مثالی مسلمان کا تصور
تحریر: جناب مولانا امیر افضل اعوان
انسان دنیا میں
بھجوائے جانے کی مصلحت کو فراموش کرکے آج اس عارضی زندگی اور فانی دنیا کو ہی سب کچھ
سمجھ بیٹھا ہے۔ اس سوچ اور نظریہ نے ایک طرف تو اسے اسلامی تعلیمات سے دور کردیا ہے
تو دوسری جانب وہ باطل قوتوں کے ہاتھ کا کھلونا بلکہ کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے۔ جس
کی وجہ سے آج اسلامی معاشرہ اپنی حقیقی روح سے مطابقت نہیںرکھتا‘ اس دو رنگی کی وجہ
سے دیگر ادیان سے تعلق رکھنے والے اسلام کی حقیقی شکل بھی سمجھ نہیں پارہے۔ کیوں کہ
غیر مسلموں کے نزدیک اسلام وہ نہیں جو قرآن و حدیث کی شکل میں موجود ہے بلکہ وہ تو
مسلمانوں کے کردار و عمل اور دینی تعلیمات کے خود ان پر اطلاق کو ہی اسلام سمجھتے ہیں۔
اس لئے ہم اپنے کردار و عمل کے تضاد کے باعث ایک تو غیر مسلموں کو وہ صحیح پیغام نہیں
پہنچا پا رہے جو کہ تبلیغ کی صورت میں بحیثیت محمدی ہمارا فرض اولین ہے۔ اس کے ساتھ
ساتھ اسلامی تعلیمات سے رو گرادانی کے سبب ہم خود اپنے ہاتھوں اپنی دنیا اور آخرت
تباہ کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔
قرآن و حدیث کا مطالعہ کیاجائے تو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ایک
مثالی مسلمان کا نقشہ اورنمونہ کیا ہوتا ہے، بالخصوص سورۃ المومنون کی ابتدائی
10آیات مبارکہ میں مثالی مسلمان کی پوری طرح منظر کشی کی گئی ہے۔
ہمارے پیارے نبی e کی
حیات مبارکہ بھی انہی آیات کی تفسیر ہے۔ ان آیات کے حوالہ سے ایک حدیث میں اس معیار
پر پورا اترنے والے مسلمان کے لئے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ یہاں ہر بات بڑی وضاحت کے
ساتھ بیان کی گئی ہے کہ صحیح معنوں میںحقیقی و مثالی مسلمان وہ ہے کہ اللہ اور اس کے
رسول کے ہاں پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کا مفید شہری بھی ہو۔ یہ ہدایت اس لئے
بھی کی گئی ہے کہ کسی ابہام کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے مگر افسوس کہ ہم اس کھلی ہدایت
کے باوجود گمراہی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ خود کو مسلمان کہلاتے اورحق و توحید
کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ہم عملاًباطل کی پیروی اور غیر اللہ کے حضور ناصیہ فرسائی سے باز نہیں آتے۔ اللہ اور اس کے رسول e کی
طرف دعوت دیتے ہیں مگر خود سینکڑوں اوہام و خرافات ، رسوم و روایات کے اسیر ہیں۔ حرام
و حلال کی تمیز اٹھ گئی ہے، اخلاق ومعاشرت میں فساد برپا ہے اور جن برائیوں کادنیا
میں وجود و تصورہے وہ سب ہمارے درمیان پھول پھل رہی ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں جن امور کی نشاندہی کی جاتی ہے ان میں اولین
تو مسلمان کا اپنے رب سے تعلق ہے اس کے بعد اپنے نفس سے‘ بعد ازاں اس کا تعلق اپنے
والدین سے ہے۔ اس کے بعدبالترتیب اپنی بیوی، اولاد، عزیز واقارب ، پڑوسیوں، بھائیوں
، دوستوں اور معاشرہ سے تعلق ہے۔ یہاں اگر کوئی مومن ایک پہلو سے بھی صرف نظر کرتا
ہے تو وہ مکمل اور مثالی مسلمان کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ یعنی ایک مسلمان اگر
نماز پنجگانہ کا پابند ہے‘ تمام دینی امور سرانجام دے رہا ہے مگر اپنے والدین سے اس
کا سلوک بہتر نہیں تو وہ اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ اگر ایک مومن عبادات کا تو بروقت
اہتمام کرتا ہے مگر اپنی اولاد ، بیوی، پڑوسیوں یا بھائیوں سے بہتر سلوک نہیں کرتا
یا قطع رحمی کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ بھی مثالی مسلمان کے پیمانے میں نہیں سما سکتا۔
اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول e کی نافرمانی کا مرتکب ہورہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ کہ
آ ج اس حوالہ سے زیادہ غفلت کے مرتکب وہ ہی افراد واشخاص ہورہے ہیںجو اسلام کی دعوت
و تبلیغ سے وابستہ اور جن کا کردار دوسروں
کے لئے مشعل راہ ہونا چاہیے۔
عصر حاضر میں ماحول کے اثرات سمیت دیگر بہت سی وجوہات کی بنا
پر مسلمان اپنے اصل سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ جب کہ دشمنان اسلام کی بھی یہی کوشش اورخواہش
ہے کہ امت محمدی انتشار، اختلاف اور گمراہی میں پڑی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا مسلمان
اپنے کردار و عمل سے اور کچھ بھی ہو مگر مسلمان نظر نہیں آتا چونکہ آج امت محمدی
کے پیروکار باطل قوتوں کے آلہ کا ر بن چکے ہیں اس لئے مسائل اور مصائب ان کے تعاقب
میں رہتے ہیں۔ ورنہ کسی بھی مومن کے لئے دنیا حقیقی معنوں میں دارالامتحان، دھوکے کا
گھر اور مکڑی کے جالے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ رسول کریم e نے اپنی دعوت و تبلیغ کے آغاز میں اس حوالہ سے خصوصی
توجہ دی‘ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام] کی ذات زمین پر چلتے پھرتے صحیفوں کی مانند تھی۔
وہ دنیا میں چار سو پھیل گئے اور صحابہ کرام] کی صورت میں لوگوں نے انسانیت کے ایسے
نابغۂ روزگار نمونے دیکھے کہ جو زندگی کے منفرد اور بے مثل نظام اور طریقہ کار کی
نما ئندگی کرتے تھے۔ آج انسانیت کو اورخاص طور پر مسلمانوں کو اس بات کی شدید ضرورت
ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو اس کی اصل روح کے مطابق خود پر لاگو کریں اور اپنی ذات
میں اسلام کا ایسا منفرد نمونہ پیش کریں جو دوسروں کے لئے سنگ میل ثابت ہو۔ کیوں کہ
اس کے بغیر زندگی میں خوشحالی و خوشگواری نہیں آسکتی اور نہ ہی اس کے بغیر انسانیت
کی بلند اور اعلیٰ اقدار فروغ پا سکتی ہیں۔
خیر امت ہونے کے سبب کیوں کہ دعوت و تبلیغ ہماری ذمہ داری ہے
مگر اغیار کی سازشوں کے نتیجہ میں ہم اس سے بھی دور ہوچکے ہیں۔ اگر اس جانب متوجہ ہوں
بھی تو ہمارے قول و فعل کا تضاد اور دین سے دوری اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاٹ ہے۔
اشاعت اسلام کی یہ رکاوٹ اس وقت دور ہوسکتی ہے کہ جب مسلمان اپنے قول و عمل سے اسلام
کی صحیح ترجمانی کریں۔ ان کی شخصیت اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائے، وہ ہر معاملہ
میں اللہ اور اس کے رسول e کی
اطاعت اور اسلامی حدود کی پابندی کریں۔ ان کے اخلاق اسلامی تعلیمات کا عکس ہوں، ان
کی معاشرت پر اسلامی چھاپ صاف نظر آئے، ان کی تہذیب و روایات عین اسلامی احکامات کے
مطابق ہوں۔ المختصر یہ کہ جو اسلامی تعلیمات کے علمبردار اور اقامت دین کے داعی ہوںاور
ہم دوسروں کو ایسے نظریات و عقائد، اصول و اعتقاد، آداب معاشرت، ضوابط سیاست اور ایسے
اخلاق و کردار کی دعوت دیتے ہیں جن سے خود ہماری اپنی زندگیاں یکسر عاری ہیں تو سوچیں
کہ ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن وسنت کے مطابق زندگی
گزارتے ہوئے ہم خود کو صحیح معنوں میں مثالی مسلمان بناسکتے ہیں‘ یقینا جو بھی اس پر
عمل کریں وہ ہی لوگ دنیا میں انقلاب کا باعث بن سکتے ہیں ورنہ جو خود اپنے آپ پر کنٹرول
نہیں رکھتے، جو خود اپنی ذات پر اللہ تعالیٰ کی حکومت قائم نہیں کر سکتے وہ اور کیا
کریں گے، وہ کیسے دنیا میں حق کا پیغام پہنچائیں گے اور کس طرح دوسروں کو دین حق کی
طرف راغب کریں گے؟ کیوں کہ یہودو نصاریٰ کی سازشوں کے جال میں پھنس کر خود کودنیا کے
مکر وفریب میں رنگ لینے کے بعد آج مسلم و غیر مسلم میں بہت کم فرق باقی رہ گیا ہے
جو کہ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔
No comments:
Post a Comment