مولانا محمد یوسف ربانی
تحریر: جناب پروفیسر محمد یٰسین ظفر
عزت، شہرت ، دولت
کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جسے چاہے نوازتا ہے۔ بعض لوگ اس کی تمنا اور آرزو ہی نہیں
بلکہ بڑی محنت اور کوشش بھی کرتے ہیں۔ لیکن بعض اس سے بے نیاز اور نتائج کی پروا کیے
بغیر مسلسل جد وجہد کرتے ہیں۔ ان کا مقصد رضائے الٰہی ہوتا ہے۔ بظاہر یہ لوگ گمنام
ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ بڑے قیمتی ،محبوب اور بلند مقام رکھتے ہیں۔ جس
کا اندازہ ان کے دنیا سے گزر جانے کے بعد لوگوں کے دلوں میں اس کی قدر ومنزلت اور چاہت
سے ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ معدودے چند ہوتے ہیں۔ ان میں ہمارے ممدوح مولانا محمد یوسف
ربانی المعروف یوسف جٹ بھی شامل ہیں۔
مولانا محمد یوسفa کا تعلق فیصل آباد کے جنوب مغرب میں واقع گاؤں دھول
ماجرا سے ہے۔ غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد صاحب محنت مزدوری کرتے اور بچوں کو
حلال رزق کھلاتے۔ صوم وصلوہ کے پابند بہت دین دار تھے۔ تبھی بچوں کے نام انبیاء کرام
کے ناموں پر رکھے۔ بڑے بھائی کا نام محمد اسماعیل رکھا ۔ ان کا نام محمد یوسف رکھا
اورنیت کی کہ اسے دین کے لیے وقف کرنا ہے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی۔ اس کے
بعد جامعہ سلفیہ کے سپرد کردیا گیا۔
محمدیوسف نے بہت جلدی دینی ماحول کو قبول کر لیا۔ جامعہ کے نظم
ونسق کی پابندی ، نماز باجماعت کا اہتمام اسباق میں حاضری کو اپنا شعار بنا لیا۔ وہ
زیادہ ذہین نہیں تھے لیکن محنت ، دینی شوق کی بدولت تعلیمی مراحل بآسانی طے کرتا چلا
گیا۔ محمد یوسف نے یہ راز بھی پالیا کہ محض تعلیم سے بڑا مقام نہیں ملتا بلکہ جذبہ
خدمت دوسروں کی نظر میں محبوب بنا دیتا ہے۔ خصوصاً اساتذہ اور ادارے کی خدمت سے فیض
مل سکتا ہے۔ لہٰذا وہ تمام اساتذہ کا بے حد احترام کرتا ان کی خدمت کو سعادت سمجھتا۔
کمروں کی صفائی ، کپڑوں کی دھلائی اور ان کے لیے کھانا تیار کرنے کو اعزاز سے کم نہ
سمجھتا ۔ اس کی نظر میں تمام جھوٹے بڑے استاد برابر تھے۔ کوئی استاد حکم دیتا فوراً
تعمیل کرتا۔ بہت فرمانبردار اور مہذب تھا۔ مولانا محمد اسمعیلa (المعروف چاچا جی)
کے ساتھ خاص تعلق تھا۔ وہ بھی مولوی یوسف سے محبت کرتے۔ اس کے علاوہ کسی پر اعتماد
نہ کرتے۔
اپنے رویے اور قابل بھروسہ طرز عمل کی وجہ سے مولوی یوسف نے
میرا اعتماد بھی حاصل کرلیا۔ دوران تعلیم بہت سے اداری کام لینے لگا۔ بلکہ شہر یا بیرون
شہر وہ میرے ساتھ جاتا۔ اسی طرح شہر سے سامان لانے اور کسی تک کوئی امانت پہنچانے میں
بخوبی کردار ادا کرتا۔ اس میں یہ خوبی تھی کہ کام سے واپس آکر اس کی مکمل رپورٹ اپنے
منفی یامثبت تاثرات کے ساتھ ضرور دیتا۔ مقصد یہ ہوتا کہ اس میں کیا فائدہ یا نقصان
ہے۔ جامعہ سلفیہ کے ذیلی دفتر جامع مسجد امین پور بازار اور جامعہ رحمانیہ مندر گلی
میں قائم کیے گئے تھے۔ موصوف مندر گلی میں بیٹھا کرتے اور جامعہ کے لیے چندہ وصول کرکے
رسیدیں جاری کرتے۔
مولوی محمدیوسف صحت مند تھے۔ لہذا بھاری وزن بخوشی اٹھا لیتے۔
جامعہ کے لیے گندم کی فراہمی اہم مسئلہ تھا۔ دیہاتی علاقوں میں رابطے اور بعد ازاں
گندم جمع کرنے کے لیے جن کی خدمات حاصل ہوتیں ان میں محمد یوسف پیش پیش ہوتا۔ چرمہائے
قربانی کے موقعہ پر بھی اس کی کارکردگی بڑی نمایاں ہوتی۔
فراغت کے بعد بھی یہ ذیلی دفتر میں کام کرتا۔ اس کی منگنی کا
مرحلہ آیا تو میں نے ان کے سرالیوں کو اعتماد دیا کہ محمدیوسف نہایت شریف اور ایک
اچھا مہربان انسان ہے۔ اس پر وہ شادی کے لیے تیار ہوئے۔ نکاح ، برأت اور ولیمے میں
بھر پور شرکت کی۔ میں اہل خانہ کے ساتھ اس کے گاؤں دھول ماجرا گیا اور ولیمہ کی دعوت
میں شریک ہوا۔ انہی دنوں میرے بعض رفقاء سعودیہ سے آئے ہوئے تھے اور وہ مساجد تعمیر
کرتے تھے۔ محمدیوسف نے ستارہ کالونی میں موجود دوپلاٹوں کی نشاندہی کی جسے حاجی غلام
رسول صاحب مرحوم نے وقف کیا تھا۔ موقعہ دیکھلایا گیا اور مساجد اور مدرسہ البنات کی
تعمیر ہوگئی۔ بہت جلد یہ کام مکمل ہوگیا۔ اب مرحلہ آیا کہ اس میں امامت وخطابت کے
فرائض کون سرانجام دے۔ غور وفکر کے بعد قرعہ محمدیوسف کے نام نکلا ۔ لہذا اسے مسجد
میں امام اور خطیب متعین کر دیا گیا۔ اس وقت ستارہ کالونی نئی بنی تھی اور آبادی نہ
ہونے کے برابر تھی۔ بہرحال پروفیسر عبدالروف اور بعض دیگر رفقاء کے تعاون سے یہ سلسلہ
چلتا رہا۔ آہستہ آہستہ آبادی بڑھ گئی اور مسجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔
اس دوران بعض مشکلات بھی آئیں ۔ مساجد پر قبضہ گروپ حرکت میں آیا ۔ بڑی مشکل سے انہیں
نکالا اور پھر بعض نادان دوستوں کی غیر حکیمانہ حرکتوں سے توہین رسالت کا پرچہ ہوتے
ہوتے بچا، معاشی تنگی اپنی جگہ پر رہی۔ لیکن محمدیوسف ثابت قدم رہے اور صبر وشکر کے
ساتھ کام جاری رکھا۔ ان کے سسر حاجی نثار صاحب ان کی بڑی تعریف کرتے کہ یہ بہت نیک
اور صالح ہے۔
محمدیوسف مسجد کے ساتھ کارپوریشن میں ملازم تھا۔ سادہ مزاج تھا۔
اچھا وقت گزر رہا تھا۔ مرحوم کی چار بیٹیاں اور دوبیٹے ہیں۔ ان کی اہلیہ بہت صالحہ
صوم وصلوہ کی پابند خاتون ہیں۔ بچیوں کو دینی تعلیم دیتی ہیں۔ محمدیوسف کی اچانک رحلت
کی خبر بجلی بن کر گری ۔ تمام دوستوں اور احباب نے حزن وملال کے ساتھ یہ خبر سنی۔ میں
اسلام آباد جانے کے لیے روزانہ ہوچکا تھا۔ مگر خبر ملنے کے بعد واپس آگیا تاکہ نماز
جنازہ میں شریک ہوسکوں۔ ۱۴ جنوری ۲۰۱۹ء کو بعد نماز عصر ستارہ کالونی میں آپ کی نمازہ جنازہ شیخ الحدیث مولانا محمد
یونس بٹ صاحب نے پڑھائی۔ جنازہ سے قبل میں نے تعزیتی کلمات میں عرض کیا کہ مولوی محمد
یوسف بہت وفادار انسان تھا۔ ہم نے جہاں مقرر کیا پورے اخلاص سے کام کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ
سے وفاداری کی بہترین مثال ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی بہت اچھا معاملہ
فرمائیں گے۔ جنازہ میں تمام مکاتب فکر کے سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے
اور تمام لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے۔
No comments:
Post a Comment