دورانِ اختلاف آداب کو ملحوظ
رکھنا
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس d
10 جمادی الثانی 1440ھ بمطابق 15 فروری 2019ء
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ
کے بندو! اللہ سے ڈرو۔ اس کی بے شمار نعمتوں اور بے حساب عطاؤں پر اس کا شکر ادا کرو۔
یقینا۔ ہم جتنا بھی شکر ادا کرلیں، بہرحال ہمارا شکر اس کی چند نعمتوں اور عطاؤں کے
برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ بھلا ہمارا شکر، اس صاحبِ احسان کے احسانوں کے برابر کس طرح
ہو سکتا ہے جو احسان جتائے بغیر عطا کرتا ہے اور اذیت دیے بغیر نوازتا ہے۔
اے
مسلمانو! مادیت کے فتنوں کے عروج کے دور میں، فکری بیماریوں اور شبہات کے طوفان میں
اس وقت کہ جب بہت سے ذہنوں پر غنودگی چھا چکی ہے اور بہت سے لوگوں کی عقلیں گمراہی
کے راستوں پر بے لگام چل رہی ہیں۔ ان کے کام ان کے لیے مزین کر دیے گئے اور وہ انہیں
اچھا سمجھنے لگے، پھر انہوں نے بہت سے فتنے اور مصیبتیں پیدا کیں، بہت سے معرکے اور
جنگیں برپا کیں، جن میں بہت خون بہا، بہت سے جسموں کے ٹکڑے ہوئے اور بہت سے معصوم مارے
گئے۔ صرف اُن علمی آراء اور اُن اجتہادی مسائل میں انفرادی آراء رکھنے کی وجہ سے جو
قابل قبول بھی ہیں، مگر جن کے حاملین میں سے ہر ایک صرف اپنی رائے کو درست سمجھتا ہے،
دعویٰ کرتا ہے کہ بس وہی حق پر ہے۔ ایسے لوگ اپنے رجحان اور ذوق کی بنیاد پر لوگوں
کے ساتھ دوستیاں کرتے ہیں۔ فکری اور مسلکی بنیادوں پر دوسروں سے دشمنیاں کرتے ہیں۔
اس حوالے سے دین کا نور تو انتہائی واضح ہے، اُس کی حیرت انگیز اور عظیم خصوصیات بھی
ظاہر ہیں۔ اسلامی شریعت کے احکام کی نگہبانی میں، اور اس کی نرمی ومحبت کی دبیز چادر
میں وحدت واتحاد کے وسائل مضبوط تر ہو جاتے ہیں، بھائی چارے اور رحمدلی کے ذرائع قوی
بن جاتے ہیں۔
ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
’’مؤمن تو بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (الحجرات: ۱۰)
وہ
عظیم دینی اور معاشرتی تعلقات اور بڑھتے ہوئے روحانی اور اخلاقی رابطے کہ جن کی شریعت
نے اپنی بامقصد تعلیمات کے ذریعے تاکید کی ہے اور احکام ومقاصد میں انہیں مضبوط کرنے
کا حکم دیا ہے، حتیٰ کہ دوسروں کے ساتھ اختلاف کرتے وقت شریعت نے تو اختلاف کے اسباب
کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور محبت والفت پر قائم رہنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالی
قرآن کریم میں فرماتا ہے:
’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ
میں نہ پڑو۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۳)
رسول
اللہe کا فرمان ہے:
’’اللہ تعالی آپ کے لیے تین چیزوں کو پسند کرتا
ہے: ایک یہ کہ آپ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اس کی رسی
کو مضبوطی سے تھام لو اور اختلافات سے بچو۔ جسے اللہ تعالی نے آپ کا حکمران بنایا ہو
اس کی خیرخواہی کرو۔‘‘ (مسلم)
اے
مؤمنو! اختلاف قابل تعریف بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا طے کردہ کائناتی
اصول ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو
ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے، مگر اب تو وہ
مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔ سوائے ان کے، جن پر تیرے رب کی رحمت ہے، اِسی کے
لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔‘‘ (ہود: ۱۱۷-۱۱۸)
حسن
بصریa فرماتے ہیں:
یعنی انہیں مختلف
طریقوں پر چلنے کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ برا تو اختلاف ہے کہ جو لڑائیوں، جھگڑوں،
فساد اور برائی کی جڑھ ہے۔
شیخ
الاسلام ابن تیمیہa بیان فرماتے ہیں:
’’ایک فساد وہ بھی ہے جو تفرقہ بازی اور اختلافات
کی وجہ سے سامنے آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تفرقہ بازی اجتماعیت اور وحدت کو پاش پاش کرتی
ہے، یہاں تک کہ بعض لوگ اسی کی وجہ سے غیر اللہ کے لئے لوگوں سے محبت کرنے لگتے ہیں
اور ان سے تعلق جوڑنے لگتے ہیں، دوسروں سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور ان سے قطع تعلقی
کرنے لگتے ہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ اختلاف کی وجہ سے وہ دوسروں کو گالیاں دینے لگتے
ہیں، لعن طعن کرنے لگتے ہیں، ذومعنی اشارے کرنے لگتے ہیں اور ذومعنی الفاظ استعمال
کرنے لگتے ہیں۔ کچھ تو ہاتھوں اور ہتھیاروں سے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ بھی کرنے لگتے
ہیں۔ بعض تو دوسروں سے قطع تعلقی کرنے لگتے ہیں اور انہیں برا سمجھنے لگتے ہیں۔ حتیٰ
کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں کہ جن سے
اللہ تعالیٰ نے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے اور رسول اللہe نے خبردار کیا ہے۔
علامہ
ابن قیمa فرماتے ہیں:
لوگوں میں اختلافات
کا موجود ہونا تو ایسی چیز ہے کہ جسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ لوگوں
کے مقاصد وافکار الگ الگ ہوتے ہیں اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی مختلف ہوتی
ہیں۔ قابل مذمت تو یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے پر زیادتی کرنے لگیں اور دشمنیاں کرنے لگیں۔
اختلاف اگر ایسے انداز میں ہو کہ تعلقات نہ ٹوٹیں، فرقے نہ بنیں اور ہر ایک کا مقصد
یہی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، تو ایسے اختلاف میں کوئی حرج نہیں۔
اے
مسلمان بھائیو! امت اسلامیہ کی تاریخ پر غور کرنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی
زیادہ مصروفیت باہمی اختلافات میں رہی ہے، خاص طور پر آرام اور فکری عیش کے دور میں۔
تاہم جب بھی امت کو کوئی خطرہ درپیش ہوا یا کسی دشمن نے اس پر ہاتھ ڈالا، تو اس کے
اختلافات کم ہو گئے، اُس وقت یہ اہم چیزوں کی طرف لوٹ آئی، اِس نے اپنی صفیں درست کر
لی ہیں، تاکہ اس بیرونی دشمن کا مقابلہ ہو سکے، جس کے ساتھ اختلاف، دین کا اختلاف ہے،
کسی مسئلے، چند مسائل یا کسی اجتہاد کا اختلاف نہیں۔ یاد رہے کہ جو شخص امت اسلامیہ
میں پیش آنے والے اختلافات پر نگاہ ڈالتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اختلاف کرنے والوں کی
دو قسموں میں فرق کرنا نہ بھولے۔ ایک وہ کہ جو کسی قابل قبول اجتہاد کی بنیاد پر کسی
ایک فروعی مسئلے یا چند مسائل میں اختلاف کرتا ہے اور دوسرا وہ جو دین کے کسی طے شدہ
اصول یا دین کی بنیادوں میں سے کسی ناقابل فراموش بنیاد میں اختلاف کرتا ہے۔ کیونکہ
شرعی دلائل کی چار اقسام ہوتی ہیں:
پہلی
دلیل:
جس
کے ثابت ہونے میں بھی کوئی شک نہیں اور اس کی دلالت بھی مکمل طور پر واضح ہے۔ ایسی
دلیل کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ اس میں کسی اجتہاد یا تبدیلی کی کوئی گنجائش
نہیں۔
دوسری دلیل:
جس
کے ثابت ہونے میں کوئی شک نہیں، تاہم اس کی دلالت مکمل طور پر واضح نہیں۔
تیسری دلیل:
جس
کا ثابت ہونا بھی مکمل طور پر واضح نہیں اور اس کی دلالت بھی مکمل طور پر واضح نہیں۔
چوتھی دلیل:
جس
کا ثابت ہونا مکمل طور پر واضح نہیں مگر اس کی دلالت مکمل طور پر واضح ہے۔
آخری
تین دلائل ہی وہ دلائل ہیں کہ جن میں بجا طور پر اجتہاد کیا جا سکتا ہے، جن میں عقل
کے گھوڑے دوڑائے جا سکتے ہیں، ذہنوں اور فکری صلاحیتوں کو لگایا جاسکتا ہے۔ ان میں
اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر شریعت کے ان اصولوں کے مطابق، جو کہ جوڑنے والے ہیں، توڑنے
والے نہیں، جو قریب کرتے ہیں اور دور نہیں کرتے۔
پہلا
اصول:
اہم بات یہ ہے کہ نیت درست ہو اور مقصد
نیک ہو۔ جو امت کے اختلافات پر نظر ڈالے، اس کا مقصد حق کی تلاش ہو، وہ غلطی کو واضح
کردے اور درست چیز کو بیان کر دے۔ مخالف کو بد نام کرنا، اسے رسوا کرنا، خود شہرت پانا
یا ریا کاری کرنا مقصد نہ ہو۔
جو
اس طرح نہیں کرسکتا، اسے چاہیے کہ وہ اختلاف کی کھوج لگانے سے رک جائے، تاکہ وہ خود
بھی سلامت رہے اور ساری امت بھی محفوظ رہے اور اختلاف کا راستہ تنگ ہوجائے۔
شیخ
الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں:
تاتاریوں کے تسلط
کی وجہ سے عالم اسلام کے مشرقی ممالک میں دینی حوالے سے بہت زیادہ فرقے، اختلافات اور
فتنے پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ لوگ جو باطل پرستی کی وجہ سے تعصب کا شکار ہیں اور جو اپنے
گمان اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، بغیر کسی دلیل کے اپنی ہی آراء کی پیروی
کرتے ہیں وہ انتہائی قابل مذمت ہیں اور اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں۔ کیونکہ مسلمان جماعت
کے ساتھ ملے رہنا اور اتحاد قائم رکھنا دین کے اصولوں میں سے ہے۔
اے
امت اسلام! اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے!
دوسرا
اصول:
نفس
کو حق کی طرف لوٹنے کی عادت ڈالی جائے، کیونکہ حق کی طرف لوٹنا باطل میں آگے بڑھتے
جانے سے بہتر ہے۔ جب ایک شخص نے سیدنا ابن مسعودt سے کہا کہ مجھے جامع الفاظ
میں نصیحت کیجیے تو آپ نے اسے یہ نصیحت کی کہ جب کوئی حق بات بتائے تو اسے قبول کرلینا،
چاہے وہ شخص آپ سے بہت دور اور آپ کو بہت ناپسند ہی کیوں نہ ہو اور جب کوئی غلط بات
کرے تو اس کی بات کو رد کر دو، چاہے وہ آپ کا انتہائی قریبی اور آپ کو انتہائی محبوب
ہی کیوں نہ ہو۔
علامہ
ابن القیمa فرماتے ہیں:
مسلمان کو چاہیے
کہ وہ ہر دوست اور دشمن، پسندیدہ اور ناپسندیدہ، نیک اور نافرمان کی حق بات قبول کر
لینے میں رسول اللہe کی تعلیمات پر قائم رہے۔ غلط
بات کو رد کر دے، چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو۔
تیسرا
اصول:
اختلاف
کو دیکھتے وقت یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اختلاف کا ہونا ایک فطری چیز ہے۔
امام
شاطبیa فرماتے ہیں:
اللہ تعالی نے اپنی
حکمت کے مطابق یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس دین کے فروعی مسائل ایسے ہوں گے کہ جن میں اہل
دانش اپنے صحیح گمان کے مطابق مناسب تبدیلی کر سکیں گے۔ اجتہاد میں غلطی بھی ہو سکتی
ہے۔ شرائط پوری ہوں، تو کسی کا عذر قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ سمجھدار لوگوں
کی عقلیں تو افکار اور آراء سے بھری ہوتی ہیں مگر ان کے دل ایک دوسرے سے کبھی نہیں
بھرتے۔
شیخ
الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں:
ہمارے اکابرین،
علمی اور عملی مسائل پر بحث کرتے تھے مگر الفت، باہمی عزت اور دینی بھائی چارہ بہرحال
قائم رہتا تھا۔ اگر ایسا ہو کہ جب بھی دو مسلمانوں کے درمیان کسی مسئلے پر اختلاف ہو
تو وہ ایک دوسرے سے قطع تعلقی کر لیں تو لوگوں کی عزتیں پامال ہو جائیں اور بھائی چارہ
ختم ہو جائے۔
چوتھا
اصول:
حالات
اور ماحول کے اختلافات کو مدنظر رکھا جائے۔ کیونکہ عالم اسلام بہت پھیل چکا ہے، اس
میں بہت سے معاشرے شامل ہو گئے ہیں جو بطور خود ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ اس کی
وجہ سے اجتہاد کے طریقوں میں بہت سے اختلافات سامنے آئے ہیں۔ احکام سمجھنے کے مختلف
انداز اور دلائل سے احکام اخذ کرنے کے مختلف طریقے متعارف ہوئے ہیں۔ اس سے بہت سی آیات
اور احادیث کے الفاظ کی تشریح میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ جدید مسائل کے احکام میں بھی
اختلاف نظر آیا ہے۔
علامہ
ابن القیمa فرماتے ہیں:
’’جگہ، وقت، حالات، ماحول اور احوال کی تبدیلی
کے ساتھ فتویٰ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔‘‘
پانچواں
اصول:
اے
امت الفت ووحدت! پانچواں اصول اور ادب یہ ہے کہ مخالف کے ساتھ عدل کیا جائے۔ مخالف
کے ساتھ بھی عدل کیا جائے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی
پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو‘ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا
مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ، عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے
۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘
(المائدۃ: ۸)
بے
انصافی لوگوں کے تعلق توڑ دیتی ہے، چاہے وہ خونی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ دو لباس
ایسے ہیں جن سے ہر ایک کو دور رہنا چاہیے۔ جو انہیں پہنے گا، وہ موت کے وقت قابل مذمت
ٹھہرے گا اور خوب رسوا ہو گا۔ ایک دوہری جہالت کا لباس اور اس سے بھی برا، تعصب کا
لباس۔ دونوں ہی بہت برے لباس ہیں۔ عدل وانصاف کو اپنا لو۔ یہی بہترین لباس ہے، جس سے
انسان کا جسم انتہائی خوبصورت بن جاتا ہے۔
امام
ذہبیa‘ یونس صدفیa کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ
انہوں نے کہا:
’’میں نے امام شافعیa سے زیادہ سمجھدار کوئی نہیں
دیکھا۔ ایک روز میں نے ان کے ساتھ ایک مسئلے پر بحث کی اور ہمارے درمیان اختلاف ہوگیا۔
جب ہم الگ ہونے لگے تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گلے لگا لیا۔ کہا: اے ابو
حسین! کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی مسئلے میں اختلاف رکھنے کے باوجود ہم بھائی ہی رہیں۔
‘‘
اللہ
اکبر! اللہ اکبر! اختلاف کے وقت، یہ تھا ہمارے بزرگوں کا ادب! اور یہ ہیں محبت والفت
پر اس کے اثرات۔ یہ طریقہ، فرقہ واریت کو نہیں بلکہ اتحاد واتفاق کو فروغ دیتا ہے۔
تفرقہ بازی کو نہیں بلکہ وحدت کو مضبوط کرتا ہے۔ جھگڑوں کو نہیں بلکہ اجتماعیت کو بڑھاتا
ہے۔
چھٹا
اصول:
اجتہادی
مسائل میں کسی اجتہاد کا انکار نہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ اجتہاد کسی قرآنی آیت یا
کسی صحیح حدیث کے خلاف نہ ہو۔
شیخ
الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں:
’’اجتہادی مسائل میں جو کسی ایک عالم کے قول پر
عمل کرتا ہے، اسے غلط بھی نہیں کہا جائے گا اور اسے مسلمانوں کی جماعت سے الگ بھی نہیں
کیا جائے گا اور جو دوسرے عالم کی رائے پر عمل کرے گا اسے بھی غلط نہیں کہا جائے گا۔
اگر کسی مسئلے میں دو قول موجود ہوں اور انسان کو لگے کہ ایک قول دوسرے سے زیادہ حق
کے قریب ہے تو وہ قریب تر قول پر عمل کرے اور اگر دونوں برابر ہوں تو وہ کسی ایسے عالم
کے قول پر عمل کرے جس پر ایسے مسائل میں اعتماد کیا جا سکتا ہو۔ ‘‘
اسی
طرح وہ فرماتے ہیں:
’’اگر کسی مسئلے میں کوئی سنت یا اجماع نہ ہو
اور اس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہو، تو اس مسئلے میں جو کسی اجتہاد کی بنیاد پر
یا تقلید کی بنیاد پر کوئی طریقہ اپنائے گا اس کے عمل کو بہر حال غلط نہیں کہا جائے
گا۔ ‘‘
ساتواں
اصول:
لوگوں
کے ساتھ ان کے ظاہری رویے کے مطابق ہی برتاؤ کیا جائے۔ کیونکہ لوگوں کی نیتوں اور مقاصد
کے اندازے لگانا اور ان کے دل میں موجود ارادوں کی بنیاد پر ان کے ساتھ تعامل کرنا
جائز نہیں۔ اگر ہمارا مخالف کوئی ایسی بات کرے گا جو شریعت کے مطابق ہو گی تو ہم اسے
تسلیم کر لیں گے، چاہے ہم یہی سمجھتے ہوں کہ وہ اس بات پر ایمان نہیں رکھتا، الا یہ
کہ اس کے عقیدے میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہو یا وہ اسے واجب سمجھتا ہو۔ ایسی صورت میں
بھی ہم اس کی رائے قبول کر لیں گے مگر احتیاط کے ساتھ۔ کیونکہ اسلامی اصول یہ ہے کہ
دنیا میں لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہری رویے کی بنیاد پر برتاؤ کیا جائے، رہی دل کی بات
تو ان کا معاملہ اللہ پر ہے۔
آٹھواں
اصول:
تزکیہ
نفس کا اہتمام کیا جائے۔ جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو کسی کو یہ نہیں سمجھنا
چاہیے کہ درست بات اُسی کی ہو سکتی ہے، وہی حق پر ہے اور اس کی بات میں غلطی کی گنجائش
نہیں، یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ مخالف ایسی غلطی پر ہے کہ جس میں درستی کی کوئی
گنجائیش نہیں۔
کون
ہے جو کبھی غلطی نہیں کرتا؟! کون ہے جو ہمیشہ درست ہی کہتا ہے؟! ارشاد ربانی ہے:
’’اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر
جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے۔‘‘ (النجم: ۳۲)
کیا
مسلمانوں میں تفرقہ بازی اور اختلافات عام ہونے اور ان میں لڑائیاں اورجھگڑے پھیل جانے
کے بعد بھی انہیں یہ اصول اور آداب یاد ہیں؟ جو ہماری روشن شریعت نے ہمیں سکھائے ہیں۔
فروعی
مسائل میں اختلاف کی وجہ سے لڑائیاں اور تفرقہ بازی نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی وجہ سے
کسی کی نیت پر حملہ کرنا چاہیے نہ کسی کے مقصد پر تہمت لگانی چاہیے۔ ہمارے لیے اتنا
ہی کافی ہے کہ ہمارے دل ایک دوسرے کے لئے صاف رہیں۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے
دل ایک دوسرے کے لئے صاف رہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’جو اِن اگلوں کے بعد آئے ہیں، جو کہتے ہیں کہ
اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں
اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ، ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے
لیے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہربان اور رحیم ہے۔‘‘ (الحشر: ۱۰)
اللہ
کے بندو! اس دور میں ہمیں صاف دلوں کی بڑی ضرورت ہے، وحدت اور اتحاد کی انتہائی ضرورت
ہے۔ ہر معاملے میں قرآن و سنت کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی طرف لوٹنے کی
ضرورت ہے جو علم بھی رکھتے ہیں اور اپنے علم پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اختلافات،
فرقہ واریت اور تفرقے کے اسباب کو ختم کرنے کے لئے اس قاعدے کو پوری طرح اپنا لیں،
اس پر ڈٹے رہیں اور سختی سے قائم رہیں کہ بڑے بڑے اماموں اور نامور علماء کو قابل مذمت
نہیں سمجھا جائے گا۔
میں
اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر
سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اُسے رسول اور اپنی جماعت کے
ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس
بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں‘ تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی
اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان
کے پیچھے لگ گئے ہوتے۔‘‘ (النساء: ۸۳)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اللہ
کے بندو! اللہ سے ڈرو! اس کا شکر ادا کرو، کیونکہ پرہیزگاری اختیار کرتا ہے، اللہ اس
کی نگہبانی فرماتا ہے اور جو اس کا شکر ادا کرتا ہے، اللہ اسے مزید فضل و کرم سے نوازتا
ہے۔
اے
مومن بھائیو! آج امت اسلامیہ کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ اسے درپیش فتنوں اور سر پر پڑی
آزمائشوں سے راہِ نجات کی تلاش میں رسول اللہ e اور صحابہ کرام کے نقش قدم
پر چلے۔ دین کے ساتھ وفاداری اور وابستگی کے معاملے میں اُنہی کی پیروی کرے۔ آج پورے
عالم اسلام کو اور بالخصوص سرزمین حرمین کو سخت میڈیائی اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہونے
والے حملوں کا سامنا ہے۔ اس لیے سب کے لیے لازمی ہے کہ وہ ایک صف بن کر اِن اندھے فتنوں
کا سامنا کریں اور اُن لوگوں کا راستہ روکیں جنہوں نے امت کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے
اور امت پر غیر منصفانہ حملے کر رہے ہیں، ہر اس شخص کے راستے کو بند کر دیں، جو اسلامی
ممالک پر، یا حرمین کے امن وامان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ اللہ سرزمین حرمین کی حفاظت
فرمائے۔ امت کے سمجھ دار نوجوانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اس فساد انگیز گندگی سے متاثر
نہ ہوں، برے مقاصد والی افواہوں کی چال میں نہ آئیں، کیونکہ ان کا مقصد معاشرے کو تباہ
کرنا، انہیں بکھیرنا اور اس کی امن وسلامتی پر اثر انداز ہونا ہی ہے۔
سنو!
درود و سلام بھیجو حبیب مصطفی اور رسول مجتبیٰe پر۔ اللہ کی رحمتیں ہوں اس
ہستی پر کہ جس پر درود و سلام بھیج کر ہماری دعائیں شروع ہوتی ہیں، ان پر درود و سلام
بھیج کر ہماری آرزو میں پوری ہوتی ہے۔ اللہ کی رحمتیں ہوں آپ e
کے اہل بیت اور پاکیزہ، نیک، چنیدہ اور پرہیزگار صحابہ کرام پر جو
سعادت اور کامیابی کی کنجیاں، برکت کے سرچشمے اور روشنیاں ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ ہر
طرح کی گندگی سے اور تمام برائیوں سے پاک کر دیا ہے۔ ان کی تعظیم فرمائی اور انہیں
پاکیزہ فرمایا۔
جو
رسول اللہ e پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے،
اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ یہ بات بھی قابل فخر ہے۔
No comments:
Post a Comment