اہل بیت اور صحابہ کرام
(پہلی قسط) تحریر: جناب
مولانا محمد نعمان فاروقی
نبی کریمe اپنے
لیے وہی مقام اور مرتبہ پسند فرماتے تھے جو اللّٰہ نے آپ کو عطا کیا تھا۔ از حد محبت
سے جنم لینے والے غلوّ کو آپe نے
اپنے لیے بھی پسند نہیں فرمایا، چہ جائیکہ کوئی آپ کے صحابہ یا اہل بیت کے متعلق غلو
اور مبالغہ آرائی سے کام لے۔ غلو سے احتیاط کے متعلق چند فرامین نبویہ یہ ہیں:
1 بنو عامر کا وفد
بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا تو شرکائے وفد نے بایں الفاظ عقیدت کے پھول نچھاور کیے:
’’آپ ہمارے سردار ہیں۔ آپe نے
فرمایا: حقیقی سردار اللہ تعالیٰ ہے۔ اُنہوں نے عرض کیا: آپ ہم سب سے انتہائی برتر،
افضل ترین اور صاحبِ جود و سخا ہیں۔ آپe نے فرمایا:
[قُولُوا بِقَوْلِکُمْ
اَوْ بَعْضِ قَوْلِکُمْ وَلَا یَسْتَجْرِیَنَّکُمُ الشَّیْطَانُ۔] (سنن ابی داود:
۴۸۰۶)
’’اپنی بات یا اس
سے کچھ ملتی جلتی کہہ لیا کرو لیکن شیطان تمہیں کسی صورت اپنے جال میں نہ پھنسا لے۔‘‘
یعنی ہمارے سردار جیسے الفاظ کہنے ہیں تو شیطان کے حملوں سے
محفوظ بھی رہنا ہے۔
2 ایک حدیث میں ہے:
[اَنَا مُحَمَّدُ
بْنُ عَبْدِ اللّٰـہِ وَرَسُولُ اللّٰـہِ، وَاللّٰـہِ مَا اُحِبُّ اَنْ تَرْفَعُونِی
فَوْقَ مَا رَفَعَنِیَ اللّٰـہُ عَزَّ وَجَلَّ۔] (مسند احمد بن
حنبل: ۳/۲۴۱)
’’میں محمد بن عبداللّٰہ،
اللّٰہ کا رسول ہوں، اللّٰہ کی قسم! مجھے پسند نہیں کہ تم مجھے اس مقام سے بلند تر
کروجس پر اللّٰہ نے مجھے فائق کیا ہے۔‘‘
3 ایک اور حدیث میں
ہے:
[لَا تُطْرُونِی
کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ۔] (صحیح البخاری:
۳۴۴۵)
’’تم مجھے اس قدر
بڑھا چڑھا نہ دینا جیسے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ u کو بڑھا چڑھا دیا تھا۔‘‘
یہ مبالغہ آرائی دین کے نام پر ہوتی ہے، اس وجہ سے رسول اللّٰہe نے
دین کے کسی بھی معاملے میں غلو سے روکتے ہوئے ارشاد فرمایا: [إِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّینٍ] ’’دین میں غلو کرنے سے بچو۔‘‘ (مسند أحمد: ۳۲۴۸)
یہود کٹ حجتی، ضد اور تعصّب کی وجہ سے عذاب میں گرفتار تھے تو
نصاریٰ کی ہلاکت خیزی ان کے غلوّ کے باعث ہوئی۔جب دین کے کسی حکم میں، کسی معاملے میں
حتی کہ رسول اللّٰہe کی
ذات میں غلو اور ازحد مبالغہ آرائی سے روکا گیا ہے تو پھر آپ کے اہل بیت یا صحابہ]
کے بارے میں غلو کی اجازت کیونکر ہوسکتی ہے؟
شخصیات میں غلو جہاں عقیدے میں خلل کا باعث بن سکتا ہے وہاں
غیر اللّٰہ کی محبت کو اللّٰہ کی محبت پر غالب بھی کر سکتا ہے اور عموماً ایسا ہوتا
ہے۔ اس وجہ سے شخصیات جس قدر بھی عظیم الشان اور جلیل القدر ہوں ان کے بارے میں افراط
و تفریط سے ہٹ کر اسلام کا اعتدال پسندانہ طرزِ فکر کسی صورت دھندلانا نہیں چاہیے۔
قرآن وحدیث میں جن کے جو فضائل ثابت ہیں انہیں افراط و تفریط کے بغیر قبول کرنا چاہیے۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ فضائل و مناقب کے باب میں قرآن
و سنت کی نصوص ہی معتبر ہیں اور فضائل دوطرح کے ہیں:
1 عمومی فضائل ومناقب 2 خصوصی فضائل ومناقب
Ý عمومی فضائل
کی بھی دو قسمیں ہیں:
ا ایک تو وہ فضائل ہیں جو قرآن و سنت میں
اہل بیت یا صحابۂ کرام کے بارے میں ثابت ہیں، ان فضائل سے نہ تو اپنے طور پر کسی کو
محروم رکھا جا سکتا ہے اور نہ کسی کو اپنی مرضی سے حقدار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ
نہ کوئی اپنی مرضی سے شرفِ صحابیت حاصل کر سکتا ہے اور نہ کسی صحابی کو اس سے محروم
رکھا جاسکتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ کئی لوگ جلیل القدر صحابہ کو شرفِ صحابیت سے
محروم کرنے کی اور جو صحابی نہیں تھے جیسے جناب ابوطالب ، توان کو صحابی بنانے کی سعی
لا حاصل میں لگے رہتے ہیں۔
ب عمومی فضائل میں دوسری قسم ایسے اوصاف پر مشتمل
ہے جس میں ہر اُمتی شریک ہوسکتا ہے جیسے محسنین، متقین، مستقدمین اور مؤمنین وغیرہ۔
Þ خصوصی فضائل
و مناقب سے مراد وہ فضائل ہیں جو اہل بیت یا صحابہ میں سے کسی کے لیے یا اُمت کے کسی
خاص فرد کے لیے ثابت ہیں جیسے اویس قرنیa اور امام مہدی کے بارے میں۔
فضائل کے باب میں چونکہ اعتبار نصوص اور روایت کا ہے کیونکہ
فضائل اجتہاد سے ثابت نہیں ہوتے، اس لیے قرآن و سنت میں جس جس کے عمومی یا خصوصی جو
جو فضائل ثابت ہیں انہیں اپنے اصلی مفہوم میں سمجھنا، ان کا اظہار کرنا اور ان کے بارے
میں اپنے ذاتی رجحانات سے بچنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص صحابہ کرام کے فضائل سے گریزاں
رہے، بلکہ انکار کرے تو ایسے کج فکر شخص کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اہمیت
قرآن وسنت کو نہیں بلکہ اپنے رجحان و میلان کو دے رہا ہے اور یہی حال اس کا ہوگا جو
اہل بیت کے ساتھ ایسا کرے۔
اگر قرآن و سنت کے مطابق ذہن بنایا ہو تو پھر ہر ایک کے بارے
میں رویّہ اور طرزِ فکر عادلانہ اور یکساں ہونا چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں عموماً ذاتی اور
حزبی رجحانات غالب ہوتے ہیں اور ہم ہر بات، واقعے اور سانحے کو اپنی خود ساختہ میزان
میں تولنے کے عادی ہیں۔
جس دن نبی کریم e کے
لختِ جگر ابراہیم اس دنیا سے رخصت ہوئے، اسی دن سورج گرہن ہوا۔ لوگ کہنے لگے کہ سورج
گرہن ابراہیم کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔ رسول اللّٰہ e نے فرمایا:
[إِنَّ الشَّمْسَ
وَالْقَمَرَ لَا یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ، وَلٰکِنَّہُمَا آیَتَانِ
مِنْ آیَاتِ اللّٰـہِ، فَإِذَا رَاَیْتُمُوہَا فَصَلُّوا۔] (صحیح البخاری:
۱۰۴۲-۱۰۴۳)
’’سورج اور چاند
نہ تو کسی کی موت کی وجہ سے گہناتے ہیں اور نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے بلکہ وہ تو اللّٰہ
کی نشانیوں میں سے ہیں تو جب تم اللّٰہ کی نشانیاں دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔‘‘
لوگوں کا جو موقف سامنے آیا، وہ ابراہیم کی وفات کے باعث سورج
گرہن کا تھا۔ آپe نے
اس کے ساتھ چاند کو بھی ملایا اور دوسری طرف موت کی ضد زندگی کا تذکرہ کیااور پھر ایسے
موقف کی کھلی تردید کر دی جو کائنات کے کسی تصرف کو کسی عظیم شخصیت کی موت و حیات سے
منسلک کرتا ہو۔ یہ فکری تربیت فرما کر اس کائنات میں اللّٰہ کے سوا کسی کے تصرف کی
کلی نفی فرما دی۔
اگر کئی لوگوں نے کائنات کی ان نشانیوں کو تو کیا، خود کائنات
ہی کو مخلوق میں سے کسی کے رحم و کرم پر مانا ہوا ہے اور وہ معمولی تصرف تو کیا پوری
کائنات کا متصرف کسی اور کو مانتے ہوں تو ایسے نظریے کے اسلام سے متصادم ہونے کے لیے
اور کون سی دلیل درکار ہے؟
ذیل میں ہم ایک موازنہ پیش کرنا چاہتے ہیں جس کا مدعا یہ ہے
کہ قرآن وسنت میں اہل بیت اور صحابۂ کرام کے ایسے فضائل
جن میں باہمی طور پر معنوی مشابہت پائی جاتی ہے حتیٰ کہ بعض فضائل میں لفظی مشابہت
بھی موجود ہے، وہ سامنے لائے جائیں تاکہ لوگوں کی یہ ذہن سازی ہوسکے کہ یہ دونوں ایک
ہی چراغ کے پرتو اور کرنیں ہیں۔ اگر اہمیت زبان نبوت و رسالت کو دی گئی ہے تو پھر اس
سے صادر ہونے والے ایک ایک حرف کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ پھر اپنے ذاتی رجحانات اور
پسند و ناپسند اس کے تابع ہونی چاہیے اور اگر اہمیت اپنے نظریات اور شخصیات کے خود
ساختہ تصور کو دی گئی ہے تو اس کے لیے قرآن و سنت کے دلائل کی یا انہیں تاویلوں کی
بھینٹ چڑھانے کی ضرورت نہیں، اس کے لیے انسان کا نفس ہی کافی ہے جو اسے دین کے معاملے
میں بھی ذاتی چاہتوں کا سرور دیتا رہتا ہے اور اسے مطمئن بھی رکھتا ہے۔
ذیل میں اہل بیت اور صحابہ کرام، دونوں کے ملتے
جلتے فضائل کو پیش کرکے ، ان کا تقابلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔ اس موازنے سے دعوت کسی
خاص فریق کو نہیں، ہر ایک کو ہے۔
اوّل: فضائل اہل بیت :
نبی کریمe نے
غدیرخم کے موقع پر فرمایا تھا کہ میں تم میں دو گراں مایہ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں:
ایک کتاب اللّٰہ اور دوسری میرے اہل بیت۔ حدیث طویل ہے، اسی میں آپe نے
تین مرتبہ فرمایا: [اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِی اَہْلِ بَیْتِی] میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمہیں اللّٰہ کی یاد دلاتا ہوں۔
(صحیح مسلم: ۶۲۲۵)
فضائل صحابہ
کرام:
نبی کریمe نے
فرمایا: [اِحْفَظُونِی فِی
اَصْحَابِی] ’’میرے صحابہ کے
بارے میں میرا خیال رکھو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۲۳۶۳)
اسی طرح فرمایا: [لَا تَسُبُّوا اَصْحَابِی] میرے صحابہ کے بارے کوئی بھی نازیبا انداز اختیار نہ کرو۔
(صحیح البخاری: ۳۶۷۳)
موازنہ: اہل بیت کے بارے
میں فرمایا کہ اللّٰہ کی یاد دلاتا ہوں اور صحابہ کے بارے میں فرمایا کہ میرے صحابہ
کے بارے میں میری لاج رکھنا۔ اہل بیت کے بارے میں اس حکم کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ
ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ ان کے بارے میں نامناسب ذہن یا رویہ نہ رکھا جائے۔ اور
[اِحْفَظُونِی فِی
اَصْحَابِی] کا بھی قریب قریب
یہی مفہوم ہے۔ کوئی شخص صحابہ کرام کے لیے تو محتاط
رویہ رکھے اور ان کی شان بیان کرے مگر اہل بیت کے بارے میں غیر
محتاط رویہ رکھے تو وہ غلط ہے۔ اور اگر کوئی اہل بیت کا ادب و احترام اور شان بیان
کرے مگر صحابہ کے بارے میں غیر محتاط رویہ اختیار کرے تو وہ بھی غلط ہے کیونکہ زبانِ
نبوت سے دونوں کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنے کی تعلیم ہے حتیٰ کہ قرآنِ مجید
میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ بعد والے یہی دعا کرتے ہیں:
{رَبَّنَا اغْفِر
لَنا وَلإِخوٰنِنَا الَّذینَ سَبَقُونَا بِالإیمٰـنِ وَلا تَجعَل فی قُلوبِنا غِلًّا
لِلَّذینَ اٰمَنُوْا رَبَّنآ إِنَّکَ رَؤفٌ رَحیْمٌ} (الحشر)
’’اے ہمارے ربّ!
ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے اورہمارے
دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھنا۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت ہی شفقت
اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
دوم: فضائل اہل بیت:
غدیر خم والی سابقہ حدیث کے بعض طرق میں یہ بھی ہے کہ
[إِنِّی قَدْ تَـرَکْتُ
فِیکُمْ مَا إِنْ اَخَذْتُمْ بِہِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِی، الثَّقَلَیْنِ أَحَدُہُمَا
اَکْبَرُ مِنَ الآخَرِ کِتَابُ اللّٰـہِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَائِ إِلَی الاَرْضِ،
وَعِتْرَتِی اَہْلُ بَیْتِی اَلَا وَإِنَّہُمَا لَنْ یَتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ
الْحَوْضَ۔] (مسند احمد: ۲۱۵۷۸)
’’میں تم میں وہ
کچھ چھوڑ کے جا رہا ہوں اگر تم اسے تھامے رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے، وہ
دو انتہائی گراں مایہ ہیں۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ اللّٰہ کی کتاب جو رسی
کی شکل میں آسمان سے زمین تک پھیلا دی گئی ہے اور میرے اہل بیت۔ بے شک وہ دونوں جدا
نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے۔‘‘
فضائل صحابہ:
سیدنا عرباض بن ساریہt کہتے ہیں کہ ایک دن نماز فجر کے بعد رسول اللہ e نے
ہم سے بڑا فصیح و بلیغ خطاب فرمایا۔ اس کی اثرآفرینی یہ تھی کہ آنکھیں اشک بار اور
دل سہمے ہوئے تھے۔ اسی وعظ میں آپe نے فرمایا:
[اُوصِیکُمْ بِتَقْوَی
اللّٰـہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ
بَعْدِی، یَرَی اخْتِلَافاً کَثِیرًا، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء
ِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ بَعْدِی عَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ۔] (السلسلة الصحیحة
للشیخ محمد ناصر الدین الألبانیؒ: ۲۷۵۳)
’’میں تمہیں اللّٰہ
کے تقوے اور سمع و طاعت کی تلقین کرتا ہوں اگرچہ تمہارا امیرحبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔
تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ بہت سا اختلاف دیکھے گا، لہٰذا تم میری
اور میرے بعد میرے خلفاء کی سنت اور طریقے کو اختیار کرنا، وہ خلفاء جو بھلائی کے خوگر
اور اسی کو ترویج دینے والے اور ہدایت یافتہ ہیں۔ تم انتہائی مضبوطی سے اسے تھام کر
رکھنا۔‘‘
موازنہ: عِتْرتِی والی
حدیث میں بھی یہ الفاظِ نبوی ہیں کہ قریب ہے کہ میرے ربّ کا فرشتہ (پیغام وفات لے کر)
آجائے۔ اسی طرح خلفائے راشدین والی حدیث میں بھی صحابہ نے وعظ کی اہمیت سے یہی سمجھا
کہ [کَاَنَّہَا مَوْعِظَۃُ مُوَدِّع] گویا کہ یہ الوداعی وعظ ہے اور صحابہ کرام نے آپe سے
اس کا اظہار بھی کیا۔ اس کے بعد آپe نے وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو اوپر درج ہیں۔ گویا نبی
کریمe نے
بھی یہ تسلیم کیا کہ یہ آخری وعظوں میں سے ہے اور حدیثِ غدیر خُم بھی ۱۰ ہجری کے آخری مہینے
یعنی ذوالحجہ کی بات ہے۔
اسی طرح آپe نے
اہل بیت اور خلفائے راشدین دونوں کی اطاعت و وابستگی کو ہدایت قرار دیا اور ان سے وابستگی
کو گمراہی سے تحفظ قرار دیا۔ یاد رہے! اہل بیت میں آپe کی
ازواج شامل ہیں۔ اگر انہیں یا ان سے مروی احادیث مبارکہ کو دین سے نکال دیا جائے تو
دین میں ایک بہت بڑا خلا نظر آتا ہے۔ جو بجائے خود گمراہی کا ایک بہت بڑا سبب بن سکتا
ہے۔
ہاں! جیسے خلفاء کے ساتھ راشدین (صحیح راہ نما) اور مَہدیـین (ہدایت یافتہ) ہونے کی قید لگائی گئی ہے، اس سے یہ پتہ چلتا
ہے کہ خلفاء ، صحابہ اور اہل بیت میں سے اسی فعل کی اتباع ہوگی جو مذکورہ اوصافِ راشدہ
کا حامل ہو، بصورت دیگر کسی وقتی یا ذاتی فیصلے میں ان کی اتباع کی پابندی ضروری نہیں۔
جیسے سیدنا عمر فاروقt نے
اپنے عہدمیں طلاق کی شرح میں اضافے کے پیش نظر طلاق ثلاثہ کو ایک قرار دے دیا۔
[تَرَکْتُ فِیکُمْ اَمْرَینِ] والی حدیث کو بھی ملا لیں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ
جلیل القدر شخصیات میں سے جس جس کا اقدام کتاب وسنت کے موافق ہے ، اسے قبول کرنا ہے
اور ناموافق کو چھوڑ دینا ہے۔ جیسے ہم نماز میں درودِ ابراہیمی میں آل ابراہیم پڑھتے
ہیں، حالانکہ قرآنِ مجید میں ہے کہ آلِ ابراہیم میں سے مؤمن بھی تھے اور ظالم بھی۔
تو ظاہر ہے یہ دعا یا تشبیہ ان ظالم آل ابراہیم کے لیے تو نہیں۔
اتنا ضرور ہے کہ خلفائے راشدین کے مقابلے میں [عِتْرتِی] کے بارے میں آپe نے
یہ فرمایا کہ کتاب اللّٰہ اور عِتْرتِی ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوں گے اور دونوں
اکٹھے ہی حوضِ کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔ یہ اہل بیت کی انفرادی شان ہے۔ مگر اُمت
کے فکر و عمل کے اعتبار سے دونوں ہی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ خلفائے راشدین کے بارے
میں بھی یہ فرمایا گیا کہ میری اور میرے خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور دوسری
حدیث میں نجات یافتہ اُمت کا گروہ اسے قرار دیا گیا جس پر آپe اور
آپ کے صحابہ (بشمول اہل بیت)ہیں۔ (جامع الترمذی: ۲۶۴۱۔ حسن)
نوٹ: حسب ذیل حدیث کو ضعیف ہونے کی بنا پر شامل نہیں کیا گیا:
[اَللّٰہَ اَللّٰہَ
فِی اَصْحَابِی لَا تَتَّخِذُوہُ غَرَضًا بَعْدِی۔] (السلسلة الضعیفة
للشیخ محمد ناصر الدین الألبانیؒ: ۲۹۰۱)
’’میرے صحابہ کے
بارے اللّٰہ سے ڈر جاؤ۔ اللّٰہ کو یاد رکھو، انہیں میرے بعد تختۂ مشق نہ بنانا۔‘‘
اسی طرح آپe کی
طرف منسوب اس قول کو من گھڑت ہونے کی بنا پر درج نہیں کیا گیا۔
[اَصْحَابِی کَالنُّجُومِ
بِاَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ] (السلسلة الضعیفة: ۵۸)
’’میرے صحابہ ستاروں
کی مانند ہیں، ان میں جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت یافتہ ہو جاؤ گے۔‘‘
سوم: فضائل اہل بیت :
رسول اللّٰہe کا
فرمان ہے:
[فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی، فَمَنْ اَغْضَبَہَا اَغْضَبَنِی۔] (صحیح البخاری:
۳۷۶۷)
’’فاطمہ میرا جگر
گوشہ ہے جس نے انہیں ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
فضائل صحابہ :
صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث میں آپe نے سیدنا ابو بکر صدیق t کے
بارے میں فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ بَعَثَنِی إِلَیْکُمْ فَقُلْتُمْ کَذَبْتَ۔ وَقَالَ اَبُوبَکْرٍ:
صَدَقَ۔ وَوَاسَانِی بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ، فَہَلْ أَنْتُمْ تَارِکُو
لِی صَاحِبِی۔ مَرَّتَیْنِ فَمَا اُوذِیَ بَعْدَہَا۔] (صحیح البخاری:
۳۶۶۱)
’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ
نے تمہاری طرف مجھے مبعوث فرمایا، تو تم نے میرے بارے میں کہا کہ تم غلط کہتے ہو اور
ابوبکر tنے کہا: آپ نے سچ فرمایا اور اُنہوں نے اپنی جان اور مال سے
مجھے سپورٹ کیا ہے تو کیا تم میرے لیے میرے رفیق ابوبکر صدیق کو چھوڑ سکتے ہو۔ یہ آپ
نے دو مرتبہ فرمایا۔ اس فرمان کے بعد پھر ابوبکر tکو کوئی اذیت نہیں دی گئی۔ ‘‘
موازنہ: سیدہ فاطمہr کو
ناراض نہ کرنے کی تلقین نبوی ہے تو دوسری طرف سیدنا ابوبکر صدیقt کو
ناراض کرنے پر نبی کریمe کا
یہ انداز ان سے گہری محبت کا اظہار اور اُمت کو ان کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنے
کی تلقین ہے۔ اسی لیے تو حدیث میں بھی الفاظ ہیں کہ پھر اس واقعے کے بعد انہیں اذیت
نہیں پہنچائی گئی۔ سیدہ فاطمہr کے
بارے میں بھی آپ نے اپنے جذبات کا اظہار اس وقت فرمایا جب سبب پیدا ہوا۔ سیدنا ابوبکرt کے
بارے میں بھی اس وقت آپ نے فرمایا جب سبب سامنے آیا۔ اسلوب مختلف ہیں اور مفہوم ایک!
چہارم: فضائل اہل بیت:
سیدنا حسنین کریمینw کے بارے میں رسول اللّٰہe نے
فرمایا:
[اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ
سَیِّدَا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ۔] (جامع الترمذی:
۳۷۶۸)
’’حسن اورحسین جنتی
نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
فضائل صحابہ:
سیدنا شیخین کریمینw کے بارے میں رسول اللّٰہe نے
فرمایا:
[ہٰذَانِ سَیِّدَا
کُہُولِ اَہْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخَرِیْنَ، إِلَّا النَّبِیّیِنَ
وَالْمُرسَلِیْنَ۔] (جامع الترمذی: ۳۶۶۵)
’’یہ دونوں (سیدناابوبکر
ؓو عمر ؓ) انبیاء و رسل عظام کے سوا ادھیڑ عمر میں فوت ہو کر جنت میں جانے والوں کے
سردار ہوں گے۔‘‘
موازنہ: پہلی حدیث میں جنتی نوجوانوں کے سردار سیدنا حسنین کریمینw کو
بتایا گیا ہے اور دوسری میں سیدنا شیخین کریمینw کو جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کا سردار بتایا گیا ہے۔ یاد
رہے! پہلی حدیث میں اشارۃً اور دوسری حدیث میں صراحۃً جنت میں نوجوانوں اور عمر رسیدہ
لوگوں کی تقسیم سے یہ مراد ہے کہ جو عالم جوانی میں فوت ہوں گے اور جو ادھیڑ عمر میں
فوت ہوں گے۔ کیونکہ جنت میں سب جوان ہی ہوں گے۔ شیخین والی حدیث میں جو یہ فرمایا گیا
کہ پہلی امتوں اور اس امت کے جنتی افراد کے سردار ہوں گے سوائے انبیاء و مرسلین کے
تو اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انبیاء و رسل کے علاوہ سب کے سردار سیدنا ابوبکرؓ و عمر
ؓہوں گے اور نوجوانوں کے سردار سیدنا حسن ؓو حسینؓ ہوں گے۔ یہی دونوں احادیث مبارکہ
کا صحیح مفہوم ہے۔ لیکن برا ہو تعصّب کا کہ ایک کو جنت کا مالک بنا دیا گیا اور ایک
کو اپنے طور پر جنت سے محروم کر دیا گیا۔ (جاری)
No comments:
Post a Comment