Thursday, May 16, 2019

Mazmoon05-07-2019


وارثانِ ممبر ومحراب کے نام

تحریر: جناب پروفیسر عتیق اللہ عمر
اہل حدیث یوتھ فورس پاکستان‘ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی ذیلی تنظیم ہے جو نوجوانانِ اہل حدیث کی تنظیم‘ تربیت اور تبلغ کے میدان میں تقریبا گذشتہ ۳۰ سالوں سے فعال ترین کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کی موجودہ مرکزی قیادت نے دیگر کئی ایک کاموں کے ساتھ ساتھ انتہائی مستحسن قدم ’’یوتھ مبلغین‘‘ کی تنظیم وتربیت کا بھی شروع کیا ہے جس میں قاری محمد الیاس سیالکوٹی‘ مظہر شہزاد سلفی‘ مولانا وقاص فاروقی اور مولانا اجمل شاکر کا کردار نمایاں ہے۔ گذشتہ دنوں ان کے یوتھ مبلغین کنونشن میں حاضری کا موقع ملا۔ قلت وقت کی بنا پر گذارشات مختصراً پیش کیں لیکن تشنگی برقرار رہی جسے قلم وقرطاس کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کروں گا۔
گذارشات: پیش کرتے ہوئے یہ فکر ضرور ذہن میں ہے کہ ہمارا مستقبل کا اسٹیج کیسا ہے؟ ہمارے منبر ومحراب کے وارث کون لوگ بن رہے ہیں؟ مولانا داؤد غزنوی‘ مولانا اسماعیل سلفی‘ مولانا شیخ الحدیث محمد عبداللہ‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید‘ مولانا حبیب الرحمن یزدانی‘ مولانا حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری‘ حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی‘ مولانا محمد حسین شیخوپوری S کی جگہ اور مسند پر بیٹھنے والے لوگ کون ہیں؟ آئندہ نسل کی اصلاح کا فریضہ کون لوگ سرانجام دینے جا رہے ہیں؟
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟!
لہٰذا چند ایک گذارشات پیش خدمت ہیں جن کا ہم سب بالخصوص یوتھ مبلغین کو خیال رکھنا ضروری ہے:
1      ذاتی مطالعہ وسیع کریں۔ قرآن وحدیث‘ بحر ذخار ہے جس قدر غوطہ زنی کریں گے علم وفن کے بیش قیمت موتی ہاتھ لگیں گے۔ کم از کم تفسیر القرآن‘ حدیث نبویہ‘ تاریخ اسلام‘ تاریخ اہل حدیث اور سیرۃ النبیe کے حوالہ سے ایک ایک مکمل اور ضخیم کتاب کا عمیق مطالعہ ضرور فرمائیں۔ ہر گفتگو اور خطاب سے پہلے ذکر بکثرت کریں اور کم از کم دو نوافل ضرور پڑھیں جن میں معافی اور عاجزی کا اظہار ہو کیونکہ ساتھ ہی ساتھ اللہ کی توفیق اور مدد بھی چاہیے۔
2      تقریر کی تیاری کے لیے خطبات ہی نہیں بلکہ مستند کتب کو زیر مطالعہ لائیں۔
3      خطاب کو موقع ومحل‘ جلسہ وکانفرنس کے عنوان اور حالات حاضرہ سے ہم آہنگ رکھیں۔
4      قرآن وحدیث کی مستند عربی عبارات اور حوالہ جات کو شعار بنائیں۔
5      خطاب بہتر سے بہتر بنانے کی تیاری‘ کوشش اور دعا ضرور کریں مگر مطمع نظر محض عوام کی داد نہ ہو بلکہ رضائے الٰہی رکھیں۔ اساتذہ سمجھاتے تھے کہ تقریر کرتے وقت تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑے ہیں تو بہت سارے مسائل کا حل نکل آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص بھی شامل حال ہو جاتی ہے۔
6      لطیفوں‘ چٹکلوں اور لا یعنی حکایات وروایات سے مکمل اجتناب کریں۔
7      اسلاف کے کردار اور خدمات کا تذکرہ لازمی کریں۔
8      مولانا محمد مدنیa نے ایک مرتبہ نصیحت فرماتے ہوئے کہا تھا کہ موضوع اور وعظ کوئی بھی ہو کوشش کریں کہ اس میں کسی نہ کسی حوالے سے توحید الٰہی کا ذکر لازمی ہو۔
9      تقریر ہمیشہ با وضو ہو کر کریں۔
0      جماعت ومسلک کی بھر پور نمائندگی کریں مگر عمومی گفتگو مثبت رہے اور حفظ مراتب بھی قائم رکھیں۔
!      ہمیشہ گفتگو کو عملی نتیجہ پر ختم کرنے کی کوشش کریں۔
@      جماعتوں اور انتظامیہ کو علمائے کرام کی ضروریات اور آمد ورفت کا یقینا خیال رکھنا چاہیے لیکن علمائے کرام کو اپنے مشن اور مسند کا لحاظ لازمی رہنا چاہیے۔
#      کسی جماعتی‘ غیر جماعتی حتی کہ غیر مسلکی شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
$      مقتدی اور مخاطبین سے نجی مجلسوں میں بھی اپنے مقام ومرتبہ کو قائم رکھیں۔
%      کسی ذات یا جماعت کا نام لے کر تنقید کرنے سے حتی الامکان گریز کریں۔
^      اشتہار‘ اسٹیکر‘ انتظامات اور کھانے کے نقائص نہ نکالیں ناگزیر ہو تو الفاظ کا چناؤ مناسب رکھیں۔
&      عمر‘ علم اور درجے کے لحاظ سے بڑے علماء کرام کا احترام ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
*      مخاطبین اور سامعین کے لیے واپسی پر‘ بعد میں ہدایت کی دعا لازمی کریں‘ یہی طریق نبویe ہے۔
(      لباس‘ انداز اور الفاظ ہمیشہ صاف ستھرے رکھیں۔
)      خلوص نیت‘ للہیت‘ استغناء اور استغفار کامیابی کی علامات ہیں۔
`      اپنی طرف سے فرضی واقعات جوڑ کر سنانے اور عوام الناس کو ہنسانا حدیث نبویe کے مطابق باعث ہلاکت ہے۔
~      پروگرام کم کر لیں لیکن جو وعدہ کیا ہو اسے نبھانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔
-      کبھی بھی کسی بڑی پیش کش پر وعدہ تبدیل نہ کریں۔
_      دین اسلام کی حقانیت‘ تبلیغ دین کی اہمیت اور علمائے کرام کا مقام ومرتبہ لازمی بیان کر کے نوجوان نسل کو اس راستے کی جانب مائل کریں۔
=      جماعتی اختلافات کو برسر منبر بیان کرنے سے کلیتاً اجتناب کریں۔
+      جونیئر خطباء کا تعارف اور حوصلہ افزائی ضرور فرمائیں۔
q      جماعتی کارکردگی کو عوام الناس کے سامنے لازمی مثبت انداز میں رکھیں۔
w      سفر وحضر میں فرائض کا خصوصی اہتمام کریں۔
e      غیر ضروری سیاسی گفتگو سے اجتناب کریں۔
r      اولین درجہ کے لوگ نظریات کو‘ دوسرے درجہ کے حامل واقعات کو جبکہ کم ترین ذہنیت کے مالک شخصیات کو موضوع بحث بناتے ہیں۔
t      ذاتی ونجی تنقید وتنقیص مجمع عام میں نہ کی جائے۔
y      عوام الناس کے ساتھ رویہ مشفقانہ اور عاجزانہ رکھیں۔
u      ذاتی ستائش سے حتی الامکان پرہیز کریں۔
i      عوامی گفتگو علمی بھی ہونی چاہیے لیکن عملی پہلو زیادہ اجاگر کریں۔
o      علمائے کرام کی غیبت کرنے والوں کی بھر پور حوصلہ شکنی کریں۔
p      جاہل کی بات کو حوصلے سے سننا عقل کی زکوٰۃ ہے۔
[      اخلاقی اور معاشرتی پہلوؤں کو لازمی اجاگر کریں۔
]      نماز تہجد وعظ کی تاثیر میں اضافے کا باعث ہے۔
Q      عوام الناس کو جماعتی آرگن ’’اہل حدیث‘‘ لگوانے کی ترغیب دیں تا کہ ان میں جماعتی شعور اجاگر ہو اور وہ جماعتی کام سے باخبر رہیں۔
W      جلسہ یا کانفرنس کرانے والوں کی بھر پور حوصلہ افزائی فرمائیں
E      دیئے گئے موضوع اور وقت کا ہمیشہ خیال رکھیں‘ اس سے عزت واحترام میں اضافہ ہوتا ہے۔ زیادہ نخرے کرنے سے بالآخر عزت میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ھٰذا ما عندی والله أعلم بالصواب!

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)