرشتوں نے کہا گھر سے مراد جنت ہے اور بلانے والے محمدe ہیں۔
[من اطاع محمدا فقد
اطاع الله ومن عصی محمدا فقد عصی الله ومحمد فرق بین الناس۔] (رواه البخاری)
’’جس نے دعوت قبول
کر کے محمدe کی
اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے محمدe کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اور
محمدe لوگوں
میں حق و باطل کا فرق کرنے والے ہیں۔‘‘
اس حدیث سے بھی واضح ہے کہ آپe کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔ آپe کی
نافرمانی سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ کیونکہ نبیe جو حکم بھی ارشاد فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے
جب وحی آتی ہے پھر بیان کرتے ہیں۔ اپنی طرف سے امور دین میں کچھ نہیں کرتے۔ قرآن
مجید میں ہے:
{وَ مَا یَنْطِقُ
عَنِ الْهوٰی٭ اِنْ هوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی٭} (النجم:۳،۴)
’’اپنی خواہش سے
کچھ بیان نہیں کرتے جو کچھ بیان کرتے ہیں، وحی کے ذریعہ بیان کرتے ہیں۔‘‘
گفتہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
مکارم الاخلاق
خلق عظیم:
سیدہ عائشہr سے
روایت ہے کہ:
[كان خلقه القرآن۔] (ابوداؤد)
’’یعنی قرآن ہی
آپe کا
اخلاق تھا۔‘‘
یعنی آنحضرتe نے
صرف لفظ قرآن کو پیش ہی نہیں کیا بلکہ خود اس کا عملی نمونہ پیش کیا۔ جس چیز کا قرآن
میں حکم ہے آپe نے
بڑھ چڑھ کر اس پر عمل کیا۔ جن اخلاقی صفات کو فضیلت قرار دیا ہے۔ آپe کی
ذات ان سے متصف تھی اور جن رذائل اخلاق کو ناپسندیدہ ٹھہرایا‘ سب سے زیادہ آپe مکمل
ان سے پاک تھے۔
سیدہ عائشہr سے
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہe نے کبھی کسی خادم کو نہیں مارا۔ کبھی کسی عورت پر ہاتھ
نہیں اٹھایا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپe نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا۔ اپنی ذات کے سوا
کبھی کسی ایسی تکلیف کا انتقام نہیں لیا جو آپe کو پہنچائی گئی، الا یہ کہ اللہ کی حرمتوں کو توڑا ہو
اور آپe نے
اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا ہو۔ آپe کا یہ طریقہ تھا کہ جب دو کاموں میں سے ایک کام کا آپe کو
انتخاب کرنا ہوتا تو آپe آسان
تر کام کو پسند کرتے تھے الا یہ کہ وہ گناہ نہ ہو اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپe سب
سے زیادہ دور رہتے تھے۔
سیدنا انسt سے
روایت ہے کہ میں نے دس سال رسول اللہe کی خدمت کی‘ آپe نے کبھی میری کسی بات پر اف تک نہ کی۔ کبھی میرے کام
پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا
کہ یہ کیوں نہ کیا۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ ص:۵۱۸)
آپe کے
بلند اخلاق پہ قرآن شہادت دیتا ہے۔
{وَ الْقَلَمِ وَ
مَا یَسْطُرُوْنَ٭ مَآ اَنْتَ بِنِعْمَة رَبِّك بِمَجْنُوْنٍ٭ وَ اِنَّ لَك لَاَجْرًا
غَیْرَ مَمْنُوْنٍ٭ وَ اِنَّك لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ٭} (القلم:۱-۴)
’’قسم ہے قلم کی
اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں! تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو۔ یقینا
تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں اور بے شک تم اخلاق کے
بڑے مرتبے پر ہو۔‘‘
دعویٰ نبوت سے پہلے اہل مکہ آپe کو صادق و امین کے لقب سے یاد کرتے تھے‘ آپe پر
قوم کو مکمل اعتماد تھا اور آپe ہر
دلعزیز تھے۔ انہوں نے اس وقت جھٹلایا جب آپe نے توحید کا اعلان کیا۔
سیدنا علیt سے
مروی ہے کہ خود ابوجہل نے نبیe سے
کہا:
[انا لا نكذبك ولٰكن
نكذب ما جئت بهٖ۔]
’’ہم آپe کو
تو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ جو کچھ آپe پیش کر رہے ہیں ہم اسے جھوٹ قرار دیتے ہیں۔‘‘
جنگ بدر کے موقع پر اخنس بن شریق نے علیحدگی میں ابوجہل سے سوال
کیا کہ یہاں میرے اور تیرے سوا کوئی نہیں تم بتائو کہ محمدe کو تم سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟ اس نے جواب دیا کہ خدا
کی قسم! محمدe ایک
سچا آدمی ہے۔ اس نے عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر جب لوا (جھنڈا) سقایۃ (پانی پلانا)
حجابت (دربانی) اور نبوت سب کچھ بنی قصی ہی کے حصے میں آ جائے تو بتائو ہمارے قریش
کے پاس کیا رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو تسلی دیتا ہے تکذیب دراصل تمہاری نہیں
ہماری کی جا رہی ہے۔
{قَدْ نَعْلَمُ اِنَّه
لَیَحْزُنُك الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّهمْ لَا یُكذِّبُوْنَك وَ لٰكنَّ الظّٰلِمِیْنَ
بِاٰیٰتِ الله یَجْحَدُوْنَ٭} (الانعام:۳۳)
’’اے محمدe ہمیں
معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تمہیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمہیں
نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔‘‘
No comments:
Post a Comment