مولانا نذیر احمد سبحانی
تحریر: جناب مولانا لیاقت علی باجوہ
گلشن میں کچھ پھول
ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی خوشبو مرجھانے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ ان میں سے ایک ہماری
جماعت کے عظیم شاعر مولانا نذیر احمد سبحانیa ہیں۔ مولانا نذیر احمد سبحانیa ۱۹۴۰ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم کا نام فضل دین ولد احمد دین ولد
محمد رمضان ولدمیاں بدا ولدمحکم چند۔ محکم چند ایک ہندو زمیندار تھا۔ شرقپور کے علاقے
میں واقع ایک کنویں پر ابھی بھی محکم چند کے نام کی پلیٹ لگی ہوئی ہے۔ محکم چند کا
بیٹا میاں بدا مسلمان ہو گیا۔ مولانا نذیر احمد سبحانیa دس بہن بھائی تھے۔ ان کے والد محترم فضل دین بریلوی
مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا نانا اہل حدیث تھا۔ والد محترم فضل دین گھلن ہٹھاڑچونیاں
کے قریب رہتے تھے‘ اس لیے بچپن کا زمانہ ضلع قصور میں گزرا اور گورنمنٹ سکول روڈے سے
پرائمری تعلیم حاصل کی۔ بچپن سے ہی نعت خوانی کا شوق تھا اس لیے بچپن میں ہی ضلع قصور
کا مشہور دربار گھڑیپر شریف چلے گئے۔ وہاں کے پیر صاحب جو بھی کوئی پروگرام ہوتا مولانا
نذیر احمد سبحانی کو نعت خوانی کے لیے کھڑا کر دیتے پھر آپ وہاں سے لاہور آگئے۔ آپ
مدرسہ تقویۃ الاسلام چلے جاتے ہیں اور مولانا داؤد غزنویa سے
ملاقات ہو جاتی ہے۔ وہ آپ سے بہت زیادہ پیار ومحبت سے پیش آئے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ
نے ان کی شرک سے توحید کی طرف راہنمائی فرمائی۔ آپ وہاں جامعہ میں تعلیم حاصل کرتے
اورمکتبہ السلفیہ لاہور میں کام بھی کرتے۔ اس کے علاوہ آپ نے گوجرانوالہ اور لاہور
کے مختلف کتب خانوں میں کام کیا‘ بعد میں آپ نے اپنا کتب خانہ سبحانی اکیڈمی کے نام
سے بنایا اور چالیس سال سے زائد عرصہ اس پر کام کیا۔ مدارس کی زیادہ تر کتابیں سبحانی
اکیڈمی سے ہی ملتی تھیں۔ ۲۰۰۳ء میں مولانا نذیر
احمد سبحانیa کا
ایکسیڈنٹ ہو گیا اور ٹانگ کی ہڈی فریکچر ہو گئی اس طرح آپ نے دکان کو چھوڑ دیا۔
مولانا نذیر احمد سبحانیa کو اللہ تعالیٰ نے نعت ونظم کہنے کا بہت زیادہ ملکہ
دیا ہوا تھا۔ آپ اپنی نظموں سے محفلوں کو خوب گرماتے تھے۔ آپ نے بہت زیادہ نظمیں لکھیں
اور پڑھیں جو آپ کی وجۂ شہرت بنیں۔
مولانانذیراحمد سبحانیa کو قرآن مجید سے اس قدر محبت تھی کہ ہر روز قرآن مجید
کی ایک منزل کی تلاوت کرتے اور رمضان المبارک کے مہینے میں تین دنوں میں قرآن مجید
مکمل کر لیتے تھے‘ کہیں جاتے بھی تو یہی فکر رہتی کہ میری منزل نہ رہ جائے۔
مولانا نذیر احمد سبحانیa کے بیٹے راشد سبحانی نے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے عقیدۂ
توحید پر جمعہ پڑھایا تو بہت زیادہ خوش ہوئے اور مجھے ۵۰۰ روپے انعام دیے۔
مولاناسبحانیa کے
پاس سبحانی اکیڈمی میں ہر مکتب فکر کے لوگ آتے تھے اور آپ انہیں دعوت توحید دیتے۔
مولانا سبحانیa کی
نظمیں جب بریلوی مسلک کے لوگ سنتے تو کہہ دیتے تھے کہ بیشک یہ نظمیں ہمارے خلاف ہیں
لیکن نقشہ آپ نے صحیح کھینچا ہے۔ ایک دفعہ بریلوی حضرات نے ان نظموں کی وجہ سے آپ کو
جیل بھی بھجوایا۔ سبحانیa نے
ان مقدمات کی کوئی پروا نہ کی اور آخر دم تک اپنی نظموں کے ذریعے شرک وبدعت کی تردید
کرتے رہے ۔بھٹو دور میں جب تحریک چلی تو مولانا نذیر احمد سبحانیa نے
نظم بنائی کہ ’’نو ستارے بلے بلے اور بھٹو جی رہ گئے کلے کلے۔‘‘ اسی طرح جب شہید اسلام
مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہیدa پر
خنجروں سے حملہ ہوا اور کئی جمعے نہ پڑھا سکے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت دی اور دوبارہ
جمعہ پڑھایا تو مولانا نذیر احمد سبحانیa نے یہ نظم پڑھی۔
ماشاء اللہ جمعہ پڑھایا مولانا یزدانی نے
یادپرا نی تازہ کیتی واہ واہ شیر ربانی نے
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ پل ایک سیالکوٹ کی سالانہ کانفرنس میں
الشیخ پیر بدیع الدین شاہ راشدیa سیٹج
پر تشریف فرما تھے اور سبحانیa مشہور
نظم ملاں جی دا ختم شریف پڑھ رہے تھے اور علامہ پیر بدیع الدین شاہ راشدیa مسکرا
رہے تھے۔
مولانا نذیر احمد سبحانیa کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے عطا کئے۔ ایک کا نام راشد
سبحانی اور دوسرے کا نام کاشف سبحانی ہے۔ راشد کو اللہ تعالیٰ نے چھ بیٹوں سے نوازا
ہے جبکہ کاشف کے دو بیٹے ہیں۔ سبحانیa بہت خوش قسمت ہیں کہ ان کے تین پوتے حافظ قرآن ہیں اور
باقی بھی حفظ کر رہے ہیں۔
مولانا نذیر احمد سبحانیa نے ۲۸ جنوری پیر کو عشاء
کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور ۲۹ جنوری ۲۰۱۹ء بروز منگل آخرت
کے راہی بن گئے۔ ان کی وصیت کے مطابق پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان صاحب نے نماز جنازہ
پڑھائی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت فرمائی۔ دوسری نماز جنازہ جامعہ بلال دوساکو چوک
شیخوپورہ روڈ سگیاں میں ادا کی گئی۔ بعد ازاں انہیں ملحقہ قبرستان میں سپرد خاک کر
دیا گیا۔
آتیں رہیں گی یاد ہمیشہ وہ صحبتیں
ڈھونڈا کریں گے ہم انہیں فصل بہار میں
اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
No comments:
Post a Comment