قادیانیت میں فرشتوں کا تصور
تحریر: جناب مولانا عبیداللہ لطیف
جب برصغیر پاک و
ہند میں صلیبی انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں داخل ہو کر ایک سازش کے ذریعے مسلمانوں
کی ہزار سالہ حکومت ختم کر کے نا جائز طور پر قبضہ کیا تو اس قبضہ کے خلاف سلفی العقیدہ
مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کر دیا۔ ایسی صورتحال میں مسلمانوں
میں سے جہادی جذبے کو ختم کرنے اور اصل اسلامی تعلیمات کا حلیہ بگاڑنے کے لیے انگریزوں
کو کسی ایسے ایجنٹ کی ضرورت تھی جو نہ صرف انگریزوں کی مکمل حمایت اور غلامی کو دین
کا جزو قرار دے بلکہ اسلامی تعلیمات میں مکمل طور پر بگاڑ پیدا کر کے جہادی تگ و تاز
کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس مقصد کے لیے انگریزوں کی نظر کرم ضلع گوردا
اسپور کے قصبہ قادیاں میں مقیم ایک انتہائی شاطر شخص مرزا قادیانی پر ٹھہری۔
مرزا قادیانی نے اپنی کتب میں جا بجا جہاد فی سبیل اللہ کی مخالفت
اور انگریز کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے‘ بلکہ یہاں تک لکھا کہ
’’سو میرا مذہب جس
کو میں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں: ایک یہ کہ خدا تعالیٰ
کی اطاعت کریں۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو‘ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے
اپنے سایہ میں پناہ دی ہو سو وہ سلطنت برطانیہ ہے۔‘‘ (شہادت القرآن صفحہ: ۸۴، مندرجہ روحانی خزائن جلد: ۶/۳۸۰)
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
تم میں سے جن کو دین و دیانت سے ہے پیار
اب اس کا فرض ہے کہ دل کر کے استوار
لوگوں کو بتائے کہ اب وقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، صفحہ: ۴۱ تا ۴۴ مندرجہ روحانی خزائن جلد:
۱۷/۷۷-۸۰)
اسی طرح اپنے بارے میں مرزا قادیانی انگریز گورنر کے نام خط
میں لکھتا ہے کہ:
’’صرف یہ التماس
ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک
وفا دار جانثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے
ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے
پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم‘ احتیاط‘ تحقیق
اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت
شدہ وفا داری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو خاص عنایت اور مہربانی
کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکار انگریز کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان
دینے سے فرق نہیں کیا اور نہ اب فرق ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد: ۲/۱۹۸، طبع چہارم۔
از مراز قادیانی)
محترم قارئین! قبل اس کے کہ آپ کے سامنے قادیانیت میں فرشتوں
کا تصور اور فرشتوں کے حوالے سے قادیانیت کا نظر یہ بیان کروں پہلے چند ایک حوالہ جات
پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ کس طرح مرزا قادیانی نے اسلام کے نام پر
ہی اسلام کے متضاد ایک نیا مذہب متعارف کروایا ہے؟ اسی بنا پر یہود و ہنود یا نصرانی
قادیانیت کو حقیقی اسلام کے طور پرلوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیںبلکہ قادیانیوں کے مکمل
طور پر ممد و معاون بھی بنتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے لیلتہ القدر کا ذکر کرتا ہوں
جو کہ ایک رات ہے جس کے بارے میں نبی کریمe نے فرمایا کہ:
[تَحَرَّوْا لَیْلَةَ
الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔] (بخاری: ۲۰۱۷)
’’شب قدر کو رمضان
کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
لیکن مرزا قادیانی اس کے برعکس لکھتا ہے کہ
’’وہ خدا تعالیٰ
سورۃ القدر میں بیان فرماتا ہے بلکہ مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ اس کا کلام اس کا نبی
لیلۃ القدر میں آسمان سے اتارا گیا ہے۔ یہ ایک مصلح اور مجدد جو خدا تعالیٰ کی طرف
سے آتا ہے وہ لیلۃ القدر میں ہی اترتا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے۔
لیلۃ القدر اس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سے
وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دور کرے۔ اس زمانہ
کا نام بطور استعارہ کے لیلۃ القدر رکھا گیا ہے مگر در حقیقت یہ رات نہیں ہے۔ یہ ایک
زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہمرنگ ہے۔‘‘ (فتح اسلام: ۵۴‘ روحانی خزائن: ۳/۳۲)
محترم قارئین!دین اسلام میں انسان جہاں نماز پڑھنے پر اجرو ثواب
کا مستحق ہوتا ہے وہیں پر نماز نہ پڑھنے پر عذاب کا حق دار ٹھہرتا ہے لیکن اس کے برعکس
مرزا قادیانی کے نزدیک نماز پڑھنی چاہیے لیکن اس کا اجر و ثواب ہے اور نہ پڑھنے پر
کوئی عذاب ہو گا۔اسی ضمن میں سیرت المہدی کی ایک روایت ملاحظہ فرمائیں جس میں مرزا
بشیر احمد ابن مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’مائی بھاگو اور
مائی بھانو صاحبہ قادرآباد نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیاں بذریعہ تحریر مجھ سے بیان
کیا کہ مائی بھاگو اور بھانو ایک دن مسیح موعود کو پنکھا ہلارہی تھیں کہ مائی بھانو
نے دریافت کیا کہ حضور! نماز پڑھنے کا ثواب ہوگا ؟ تو حضور نے فرمایا کہ ’’نہ ثواب
ہو گا نہ عذاب ہوگا ۔ پانچ وقت کی نماز نہیں چھوڑنی چاہیے۔‘‘ (سیرۃ المہدی:
۲/۱۹۵-۱۹۶‘ روایت نمبر: ۱۳۰۲)
اسی طرح فرشتوں کے نزول کے بارے میں بھی مرزا قادیانی کا اسلام
کے بالکل برعکس عقیدہ ہے کہ ملائکہ ستاروں کی ارواح ہیں‘ وہ ستاروں کے لئے جان کا حکم
رکھتے ہیں لہٰذا وہ ان ستاروں سے کبھی جدا نہیں ہوتے۔ جبریلu کا سورج کے ساتھ تعلق ہے وہ خود اور حقیقتاً زمین پر
نہیں اترتا‘ اس کے نزول کا جو قرآن و حدیث میں ذکر ہے اس سے اس کی تاثیر کا نزول مراد
ہے۔ جو شکل و صورت جبریل وغیرہ فرشتوں کی انبیاءu دیکھتے تھے وہ عکسی تصویر تھی جو انبیاءu کے
خیال میں مکمل ہو جاتی تھی۔ جیسے آئینہ دیکھنے والے کی صورت نظر آتی ہے۔ ملک الموت
بھی بذات خود زمین پر اتر کر روح قبض نہیں کرتا بلکہ اس کی تاثیر سے روحیںقبض ہوتی
ہیں۔ اپنے انہی عقائد کو بیان کرتے ہوئے مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:
’’پس اصل بات یہ
ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اس کی گرمی و روشنی زمین پر پھیل کر اپنے
خواص کے موافق زمین کی ہر ایک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح روحانیت سماویہ خواہ
ان کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یا دساتیر اور وید کی اصطلاحات کے
موافق ارواح کواکب سے ان کو نامزد کریں یا نہایت سیدھے اور مو احدانہ طریق سے ملائک
اللہ کا اُن کو لقب دیں۔ در حقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستقر اور قرار
گیر ہے۔ یہ حکمت کاملہ خداوند تعالیٰ زمین کی ہر ایک مستعد چیز کو اس کے کمال مطلوب
تک پہنچانے کے لیے یہ روحانیت خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ ظاہری خدمات بھی بجا لاتے ہیں
اور باطنی بھی‘ جیسے ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب‘ ماہتاب اور
دیگر سیاروں کا اثر ہے۔ ایسا ہی ہمارے دل دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب
ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں۔‘‘ (توضیح مرام، صفحہ:
۱۹-۲۰ مندرجہ روحانی خزائن: ۳/۶۷-۶۸)
مزید مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ
’’اب پھر میں ملائک
کے ذکر کی طرف غور کر کے کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے جس طرز سے ملائک کا حال بیان کیا
ہے وہ نہایت سیدھی اور قریب قیاس راہ ہے اور بجز اس کے ماننے کے انسان کو کچھ بن نہیں
پڑتا۔ قرآن شریف پر بدیدہ تعمق غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بلکہ جمیع کائنات
الارض کی تربیت ظاہری باطنی کے لیے بعض وسائط کا ہونا ضروری ہے اور بعض اشارات قرآنیہ
سے نہایت صفائی سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض وہ نفوس طیبہ جو ملائک سے موسوم ہیں ان کے
تعلقات طبقات سماویہ سے الگ الگ میں بعض اپنی تاثیرات خاصہ سے ہوا کے چلانے والے اور
بعض مینہ کے برسانے والے اور بعض اور تاثیرات کو اتارنے والے ہیں۔ پس اس میں کچھ شک
نہیں کہ بوجہ مناسبت نوری وہ نفوس طیبہ ان روشن اور نورانی ستاروں سے تعلق رکھتے ہوں
گے کہ جو آسمانوں میں پائے جاتے ہیں۔ مگر اس تعلق کو ایسا نہیں سمجھنا چاہیے کہ جیسے
زمین کا ہر ایک جاندار اپنے اندر جان رکھتا ہے بلکہ ان نفوس طیبہ کو بوجہ مناسبت اپنی
نورانیت اور روشنی کے جو روحانی طور پر انہیں حاصل ہے روشن ستاروں کے ساتھ ایک مجہول
الکنہ تعلق ہے۔ اور ایسا شدید تعلق ہے کہ اگر ان نفوس طیبہ کا ان ستاروں سے الگ ہونا
فرض کر لیا جائے تو پھر ان کے تمام قویٰ میں فرق پڑ جائے گا‘ انہی نفوس کے پوشیدہ ہاتھ
کے زور سے تمام ستارے اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ اور جیسے خدا تعالیٰ تمام عالم
کے لیے بطور جان کے ہے ایسا ہی (مگر اس جگہ تشبیہ کامل مراد نہیں) وہ نفوس نورانیہ
کواکب اور سیارات کے لیے جان کا ہی حکم رکھتے ہیں اور ان کے جدا ہونے سے ان کی حالت
وجودیہ میں بکلی فساد راہ پا جانا لازمی و
ضروری امر ہے۔‘‘ (توضیح مراسم، صفحہ: ۲۲‘ مندرجہ روحانی خزائن، ۳/۷۰)
آگے چل کر مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے کہ
’’قرآن شریف سے
ثابت ہے کہ یہ سیارات اور کواکب اپنے اپنے قالبوں کے متعلق ایک ایک روح رکھتے ہیں جن
کو نفوس کواکب سے بھی نامزد کر سکتے ہیں اور جیسے کواکب اور سیاروں میں با اعتبار ان
کے قالبوں کے طرح طرح کے خواص پائے جاتے ہیں جو زمین کی ہر ایک چیز پر حسب استعداد
اثر ڈال رہے ہیں ایسا ہی ان کے نفوس نورانیہ میں بھی انواع و اقسام کے خواص ہیں جو
باذن حکیم مطلق کائنات الارض کے باطن پر اپنا اثر ڈالتے ہیں اوریہی نفوس نورانیہ کامل بندوں پر بشکل جسمانی متشکل ہو
کر ظاہر ہو جاتے ہیں اور بشری صورت سے متمثل ہو کر دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ (توضیح مرام،
صفحہ: ۲۳-۲۴‘ مندرجہ روحانی خزائن: ۳/۷۱-۷۲)
محترم قارئین!یہ تو تھاقادیانی مذہب میں دین اسلام اور امت مسلمہ
کے برعکس فرشتوںکا تصور اب کچھ تذکرہ مرزا قادیانی پر نازل ہونے والے فرشتوں کا بھی
کرنا چاہتا ہوںوہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
قادیانی فرشتے:
ٹیچی ٹیچی:
’’( نشان ۱۴۷‘ ایک
دفعہ مارچ ۱۹۰۵ء کے مہینے میں بوقت قلت آمدنی لنگرخانہ کے مصارف میں بہت دقت ہوئی کیوں
کہ کثرت سے مہمانوں کی آمد تھی اوراس کے مقابل پر روپیہ کی آمدنی کم، اس لیے دعا کی
گئی۔ ۵ مارچ ۱۹۰۵ء کو میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو فرشتہ معلوم ہوتا تھا میرے سامنے
آیا اور بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔ میںنے اس کا نام پوچھا، اس نے کہا: نام
کچھ نہیں ،میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔ اس نے کہا : میرا نام ہے : ٹیچی ٹیچی۔ ٹیچی
ٹیچی پنجابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں۔ یعنی عین ضرورت کے وقت پر آنے والا۔ تب
میری آنکھ کھل گئی۔ بعد اس کے خدا تعالیٰ کی طرف سے کیا ڈاک کے ذریعے سے اور کیا براہ
راست لوگوں کے ہاتھوں سے اس قدر مالی فتوحات ہوئیں جن کا وہم و گمان بھی نہ تھا اور
کئی ہزار روپیہ آگیا۔‘‘ (حقیقت الوحی صفحہ ۳۴۶، مندرجہ روحانی خزائن: ۲۲/۳۴۶)
خیراتی اور شیر علی:
’’من جملہ نشانات
کے ،ایک نشان یہ ہے کہ تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گزر گیا ہے کہ میں گورداسپور
میں تھا کہ مجھے خواب آئی کہ میں ایک جگہ چارپائی پر بیٹھا ہوں اور اسی چارپائی پر
بائیں طرف میرے مولوی عبداﷲ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں، جن کی اولاد اب امرتسر میں
رہتی ہے۔اتنے میں میرے دل میں محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مولوی
صاحب موصوف کو چارپائی سے نیچے اتاردوں۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب
کی جگہ کی طرف رجوع کیا، یعنی جس حصہ چارپائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اس حصے
میں میں نے بیٹھنا چاہا تب انہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے کھسک کر پائنتی کی
طرف چندانگلی کے فاصلے پر بیٹھے تب پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو
اٹھا دوں ۔ پھر میں ان کی طرف جھکا تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر چند انگلی کی مقدار
پر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کو اور زیادہ پائنتی
کی طرف کیا جائے ۔ تب پھر وہ چند انگلی پائنتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے۔ القصہ میں
ایسا ہی ان کی طرف کھسکتا گیا اور وہ پائنتی کی طرف کھسکتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کو آخر
کا ر چار پائی پر سے اترنا پڑا اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی وغیرہ
کچھ بھی نہ تھی اتر کر بیٹھ گئے۔
اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے ۔ ایک کا نام خیراتی تھا ، وہ بھی ان کے ساتھ
زمین پر بیٹھ گئے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا۔۔۔۔۔۔ اور انہی دنوں میں شاید اس رات
سے اول یا اس را ت کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جومجھے فرشتہ معلوم
ہوتا ہے ،مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیرعلی ہے، اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر
میری آنکھیں نکال لی ہیں اور صاف کی ہیں۔‘‘ (تریاق القلوب صفحہ ۲۲۴-۲۲۵‘ مندرجہ روحانی
خزائن: ۱۵/۳۵۱-۳۵۲)
آئل:
[جَآئَ نِیْ آئِلٌ
وَاخْتَارَ وَاَدَارَ اِصْبَعَہُ وَاَشَارَ یَعْصِمُکَ اللّٰہُ مِنَ الْعِدَا وََیَسْطُوْا
بِکُلِّ مَنْ سَطَا۔] آئل جبرائیل ہے
فرشتہ بشارت دینے والا۔
ترجمہ: ’’آیا میرے پاس آئل اور اس نے اختیار کیا(یعنی چن لیا تجھ کو) اور گھمایا
اس نے اپنی انگلی کو اور اشارہ کیا کہ خدا تجھے دشمنوں سے بچاوے گا اورٹوٹ کر پڑے گا
اس شخص پر جو تجھ پر اچھلا۔ فرمایا آئل اصل میں ایالت سے ہے۔ یعنی اصلاح کرنے والا
جو مظلوم کوظالم سے بچاتا ہے۔‘‘
یہاں جبرائیل نہیں کہاآئل کہا‘ اس لفظ کی حکمت یہی ہے کہ وہ
دلالت کرے کہ مظلوم کو ظالموں سے بچاوے اس لیے فرشتہ کانام ہی آئل رکھ دیا۔ پھر اس
نے انگلی ہلائی کہ چاروں طرف کے دشمن اور اشارہ کیا کہ یعصمک اﷲ من العداء وغیرہ۔
یہ بھی اس سے پہلے الہام سے ملتا ہے : اِنَّہُ کَرِیْمٌ تَمَشّٰی اَمَامَک َوَعَادٰی ’’وہ کریم ہے تیرے آگے آگے چلتا ہے جس نے تیری عداوت کی اس
نے اس کی عداوت کی۔‘‘ چونکہ آئل کا لفظ لغت میں نہ مل سکتا ہوگا یا زبان میں کم مستعمل
ہوتا ہوگا اس لیے صاحب الہام نے خود ہی اس کی تفصیل کر دی ہے۔‘‘ (بحوالہ تذکرہ صفحہ
۳۶۹ طبع چہارم )
درشنی:
’’ایک فرشتہ کو میں
نے ۲۰ برس کے نوجوان کی شکل میں دیکھا ، صورت اس کی مثل انگریزوں کے تھی اور میز کرسی
لگائے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ بہت ہی خوب صورت ہیں۔ اس نے کہا: ہاں
میں درشنی آدمی ہوں۔‘‘ (ملفوظات مرزا قادیانی
جلد چہارم صفحہ ۶۹)
حفیظ:
صوفی نبی بخش صاحب لاہوری نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود نے
فرمایا:
’’ بڑے مرزا صاحب
پر ایک مقدمہ تھا۔ میں نے دعا کی تو ایک فرشتہ مجھے خواب میں ملا جو چھوٹے لڑکے کی
شکل میں تھا۔ میں نے پوچھا تمھارا کیا نام ہے۔ وہ کہنے لگا ، میرا نام حفیظ ہے۔ پھر
وہ مقدمہ رفع دفع ہو گیا۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ وحی و الہامات صفحہ ۶۴۳طبع چہارم)
مٹھن لال:
’’فرمایا : نصف رات
سے فجر تک مولوی عبدالکریم کے لیے دعاکی گئی ۔ صبح (کی نماز) کے بعد جب سویا تو یہ
خواب آئی۔۔۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ عبداﷲ سنوری میرے پاس آیا ہے اور وہ ایک کاغذ پیش کرکے
کہتا ہے کہ اس کاغذ پر میں نے حاکم سے دستخط کرانا ہے اور جلدی جانا ہے ۔ میری عورت
سخت بیمار ہے اور کوئی مجھے پوچھتا نہیں۔ دستخط نہیں ہوتے۔ اس وقت میں نے عبداﷲ کے
چہرے کی طرف دیکھا تو زرد رنگ اور سخت گھبراہٹ اس کے چہرہ پر ٹپک رہی ہے۔ میں نے اس
سے کہا کہ یہ لوگ روکھے ہوتے ہیں ،نہ کسی کی سفارش مانیں اور نہ کسی کی شفاعت‘ میں
تیرا کاغذ لے جاتا ہوں۔ آگے جب کاغذ لے کر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال
نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اکسٹرا اسسٹنٹ تھا، کرسی پر بیٹھا ہو اکچھ کام کر رہا
ہے اور گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں ۔ میں نے جا کر کاغذ اس کو دیا ور کہا کہ یہ ایک
میرا دوست ہے اور پرانا دوست ہے اور واقف ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔اس نے بلا تامل اسی
وقت لے کر دستخط کر دیے۔ پھر میں نے واپس آ کر وہ کاغذ ایک شخص کو دیا اور کہا خبردار
ہوش سے پکڑو ابھی دستخط کیے گئے ہیں اور پوچھا کہ عبداﷲ کہاں ہے۔ انھوں نے کہا کہیں
باہر گیا ہے۔ بعد اس کے آنکھ کھل گئی اور ساتھ پھر غنودگی کی حالت ہو گئی۔ تب میں نے
دیکھا کہ اس وقت میں کہتا ہوں، مقبول کو بلاؤ اس کے کاغذ پر دستخط ہو گئے ہیں۔‘‘
یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے ملائک طرح طرح کے تمثلات اختیار کر لیا کرتے ہیں۔
مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ تھا۔‘‘ (تذکرہ: ۴۷۳-۴۷۴‘ طبع چہارم۔ از مرزا قادیانی)
قادیانیوں کا گالی باز فرشتہ:۔
محترم قارئین! اب آپ کے سامنے پیش خدمت ہے قادیانیوں کا گالی باز فرشتہ۔ چنانچہ قادیانی
اخبار الفضل میں لکھا ہے کہ
’’خلیفۃالمسیح اول
کو رام موہن رائے کی ایک کتاب پڑھنے سے منع کیا گیا‘ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کے ذریعے الہام سے کہاکہ نور الدین کو سختی کے ساتھ
اس کتاب کے پڑھنے سے منع کر دو‘ فرشتہ نے اس اشارہ کو پا کر ایک فقرہ بنایا اور بڑی
موٹی گالی دے کر کہا کہ’’اس ۔۔۔۔۔۔ دی کتاب نہیں پڑھنی‘‘ یہ بات یفعلون مایومنون کے
برخلاف نہیں ہے کیونکہ فرشتے بعض دفعہ احکام پا کر ایک جائز حد تک ان میں اجتہاد اور
رد وکد کرنے کے مجاز ہیں۔‘‘ (اخبار الفضل، ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۶ء صفحہ۷)
قارئین کرام! اخبار الفضل کی اس تحریر سے جہاں پر اس بات کا
پتہ چلا کہ ان کا فرشتہ بھی موٹی موٹی گالیاں نکالتا ہے وہیں پر ان کے اس عقیدے سے
بھی روشناسی ہوئی کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے پیغامات میں اپنی مرضی سے
ردوبدل کا بھی اختیار حاصل ہے جو کہ مکمل طور پر دین اسلام سے متصادم عقیدہ ہے ۔
محترم قارئین! جیسا کہ میں نے ابتداء میں بتایا ہے کہ مرزا قادیانی
کا مقصدحقیقی اسلام کے نام پر دین اسلام کے مدمقابل ایک ایسے مذہب کا احیاء کرنا تھا
جس کا دین اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی کے نزدیک
یاجوج ماجوج سے مراد روس اور انگریز ہیں، دجال کے گدھے سے مراد ریل گاڑی اور عیسیٰ
ابن مریم سے مراد مرزا قادیانی ابن چراغ بی بی خوداور دو زرد چادروں سے مراد دو بیماریاں
جو مرزا قادیانی کو لاحق تھیں جن کے بارے میں خود لکھتا ہے کہ:
’’احادیث میں ہے
کہ مسیح موعود دو زرد چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپر کے حصے میں اور دوسری
چادر بدن کے نیچے کے حصے میں۔ سو میں نے کہا کہ یہ اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود
دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ بوجہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری
ہے اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب
اور دستوں کی بیماری۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین مندرجہ روحانی خزائن: ۲۰/۴۶)
قارئین کرام! قابل غور بات تو یہ ہے کہ حدیث میں دو زرد چادروں
کا ذکر ہوا ہے اور مرزا شکار ہے تین بیماریوں کا۔ ایک سر کی بیماری دوسری کثرت پیشاب
اور تیسری دستوں کی بیماری۔ کثرت پیشاب کا بھی یہ حال کہ بعض دفعہ دن میں سو سو مرتبہ
پیشاب کرتا۔ یہ بھی میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ مرزا قادیانی خود لکھتا ہے کہ:
’’مجھے کئی سال سے
ذیابیطس کی بیماری ہے‘ پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفہ ایک
ایک دن میں پیشاب آتا ہے۔‘‘ (نسیم دعوت مندرجہ روحانی خزائن: ۱۹/۴۳۴)
No comments:
Post a Comment