اعتکاف ... فضائل‘ احکام ومسائل
تحریر: جناب مولانا محمد طیب معاذ
(کراچی)
اللہ تبارک وتعالیٰ
نے اپنی خاص حکمت کے تحت دنیا میں موجود چیزوں میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے۔ انسانوں
میں ہمیں سب سے اعلیٰ وارفع انبیاء ورسل کا طبقہ دکھائی دیتاہے۔ اگر دنیا میں موجود
کتب کے متعلق غور کریں تو کتب سماوی کو بلند مقام
حاصل ہے پھر کتب سماوی میں سے قرآن حکیم ایک منفرد اور اعلی مقام ومرتبہ رکھتاہے۔
اگر ہم دنوں پر غور کریں تو فرمان نبوی کی رو سے جمعہ کو ایک خاص منزلت اور رفعت حاصل
ہے ۔ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا :
[خَیْرُ یَوْمٍ طَلَعَتْ
فِیْہِ الشَّمْسُ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ] (سنن الترمذی ، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر 450)
’’بہترین دن جس دن
سورج نکلتاہے وہ جمعہ کا دن ہے۔‘‘
اسی طرح مکہ اور مدینہ کی شان باقی تمام بلدان اور شہروں سے
افضل ہے حتی کہ مکہ کی قسم خود ربّ کائنات نے قرآن میں اٹھائی اور فرمایا :
{وھٰذَا الْبَلَدِ
الْأَمِینِ} (التین3)
’’اور مجھے اس بلد
امین (مکہ) کی قسم ہے۔‘‘
اسی نقطہ سے جب ہم سال کے بارہ مہینوں کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں
تو جو مقام ومنزلت ماہ رمضان کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے مہینے کو حاصل نہیں پھر رمضان
کے عشرہ اخیرہ کی شان اسکے پہلے دو عشروں سے زیادہ ہے۔ رمضان کی جان اسکا آخری عشرہ
ہے اس لیے اس عشرہ میں آپe کے
معمولات میں ایک نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے۔ رمضان کے آخری عشرہ میں آپe کی
عبادت میں زیادتی کو ام المؤمنین سیدہ عائشہr نے یوں بیان فرمایا:
[کَانَ رَسُوْلُ
اللّٰہِﷺ یَجْتَھِدُ فِیْ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مَا لاَ یَجْتَھِدُ فِیْ غَیْرِہِ]
(رواہ مسلم، کتاب الإعتکاف، حدیث نمبر2009)
’’ام المؤمنین سیدہ
عائشہr فرماتی
ہیں کہ رسول اللہe رمضان
کے آخری عشرہ میں جو محنت اور جدوجہد فرماتے وہ بقیہ دنوں میں نہیں فرماتے تھے۔‘‘
رمضان کے آخری عشرہ میں رسول اللہe کے کچھ ایسے معمولات ہمیں ملتے ہیں جو کہ رمضان کے پہلے
عشرے میں کم ہی نظر آتے ہیں۔
رات بھر جاگنا: مسند احمد میں عائشہ r کا
بیان ہے :
’’نبی کریمe رمضان
کے شروع کے دنوں کی راتیں کچھ نماز پڑھ کر اور کچھ سوکر گزارتے لیکن جب عشرہ اخیر شروع
ہوجاتا تو(مکمل شب بیداری) کیلئے کمر کس لیتے اور مستعد ہوجاتے ۔‘‘
اپنے اہل کو جگانا: طبرانی میں ایک روایت ہے کہ آپe اپنے
اہل کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑے کو جو نماز ادا کرنے کی طاقت رکھتاہو، اٹھایا کرتے تھے۔
لیلۃ القدر: یہ بھی عشر ہ اخیر کے اہم خصائص میں سے ہے جس کے
بارے میں فرمان رب العالمین ہے کہ
{لَیْلَۃُ الْقَدْرِ
خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ} (القدر3)
’’لیلۃ القدر کی
ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔‘‘
آپe نے
ارشاد فرمایا :
مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَاناً وَاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ
مِنْ ذَنْبِہِ(صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر1768)
رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: جس نے ایمان اور احتساب(ثواب کی نیت) کے ساتھ لیلۃ القدر کا قیام کیا
اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
اعتکاف: اعتکاف بھی عشرہ اخیرہ کے اہم خصائص میں سے ہے۔
اعتکاف کی تعریف: لغت میں اعتکاف کا لفظ عکف سے بنا ہے جس کامعنی ہے روک لینا،
بند کرنا ، مقید کرنا وغیرہ۔ شرعی اصطلاح میں اعتکاف کسی مسلمان کا عبادت الٰہی کی
نیت سے مسجد میں خاص وقت تک اپنے آپ کو مقید کرنا مراد ہے۔
اعتکاف کی اقسام: شرعی اعتکاف کی دو قسمیں ہیں:
سنت مؤکدہ: وہ اعتکاف جو کہ رمضان کے آخری دس دنوں پر محیط ہو وہ اعتکاف
سنت مؤکدہ ہے۔
واجب: وہ اعتکاف جو کہ انسان اپنے اوپر نذر کی صورت میں واجب کرلے مثلاً اگر کوئی آدمی
نذر مانتا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے حج کرنے کی توفیق بخشی تو پھر میں اتنے دنوں کا اعتکاف
کروں گا، اب اس شخص پر اعتکاف کرنا واجب ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں
مسلمانوں کا اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
اعتکاف کی شرائط :
1 مسلمان ہونا 2 عاقل ہونا یعنی پاگل، دیوانہ اور مجنون نہ ہو۔
3 غسل واجب سے پاک ہونا۔ 4 حیض اور نفاس کے خون سے پاک ہونا۔
5 اعتکاف کی نیت کرنا۔
6 مسجد کا ہونا۔
اعتکاف کی فضیلت:
اعتکاف کی فضیلت میں رسول اللہe کا یہ فرمان جوکہ سیدنا ابن عباسw سے
مروی ہے:
[من اعتکف یوماً
ابتغاء وجہ اللہ جعل اللہ بینہ و بین النار ثلاث خنادق کل خندق ابعد فیما بین الخافقین]
(رواہ الطبرانی والحاکم وصححہ)
’’جوشخص اللہ کی
رضا حاصل کرنے کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اور جہنم کے
درمیان تین خندقیں تیار کروائے گا، ہر خندق کی چوڑائی مشرق ومغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ
ہوگی۔‘‘
یہ فضیلت صرف ایک دن اعتکاف کرنے والے کی ہے اور اگر آدمی دس
دن اعتکاف کرتاہے اور وہ بھی ماہ صیام میں تو اس کی فضیلت کا اندازہ آپ خود لگا لیں…؟؟
ایک روایت میں مشفق اور امین پیغمبرe نے ارشاد فرمایا:
[إِنَّ رَسُوْلَ
اللّٰہِﷺ قَالَ فِی الْمُعْتَکِفِ ھُوَ یَعْکِفُ الذُّنُوْبَ وَیُجْرَی لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ
کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلَّھَا] (ابن ماجہ)
’’اعتکاف والا آدمی
گناہوں سے رکا رہتاہے، اس کو ان تمام نیک اعمال کا جوکہ وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر
پاتا ایسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا کہ نیک اعمال کرنے والے کو دیا جاتاہے۔‘‘
جائے اعتکاف: اعتکاف صرف اور صرف مساجد میں ہی ہوتاہے۔ رب العالمین کا ارشاد
ہیـ:
{وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ
فِیْ الْمَسَاجِدِ} (البقرۃ187)
’’اور تم مساجد میں
اعتکاف کرنے والے ہو۔‘‘
مذکورہ آیت میں اعتکاف کی جگہ صرف مساجد ہی ذکر کی گئی ہیں،سیدہ
عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
[اَنَّھَا کَانَتْ
تُرَجِّلُ النَّبِیَّﷺ وَھِیَ حَائِضٌ وَھُوَ مُعْتَکِفٌ فِی الْمَسْجِدِ۔](صحیح بخاری)
’’سیدہ عائشہr ایام
ماہواری میں آپe کو
کنگھی کیا کرتی تھیں اور آپe مسجد
میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔‘‘
عورتوں کا اعتکاف: عورت بھی مرد کی طرح اعتکاف کی برکات سے مستفید ہوسکتی ہے بشرطیکہ
اس کا شوہر اس بات کی اجازت دے، عورت کا اعتکاف بھی صرف مسجد میں ہی درست ہوگا کیونکہ
قرآن کا حکم
{وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ
فِیْ الْمَسَاجِدِ} (البقرۃ187)
عام ہے اور شریعت میں عورتوں کیلئے کوئی الگ حکم نہیں ہے کہ
وہ اعتکاف گھر میں کریں بلکہ رسول اللہe کی
وفات کے بعد آپe کی
زوجات مسجد نبوی میں ہی اعتکاف کرتی تھیں، کسی صحیح حدیث سے گھر میں اعتکاف کرنا ثابت
نہیں۔(واللہ اعلم بالصواب)
اعتکاف کا وقت: عتکاف کرنے والا شخص 20 رمضان کی شام کومسجد میں داخل ہوگا اور اگلے روز نمازِ
فجر کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو۔حدیث نبوی ہے:
[عَنْ عَائِشَۃَ
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ إِذَا اَرَادَ اَنْ یَعْتَکِفَ
صَلَّی الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ مُعْتَکَفَہُ۔] (صحیح مسلم ، کتاب الاعتکاف ، حدیث نمبر2007)
’’ام المؤمنین سیدہ
عائشہr فرماتی
ہیں کہ جب آپe اعتکاف
کا ارادہ فرماتے تو نمازِ فجر ادا فرما کر اپنی اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوتے تھے۔‘‘
دوران اعتکاف جائز امور:
1 طبعی
ضروریات مثلاً قضائے حاجت وغیرہ ، غسل جنابت کیلئے مسجد سے نکل سکتاہے بشرطیکہ مسجد
میں اس چیز کا انتظام نہ ہو۔
2 مسجد
میں کھانا، سونا، چار پائی لگانا، خیمہ لگانا اور بقدر ضرورت گفتگو میں کوئی حرج نہیں۔
3 سرمیں
تیل لگانا، کنگھی کرنا جائز ہے۔
4 معتکف
آدمی سے اس کی بیوی ملاقات کے لئے آسکتی ہے اور وہ اس کو مسجد کے دروازے تک چھوڑنے
کیلئے بھی جاسکتاہے۔
دلیل: سیدہ صفیہr آپe کی
زیارت کیلئے مسجد میں تشریف لاتی تھیں۔
دوران اعتکاف ممنوعِ اعمال
1 بیوی کیساتھ مباشرت ، ہم بستری کرنا
{وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ
وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ} (البقرۃ187)
’’اور تم مسجدوں
میں اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت نہ کرو۔‘‘
2 جنازہ
میں شرکت کرنا
3 مریض
کی عیادت کرنا (چلتے چلتے اگر کسی کا حال پوچھ لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں)
[دلیل: قَالَتْ عَائِشَۃُ
رضی اللہ عنھا: ’اَلسُّنَّۃُ عَلَی الْمُعْتَکِفِ أَنْ لاَ یَعُوْدَ مَرِیْضاً وَلاَ
یَشْھَدَ جَنَازَۃً وَلاَ یَمَسَّ امْرَأَۃً وَلاَ یُبَاشِرَھَا‘] (سنن ابی داؤد،
حدیث نمبر2115)
’’صدیقہ کائنات سیدہ
عائشہr فرماتی
ہیں: اعتکاف کرنے والے کیلئے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے، نہ جنازہ میں
شریک ہو اور نہ ہی عورت کو (شہوت کیساتھ) چھوئے اور نہ ہی اس کے ساتھ مباشرت کرے۔‘‘
4 بغیر ضرورت کے مسجد سے نکلنا
[کَانَ لاَ یَدْخُلُ
الْبَیْتَ إِلاَّ لِحَاجَۃٍ إِذَا کَانَ مُعْتَکِفاً۔] (صحیح بخاری، کتاب الإعتکاف،
حدیث نمبر:1889)
’’آپe اشد
ضرورت کے بغیر کبھی گھر میں داخل نہ ہوتے جس وقت آپe اعتکاف میں ہوتے۔‘‘
سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر معتکف بغیر
کسی ضرورت کے مسجد سے نکلتاہے خواہ تھوڑی دیر کیلئے ہی کیوں نہ نکلے اس کا اعتکاف باطل
ہوجائے گا کیونکہ مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا ایک رکن ہے۔ ‘‘ (فقہ السنہ باب الاعتکاف)
5 کبائر کا ارتکاب
اگر معتکف کبائر کا ارتکاب کرے تو اس کا اعتکاف بھی باطل ہوجائے
گا کیونکہ کبیرہ گناہ عبادت کی ضد ہے۔
ایک غلط فہمی: عوام الناس میں یہ تأثر عام طور پر پایا جاتاہے کہ بغیر روزہ
کے اعتکاف نہیں ہوتا، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اگر معتکف آدمی کسی شرعی عذر کی بنا پر
روزہ چھوڑتا ہے تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہیں۔ جمہور اور محقق علماء کا موقف ہے
کہ روزہ اعتکاف کیلئے شرط نہیں ہے۔ (فتوی علامہ ابن باز رحمہ اللہ )
اعتکاف کے فوائد: 1 معتکف
کیلئے لیلۃ القدر کو تلاش کرنا آسان ہوتاہے۔ 2 معتکف کے قلب وذہن پر صرف ذکر الٰہی جاری ہوتاہے جس
کی بناپر وہ فرشتوں کی مشابہت اختیار کرتاہے۔ 3 معتکف آدمی ساری خواہشات اور گناہوں سے بچا رہتاہے۔
4 معتکف
آدمی کو مسجد کیساتھ ایک خاص انس اور پیار ہوجاتاہے۔ 5معتکف کو تنہائی
میسر ہوتی ہے جس میں اپنی گذشتہ خطاؤں پر ندامت کے آنسو بہا سکتاہے اور توبہ کرکے
نئے سرے سے اپنی زندگی کو احکام الٰہی کے مطابق بسر کرسکتاہے۔ 6 اعتکاف
سے آدمی کو آخرت کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ 7 حالت اعتکاف میں معتکف کو فحش گوئی اور فضول کلام کی
بری عادت سے نجات ملتی ہے اور وہ کم گوئی کی عادت حسنہ کا عادی ہوجاتاہے۔
آخری بات: محترم قارئین ! اعتکاف کے متعلق آخری اور اہم بات اس کی حفاظت ہے، اگر معتکف
اعتکاف کے بعد بھی تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی میں مشغول رہتاہے اور فضول گفتگو ، گالی
گلوچ ، عبث کلام سے دور رہتاہے تو اس نے اعتکاف کی حفاظت بھی کی ہے اور اعتکاف سے اس
کو فائدہ بھی ہوا ہے۔ اعتکاف کے بعد ہر قسم کے گناہوں سے بچناہی ہماری اصل ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بعد از اعتکاف بھی گناہوں سے بچائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment