قرآن کریم ... دنیا کی عظیم ترین کتاب
تحریر: جناب مولانا لیاقت علی باجوہ
قرآن مجید اللہ
کی سچی کتاب ہے۔ یہ اللہ کا پیغام اپنے بندوں کے نام ہے، اس سے ایمان بڑھتا اور دلوں
کے زنگ اترتے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنا باعث برکت اور ثواب ہے۔ مگر افسوس کا مقام
ہے کہ ہماری اکثریت تلاوت قرآن مجید سے غافل ہے۔ دنیا کے کاموں کے لیے ہمارے پاس وقت
ہوتا ہے جبکہ تلاوت قرآن کے لئے وقت نہیں ملتا کا بہانہ کیا جاتا ہے۔ یقین جانیں تلاوتِ
قرآنِ پاک سے اللہ تعالیٰ وقت میں برکت ڈالتا ہے۔ آج سے یہ عہد کریں کہ قرآن مجید کی
تلاوت کے لئے روزانہ باقاعدگی سے وقت نکال کر کم از کم دو تین رکوع تلاوت کریں گے اور
اس کو سمجھیں گے۔ اس کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تا کہ پتہ چلے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں
سے کیا فرماتے ہیں۔
آئیے! قرآن مجید کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں قرآن و سنت کی
روشنی میں جانتے ہیں۔
رسول اللہe نے
فرمایا:
’’تم قرآن پڑھو اس
لئے کہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘ (مسلم )
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قرآن کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔
قرآن کو پڑھنے کے بعد اس کو اپنی عملی زندگی میں لانے والوں کے لئے یہ جھگڑا کرے گا
اور نجات دلائے گا۔ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’قیامت کے دن قرآن
اور قرآن والے جو اس پر عمل کرتے تھے، ان کو لایا جائے گا۔ سورۃ بقرہ اور آل عمران
پیش پیش ہوں گی اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی۔‘‘ (مسلم )
آپe نے
یہ بھی فرمایا:
’’تم میں سب سے بہتر
وہ ہے جس نے قرآن پڑھا اور اس کو پڑھایا۔‘‘ (بخاری )
قرآن مجید کو جو لوگ مضبوطی سے تھام لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ
ان کو بلند کر دیتا ہے۔ وہ دنیا میں بھی عزت حاصل کرتے ہیں اور آخرت میں جنت میں داخل
ہوں گے۔ جو قرآن کی تلاوت اور تعلیمات سے دور بھاگتے ہیں اور اپنی زندگی اپنی مرضی
اور چاہت سے بسر کرتے ہیں تو پھر ایسوں کو اللہ ذلیل و خوار کر دیتے ہیں۔ چنانچہ نبی
اکرمe نے
فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس
کتاب (قرآن مجید) کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سربلند فرمائے گا اور دوسروں کو ذلیل کرے
گا۔‘‘ (مسلم)
قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں ملتی
ہیں۔ قیامت کے روز انسان ایک نیکی کے لئے مارا مارا پھرے گا۔ لہٰذا نیکیوں کے حصول
کے لئے تلاوت قرآن پاک کو معمول بنا لینا چاہیے۔رسول اللہe نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے کتاب اللہ
کا ایک حرف تلاوت کیا، اس کو ایک نیکی ملے گی اور (اس ایک) نیکی کا بدلہ کم از کم دس
گنا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ (الم) ایک حرف ہے لیکن الف ایک حرف، لام دوسرا اور میم تیسرا
حرف ہے۔‘‘ (ترمذی )
قرآن کو یاد کرنا اور اس کو حفظ کر کے اپنے سینے میں محفوظ کرنا
سعادت مندی ہے۔ آپe نے
فرمایا:
’’بے شک وہ آدمی
جس کے دل میں قرآن کا کچھ بھی حصہ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے۔‘‘ (ترمذی)
سورۂ بقرہ کے بارے میں رسول اللہe نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک شیطان اس
گھر سے دور بھاگتا ہے جس میں سورۃ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔‘‘ (مسلم)
سیدنا ابوموسیٰ اشعریt کہتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا:
’’قرآن پڑھنے والے
مومن کی مثال ترنج کی سی ہے کہ اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور اس کا مزا بھی اچھا ہے۔
قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس میں بو نہیں مگر مزا میٹھا ہے۔
اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال نازبو (ایک خوشبو دار پودا) کی مانند ہے کہ اس کی
بو اچھی ہے لیکن اس کا مزا کڑوا ہے اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن
(کوڑ تماں) کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا بھی کڑوا ہے۔‘‘
فہم و تدبر اور عمل کرنے کی ضرورت:
قرآن کریم کی تلاوت بجائے خود اجر و ثواب کا باعث ہے، چاہے پڑھنے
والا اس کے معانی و مطالب کو سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو۔ اس کے ایک ایک حرف پردس دس
نیکیاں ہر پڑھنے والے کو ملیں گی‘ جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے۔ تاہم یہ محض اللہ
کا فضل و کرم ہے کہ وہ ہر پڑھنے والے کو اجر عظیم سے نوازتا ہے لیکن بغیر سمجھے پڑھنے
سے ثواب تو یقیناً مل جائے گا مگر قرآن کے نزول کا جو اصل مقصد ہے، وہ اسے حاصل نہیں
ہو گا۔ وہ مقصد کیا ہے؟ ہدایت اور روشنی، یہ تو صرف اسے ہی ملے گی جو قرآن کو سمجھنے
کی اور اس کے معانی و مطالب سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ آج اس قرآن کے پڑھنے
والے تو لاکھوں نہیں، کروڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن اس میں بیان کردہ اصول و ضوابط
اور تعلیمات و ہدایات کو سمجھنے والے کتنے ہیں ؟تھوڑے، بالکل تھوڑے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ
نے فرمایا ہے:
{وَلَقَد یَسَّرنَا
القُراٰنَ لِلذِّکرِ فَھَل مِن مُّدَّکِرٍ}
’’ہم نے قرآن کو
آسان کیا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لیے، کیا پس کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟ ‘‘ (القمر:
۱۷)
یہ واقعہ ہے کہ گو قرآن کریم اعجاز و بلاغت اور مطالب ومعانی
کے مشکلات واسرار کے اعتبار سے دنیا کی عظیم ترین کتاب ہے جس کے دقائق و غوامض کی نقاب
کشائی کے لیے مختلف انداز سے توضیح وتفسیر کا ایک لامتناہی سلسلہ چودہ صدیوں سے قائم
ہے مگر اس کے عجائب وغرائب ختم ہونے میں نہیں آتے لیکن اس کے باوجود عمل کی حد تک یہ
آسان ترین کتاب بھی ہے۔ اس سے ہر شخص علم بدیع و بلاغت کی کتابیں پڑھے اور صر ف و نحو
کے قواعد جانے بغیر بھی ہدایت و رہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ بھی قرآن کا ایک اعجاز
ہی ہے کہ علمی طور پر مشکل ترین ہونے کے با وصف عمل کے لیے یہ آسان ترین بھی ہے۔ بنابریں
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کو محض تبرک کے طور پر ہی نہ پڑھا کرے بلکہ
اسے سمجھنے کی بھی کوشش کیا کرے تاکہ وہ اس کے اصل مقصد نزول ہدایت کو
بھی حاصل کرسکے۔
علاوہ ازیں قرآن کریم پر تدبر اور اسے سمجھنے سے اصل مقصد اللہ
کی مرضی و منشا معلوم کر کے اس پر عمل کرنا ہو، نہ کہ محض اس کے لطائف و دقائق اور
اس کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنا کیونکہ یہ واقفیت تو عربوں کو حاصل ہے، ان
کی زبان عربی ہے اور اس بنا پر وہ قرآن کے مطالب و معانی سے ناآشنا نہیں لیکن چونکہ
ان کا عمل قرآن پر نہیں، اس لیے دیگر مسلمانوں کی طرح وہ بھی دنیا میں مغلوب ہی ہیں۔
۳۰ لاکھ یہودی گیارہ
کروڑ عربوں پر حاوی ہیں۔ یہ قرآن سے اعراض و گریز کی وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں
کو اس دنیا ہی میں دے رہا ہے۔ اس لیے قرآن کو سمجھ لینا ہی کافی نہیں، بلکہ اس پر عمل
کرنا بھی ضروری ہے۔ جب تک مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن کے سانچے میں نہیں
ڈھلے گی، ان کے شب و روز کے معمولات قرآنی ہدایات کے تابع نہیں ہوں گے اور مسلمان قرآن
کو اپنا رہنمائے زندگی تسلیم نہیں کریں گے، ان کی ذلت و رسوائی کا یہ دور ختم نہیں
ہو گا، ان کی مشکلات کم نہیں ہوں گی اور ان کی وہ عظمت رفتہ بحال نہیں ہو گی جس کے
وہ خواہش مند ہیں اور جس سے قرون اولیٰ کے مسلمان بہرہ یاب تھے۔ اقبالa نے
سچ کہا تھا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
ارشاد ربانی ہے:
{إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ
الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ
آَیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ} (الأنفال: ۲)
’’بس ایمان والے
تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب
اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی
ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
{قُلْ اٰمِنُوا بِہِ
أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِینَ اُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہِ إِذَا یُتْلَی
عَلَیْہِمْ یَخِرُّونَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا وَیَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ
کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا وَیَخِرُّونَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیدُہُمْ
خُشُوعًا} (الإسراء: ۱۰۷-۱۰۹)
’’کہہ دیجئے! تم
اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی اس
کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا
رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلاشک وشبہ پورا ہو کر رہنے والا ہے، وہ اپنی ٹھوڑیوں
کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑ تے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی‘ خشوع اور خضوع بڑھا
دیتا ہے۔‘‘
یعنی قرآن مجید سن کر ان پر اس قدر خشیت الٰہی اور رقت نفس طاری
ہوتی ہے کہ جس سے ان کی آنکھیں اشکبار، دل موم اور پیشانیاں رب کے حضور سجدہ ریز ہوجاتی
ہیں۔ اثر پذیری کا تذکرہ ایک جگہ ربُّ العالمین نے ان الفاظ میں کیا ہے:
{وَإِذَا سَمِعُوا
مَا اُنْزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی اَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا
مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ}(المائدۃ: ۸۳)
’’جب وہ رسول کی
طرف نازل کردہ (کلام)کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں‘
اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے
پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
اس مبارک کلام کی تأثیر کا تذکرہ ایک اور مقام پر بایں الفاظ
فرمایا:
{اللَّہُ نَزَّلَ
اَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِینَ
یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَی ذِکْرِ اللَّہِ
ذَلِکَ ہُدَی اللَّہِ یَہْدِی بِہِ مَنْ یَشَاء ُ وَمَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَمَا لَہُ
مِنْ ہَادٍ} (الزمر: ۲۳)
’’اللہ تعالیٰ نے
بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی
ہوئی آیتوں کی ہے، جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے
ہیں‘ آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں، یہ ہے اللہ
تعالیٰ کی ہدایت جس کے ذریعہ جسے چاہے راہ راست پر لگا دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ
ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں۔‘‘
تلاوت قرآن کی اثر انگیزی کا آنکھوں دیکھا حال سیدنا عبد اللہ
بن مسعودt یوں
نقل فرماتے ہیں:
مجھ سے نبی کریمe نے
ارشاد فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کو قرآن
پڑھ کر سناؤں جبکہ قرآن کا نزول آپ ہی پر ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، چنانچہ میں نے
سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی اور اس آیت کریمہ:
{فَکَیْفَ إِذَا
جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا
بِکَ عَلَی ہٰؤُلَاء ِ شَہِیدًا} (النساء: ۴۱)
’’پس کیا حال ہوگا
جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں
گے۔‘‘
اس پر آپ کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ آپe فرمارہے
تھے:
’’بس کرو۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘ (صحیح
بخاری: ۵۰۵۰)
یہی حال آپ کے صحابہ کرام کا تھا کہ وہ نہایت
ہی سوز سے تلاوت قرآن پا ک کرتے خود اس سے متأثر ہوتے اور دیگر سامعین کو بھی مسحور
کردیتے۔ چنانچہ مکی دور میں سیدنا ابو بکرt کا ایک نہایت ہی بے مثال واقعہ امام بخاریa نے
نقل فرمایا ہے جس میں تلاوت قرآن سے متعلق ان کے یہ الفاظ ہمیں محو حیرت واستعجاب میں
ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ فرماتے ہیں:
[ثم بدأ لأبی بکر
فابتنی مسجدا بفناء دارہ، وکان یصلی فیہ، ویقرأ القرآن فینقذف علیہ نساء المشرکین
وأبناؤھم، وھم یعجبون منہ وینظرون إلیہ، وکان أبوبکر رجلا بکاء، لا یملک عینیہ إذا
قرأ القرآن۔]
سیدنا ابو بکرt نے
اپنے مکان کا ایک حصہ نماز کے لیے خاص کردیا۔ جس میں نماز ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت
کرتے۔ جسے سن کر مشرکین مکہ کی عورتیں اور بچے ان پر ٹوٹ پڑتے۔ ان کی رقت آمیز تلاوت
سے محظوظ ہوتے اور اسے غایت درجہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے۔ بات دراصل یہ تھی کہ
سیدنا ابو بکرt نہایت
ہی نرم دل انسان تھے۔ تلاوت قرآن کے وقت اپنی آنکھوں پر قابو نہ رکھ پاتے اور وہ بے
اختیار بہہ پڑتیں۔‘‘ (صحیح بخاری: ۳۹۰۵)
انسان ہی پر بس نہیں بلکہ اگر یہ مبارک آیات جمادات پر نازل
ہوتیں تو وہ بھی اس کے عظیم اثرات کو قبول کئے بغیر نہ رہتے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
{لَوْ اَنْزَلْنَا
ہَذَا الْقُرْآَنَ عَلَی جَبَلٍ لَرَاَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَةِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ
یَتَفَکَّرُونَ} (الحشر: ۲۱)
’’اگر ہم اس قرآن
کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا‘
ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں۔‘‘
تلاوت قرآن سے سکینت اور فرشتوں کا
نزول:
تلاوت قرآن وہ مبارک پسندیدہ عمل ہے جس کے سننے کے لیے نہ صرف
سلیم الطبع انس وجن مضطرب اور بے چین رہتے ہیں بلکہ آسمان سے فرشتے بھی اتر آتے ہیں۔
جیسا کہ سیدنا براء بن عازبt ایک
صحابی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
[قرأ رجل الکھف
وفی الدار الدابة، فجعلت تنفر، فسلم فإذا ضبابة أو سحابة غشیتہ، فذکرہ للنبیﷺ فقال:
إقرأ فلان! فإنھا السکینة نزلت للقرآن، أو تنزلت للقرآن۔] (صحیح بخاری:
۳۶۱۴، وصحیح مسلم: ۲۴۱)
ایک صحابی (تہجد کی نماز میں) سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک گھر ہی
میں بندھا ہوا ایک جانور (گھوڑا) بدکنے لگا، سلام پھیرنے کے بعد نظر دوڑائی تو اوپر
بادل جیسا ایک ٹکڑا نظر آیا۔ جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا۔ (صبح ہونے کے بعد) اس واقعہ
کا تذکرہ انہوں نے نبی کریمe سے
کیا۔ جس پر آپ نے فرمایا: اے فلاں! تم اپنی تلاوت جاری رکھو۔ یہ سکینت تھی جو قرآن
کی تلاوت کی وجہ سے آسمان سے اتری تھی۔
حافظ ابن حجرa فرماتے
ہیں کہ
’’سکینت سے مراد فرشتے ہیں جو آسمان سے قرآن سننے کے لیے اترتے ہیں۔‘‘ (بخاری:
۱/۱۳۳، وشرح نووی لمسلم: ۶/۸۲)
اس واقعہ سے ملتا جلتا سیدنا اسید بن حضیرt کا
واقعہ بھی ہے کہ وہ رات میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت فرما رہے تھے کہ
ان کا گھوڑا جو ان کے فرزند یحییٰ کے قریب ہی بندھا ہواتھا بدکنے لگا۔ خاموش ہونے
پر وہ بھی پر سکون ہوگیا۔ یہ عمل بار بار ہوا۔ اس لیے حضرت اسیدt نے
تلاوت موقوف فرمادی اور باہر نکل کر آسمان کی طرف نظراُٹھائی تو بادل کا ایک ٹکڑا نظر
آیا جس میں قندیلیں روشن تھیں۔ نبیe سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے
جو تمہاری تلاوت سننے کے لیے تمہارے قریب آئے تھے۔ اگر تم تلاوت جاری رکھتے تو وہ فرشتے
بھی اسی طرح صبح تک ٹھہرے رہتے اور لوگ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔ (صحیح بخاری معلقا:
۵۰۱۸، وصحیح مسلم مرفوعا: ۲۴۲)
تلاوت قرآن کا اجر وثواب:
ربُّ العالمین اپنے اس عظیم ترین کلام کی تلاوت پر اجر جزیل
سے نوازتا ہے۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودt سے روایت ہے کہ نبی کریمe نے
ارشاد فرمایا:
’’جو شخص کلام اللہ
کا ایک حرف پڑہے گا ربُّ العالمین اس کے ہر ہر حرف پر ایک نیکی عنایت کریگا۔ جو زیادہ
گنا بڑھ کر دس نیکیاں بن جائیں گی۔ آپe نے
فرمایا: میں نہیں کہتا کہ (الم) ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے‘ لام ایک حرف ہے اور
میم ایک حرف ہے۔‘‘ (ترمذی: ۲۸۳۵)
تلاوت قرآن کا اہتمام کر نے والے کا
مقام:
جن لوگوں کو قرآن مجید سے دلی لگاؤ ہے وہ اس کی تلاوت کے بغیر
سکون پاہی نہیں سکتے۔ اسی لیے باری تعالیٰ ایسے لوگوں کے اجر کو بھی بڑھا دیتا ہے۔
جیسا کہ سیدہ عائشہr کی
حدیث میں ہے، آپe نے
فرمایا:
’’جو شخص قرآن میں
ماہر ہے وہ معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا، اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر بامشقت پڑھتا ہے
اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۴۹۳۷، صحیح مسلم: ۷۹۸)
ایسے لوگوں کا مقام دنیا وآخرت دونوں جگہ اعلیٰ وارفع ہوگا۔
جیسا کہ حضرت نافع بن عبد الحارث کے اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے جو ان کے اور امیر المومنین
سیدنا عمر بن الخطابt کے
درمیان پیش آیا۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت نافع نے جو کہ مکہ کے والی تھے مکہ سے باہر جاتے
ہوئے انہوں نے اپنا نائب ایک غلام کو بنایا۔ جب سیدنا عمرt نے
اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا:
[إنہ قارئ لکتاب
اللہ عز و جل، و إنہ عالم بالفرائض، قال عمر: أما أن نبیکمﷺ قد قال: إن اللہ یرفع
بھذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین۔] (صحیح مسلم)
’’وہ قرآن اور فرائض
کا عالم ہے۔ اس پر سیدنا عمرt نے
کہا: نبی کریمe کا
ارشاد گرامی ہے: بیشک اللہ تعالیٰ اس قرآن کی وجہ سے کچھ لوگوں کو بلندی عطاء کریگا
اور کچھ کو پستی۔‘‘
آخرت میں ان کی عظمت ورفعت کا تذکرہ:
سیدنا عبد اللہ بن عمرw کی حدیث میں یوں کہا گیا ہے کہ صاحب قرآن سے قیامت کے
روز کہا جائے گا:
’’قرآن مجید کی تلاوت
اس طرح کرو جیسے دنیا میں ترتیل سے کرتے تھے اور بلند منازل طے کرتے جاؤ۔ جنت میں تمہارے
لیے وہ جگہ متعین ہوگی جس جگہ آخری آیت کی تلاوت پر تمہاری سانس رکے گی۔‘‘ (ترمذی:
۲۹۱۴، أبوداؤد: ۱۴۶۴، وغیرہ بسند حسن)
تلاوت قرآن گھر کو شیطان سے پاک کرنے کا واحد علاج:
در حقیقت ہمارے سامنے دوآوازیں ہیں، ہمیں اختیار ہے کہ ان میں
سے جس آواز کو ہم چاہیں اپنے گھر کی زینت بنائیں۔ مگر دونوں کے ظاہری اثرات اس گھر
پر ڈائرکٹ بغیر کسی واسطے کے پڑیں گے۔ جس میں ایک آواز گانا باجا وغیرہ ہے جو قرآن
کی ضد ہے۔ دوسری آواز تلاوت قرآن کی ہے۔
سیدنا ابوہریرہt سے
منقول ہے کہ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا ہے:
[لا تجعلوا بیوتکم
مقابر، إن الشیطان ینفر من البیت الذی یقرأ فیہ سورة البقرة۔] (صحیح مسلم)
’’اپنے گھروں کو
قبرستان نہ بناؤ، بیشک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی
جاتی ہے۔‘‘
بلکہ اگر کوئی شخص اس عظیم سورت کی آخری دو آیتوں کو رات میں
پڑھ لے تو یہ اس کے لیے کفایت کر جائیں گی۔ جیسا کہ سیدنا ابن مسعودt کی
حدیث میں ہے:
[من قرأ بآیتین
من آخر سورة البقرة فی لیلة کفتاہ۔] (صحیح بخاری)
’’جو شخص سورۃ البقرہ
کی آخری دو آیتوں کو رات میں پڑھ لے تو وہ اس کو کفایت کریں گی۔‘‘
کفایت کرنے کا مطلب ایک تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ دونوں آیتیں
قیام اللیل سے کفایت کریں گی۔ جبکہ ایک معنی یہ بھی لیا گیا ہے کہ شیطان کے شر سے۔
بلکہ ہر طرح کے شرور سے کفایت کریں گے۔ حافظ ابن حجرa فرماتے ہیں کہ ’’یہ تمام معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔‘‘
(فتح الباری: ۹/۵۶)
یہاں تک کہ اگر کوئی اس مبارک سورت کی صرف ایک آیت کریمہ:
آیت الکرسی سوتے وقت پڑھ لے تو ربُّ العالمین کی طرف سے اس کی
حفاظت کے لیے ایک نگران متعین ہوجائیگا جو اس شخص کی صبح تک حفاظت فرمائے گا اور شیطان
اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکے گا۔ (صحیح بخاری: ۲۳۱۱، معلقا۔ والنسائی فی الکبریٰ: ۱۰۷۹۵، موصولا بسند صحیح)
تلاوت قرآن موجب شفاعت ہے:
سیدنا ابو اما مہ الباہلیt کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریمe سے
سنا آپ فرما رہے تھے:
[إقرؤا القرآن فإنہ
یأتی یوم القیامۃ شفیعا لأصحابہ۔] (صحیح مسلم)
’’ قرآن مجید پڑھو
کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرے گا۔‘‘
الغرض تلاوت قرآن کے متعدد بیشمار فضائل ہیں۔ بلکہ ایسے لوگ
جو قرآن پڑھتے پڑھاتے ہوں وہ لوگوں میں سب سے افضل اور بہتریں ہیں۔ جیسا کہ سیدنا عثمان
بن عفانt کی
حدیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔ (صحیح بخاری: ۵۰۲۷)
اس لیے کثر ت سے قرآن کی تلاوت کرنا اور اس پر مداومت اختیار
کرنا سعادت بخش زندگی کا موجب ہے۔ جس پر قائم رہنا صاحب عزیمت شخص کے لیے چنداں مشکل
نہیں۔ اللہ ربُّ العالمین ہم سب کو اس کا اہل بنائے آمین۔
No comments:
Post a Comment