Monday, May 20, 2019

Mazmoon21-04-2019


زکوٰۃ ... اہمیّت ومسائل

تحریر: جناب مولانا عبداللہ سلفی
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۰۰۱۰۳﴾
’’(اے محمدe) آپ ان کے مالوں میں سے زکوٰۃ لے لیجیے جس سے آپ ان کو (رذائل سے) پاک کریں گے اور ان (کے مالوں) کی صفائی ہو گی اور آپ ان کے لیے رحمت کی دعا فرمائیے‘ بے شک آپ کا دعا فرمانا ان کے لیے باعث تسکین ہے اور اللہ (ہر چیز کا) سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘
زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے تیسرا رکن ہے جیسا کہ سیدنا عمر فاروقt سے حدیث جبریل میں مروی ہے‘ نیز آپ کے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمرw سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
[بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلىٰ خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ.] (بخاري ومسلم)
’’یعنی اسلام کی بنیاد پر پانچ چیزوں پر قائم ہے‘ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں‘ نماز قائم کرنا‘ زکوٰۃ ادا کرنا‘ رمضان کا روزہ رکھنا بیت اللہ کا حج کرنا اس کے لیے جس کو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو۔‘‘
زکوٰۃ کی اہمیت اس سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زکوٰۃ کا تذکرہ 30 جگہوں پر فرمایا ہے کہ جن میں 27 جگہ اس کا ذکر نماز کے ساتھ ہے اور صدقہ وصدقات کے لفظ کے ساتھ 12 جگہ ذکر ہے۔
ان کے علاوہ اشاروں وکنایوں میں بھی بہت سی جگہ مذکور ہے۔
مثلاً سورہ معارج میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ الَّذِيْنَ فِيْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۪ۙ۰۰۲۴ لِّلسَّآىِٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ۪ۙ۰۰۲۵﴾ (المعارج)
’’یعنی (اللہ کے نیک بندے وہ لوگ ہیں) جن کے مالوں میں سائل ومحروم کے لیے ایک حق مقرر ہے۔‘‘
اور سورہ روم میں فرمایا:
﴿فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِيْنَ وَ ابْنَ السَّبِيْلِ١ؕ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ﴾(روم)
’’(یعنی) پس قرابت دار کو‘ مسکین کو اور مسافر کو ان کا حق دے دو‘ یہی ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں۔‘‘
 زکوٰۃ کی فضیلت:
زکوٰۃ کی فضیلت قرآن مجید میں جا بجا مذکور ہے‘ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دیکھو تم جو زکوٰۃ دو گے اس سے تمہارے مالوں میں برکت ہو گی تم ایک دو گے ہم دس دیں گے‘ بلکہ اس سے زیادہ سات سو گنا تک دیتے ہیں‘ اس لیے اس میں بخل مناسب نہیں۔ ایک جگہ فرمایا:
﴿وَ مَاۤ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَاۡ فِيْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَاۤ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۰۰۳۹﴾ (الروم)
’’اے لوگو! جو تم سود (پر مال) دیتے ہو تا کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے تو یہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو اللہ کی رضا جوئی کے لیے‘ تو یہی وہ لوگ ہیں جو (اپنے مال کو) بڑھانے والے ہیں۔‘‘
آپe نے فرمایا:
[مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ.](ترمذی)
’’صدقہ سے کسی انسان کا مال کم نہیں ہوتا۔‘‘
 زکوٰۃ نہ دینے پر وعید:
صحیح بخاری میں سیدہ اسماءr سے روایت ہے کہ مجھ سے نبی کریمe نے فرمایا کہ ’’خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا‘ دوسری روایت عبدہ سے اسی مفہوم کی ہے کہ گننے نہ لگ جانا اور ورنہ اللہ بھی تجھے گن گن کر ہی دے گا۔
زکوٰۃ نہ دینا اور اس میں حیلہ کرنا اور یہ سمجھنا کہ یہ ہمارا مال ہے ہم جو چاہیں کریں یہ بات اور سوچ ایمان کے خلاف ہے‘ جس طرح نماز کے انکار کرنے پر انسان مسلمان نہیں رہ جاتا اسی طرح زکوٰۃ کا منکر بھی دائرۂ اسلام میں نہیں رہ جاتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ وَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِيْنَۙ۰۰۶ الَّذِيْنَ لَا يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ۰۰۷﴾ (حم السجدة)
’’اور ویل (جہنم) ہے ان مشرکین کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کے منکر ہیں۔‘‘
غور فرمائیے! مانعین زکوٰۃ کو شرک وکفر کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہt سے مروی ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا:
’’اللہ نے جس کو مال سے نوازا اور پھر اس نے زکوٰۃ ادا نہیں کی‘ قیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے یہ سانپ اس کے گلے کا طوق ہو گا اور اس کے جبڑے کو پکڑ کر کہے گا میں ہوں تیرا مال‘ میں ہوں تیرا خزانہ۔‘‘
پھر نبی کریمe نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ﴾(اٰل عمران)
’’اور وہ لوگ جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے اور وہ اس میں بخل کرتے ہیں یہ نہ سمجھیں کہ ان کا بخل کرنا ان کے لیے بہتر ہے‘ نہیں یہ تو ان کے حق میں برا ہے عنقریب قیامت کے دن جو یہ بخل کرتے ہیں اسے ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔‘‘
مزید فرمایا:
﴿وَ الَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍۙ۰۰۳۴ يَّوْمَ يُحْمٰى عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ١ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۰۰۳۵﴾ (التوبة)
’’(اے محمد!) جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے اور ان اور دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے‘ جس دن ایسے خزانہ کو جہنم کی آگ میں تپا کر ان کے پیشانیوں‘ پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی تمہارا وہ خزانہ ہے جس کو تم نے اپنی ذات کے لیے جمع کر رکھا تھا تو آج اپنی دولت کا مزہ چکھو۔‘‘
 زکوٰۃ کے نظام کی معنویت:
زکوٰۃ ایک مستقبل اور مقرر حق ہے جس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ افراد پر ان کی مرضی کے مطابق چھوڑ دیا گیا ہو کہ وہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں دھتکار دیں‘ بلکہ یہ ایک اجتماعی نظم ہے جس کا انتظام باقاعدہ ایک نظام کے تحت ہونا چاہیے‘ اس کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس انتظام کے چلانے والوں کو ’’العاملین علیہا‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے اور زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے ایک عاملین کے مصرف کو متعین کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس نظام کے اخراجات کو اسی زکوٰۃ کی رقم سے پورا کیا جائے گا۔ اور جس سورہ میں زکوٰۃ کے مصارف کا تذکرہ ہے اسی سورہ میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے: ﴿وَ الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا﴾ ’’آپ ان کے مالوں میں سے زکوٰۃ لیجیے۔‘‘ یعنی آپe کو زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم ہوتا ہے۔
چنانچہ بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباسw بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے جب سیدنا معاذ بن جبلt کو یمن بھیجا تو ان کو حکم دیا تھا:
’’اے معاذ آپ ان کو بتائیے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں میں ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں بانٹ دی جائے گی۔ پس اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کرنا اور ان کے چنیدہ مال سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے ڈرنا کیونکہ مظلوم شخص اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
احادیث کی کتابوں میں عاملین کا ذکر موجود ہے ان کو ساعی ومصدق (صدقہ وصول کرنے والا) بھی کہا جاتا ہے‘ نبی کریمe مختلف صحابہ کرام] کو مختلف قبیلوں کی طرف صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔
ابوداود میں موجود ہے کہ آپe نے ابومسعود کو ساعی بنا کر بھیجا تھا‘ مسند احمد میں ہے کہ ابو جہم بن حذیفہ کو مصدق بنا کر بھیجا‘ ولید بن عقبہ کو بنی المصطلق کی طرف بھیجا‘ مہاجر بن ابی امیہ کو صنعاء کی طرف‘ زیاد بن لبید کو حضر موت کی طرف اور حضرت علی کو نجران کی طرف بھیجا تھا۔ () آپ ان عاملین کو ہدایت جاری فرماتے اور لوگوں کے ساتھ نرمی برتنے کی تلقین کرتے تھے۔
علامہ ابن حزم نے اپنی کتاب جوامع السیر میں لکھا ہے کہ صدقات کے معاملہ میں رسول اللہe کے کاتب سیدنا زبیر بن العوام تھے‘ اگر وہ موجود نہ ہوتے تو جہم بن صامت یا حذیفہ بن الیمان لکھنے کی خدمت انجام دیتے۔
زکوٰۃ کے بارے میں رسول اللہe کو صریح حکم تھا کہ آپ صاحب نصاب سے ان کے اموال کی زکوٰۃ وصول کیجیے اور خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر صدیقt نے ان مانعین زکوٰۃ سے جو اللہ کے رسولe کے زمانہ میں آپ کے پاس زکوٰۃ جمع کیا کرتے تھے‘ زکوٰۃ روکنے پر جہاد کیا تھا‘ نبی کریمe کے زمانہ میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے زکوٰۃ قلم بند کی جاتی تھی‘ چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیقt نے بہت صراحت سے اعلان کیا کہ جو شخص اونٹ باندھنے کی رسی یا بکری کا بچہ بھی آنحضرتe کو دیا کرتا تھا اگر ہمیں نہیں دے گا تو اس سے جنگ کی جائے گی۔‘‘
زکوٰۃ کا مسئلہ جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے یوں ہی نہیں چھوڑ دیا گیا کہ آپ اپنی مرضی کے مطابق جسے چاہیں دیں‘ جسے چاہیں نہ دیں‘ یہ ایک عبادت ہے‘ یہ مال میں ایک حق ہے جس کی کچھ قیود وشرائط ہیں‘ کچھ حدود ہیں جن کے اندر رہ کر ہی آپ ہم اسے ادا کر سکتے ہیں‘ ان نفلی خیرات جیسا یہ مسئلہ نہیں جنہیں آپ کی مرضی اور چاہت کے مطابق چھوڑ دیا گیا ہے اور جن کی نیکی کا بدلہ آپ کی نیت اور خلوص پر منحصر ہے اور جن میں افضل صدقہ وہ ہے جسے آپ اور اللہ کے علاوہ کوئی نہ جانے۔
آپ غور فرمائیے! اللہ تعالیٰ اپنے نبیe کو حکم دیتا ہے کہ ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً﴾ ’’آپ ان کے مالوں سے زکوٰۃ لیجیے۔‘‘ اور سیدنا ابوبکرt نے زکوٰۃ نہ دینے والوں سے جہاد کیا۔
مسند احمد‘ ابوداود‘ نسائی میں رسول اللہe سے منقول ہے:
[مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ أَبَى فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ مَالِهِ عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ اللَّهِ، لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ مِنْهُ شَيْءٌ]
یعنی ’’(جو زکوٰۃ کو) ثواب کی نیت سے دے گا اس کو اس کا ثواب ملے گا اور جو نہیں دے گا تو میں اس کو وصول کروں گا اور ساتھ ہی ساتھ اس کا آدھا مال بھی لے لوں گا‘ یہ ہمارے رب کی طرف سے تاوان ہے‘ (کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں اپنی ذات کے لیے لے رہا ہوں بلکہ) آل محمدe کے لیے ایسے مال کا ایک حبہ بھی حلال نہیں ہے۔‘‘
 زکوٰۃ کے مصارف:
زکوٰۃ کا لینا سب کے لیے جائز نہیں ہے اس کے حقدار کون اور کیسے لوگ ہیں اور یہ کن مصارف میں خرچ کی جا سکتی ہے؟ اس کی تفصیل بھی کتاب وسنت میں موجود ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان فرما کر ہر کس وناکس کے لالچ وحرص کو بند کر دیا۔
سورہ توبہ میں اللہ رب العالمین فرماتے ہیں:
﴿وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ١ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ يَسْخَطُوْنَ۰۰۵۸ وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١ۙ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَيُؤْتِيْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤ١ۙ اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَؒ۰۰۵۹ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ الْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِي الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِيْنَ وَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ١ؕ فَرِيْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۰۰۶۰﴾ (التوبة)
’’(اے محمد!) (زکوٰۃ) صدقات (کی تقسیم) کے معاملہ میں کچھ لوگ آپ پر الزام لگاتے ہیں! کیونکہ اگر ان کو اس میں سے دیا جاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر اس مال سے ان کو نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہونے لگتے ہیں۔ کاش کہ وہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول دیں اس پر راضی ہو جائیں اور یہ کہیں کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے‘ عنقریب ہم کو اللہ اپنے فضل سے نوازے گا اور اس کے رسول بھی۔ ہم تو اللہ سے ہی امید لگائے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو کہ صدقات (زکوٰۃ) فقیروں کے لیے ہے‘ مسکینوں کے لیے ہے اور ان لوگوں کے لیے جو زکوٰۃ کی بابت کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جن کے دل کو ڈھارس بندھانی ہو (یعنی نو مسلم) اور (زکوٰۃ صرف کی جائے گی) گردن چھڑانے میں اور قرض دار کے (قرض ادا کرانے میں) اور اللہ کے راستہ میں اور مسافر (کی مصیبت دور کرنے) کے لیے یہ اللہ کی طرف سے باندھا ہوا فریضہ ہے اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا اور (ہر فیصلہ میں) حکمت والا ہے۔‘‘
اسلام انسان کی رہنمائی کے لیے ایک جامع پیغام لے کر آیا ہے‘ اس کا مقصد معاشرہ کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنا ہے‘ وہ امیر اور غریب کی کھائی کو مٹانا چاہتا ہے اس لیے اسلام میں زکوٰۃ کوئی انفرادی معاملہ نہیں‘ بلکہ ایک منظم اور متعین نظام ہے اور صحابہ کرام] کے دور کے حالات اس کے لیے واضح نمونہ ہیں۔
سیدنا معاذ بن جبلt کا واقعہ ہمارے لیے اسوہ ہونا چاہیے‘ جن کو اللہ کے نبیe نے یمن بھیجا تھا‘ آپ یمن میں ہی رہے‘ خلافت صدیقی کے بعد جب سیدنا عمر فاروقt کا زمانہ آتا تو تو خوشحالی کا بھی بول بالا ہوتا ہے‘ اس زمانہ میں سیدنا معاذt نے زکوٰۃ کی ایک تہائی رقم یمن سے مدینہ سیدنا عمرt کے پاس بھیج دیا‘ سیدنا عمرt نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ آپ کو ٹیکس وجزیہ کے لیے نہیں بھیجا گیا بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ اغنیاء سے زکوٰۃ وصول کر کے انہیں لوگوں کے فقراء پر لوٹا دو‘ سیدنا معاذt نے فرمایا کہ میں نے یہاں کسی حقدار کو چھوڑ کر نہیں بھیجا ہے بلکہ سب کو بانٹنے کے بعد جو بچ گیا اسی کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کے اولین حقدار وہیں کے لوگ ہیں جہاں کی زکوٰۃ ہے‘ ہاں اگر ضرورت سے زائد ہو تو دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہے‘ جیسا کہ اس واقعہ سے واضح ہے۔
کیا مال زکوٰۃ اپنے رشتہ دار کو دے سکتے ہیں؟ امام بخاریa نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک باب باندھا ہے: [باب الزکوٰۃ علی الأقارب] اور اس میں اللہ کے رسولe کا یہ فرمان نقل کیا ہے: [له أجران: القرابة والصدقة] یعنی ’’اس کو دو گنا ثواب ملے گا‘ ایک ناطہ جوڑنے کا دوسرا صدقہ کا۔‘‘ (یہ آپ نے سیدہ زینبr کے حق میں فرمایا تھا جو سیدنا عبداللہ بن مسعودt کی بیوی تھیں۔)
دوسری حدیث سیدنا ابوہریرہt کی ہے‘ رسول اللہe سے بیان کرتے ہیں کہ آپe نے فرمایا:
[خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ] (بخاری)
’’بہترین صدقہ وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے اور صدقہ پہلے انہیں دو جو تمہاری زیر پرورش ہوں۔‘‘

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)