میری خوش دامن کا سفر آخرت
تحریر: جناب الشیخ مفتی حافظ
عبدالستار الحماد
ارشاد باری تعالیٰ
ہے: ’’ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔‘‘ (آل عمران)
اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ بشر کو اس عالم رنگ وبو میں ہمیشہ رہنے
کے لیے نہیں بھیجا‘ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
’’اے پیغمبر! ہم
نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا۔‘‘ (الانبیاء: ۳۴)
ان آیات کا تقاضا ہے کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے وہ اس جہاں سے
رخصت ہونے کے لیے آیا ہے لیکن اس دنیا سے جانے والے کچھ ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں
کہ ان کے جانے کے بعد وہ اہل دنیا کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور ان کی یادیں قلب وجگر
میں مستقل طور پر بسیرا کر لیتی ہیں۔ نیز ان کی سیرت وکردار کے بہت سے روشن پہلو ہم
جیسے بھولے بھٹکے مسافروں کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔
میرے محسن ومربی مولانا محمد یوسف آف راجووال (المتوفی ۲۰۱۴ء) کی اہلیہ اور میری خوش دامن بھی انہی میں سے ہیں جو مورخہ ۱۹ جنوری ۲۰۱۹ء کو جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئیں۔ انا للہ وانا
الیہ راجعون!
مرحومہ‘ عرصہ دراز سے دل کی مریضہ تھیں‘ شاید اس میں ان کمر
توڑ صدمات کا عمل دخل تھا جو انہوں نے اپنی زندگی میں برداشت کیے‘ پہلے ان کی ایک نیک
سیرت بیٹی فوت ہوئیں پھر جواں سال پاکباز بیٹا اللہ کو پیارا ہوا۔ اس کے بعد ماں کے
نقش قدم پر چلنے والی دوسری دختر نیک اختر جو میری شریکۂ حیات تھیں‘ اس نے داغ مفارقت
دیا۔ آخر میں آپ کے شوہر نامدار مولانا محمد یوسف a ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ ان یکے بعد دیگرے صدمات نے
آپ کو جسمانی طور پر بہت نڈھال کر دیا اور دل کی مریضہ بنا دیا لیکن انہوں نے اپنے
صدمات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ وہ زندگی میں کوہ استقامت ثابت ہوئیں۔ اس مقام
پر ہم اس بات کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ دل کی کارکردگی کے دو پہلو ہوتے
ہیں‘ ایک کا تعلق انسانی جسم سے ہے کہ دل اسے زندہ رکھنے کے لیے تازہ خون مہیا کرتا
ہے اور دوسرا پہلو انسانی روح سے ہے کہ سوچ وبچار اور بصیرت کے ذریعے روح کو تازہ غذا
مہیا کرتا ہے۔ رسول اللہe کے
درج ذیل فرمان میں اس بات کا قوی اشارہ ہے۔ آپe نے فرمایا:
’’خبردار! بدن میں
گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ
جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے‘ آگاہ رہو وہ دل ہے۔‘‘ (بخاری‘ الایمان: ۵۱)
اماں جان کو آنے والے مسلسل صدمات نے دل کے اس پہلو کو نڈھال
کیا جو انسانی بدن سے تعلق تھا‘ لیکن ان سے دل کا دوسرا پہلو یعنی روحانی کارکردگی
مجروح نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ اس اعتبار سے ان کا دل آخر وقت تک کام کرتا رہا‘ میں جب
بھی ملاقات کے لیے راجووال جاتا تو ان کا چہرہ ہشاش بشاش اور زبان ذکر الٰہی سے تر
دیکھتا‘ کسی قسم کا حرف شکایت نہ سن پاتا۔ مورخہ۱۶ جنوری بروز بدھ
ان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ان کے ذاتی معالج سے مشورہ کیا گیا تو انہوں نے لاہور
کارڈیالوجی لے جانے کا مشورہ دیا‘ چنانچہ انہیں داخل کرا دیا گیا۔ اس دوران ہوش وحواس
قائم رہے‘ نمازوں کی ادائیگی بھی بدستور جاری رہی‘ زبان سے اللہ کا ذکر اور تلاوت قرآن
جاری رہتی۔
۱۸ جنوری بروز جمعہ مغرب وعشاء کی نماز تیمم کے ساتھ اکٹھی ادا
کیں‘ اس کے بعد طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ان کے اصرار پر پانی سے وضوء کرایا گیا‘ بستر
علالت پر لیٹ کر ہاتھ سے اشارہ کرتی رہیں‘ دریافت کرنے پر بتایا کہ میں نے دو رکعت
ادا کی ہیں۔ ہونٹ بدستور حرکت کرتے رہے بلکہ سورۂ سجدہ کی درج ذیل آیت با آواز بلند
تلاوت کی:
’’پھر عرش پر مستوی
ہوا اس کے علاوہ تمہارا نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی سفارش کرنے والا‘ کیا تم نصیحت
نہیں پکڑتے ہو‘‘ (السجدہ: ۴)
خدمت گذار بیٹے پروفیسر عبیدالرحمن محسن کی تلقین سے کلمہ طیبہ
ادا کیا‘ پھر پیشانی پر پسینہ آیا‘ ہاتھ اوپر اٹھایا اور جان‘ جان آفریں کے حوالے کر
دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
ہمارے رجحان کے مطابق یہ حسن خاتمہ کی علامت ہے جیسا کہ رسول
اللہe کا
فرمان ہے:
’’مومن پیشانی کے
پسینے کے ساتھ فوت ہوتا ہے۔‘‘ (نسائی‘ الجنائز: ۱۸۳۰)
اس حدیث میں مومن کے لیے موت کی نشانی پسینہ بتایا گیا ہے‘ شاید
یہ پسینہ نزع روح کی شدت کی بناء پر ہوتا ہے تا کہ اس کے باقی ماندہ گناہ اس شدت کے
بدلہ میں صاف ہو جائیں اور وہ گناہوںسے پاک صاف ہو کر اپنے رب کے حضور پیش ہو۔ دعا
ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کی موت ہر مومن کو نصیب کرے۔ (آمین!)
میں نے ۱۸ جنوری بروز جمعہ پروگرام بنایا تھا کہ صبح بروز ہفتہ اماں جان
کی تیمار داری کے لیے لاہور جانا ہے‘ لیکن بندے کی تدبیر پر اللہ کی تقدیر غالب رہتی
ہے۔ مجھے رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب اطلاع ملی کہ اماں جان وفات پا چکی ہیں۔ صبح پتہ
چلا کہ جنازہ نماز عصر کے بعد چار بجے ہے‘ فوراً صبح کی نماز کے بعد اپنے عزیز واقارب
کو اطلاع دی اور اپنے بھائیوں‘ بیٹوں‘ بیٹیوں اور دیگر اقارب کو ساتھ لیا اور صبح دس
بجے کے قریب راجووال کے لیے عازم سفر ہوئے۔ راستہ میں ساہیوال کے سانحہ کی وجہ سے کچھ
رکاوٹ پیدا ہوئی تا ہم اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ہم ظہر کے بعد راجووال پہنچ گئے۔
وہاں جا کر پتہ چلا کہ اماں جان کی چارپائی گھر کی بجائے مدرسہ کی عمارت کے درمیان
صحن میں رکھی ہوئی ہے وہاں عورتوں کا بہت ہجوم تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ باری
تعالیٰ ہم نے اماں جان کا ِآخری دیدار کرنا ہے‘ اس کے لیے کوئی سبیل پیدا فرما‘ اس
دوران بڑی بیٹی نے مجھے آواز دی‘ میں نے محمد حماد اور احمد حماد دونوں بیٹوں کو ساتھ
لیا اور اماں جی کے جسد خاکی کی زیارت کے لیے مدرسہ کے صحن میں پہنچ گئے۔ دیکھا کہ
اماں جان کا چہرہ پھول کی طرح کھلا ہوا اور اس سے نور پھوٹ رہا تھا۔ محبت وعقیدت کے
ساتھ پیشانی کو بوسہ دیا کیونکہ وہ بھی زندگی میں ملاقات کے وقت میری پیشانی کو محبت
وپیار سے چوما کرتی تھیں۔ بیٹوں نے بھی اپنی نانی اماں کے ماتھے کو بوسہ دیا‘ زیارت
کے وقت درج ذیل آیت کریمہ میرے دل ودماغ میں گردش کرنے لگی:
’’اے اطمینان پانے
والی روح! تو اپنے رب کی طرف لوٹ جا‘ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی‘ تو میرے ممتاز
بندوں میں داخل ہو جا اور تو میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘ (الفجر: ۲۷-۲۹)
مسجد میں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ مسجد کی وسیع وعریض عمارت
بھی اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھی۔ نماز عصر کے فوراً بعد جنازہ اٹھایا گیا اور
راجووال نئی آبادی کے ایک کھلے میدان میں اسے رکھ دیا گیا۔ پروفیسر عبیدالرحمن محسن
جنہوں نے آخری وقت تک خدمت گذاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا‘ انہوں نے نہایت
خشوع وخضوع اور اپنے رب کے سامنے خوب عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی امی
جان کا جنازہ پڑھایا۔ جنازے میں حد نگاہ تک اہل توحید ہی نظر آتے تھے۔ حدیث میں ہے
کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’جو مسلمان فوت
ہو جائے اور پھر چالیس اہل توحید اس کی نماز جنازہ پڑھ لیں تو اللہ تعالیٰ میت کے متعلق
ان کی سفارش قبول فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم)
ہمیں اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس نے اپنی اس بندی کے ساتھ
ضرور اپنی رحمت کا معاملہ کیا ہو گا کیونکہ ان کا جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد سینکڑوں
سے متجاوز تھی۔
جنازے کے بعد ان کی میت کو قبرستان میں لایا گیا‘ جہاں ان کے
شوہر نامدار مولانا محمد یوسف a کے
پہلو میں قبر تیار کی گئی تھی‘ وہاں انتہائی سادگی کے ساتھ انہیں دفن کیا گیا۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہe جب میت کو دفن کر کے فارغ ہو جاتے تو قبر پر رک کر فرماتے:
’’اپنے بھائی کے
لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے سوال وجواب ہو
گا۔‘‘ (ابوداؤد‘ الجنائز: ۵۲۲۱)
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے حاضرین نے قبر کے ارد گرد کھڑے ہو
کر اماں جان کے لیے گڑ گڑا کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ اپنی رحمت سے
نوازے اور ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنا دے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’جب کوئی عورت پابندی
سے پانچ نمازیں ادا کرتی ہے‘ ماہ رمضان کے روزے رکھتی ہے‘ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی
ہے اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرتی ہے تو مرنے کے بعد اسے کہا جائے گا کہ جنت کے
جس دروازے سے چاہو‘ اندر داخل ہو جاؤ۔‘‘ (مسند امام احمد: ج۱‘ ص ۱۹۱)
ہم گواہی دیتے ہیں کہ اماں جان نے ان چاروں امور کو بڑی پابندی
سے ادا کیا اور آخر دم تک اس پر قائم رہیں‘ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے
کے مطابق انہیں ضرور جنت میں جگہ عطا فرمائے گا۔
مرحومہ نے پسماندگان میں تین بیٹے‘ چار بیٹیاں‘ متعدد پوتے پوتیاں
اور نواسے نواسیاں چھوڑی ہیں۔ ان میں بیشتر حافظ قرآن اور عالم دین ہیں۔ دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے‘ ان کے علاوہ روحانی بیٹوں اور بیٹیوں
کی تعداد تو حدشمار سے باہر ہے‘ اللہ تعالیٰ ان سب کو اماں جان کے ہمراہ جنت الفردوس
میں اکٹھا کر دے۔ آمین!
نوٹ: اماں جان نے زندگی
کے آخری ایام میں ایک وصیت نامہ لکھوایا تھا‘ میں نے وہ خود پڑھا ہے‘ مجھے امید ہے
کہ ان کے فرزندان اس پر عمل کو یقینی بنائیں گے۔ واللہ المستعان!
No comments:
Post a Comment