اہل حدیث ... ایک وصفی نام
تحریر: جناب رانا شفیق خاں پسروری
اہل حدیث کا اصل
نام بھی مسلم، مسلمان ہی ہے۔ مگر یہ اہل حدیث کے لقب سے ملقب ہیں۔ لقب ہر وہ اسم ہے
جو کسی خاص صفت یا وجہ کے باعث مشتہر کیا جائے جیسے خلیل اللہ کہ اصل نام ابراہیمu ہے۔
بعض اوقات اسم واحد کے مالک اکیلے شخص کے ایک سے زیادہ القاب بھی ہو سکتے ہیں جیسے
حبیب اللہ و رسولؐ اللہ کہ اصل نام نامی اسم گرامی محمد e ہے۔
(اچھے القاب کی کثرت وزیادتی باعثِ فخر و فضیلت ہوتی ہے)
اسی طرح ہر اہل حدیث کا اصل نام مسلمان مسلم ہی ہے مگر وہ کئی
القاب سے ملقب ہے۔ یعنی اہل حدیث، اہل السنۃ، اہل الاثر، سلفی، محمدی وغیرہ (یہ تمام
القاب درست تو ہیں مگر ایک اور لقب سے انہیں (اہل حدیث کو) ملقب کیا جاتا ہے جو غلط
اور بہتان صریح کے طور پر چسپاں کیا جاتا ہے۔یعنی لقب (وہابی)۔
اہل سنت واہل اثر:
لقب اہل سنت و اہل اثر مترادف ہیں اور صرف اہل حدیث کیلئے مختص
ہیں۔ یعنی وہ لوگ کہ جن کے عقائد قرآن و حدیث کے نصوص کے مطابق ہوں یا یوں کہیے جو
دین کی اس حالت پر قائم ہوں جس پر آنحضرتe نے اپنی جماعت صحابہ کرام کو چھوڑا تھا وہ
اہل سنت ہیں۔ اہل حدیث اہل سنت اس لیے ہیں کہ:
چوں کہ وہ سنت نبویؐ اور سیرت صحابہؓ کے پابند ہیں اس لیے ان
کا نام اہل حدیث و اہل سنت ہوا۔ جب کہ دوسرے افراد جو مختلف ائمہ کی تقلید اختیار کر
کے صرف ان کی فقہ تک ہی محدود ہیں اس لیے انہیں اہل سنت کہنا اس لقب سے نا انصافی ہے۔
چنانچہ پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ (استاذ امام ابن قدامہؒ)
اپنی مشہور اور معروف تصنیف غنیۃ الطالبین میں اہل اثر‘ اہل حدیث و اہل سنت کے ایک
ہونے کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں:
[واعلم ان اھل البدع
لهم علامات یعرفون بھا فعلامة اھل البدعة الوقیعة فی اھل الاثر وعلامة الزنادقة تسمیتھم
اھل اثر بجبرة الحشویة یریدون ابطال الاثار وعلامة القدریة تسمیتھم اهل اثر بجبرة وعلامة
الجھمیة تسمیتھم اھل السنة شبھة وعلامة الرافضیة تسمیتھم اھل اثر ناصبیة]
کاش پیر صاحب اس دور میں ہوتے تو فرماتے:
’’علامة البریلویة
والدیابنة تسمیتھم اھل الحدیث وھابیة ونجدیة وغیر مقلدین وغیرھا‘‘
یعنی بریلوی اور دیوبندی کی علامت ہے کہ وہ ان کا نام وہابی، نجدی اور غیرمقلد
رکھتا ہے۔
[وكل ذلك عصبة وغیاظ
لاھل السنة ولا اسم لھم الا اسم واحد وھو اصحاب الحدیث۔]
’’اے بھائی! تو جان
لے کہ بدعتیوں کی چند علامتیں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ یعنی اہل بدعت زنادقہ،
قدریہ، جھمیہ اور رافضیہ کی علامتیں ہیں کہ وہ اہل سنت و اہل اثر کی شان میں نئے نئے
بہتانات و القاب سے گستاخی کرتے ہیں حالانکہ ان اہل سنت و اہل اثر کا کوئی نام و لقب
نہیں سوائے اہل حدیث کے۔‘‘ (غنیۃ الطالبین مترجم ص ۱۹۷)
ملا عبدالحکیم سیالکوٹیa جو کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ہم جماعت تھے، نے غنیۃ
الطالبین کا فارسی میں ترجمہ کیا تو لکھا ’’علامتِ اہل بدعت کہ عیب کر دن در اہل حدیث‘‘
(مطبوعہ مرتضائی دہلی ص ۱۹۸)
ایک اور جگہ الشیخ الافضل عبدالقادر جیلانیa فرماتے
ہیں:
[واما الفرقة الناجیة
فھی اهل السنة والجماعة (الی قولهٖ) وما اسمھم الا
اصحاب الحدیث واھل السنة علی مابینا۔]
’’ناجی فرقہ اہل
سنت والجماعت ہے اور باطنیہ ان کے (اہل سنت حضرات کے) حضرت محمدe کی
احادیث سے تعلق کی بناء پر انہیں مختلف القاب سے ملقب کرتے ہیں حالانکہ وہ اہل حدیث
و اہل سنت ہیں اس کے علاہ کچھ بھی نہیں جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔‘‘ (غنیۃ الطالبین
مترجم ص ۲۱۱)
اسی طرح شیخ ابوعثمان اسمعیل بن عبدالرحمن صابونی اپنی سند متصل
ابوحاتم میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابوحاتم رازیؒ (استاذ امام بخاریؒ) نے فرمایا:
[یقول علامة اھل
البدع الوقیعة فی اھل الاثر (الی ان قال) ولا یلحق اھل السنة الا اسم واحد وھو اصحاب
الحدیث واصحاب الحدیث عصام من ھذه المعایب بریة ذكیة ونقیة ولیسوا الا اھل السنة آه۔]
’’اہل بدعت کی علامت
ہے کہ وہ اہل اثر کی برائی کرتے ہیں اور اہل سنت کو کوئی نام زیب نہیں دیتا سوائے اہل
حدیث کے اور اہل حدیث ان تمام عیوب سے پاک صاف اور بری ہیں۔ نیز یہی اہل سنت ہیں۔‘‘
(عقیدہ صابونیہ طبع مصر ص ۵۳)
یہ تو تھے حضرت پیران پیر اور امام ابوحاتم رازی s کے
اقوال کہ اہل سنت و اہل اثر ہی اہل حدیث ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں ان ناموں
کے علاوہ کسی اور لقب سے ملقب نہیں کر سکتی۔ ان شاء اللہ۔
اب چند ایک مزید حوالہ جات ملاحظہ کریں کہ اہل حدیث ہی اہل اثر
و اہل سنت ہیں نہ کہ آج اپنے آپ کو اہل سنت کہنے والے مقلدین واہل الرائے۔
حضرت احمد مہاجر مدنی a اپنی تصنیف لطیف (تاریخ اہل الحدیث) میں رقم طراز ہیں
کہ:
[لا یخفی علی العالم
بالكتاب ان اطلاق اھل السنة لا یصح علی احد من الفرق الرائجة الاعلی اھل الحدیث لان
الحدیث والسنة جاء عن النبیﷺ فلذ لك یطلق اھل الحدیث اھل السنة واھل السنة علی اھل
الحدیث كماقرره شیخ الاسلام ابوعثمان صابونیؒ والشیخ ابوحاتم وغیرهم من علماء المسلمین
السابقین۔]
’’یہ بات علماء کتاب
و سنت پرمخفی نہیں کہ اہل سنت لقب کسی فرقے پر صحیح نہیں آتا صرف اہل حدیث پر ہی آتا
ہے۔ کیونکہ حدیث اور سنت رسول اللہe سے
جاری ہے (اور جو حدیث پر عمل کرے وہی اہل سنت ہے) پس اس لئے اہل حدیث اور اہل سنت ایک
ہی ہوئے (کہ صرف اہل حدیث ہی سنت پر عمل کرتے ہیں اور اگر کوئی حدیث نہ مانے تو سنت
کیسے مانے گا؟) جیسا کہ شیخ الاسلام ابوعثمان صابونی، ابوحاتم رازی s وغیرہم
علماء مسلمین و سابقین نے فرمایا ہے۔‘‘
اب عقیدۂ اہل سنت مطبوعہ دہلی ص ۳ کا حوالہ دیکھیں کہ:
[ھذا مذهب اھل العلم
واصحاب الاثر اھل السنة المتمسكین بعروتھا المعروفین بھا المقتدی بھم فیھا من لدن اصحاب
النبیﷺ الی یومنا ھذا وادركت من علماء الحجاز والشام وغیرهم الیھا۔]
’’یہ باتیں اہل علم،
اہل اثر، اہل سنت کے مذہب کی ہیں جو سنت کے کڑے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں یہی ان
کی پہچان ہے اور اہل سنت صحابہ کے زمانے سے رسول اکرمe کے پیرو ہیں اور آپس میں پیشواہیں یعنی انہی باتوں
پر حجازی شامی اور دوسرے علماء کو پایا۔‘‘
امام ابن تیمیہa فرماتے
ہیں:
[ولو استدل علی اھل
السنة لدلوه علی اھل الحدیث۔] (حواله از تاویل
ص ۹۸)
’’اگر کوئی شخص اہل
سنت کے متعلق سوال کرے تو اسے اہل حدیث کا پتہ دے دو۔‘‘
امام ابن حزمa فرماتے
ہیں:
[واھل السنة الذین
نذكرھم اھل الحق ومن عداھم فاھل الباطل فانھم الصحابة رضی الله عنهم وكل سلك نھجھم
من خیار التابعین علیهم واھل الحدیث ومن اتبعھم من الفقهاء جیلا مجیلا الیٰ یومنا ھذا۔]
’’اہل سنت وہ لوگ
ہیں جن کا ذکر ہم اہل باطل کے خلاف اہل حق سے کریں گے۔ کہ بے شک وہ اصحاب نبیؐ، تابعین
اور اہل حدیث ہیں۔ نیز متبعین سنت فقہاء ہیں۔‘‘ (کتاب الفضل لابن حزم)
نوٹ: اس قول نے عقیدہ
اہل سنت مطبوعہ دہلی جس کا حوالہ اوپر نقل ہوا ہے کی وضاحت بھی کر دی ہے۔
فائدہ: امام یزید بن ہارون
فرماتے ہیں: اگر اہل حق اہل حدیث نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ (شرف اصحاب الحدیث ص ۳۲)
بریلوی مکتب فکر کی ایک پسندیدہ کتاب ’’مرأۃ الاسرار‘‘ ہے جو
تصوف اور صوفیاء کے بارے میں، شاہجہاں کے دور میں 1045ھ میں لکھی گئی، لکھنے والے شیخ عبدالرحمن چشتی ہیں۔ کتاب کے
آغاز میں لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے باطنی اشارے پر لکھی
گئی۔‘‘اس کتاب کے صفحہ 52 پر ہے کہ
’’اہل سنت و جماعت
اعتدال یعنی صراط مستقیم پر ہیں اور افراط و تفریط سے پرہیز کرتے ہیں، انہوں نے اپنے
لوح دل کو تعصب کی میل سے پاک صاف رکھا اور تنگنائے تقلید محض سے گزر کر خالص تحقیق
تک پہنچ گئے۔ ابیات
زتقلید و تعصب برطرف
باش
زلوحِ دل خیال ہر
دو بتراش
تعصب از ہوائے نفس خیزد
زتقلید آبروئے
خلق ریزد
تعصب سالکان رابند راہ است
رہ تقلید از راہِ
تباہ است
خدایا نفسِ سرکش را زبُوں کن
تعصب از نہادِ ما
بروں کن
مرا بتحقیق بنما سوئے توحید
رہائی بخش از زندانِ
تقلید‘‘
یعنی انہوں نے واضح کیا ہے کہ تقلید کرنے والا اہل سنت نہیں
ہو سکتا، اس لحاظ سے صرف اہل حدیث ہی اہل سنت کہلانے کے حق دار ہیں۔
اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو اس کے لئے یہی حوالے کافی و شافی
ہیں کہ العاقل تکفیہ الاشارہ۔ دل چاہتا ہے کہ اس بحث کو یہیں ختم کر دوں اور اصل بحث
کی طرف آئوں کہ لقب اہل حدیث کب کیوں اور کیسے شروع ہوا؟ مگر بقول مؤمن:
کیا کروں کیونکر رکوں ناصح دل رکا جاتا ہے
اب ذرا رحمت کائناتe کی حدیث کو ملاحظہ فرمائیے کہ:
آپؐ سے پوچھا گیا: من اہل السنۃ والجماعۃ کہ اہل سنت و جماعت
کون ہیں؟ فرمایا [ما انا علیہ واصحابی] وہ جو اس طریق پر چلے جس پر میں اور میرے اصحاب آج ہیں۔
اسی طرح سیدنا علیt سے بھی پوچھا گیا تو فرمایا:
[المتمسکون بسنة اللہ لھم ورسولہ
وان قلوا۔] (کنزالعمال ص ۲۱۵ جلد نمبر۸)
’’اہل سنت وہ ہیں
جو اللہ و رسولؐ کی سنت کے تابع ہوں اگرچہ کم ہی ہوں۔‘‘
چنانچہ امام
زہریa فرماتے
ہیں:
[ان الناس کانوا
علی حیوۃ النبیﷺ اہل السنة۔]
’’حضرت محمدe کے
زمانے میں اہل سنت ہی تھے اور کچھ نہیں۔‘‘ (کنزالعمال ۶۴ جلد نمبر۶)
گویا اصحاب رسولِ e اہل سنت تھے اور رحمت دو جہاں فرماتے ہیں کہ اہل سنت
وہ ہیں جو میرے اور میرے اصحاب کے نقشِ قدم کے راہی ہوں گے۔ ایک حدیث میں ہے جو میرے
اور میرے اصحاب کے نقشِ قدم کا راہی ہو گا وہ جنتی ہو گا یعنی جو اہل سنت ہو گا وہی
جنتی ہوگا۔
چنانچہ امام ترمذی a فرماتے ہیں:
[عن قرة بن ایاس
قال محمد بن اسمٰعیل قال علی ابن المدینی ھم اصحاب الحدیث۔] (ترمذی شریف)
کہ امام فی الحدیث امام بخاریa نے
کہا کہ (میرے استاذ) علی بن مدینی نے فرمایا: (جنتی وناجی فرقہ) اہل حدیث ہیں۔
(نوٹ: یہی قول شرف
اصحاب الحدیث ص ۳۳ پر بھی مرقوم ہے) اسی طرح حافظ ابن حجر a اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:ـ
[اخرج الحاكم فی
علوم الحدیث بسند صحیح عن احمد ان لم یكونوا اھل الحدیث فلا ادری من ھم۔]
’’امام حاکم نے علوم الحدیث میں صحیح سند سے امام
احمد بن حنبلؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر جنتی و ناجی فرقہ سے مراد) اہل حدیث نہیں
تو میرے علم میں کوئی نہیں۔ ‘‘
نوٹ: یہی قول شرف اصحاب الحدیث ص ۳۳ پر بھی منقول ہے)
غرضیکہ کتب تواریخ و احادیث میں ایسے کئی اقوال ہیں کہ ناجی و جنتی فرقہ صرف اہل حدیث
ہے۔
اهل الحدیث ھموا اھل النبی!
وان لم یصحبوا نفسه فانفا سھم صحبوا
نیز اہل السنۃ کا لقب معروف ہوا ’’اہل تشیع‘‘ کے مقابل جبکہ
اہل حدیث کا لقب اہل الرائے اور اہل القیاس کے مقابلے میں۔
فائدہ: مندرجہ بالا بحث
میں جگہ جگہ اصحاب الحدیث کا لفظ آیا ہے جس کا معنی صرف اہل حدیث ہی ہے۔ کہ اصحاب
الحدیث اور اہل الحدیث عربی کے دو ہم معنی الفاظ ہیں۔ نیز حنفی مسلک کی چوٹی کی کتاب
ردالمحتار شرح درالمختار میں ہے کہ:
[حكی ان رجلا من
اصحاب ابی حنیفة خطب الی رجل من اصحاب الحدیث ابنته فی عهد ابی بكر الجوزجانی فابی
الا ان یترك مذھبا فیقرأ خلف الامام ویرفع یدیه عند الانحناء ونحو ذلك فاجابه فزوجه۔]
(حکایت بیان کی گئی
ہے کہ ایک حنفی آدمی نے کسی اہل حدیث سے بیٹی کا رشتہ طلب کیا تو اہل حدیث نے کہا
اپنا مسلک چھوڑ کر (فاتحہ) خلف الامام اور رفع یدین عند الرکوع والقیام بعد الرکوع
کا عامل ہو‘ تب حنفی اہل حدیث ہو گیا تو نکاح کر دیا گیا۔ (ص ۲۹۳)
اس مندرجہ بالا بحث سے چند باتیں حاصلِ مطالعہ و قابل غور ہیں۔
1 اہل سنت و اہل اثر دراصل اہل حدیث کے ہی لقب ہیں۔ 2صحابہ رسول اکرمe کے
دور میں بھی اہل سنت (اہل حدیث ) تھے۔ 3 اہل حق بھی اہل
حدیث ہی ہیں۔ 4 ناجی فرقہ بھی اہل حدیث ہی ہے۔ 5اہل حدیث لقب رکھنا برائی نہیں ہے۔ (ماخوذ از: لقب اہل حدیث)
No comments:
Post a Comment