احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
قرآنی آیات واحادیث کی تکریم
O مجھے
ایک دوست نے میسج بھیجا ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث بذریعہ موبائل نہ بھیجی جائیں
کیونکہ انہیں ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے اور یہ قیامت کی علامت ہے کہ مسلمان خود اپنے ہاتھوں
سے قرآنی آیات واحادیث کو مٹائیں گے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
P شریعت کے احکام ومسائل کو دوسروں تک پہنچانا ایک اہم
فریضہ ہے بلکہ یہ حضرات انبیاءo کا
مشن ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے رسول! جو احکامات وارشادات اللہ کی طرف سے آپ پر
نازل ہوتے ہیں وہ سب لوگوں کو پہنچا دو اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو تم اللہ کے پیغامات
پہنچانے میں قاصر شمار ہو گے۔‘‘ (المائدہ: ۶۷)
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’اور تم میںسے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کی نیکی کی دعوت دے‘ اچھے کام کرنے
پر آمادہ کرے اور برے کاموں سے روکے‘ یہی لوگ اللہ کے ہاں نجات یافتہ ہیں۔‘‘ (آل عمران:
۱۰۴)
نیز رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’میری طرف سے دوسروں کو پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘ (بخاری‘ احادیث
الانبیاء: ۳۴۶۱)
ان آیات واحادیث کا تقاضا ہے کہ ہم ہر ممکن فریضہ تبلیغ ادا
کرتے رہیں۔ دور حاضر میں تبلیغ کا ایک مؤثر ذریعہ موبائل بھی ہے۔ سوال میں جو قیامت
کی علامت بتائی گئی ہے یہ جھوٹ اور بے اصل بات ہے‘ رسول اللہe نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ مسلمان اپنے ہاتھوں سے قرآنی
آیات مٹائیں گے۔ رسول اللہe کا
فرمان بایں الفاظ مروی ہے: ’’اسلام اس طرح مٹ جائے گا جس طرح کپڑے کے نقوش مٹ جاتے
ہیں حتی کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں رہے گا کہ روزے کیا ہوتے ہیں یا نماز‘ قربانی
اور صدقہ کیا ہوتا ہے؟ اللہ کی کتاب کو ایک ہی رات میں اٹھا لیا جائے گا اور زمین پر
اس کی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی۔‘‘ (ابن ماجہ‘ الفتن: ۴۰۴۹)
اس علامت کا ظہور بالکل قیامت کے قریب ہو گا‘ اس کا قطعا یہ
مطلب نہیں ہے کہ لوگ اپنے ہاتھوں سے قرآنی آیات کو مٹائیں گے۔ بلکہ فریضہ تبلیغ کو
جاری رکھتے ہوئے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ قرآنی آیات اور صحیح احادیث پر مشتمل ترجمہ
ایک دوسرے کو ارسال کرتے رہیں تا کہ یاد دہانی ہوتی رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ
یاد دہانی کراتے رہیں کیونکہ نصیحت اہل ایمان کو نفع دیتی ہے۔‘‘ (الذاریات: ۵۵)… اللہ تعالیٰ ہمیں اس اہم فریضہ کو ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
نجاست آلود کپڑوں کو دوسرے کپڑوں کے ساتھ ملا کر دھونا
O ہمارے
ہاں گھروں میں جب کپڑے دھوئے جاتے ہیں تو نجاست آلود کپڑوں کو دوسرے کپڑوں سے الگ نہیں
کیا جاتا اور جب انہیں واشنگ مشین میں ڈالا جاتا ہے تو نجاست آلود کپڑے دوسرے کپڑوں
کو بھی خراب کر دیتے ہیں‘ اس سے اجتناب کرنا چاہیے یا اس طرح انہیں دھویا جا سکتا ہے؟!
P اکثر سمجھ دار خواتین دھونے والے کپڑوں کو حسب ذیل تین
حصوں میں تقسیم کرتی ہیں:
\ حیض ونفاس اور
رطوبت آلود کپڑوں کو الگ رکھا جاتا ہے۔
\ بزرگوں کے سفید
سوٹ اور بچوں کی وردیاں الگ رکھی جاتی ہیں۔
\ عام کپڑے الگ
دھوئے جاتے ہیں دوسرے کپڑوں کے ساتھ انہیں نہیں ملایا جاتا۔
ان کپڑوں کو الگ الگ دھویا جاتا ہے‘ انہیں اکٹھا بھی دھو لیا
جائے تو کوئی حرج والی بات نہیں۔ کیونکہ کپڑوں کی دھلائی دو امور پر مشتمل ہوتی ہے:
b ان کی میل کچیل
کو صاف کیا جاتا ہے۔
b نجاست آلود
کپڑوں سے نجاست دور کر کے انہیں پاک کیا جاتا ہے۔
جب ان کپڑوں کو واشنگ مشین میں ڈالا جاتا ہے تو دونوں کام ہو
جاتے ہیں۔ صابن اور سرف وغیرہ سے ان کی میل کچیل دور ہو جاتی ہے۔ پھر صابن نکالنے کے
لیے پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح پانی سے ان کی نجاست دور ہو جاتی ہے۔ پانی خود
بھی پاک ہے اور طہارت کا ذریعہ بھی ہے۔ لہٰذا واشنگ مشین میں نجاست آلود کپڑے دوسرے
کپڑوں کے ساتھ دھونے میں چنداں حرج نہیں۔ سمجھ دار خواتین کپڑوں کو الگ الگ تین حصوں
میں تقسیم کر کے انہیں علیحدہ علیحدہ ہی دھوتی ہیں۔ واللہ اعلم!
حائضہ عورت کا مسجد میں جانا
O ہم
مسجد کے ہال میں خواتین کے لیے ’’فہم قرآن‘‘ کلاس لگاتے ہیں‘ جبکہ ان میں ایسی خواتین
بھی ہوتی ہیں جنہوں نے ماہانہ عادت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھنا ہوتی۔ کیا مسجد میں ایسی
عورتیں آ سکتی ہیں؟ یا ان کے لیے کوئی الگ انتظام کیا جائے؟
P حائضہ عورت مسجد میں نہیں جا سکتی‘ اکثر اہل علم کا
یہی موقف ہے۔ البتہ کچھ اہل علم اس کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
حائضہ عورت مسجد میں جا سکتی ہے کیونکہ رسول اللہe کا فرمان ہے کہ ’’مومن نجس نہیں ہوتا۔‘‘ (مسلم‘ الطہارہ:
۳۷۱)
لیکن اس حدیث کا ایک خاص پس منظر ہے کہ سیدنا ابوہریرہt نے
رسول اللہe کو
آتے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گئے کیونکہ سیدنا ابوہریرہt جنبی تھے۔ غسل کر کے ملاقات کی اور الگ رہنے کی وجہ
بیان کی تو رسول اللہe نے
فرمایا ’’ایسی حالت میں میل ملاقات ہو سکتی ہے کیونکہ مومن نجس نہیں ہوتا۔‘‘ اس کا
قطعا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس حالت میں نماز پڑھ سکتا ہے اور قرآن کی تلاوت بھی کر سکتا
ہے۔ رسول اللہe کی
احادیث سے ہمیں یہی ملتا ہے کہ حائضہ عورت سے میل ملاقات تو ہو سکتی ہے لیکن وہ مسجد
میں نہیں آ سکتی۔ جیسا کہ سیدہ ام عطیہr بیان کرتی ہیں کہ ہمیں رسول اللہe نے
حکم دیا: ’’عیدالفطر اور عیدالاضحی میں دوشیزاؤں‘ حائضہ عورتوں اور پردہ نشین خواتین
کو عیدگاہ لے کر جائیں البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں لیکن خیر اور مسلمانوں
کی دعا میں شرکت کریں۔‘‘ ہم نے عرض کیا اللہ کے رسول! اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو تو
کیا کرے؟ آپe نے
فرمایا: ’’اس کی بہن اسے چادر دے دے۔‘‘ (بخاری‘ العیدین: ۹۸۱)
عیدگاہ میں جائے نماز عارضی ہوتی ہے اور وہاں حائضہ عورت کو
جانے کی اجازت نہیں اور جو مستقل طور پر جائے نماز (مسجد) ہے وہاں اسے جانے کی کیونکر
اجازت مل سکتی ہے؟ امام بیہقیa نے
اس حدیث کے پیش نظر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’حائضہ عورت مسجد میں نہیں
آ سکتی اور نہ اس میں اعتکاف کر سکتی ہے۔‘‘ (بیہقی: ج۱‘ ص ۳۰۸)
اس سلسلہ میں متعدد احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ
عورت کو مسجد میں جانے کی شرعا اجازت نہیں۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe ایک
مرتبہ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ نے سیدہ عائشہrسے فرمایا: ’’اے عائشہ! مجھے کپڑا دیں۔‘‘ سیدہ عائشہr نے
عرض کیا‘ اللہ کے رسول! میں حائضہ ہوں۔ رسول اللہe نے فرمایا: ’’حیض تیرے ہاتھ میں تو نہیں۔‘‘ اس وضاحت
کے بعدسیدہ عائشہr نے
رسول اللہe کو
کپڑا پکڑا دیا۔ (مسلم‘ الحیض: ۲۹۹)
اگر ان ایام میں سیدہ عائشہr کا داخلہ مسجد میں جائز ہوتا تو آپe کو
کپڑا دینے سے احتراز نہ کرتیں اور نہ ہی رسول اللہe کو اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت تھی۔ اس حدیث میں واضح
اشارہ ہے کہ حائضہ عورت مسجد میں نہیں جا سکتی۔ اس حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں
ہے‘ جسے سیدہ عائشہr نے
بیان کیا ہے کہ رسول اللہe مسجد
میں (بحالت اعتکاف) اپنا سر مبارک میری جانب حجرہ میں داخل فرماتے تو میں اس میں کنگھی
کر دیتی۔ آپe بحالت
اعتکاف بلا ضرورت گھر نہیں آتے تھے۔ (بخاری‘ الااعتکاف: ۲۰۲۹)
اگر حائضہ عورت کا مسجد میں جانا جائز ہوتا تو آپr مسجد
میں جا کر رسول اللہe کے
سر مبارک میں کنگھی کر آتیں‘ مسجد کے باہر حجرہ میں کنگھی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
صورت مسئولہ میں فہم قرآن کی کلاس مسجد میں لگائی جا سکتی ہے
البتہ جن خواتین نے اپنی مجبوری کی وجہ سے نماز نہیں پڑھنی ہوتی ان کے لیے الگ انتظام
کر دیا جائے۔ واللہ اعلم!
جائیداد فروخت کر کے حج کرنا
O ایک
آدمی کی کچھ زرعی زمین ہے اور اس کی اولاد نہیں‘کیا وہ اپنی زرعی زمین فروخت کر کے
حج پر جا سکتا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کر دیں۔
P اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں خود مختار بنا کر
بھیجا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں
کو جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ مال وجائیداد بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ اس
میں بھی وہ جائز طور پر تصرف کر سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’ہر مالدار کو اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق ہے وہ جیسے چاہے استعمال کرے۔‘‘
(بیہقی: ج۶‘ ص ۱۷۸)
لہٰذا وہ اپنی زرعی زمین بیچ کر حج کر سکتا ہے‘ لیکن پوری زمین
فرخت کرنے سے اجتناب کرے کیونکہ اسے حج کے بعد بھی اخراجات کی ضرورت ہے۔ ضروریات زندگی
کے لیے کچھ زمین اپنے پاس ضرور رکھے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment