پیوستہ رہ شجر سے
تحریر: جناب قاری محمد حسن سلفی
دین اسلام اتفاق
واتحاد کا دین ہے یہ اجتماعیت کا درس دیتا اور انتشار وافتراق کی حوصلہ شکنی کرتاہے۔
اسلام چاہتاہے کہ سب لوگ متفق ومتحدرہیں اور باہمی اختلاف وافتراق سے بچے رہیں تاکہ
ان کی جمعیت قائم رہے اور مسلمانوں کارعب ودبدہ غیر مسلم پر قائم رہے۔ باہمی اخوت ومحبت
کی بہت زیادہ اہمیت اور فضیلت ہے: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَاعْتَصِمُوْا
بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا}
’’اور تم سب مل کر
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ پڑو۔‘‘ (آل عمران)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ
وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا}
’’اطاعت کروا للہ
اور اس کے رسول کی اور جھگڑے میں نہ پڑو پس تم کمزور ہو جائوگے اور تمہاری ہوا اکھڑ
جائے گی اور تم صبر کرو۔‘‘ (التوبہ )
ہمیں نماز پنجگانہ بھی اتحاد واتفاق کا درس دیتی ہیں کہ سب مسلمان
ایک دن رات میں پانچ مرتبہ مسجد میں جمع ہوں اور ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر بلا امتیا
ز رنگ ونسل اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں
؎
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ روہوکے زمین بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
باجماعت نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا افضل ہے۔ رمضان
المبارک کے روزے بھی ہمیں اتحاد سکھاتے ہیں کہ ہر امیر غریب کاسحری وافطاری کا وقت
ایک ہوجاتاہے۔ یہ مساوات اور اخوت اسلام کی اساس اور بنیادی تعلیم ہے۔ حج میں سب کا
ایک جیسا لباس یعنی احرام اور زبان پر ایک ہی ترانہ اور مناسک حج کی اجتماعی ادائیگی
وحدت امت کا مظہر ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کا نصاب بھی ہر زیادہ مالد ار اور تھوڑے مال والے
کیلئے ایک ہے۔ اسلام کے بنیادی ارکان ہمیں ہم آہنگی اور یگانگت کا درس دیتے ہیں اور
تفرق وتحزب سے بچے رہنے کی تعلیم دے رہے ہیں لیکن ہم مسلمان ان چیز وں سے سبق حاصل
نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کا رشاد گرامی ہے:
[ید اللّٰہ علی الجماعة۔]
(جامع الترمذی)
’’جماعت پر اللہ
کا ہاتھ ہوتاہے۔‘‘
فر دقائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے در یا میں بیرون دریا کچھ نہیں
اسلام کے بنیادی ارکان ہمیں باہم ملاتے ہیں اور ایک ہونے کا
پیغام وحدت دیتے ہیں۔ اگر آ ج بھی ہم باہمی محبت واخوت کا مظاہرہ کریں تو اپنا کھویا
ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں مثل مشہور ہے کہ ایک بوڑھے شخص نے آخری وقت اپنے بیٹوں کو
بلایا‘ وہ انہیں اتفاق واتحاد کی اہمیت سے آشنا کرنا چاہتاتھا‘ اس نے ایک ایک لکڑی
اپنے بیٹوں کودی کہ اسے توڑ کر دکھائیں۔ سب نے توڑدی پھر ان لکڑیوں کو جمع کرکے ایک
گٹھا بنا دیا اور پھر توڑنے کا کہا تو سب مل کر بھی نہ توڑ سکے تو اس بوڑھے نے کہا
کہ اگر الگ الگ رہو گے تو ہر کوئی تمہیں نقصان پہنچا سکے گا اور اگر جمع رہے تو پھر
کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جماعت سے ٹوٹا ہوا شخص اس شاخ بریدہ کی طرح ہے جو
درخت سے کٹ گئی ہے‘ اب اس پر ہزار بارشیں برسیں کبھی بہار نہیں آسکتی ؎
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں اسے برگ وبار سے
نظم جماعت سے الگ ہونے والا شخص ریوڑ سے بچھڑی ہوئی اس بکری
کی مانند ہے جو کسی بھی وقت کسی بھیڑئیے کا شکار بن سکتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کریم
کا ارشاد ہے:
{وَلَا تَکُوْنُوا
کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْکَاثًا} (النحل)
’’اور تم اس عورت
کی طرح نہ ہو جائو جو اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد خود ہی توڑ دیتی ہے۔‘‘
کئی لوگ جماعتوں میں زندگی بسر کرتے ہیں‘ اپنی بے پناہ صلاحیتیں،
وقت ، پیسہ ،سو چ وفکر اور بہت کچھ کرنے کے بعد معمولی غلط فہمیوں کی بناء پر نظم جماعت
سے الگ ہوجاتے ہیں اور اکیلے زندگی بسر کرنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ اللہ کریم نے
اس چیز سے منع فرمایا ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے کی ہوئی نیکیاں بعد میں ضائع نہیں کرنا
چاہئیں بغیر جماعتی انسلاک کے ایک دن بھی گذارنا معیوب ومعتوب ہے‘ پرند ے قطاروں میں
اڑکر ہمیں سمجھاتے ہیں کہ یوں اتحاد سے رہتے ہیں۔ جانور بھی قطاروں میں چل کر زبان
حال سے یہی پیغام دیتے ہیں۔ کبھی اونٹوں کی قطاروں کا دلکش نظارہ بھی دیکھیں۔ انسان
تو اشرف المخلوقات اور مسجود ملائکہ ہے۔ جماعتوں میں برے بھلے دن آتے رہتے ہیں ،بہاروخزاں
گردش ایام ہے ، دھوپ چھائوں نظام کائنات ہے‘ اونچ نیچ ہوجاتی ہے ان باتوں سے گھبراتے
نہیں بلکہ مستقبل میں انہیں مشکلات سے آسانیوں کامنتظر رہنا چاہیے اور کبھی بھی اتفاق
اوتحاد کو پارہ پارہ نہیں کرناچاہیے:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی
ہے
قرآن کریم میں اللہ کریم کا ارشاد ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ}
(النساء)
’’اے ایمان والو
! اطاعت کرو اللہ اور اطاعت اس کے رسول کی اور جو تم میں سے صاحب حکم ہو۔‘‘
ثاللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ امیر کی اطاعت کا حکم
دیا گیا ہے۔ اطاعت امیر گو اللہ اور اس کے رسول e کی اطاعت سے
مشروط ہے لیکن رسول اللہ e نے
امیر کی اطاعت کی بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ آپ e کا ارشاد گرامی ہے:
[لاجماعۃ الا بامارة۔] (سنن دارمی)
’’جماعت امیر کے
بغیر نہیں ہوتی۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عباسw بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ e نے
ارشاد فرمایا :
’’جو شخص اپنے امیر
میں وہ کچھ دیکھے جو وہ نا پسند کرتاہے تو صبر کرے اس لئے کہ جو کوئی شخص بھی جماعت
سے الگ ہوا اور اسی حالت میں موت آگئی تو جہالت کی موت مرا۔‘‘ ( متفق علیہ )
نبی کریم e کا
یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر تمہارا امیر تمہیں ناپسند بھی ہوتو ہر حال میں اس کی اطاعت
تم پر لازم ہے
اپنی اصلیت پر قائم تھا تو جمعیت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشان کارواں تو ہوا
آبرو باقی تیری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
اگر کسی گھر میں میاں بیوی کا یا اولاد کا والدین سے جھگڑا ہویا
بھائیوں کا آپس میں اختلاف ہوجائے تو ہر ذی شعور جانتاہے کہ اس گھر کا کیا حال ہوتاہے۔
ہر وقت لڑائی، فساد، بے برکتی، بے سکونی، نحوست، نفسیاتی بیماریاں اور پریشانیاں اس
آنگن کا مقدر بن جاتی ہیں۔ ہمیشہ وہی گھر کامیاب ہوتے ہیں جہاں اتحادو اتفاق ہو‘ آپس
میں محبت وبرداشت ہو‘ اختلاف کے باوجود احترام اور لحاظ کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ ہماری
جماعت بھی ایک گھر کی مانند ہے‘ گھروں کے مسائل کی طرح اس میں بھی کئی ایک مسائل ہوتے
ہیں‘ ملک وملت کے لوگ اس میں جمع ہوتے ہیں‘ طبائع مختلف ہونے کی وجہ سے اختلاف رائے
ہونا کوئی بڑی بات نہیں‘ لیکن اس رائے کے معمولی اختلاف کو انتشار وافتراق میں بدلنا
کسی صورت بھی مناسب نہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور حکمت وبصیرت کادامن کبھی نہیں چھوڑنا
چاہیے بلکہ موعظت حسنہ کے ذریعہ معاملہ فہمی کا ادراک کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ہمیشہ
مشکل حالات سے ہی آسانی نکلتی ہے۔ ارشاد رب العالمین ہے:
{سَیَجْعَلَ اللّٰہُ
بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا} (الطلاق)
’’عن قریب اللہ تنگی
کے بعد آسانی کرنے والا ہے۔‘‘
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجرسے امید بہار رکھ
مسلمان امہ تو ایک جسم اور دیوار کی مانند ہوتے ہیں‘ اگر جسم
کے کسی حصہ میں معمولی تکلیف ہوتو سارا جسم بے چین ہوجاتاہے اور دیوار سے اگر ایک اینٹ
بھی نکال لی جائے تو ساری دیوارکا حسن ماند پڑجاتاہے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹاجو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر وجواں بے تاب ہوجائے
آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مرکز سے ٹوٹاہوا اپنا
رشتہ پھر سے استوار کریں‘ اگر کمزور پڑگیا ہے تو مضبوط کریں۔ اگر قطرے ہوتو دریا بن
جائو ،پتے ہو توشجر سایہ دار بن جائو ، کنکر ہوتو پہاڑ بن جائو‘ کرنیں ہوتو سورج بن
جائو۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
آج امت مسلمہ کو در پیش مسائل کے حل، ملک میں بڑھتی ہوئی لادینیت
کے آگے بند باندھنے اور فحاشی وعریانی کے سیلاب کور وکنے کیلئے جتنی اس وقت ضرورت
ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ صیہونی طاقتیں مختلف حربوں سے مسلمانوں کی صفوں کو پارہ
پارہ کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتی ہیں۔ امت کے نوجوانوں کو ضرورت ہے متفق
ومتحد ہونے کی اور جماعت کی چھتری تلے جمع ہونے کی۔ کتاب وسنت کی بالادستی کیلئے اور
اپنے شہداء کرام کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ایک ہو جائو اور نیک ہوجائو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment