Friday, May 17, 2019

Mazmoon06-06-2019


مولانا عبدالحمید شیخوپوری رحمہ اللہ

تحریر: جناب پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد شریف شاکر
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ٭ وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ} (الرحمان:۲۶،۲۷)
’’اس (زمین) پر رہنے والی ہر چیزفانی ہے اور آپ کے پروردگار صاحب جلال واکرام کی ذات باقی رہے گی۔‘‘
ہمارے ممدوح مولانا عبدالحمیدa نے بہت صاف شفاف اور قابل تعریف زندگی گزاری، کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا اور اخلاقیات کے خلاف کوئی بات سننے میں نہیں آئی۔ آپ کے جنازہ کے موقع پر بہت سے افراد سے آپ کے حق میں تعریفی کلمات سننے کا موقع ملا۔
مولانا عبدالحمیدa علم وعمل، زہد وتقویٰ کے پیکر، خاموش طبع‘ مستجاب الدعوات، وسیع المطالعہ‘ باوقار اور بااخلاق عالم دین تھے۔ قادیانیت ،شیعیت ، پرویزیت اور حنفیت کا خوب مطالعہ رکھتے تھے ، آپ کی ذاتی لائبریری میں نایاب کتب اس کی غماز ہیں۔ مولانا نے قیام پاکستان کے وقت مجاہدانہ کردار ادا کیا۔
تحریک ختم نبوت (۱۹۵۳،۱۹۷۴):
مولانا نے قادیانیت اور مرزائیت کے خلاف چلنے والی تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے کسی خوف وخطر کو پس پشت ڈالتے ہوئے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ دو دفعہ جیل گئے اور میانوالی کی بدنامِ زمانہ جیل میں آپ کو بند کیا گیا۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی آپ پیش پیش رہے یہاں تک کہ مرزائی ٹولہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
تحریک نظام مصطفی ۱۹۷۷ء میں بھی آپ علماء کے شانہ بشانہ رہے اور خدمت اسلام کا حق ادا کردیا۔
اساتذہ کرام:
مولانا عبدالحمیدa نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی مولانا ولی محمد aسے حاصل کی ، اس کے بعد آپ نے درسِ نظامی کا آغاز کیا اور تقریباً اڑھائی تین سال تک قاری امین‘ مولانا امیر الحق اور مولانا غوثS سے شیخوپورہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔
مدرسہ غزنویہ تقویۃ الاسلام لاہور:
اس کے بعد مولانا عبدالحمیدa اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور تشریف لے گئے اور کہنہ مشق اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ، دیگر اساتذہ کے علاوہ آپ نے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانیa سے نسائی، مولانا دائود غزنویa سے مؤطا امام مالک ،مولانا حافظ محمد اسحاق حسینویa سے صحیح البخاری اور مولانا حافظ عبدالرشید گوہڑویa سے صحیح مسلم وغیرہ کتب پڑھیں۔ آپ جامعہ ہذا سے ۱۹۵۸ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔
خطابت اور تدریس کا آغاز:
پرانا شہر شیخوپورہ میں جامع مسجد اہل حدیث وِرکانوالی جو تقریباً ایک سو دس سال پہلے کی تعمیر شدہ ہے، مولانا نے اس مسجد کے محراب کی جانب چند سال پہلے مکان تعمیر کیا اور اس سے پہلے آپ کی رہائش ریلوے لائن کے شمال میں محلہ رام گڑھا میں تھی۔
مولانا عبدالحمید شیخوپوریa نے ورکانوالی مسجد میں خطبہ جمعۃ المبارک کا آغاز ۱۹۵۷ء میں کیا جب کہ آپ سے پہلے اس مسجد میں مولانا نور محمد گرجاکھی a، شیخ القرآن مولانا محمد حسین شیخوپوریa اور مولانا ولی محمدa جمعۃ المبارک کا خطبہ ارشاد فرماتے رہے۔
مولانا عبدالحمید شیخوپوریa اس مسجد میں خطبہ جمعۃ المبارک کے ساتھ ساتھ نمازِ فجر کے بعددرس قرآن دیتے رہے، قرآن مجید اور صحیح البخاری کا ترجمہ پڑھاتے رہے ضعف ِپیری کے سبب اسے ترک کرنا پڑا، اب آپ کے بیٹے حافظ محمد نعمان (فاضل کلیہ دارالقرآن والحدیث جناح کالونی  فیصل آباد) یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں اور جامعہ محمدیہ شیخوپورہ میں تدریسی مصروفیات بھی ہیں۔
مولانا کی ازدواجی زندگی:
مولانا نے پہلا نکاح ۱۹۵۳ء سے پہلے کیا، مولانا کی اس سے ایک بیٹی ہے جو آپ کے بھتیجے عبدالرحمان کے نکاح میں ہے۔ مولانا کا دوسرا نکاح ۱۹۵۸ء میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ محدث ویرووالویa کی بڑی صاحب زادی سے ہوا،اس رشتہ کے طے کرنے میں محدث ویرو والویa کے چہیتے شاگرد مولانا دائود انور بٹ (فاروق آبادیa) نے کردار ادا کیا۔
مولانا کی اولاد:
اللہ تعالیٰ نے مولانا عبدالحمید شیخوپوریa کو اس بیوی سے چار بیٹیاں اور نو بیٹے عطا فرمائے۔ بڑے بیٹے حافظ محمد سلیمان تقریباً انسٹھ سال کے ہیں۔تقویۃ الاسلام لاہور سے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ بھی اپنے والد مرحوم کے اساتذہ شیخ الحدیث حافظ محمد اسحاق حسینویa اور مولانا حافظ عبدالرشید گوہڑویa کے شاگرد ہیں، باقی بیٹے درج ذیل ہیں:
حافظ محمد عثمان تبسم ، محمد لقمان ، محمد سفیان ، محمد عمران ، محمد عفان ، حافظ محمد نعمان ، محمد حسان ، محمد فیصل ہیں۔ محمد سفیان اور محمد عمران جڑواں بھائی ہیں۔
تعمیر مساجد:
مولانا عبدالحمید شیخوپوریa تعمیرمساجد میں بطیبِ نفس حصہ لیتے تھے، اس کی مثال مولانا حافظ عبداللہ شیخوپوریa کی مسجد کا پلاٹ ہے۔ مولانا حافظ عبداللہ شیخوپوریa مسجد قدس اہل حدیث محلہ ہجرانوالہ میں جمعہ کا خطبہ دیتے تھے، وہ مسجد نمازیوں کی کثرت کی بنا ء پرچھوٹی پڑ گئی تو حافظ عبداللہ شیخوپوریa، مولانا عبدالحمیدa سے ملے اور کہا کہ آپ کے پاس بتی چوک کے نزدیک ایک کنال کا پلاٹ ہے اور ہماری مسجد قدس چھوٹی ہے جس میں زیادہ نمازیوں کی گنجائش نہیں رہی، آپ کے پاس تو پرانے شہر شیخوپورہ میں ورکاں والی مسجد موجود ہے اور یہ پلاٹ مسجد بنانے کے لیے ہمیں دے دیں۔ وِرکاں والی مسجد کی انتظامیہ نے یہ پلاٹ مولانا عبدالحمیدa کو ہبہ کررکھا تھا۔ مولانا نے بغیر قیمت اور بغیر کسی لالچ یا غرض کے یہ پلاٹ حافظ عبداللہ شیخوپوریa کو مسجد بنانے کے لیے دے دیا۔
شیخوپورہ بتی چوک کے پاس مسجد کی تعمیر :
جب مسجد بنانے لگے تو ذیلدار پارٹی مسجد کی تعمیر روکنے کے لیے ڈنڈوںوغیرہ سے مسلح ہوکرمیدان میں آگئے۔ حافظ عبداللہ شیخوپوریa نے مولانا عبدالحمید شیخوپوریa کو یہ صورت حال بتائی تو مولانا عبدالحمید، چوہدری عبدالرحمن ورک اور چوہدری عبدالعزیز ورک کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے اور اپنی موجودگی میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کروایا اور کندھوں کے برابر دیواروں کی بلندی تک موجود رہے۔ انہوں نے ساتھیوں کو تسلی دی اور کہا کہ اگر ذیل دار پارٹی دوبارہ رکاوٹ بننے کی کوشش کرے تو اللہ کے گھر کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہم پھر حاضرہوجائیں گے، یوں یہ تاریخی مسجد تعمیر ہوئی ۔
شیخوپورہ گھنگ روڈ پر مسجد کی تعمیر :
یہاں بھی ورکاں والی مسجد کی انتظامیہ نے دس مرلہ کے پلاٹ کا اختیار مولانا عبدالحمید شیخوپوریa کو دے رکھا تھا۔ پروفیسر حافظ ثناء اللہd، مولانا عبدالحمید سے ملے اور کہا کہ یہ پلاٹ مسجد بنانے کے لیے ہمیں دے دیں۔ مولانا نے پانچ مرلے انہیں ہبہ کردیئے اور باقی پانچ مرلے کی قیمت طے کرکے ان سے رقم کی ادائیگی کا وعدہ لے لیا ، جب رقم کا بندوبست نہ ہوسکا تو مولانا نے باقی پانچ مرلے بھی انہیں بلاقیمت مسجد کی تعمیر کے لیے ہبہ کردیئے، اس وقت وہاں ’’جامع مسجد مدینہ اہل حدیث‘‘ تعمیر شدہ ہے اور پروفیسر حافظ ثناء اللہd وہاں کے خطیب ہیں۔
استغنائے قلب:
مولانا کی طبیعت میں حرص وہوس نام کی کوئی چیز نہ تھی، دنیا کے مال ومتاع سے خود کو عمر بھرمستغنی بنائے رکھا۔ مولانا کے بیٹے محمد سفیان نے ماسٹر نواب دین سے یہ بات سنی کہ ایک دفعہ یعقوب ٹیکسٹائل ملز کے مالک نے علمائے کرام کو مدعو کیا تو کئی علماء اپنی اپنی گاڑیوں پر سوار ہوکر وہاں پہنچے لیکن مولانا عبدالحمیدa عام گاڑی (پبلک ٹرانسپورٹ)پر سوار ہوکروہاں پہنچے تو مل کے مالک نے آپ کو پجارو کی چابیاں پیش کیں کہ یہ گاڑی آپ کے لیے ہے تو مولانا نے فرمایا کہ ’’میں تو اللہ کو سائیکل کا حساب دینے سے ڈرتا ہوں گاڑی کا حساب کیسے دوں گا؟‘‘ دیکھئے! مولانا کے استغناء کا عالم! کوئی اور ہوتا تو ایسے موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے فوراً گاڑی کی چابی لے کر شکریہ ادا کرتا۔
راقم الحروف سے مولانامرحوم کا تعلق:
مولانا عبدالحمیدa راقم الحروف کے بڑے ہم زلف تھے۔ راقم کی شادی شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ محدث ویرووالویa کی دوسری بیٹی سے ۱۳ مئی ۱۹۶۸ء کو ہوئی۔ راقم کا رشتہ شیخ الحدیث ولی کامل سید مولا بخش کومویa نے کروایا اورنکاح بھی انہوں نے ہی پڑھایا۔راقم کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، بڑے بیٹے قاری محمد ابراہیم فاضل قراء ات عشرہ مولانا عبدالحمید رحمہ اللہ کے داماد ہیں۔
مولاناکی رفیقۂ حیات:
مولانا عبدالحمیدa کے نکاح میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ محدث ویرووالویa کی بڑی بیٹی تھیں۔ مولانا کا اپنی رفیقہء حیات سے تقریباً ۵۴ برس رفاقت کا رشتہ رہا، دونوں کی ازدواجی زندگی نہایت خوش گوار گزری۔ مولانا عبدالحمیدa واقعی [خَیرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ] کی قابل فخر مثال تھے۔ مولانا کی رفیقۂ حیاتA کینسر جیسے موذی مرض میں دو سال سے زائد عرصہ تک مبتلا رہیں۔ آخر کار ۱۲ جنوری ۲۰۱۳ء کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
مولانارحمہ اللہ کی وفات:
مولاناتمام نمازیں ضعف ِ پیری کے باوجود مسجد ہی میں ادا فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا دل مسجد سے معلق رہتا تھا، حتیٰ کہ موت سے ایک دو دن پہلے بھی بیٹوں سے یہی کہتے رہے کہ مجھے مسجد میں لے چلو۔ باقی خوبیوں کے ساتھ ساتھ مسجد سے محبت کی خوبی مولانامیں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی، اس لیے ہم رب ذوالجلال سے پُر اُمید ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عرش عظیم کا سایہ نصیب فرمائے گا۔
آخری نماز:
مولانا نے ۱۵ جنوری۲۰۱۹ء کو مغرب کی نماز کی خود امامت فرمائی اور ۱۶ جنوری کو آپ نے فجر کی نماز مسجد میں ادا فرمائی ، اس کے بعد پھر مسجد میں نہیں جا سکے۔ ۱۶ جنوری کی شام کو گردن توڑ بخار ہوگیا اور دماغ پر فالج کا حملہ ہوا جس سے آپ بے ہوش ہوگئے۔ آپ کو سول ہسپتال شیخوپورہ لے جایا گیا،سی سی یو میں آپ کی نگہداشت ہوتی رہی ،جہاں آہستہ آہستہ آپ کی طبیعت سنبھلنا شروع ہوئی ۔ اتوارکو راقم آپ سے ملا تو آپ ہوش میں تھے لیکن نہایت پست آواز میں گفتگو کرسکتے تھے ، طبیعت میں مزید بہتری آتی رہی حتیٰ کہ منگل اور بدھ کو آپ کے بیٹوں نے ہسپتال ہی میں آپ کو کچھ دیر ٹہلایا بھی اور آپ نے اہل خانہ کے دیگر افراد کا حال احوال بھی دریافت کیا۔ اس سے آپ کے بیٹے اور اہل خانہ سب مطمئن ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کی صحت کاملہ کے لیے دست بدعا رہے ۔مگر جمعرات کو طبیعت پھر بگڑگئی۔
آخر کار ۹۲ سال کی عمر میں یہ پاکیزہ روح بروز جمعرات دن دس بجے ۲۴ جنوری ۲۰۱۹ء کو قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!
جنازہ اور تدفین:
مولانا عبدالحمید رحمہ اللہ کے بڑے بیٹے حافظ سلیمان نے دوسہرا گرائونڈ میں مولانا کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر مولانا کی بخشش اور درجات کی بلندی کے لیے دعائیں پڑھیں۔
ہزاروں افراد ، اعزہ واقرباء ، علماء وطلبہ اور مدرسین کی کثیر تعداد نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ جنڈیالہ روڈ کے قبرستان میں مولانا کو ان کی رفیقہ حیات کے پہلو میں دفن کردیاگیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)