اہل کشمیر سے اظہارِ یکجہتی
تحریر: جناب حافظ امیر حمزہ (سانگلہ
ہل)
مقبوضہ کشمیرکا
مسئلہ کشمیریوں کی مجاہدانہ جدوجہد آزادی کی بناپر اس وقت عالمی سطح پرانتہائی اہمیت
اختیار کر گیا ہے۔کشمیری عوام پر بھارت سرکار جو ظلم وستم کئی برسوںسے کرتی آرہی ہے،
وہ پوری دنیا پرچڑھتے سورج کی طرح عیاں ہے۔ مقبوضہ کشمیر برصغیرجنوبی ایشیاکے انتہائی
شمال مغرب میںواقع ہے۔ اس کا محل وقوع وسط ایشیااور جنوبی ایشیاکے درمیان انتہائی اہمیت
کا حامل ہے۔ اس کی سرحدیں بھارت،پاکستان ،افغانستان اور چین سے ملتی ہیں۔ اس کے شمال
مغرب میں افغانستان اورشمال میں چین کاعلاقہ سنکیانگ ہے۔مشرق میںتبت اور جنوب میںبھارت
کی ریاستیں واقع ہیں۔تنازع کشمیر کی ابتداء ۱۹۴۷ء میںبرصغیر پاک وہند کی غیر منصفانہ تقسیم سے ہوئی اس تقسیم کے سلسلے میں
برطانوی، بھارتی، پاکستانی اور کشمیری ارباب بست وکشاد نے بہت سے ایسے اقدامات کیے
جنہوں نے کشمیر کے بحران کو جنم دیا۔کشمیر کی حسین و جمیل وادی کوبھارت نے وہاں کے
رہنے والے باشندوں کے لیے جہنم زاربنارکھاہے۔ مقبوضہ کشمیرکا مسئلہ کشمیریوںکی مجاہدانہ
جدوجہدآزادی کی بناپر اس وقت عالمی سطح پرانتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔کشمیری عوام
پر بھارت سرکار جو ظلم وستم کئی برسوںسے کرتی آرہی ہے وہ پوری دنیا پر چمکتے دن کی
طرح عیاں ہے ،لیکن پھر بھی اہل کشمیر کابھارتی ظلم وستم سہنے کے باوجودبھارتی فوج کے
سامنے اپنے حق خودارادیت کے لیے تحریک آزادی کو فروغ دینا اورپاکستان کے حق میںنعرے
لگانایہ بہت بڑی جرأت اور بہادری کی بات ہے۔
کشمیر کے حل کے بارے میںفریقین کے رویے کو صحیح تناظرمیں
دیکھنے کے لیے،پاکستان اور بھارت کی پوزیشنوںمیںبنیادی عدم مطابقت کو سمجھنا ضروری
ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان کوبرصغیر کی تقسیم کے وقت ورثہ میںایک نہایت ہی کمزور،بکھری ہوئی
اورغیر منظم فوج ملی تھی، جس کاانحصارزیادہ تربرطانوی افسران پر تھااور انتظامی ڈھانچہ
بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔اس کے برعکس بھارت کو انتظامی اور فوجی لحاظ سے زبردست برتری
حاصل تھی۔ چنانچہ ۱۹۴۸ء کی محدود جنگ میں بھارتی فوج کشمیر کے اکثرحصہ پر قابض ہو
گئی اور پاکستانی افواج نسبتاکم اہمیت کے پہاڑی علاقوںکو ہی زیرنگیں لاسکیں۔ ابتداء
میںالحاق کو محض عارضی قدم قراردیتے ہوئے بھارت نے یہی موقف اپنایا کہ کشمیر کے مستقبل
کا فیصلہ کشمیری عوام، بین الاقوامی نگرانی میںمنعقدہ آزادانہ استصواب رائے سے کریں
گے لیکن بعد میں بھارت نے اپنایہ موقف بدل کر کشمیر کو اپنااٹوٹ انگ قرار دینا شروع
کر دیا۔پھر بھی بھارتی آئین کی شق ۳۷۰ کے تحت کشمیر کو ایک جدا گانہ حیثیت حاصل رہی ۔دوسری طرف جو
علاقہ پاکستان کے پاس تھااس میںآزادکشمیر حکومت تشکیل پائی لیکن عملًا یہ حکومت پاکستان
کے ماتحت رہی۔
چونکہ پاکستان کے کار پردازوں کوبھارت پر کبھی اعتماد نہیںرہااور
ایک قسم کاخوف بھی طاری رہا،اس لیے انہوں نے کوشش کی کہ کوئی تیسرا فریق مداخلت کر
کے مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد دے۔مقبوضہ کشمیر کے تنازعہ کی ابتداء میںہی یعنی ۱۹۴۷ء میں قائداعظم محمد علی جناحa نے
جو پاکستان کے پہلے گورنرجنرل تھے ،برطانیہ سے مداخلت کی درخواست کی کہ وہ اس مسئلہ
میں مداخلت کرے تاکہ دولت مشترکہ کے ممبر دو ممالک کے درمیان اختلافات طے ہو سکیں۔لیکن
بھارت کی ہٹ دھرمی کہ وہ کسی تیسری قوت کی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔
اس لیے کہ بھارت چاہتا تھا کہ یہ معاملہ جوں کا توں رہے۔ جو کہ اُس وقت سے لے کر آج
تک لٹکا ہوا ہے جبکہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کا حل نہیں چاہتا۔
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی تسلط کے خلاف ایک بھرپور تحریک آزادی
برپاہے، جس نے بھارتی حکومت کو مکمل طور پرمفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔برہان مظفر وانی
کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کے جوش اور جذبہ میں حیران کن تبدیلیاں آئی ہیں۔اب کشمیریوں
پربھارتی فوج جو کہ اسلحہ سے لیس ہے یعنی پوری قوت سے کشمیریوں پرظلم و ستم کر رہی
ہے لیکن پھر بھی کشمیری عوام ان کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سینہ تان کر کھڑے نظر آتے
ہیں اور بڑی بے باکی سے یہ اعلان کرر ہے ہیں کہ ’’کشمیر بنے گا … پاکستان‘‘، ’’پاکستان
کا مطلب کیا؟… لاالہ الااللہ‘‘ اور اس کااظہار کرتے ہوئے پوری دنیاکے مسلم ممالک کے
سربراہان کو جھنجوڑ رہے ہیں کہ کون ہے جو ہماری آوازسے آوازملائے اور ہمارے موقف
کی تائید کرتے ہوئے ہمارے قدم سے قدم ملاکر ہمارے حوصلوںکو جلابخشے اور ہماری آزادی
کے لیے ہمارے اوپر سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو چھوڑا کرہمیں بھی آزادی جیسی عظیم
نعمت دلوائے ۔
۵ فروری کادن ’’کشمیریوںسے اظہار یوم یکجہتی‘‘ ہم سے یہ مطالبہ
کرتا ہے کہ ہم پاکستانی عوام تمام مذہبی ،سیاسی اور تنظیمی اختلافات کو پس پشت ڈال
کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کریں،تا کہ تحریک آزادی کشمیر مزید مضبوط اور مستحکم
ہو اور کشمیری عوام جان لیں کہ پاکستان کا ہر بچہ، نوجوان اور بوڑھا کشمیری عوام کے
شانہ بشانہ کھڑے ہیں،کیونکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحa نے
فرمایا تھا: ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔‘‘
میں آخرمیں کشمیر کے باسیوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جو بھارتی
ظلم وستم سہنے اور گولیوں کانشانہ بننے کے باوجودپاکستان سے محبت کرتے ہوئے یہ کہہ
رہے ہیں کہ ’’ہم پاکستانی ہیں، ہمارا جینا مرنا پاکستان کے لیے ہے ۔‘‘
No comments:
Post a Comment