سعودی عرب کے پاکستان پر احسانات
تحریر: جناب پروفیسر عبدالعظیم جانباز
(سیالکوٹ)
مملکت سعودی عرب
جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق
اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں
سلطنت عمان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے۔ جب کہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ
احمر اس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے، کیونکہ یہاں اسلام
کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود ہیں۔
تقریباً ۱۷۵۰ء میں سعودی عرب
کا دنیا کے نقشے پر ظہور ہوا، جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود نے معروف اسلامی شخصیت
محمد بن عبدالوھابؒ کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کی بنیاد رکھی، اگلے ڈیڑھ سو سال
میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع وغروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط
کے لیے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے، بعد ازاں سعودی
ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
۱۹۱۷ء میں شاہ عبدالعزیز
نے اپنے حریف آل رشید سے ریاض شہر واپس چھین لیا اور اسے آل سعود کا دار الحکومت
قرار دیا، اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے ۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۶ء کے دوران الاحساء، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز پر بھی
قبضہ کر لیا۔ ۸جنوری ۱۹۲۶ء کو عبدالعزیز
ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ ۲۹ جنوری ۱۹۲۷ء کو انہوں نے شاہ
نجد کا خطاب حاصل کیا۔ ۲۰ مئی ۱۹۲۷ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں (جو اس وقت مملکت حجاز
ونجد کہلاتے تھے۔) پر شاہ عبدالعزیز آل سعود کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔ ۱۹۳۲ء میں مملکت حجاز ونجد کے نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔ مارچ ۱۹۳۸ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں
خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا۔
سعودی حکومت کے اندازوں کے مطابق مملکت کا رقبہ ۲۲ لاکھ ۱۷ ہزار ۹۴۹ مربع کلو میٹر
(۸ لاکھ ۵۶ ہزار ۳۶۵ مربع میل) ہے۔ سعودی
عرب رقبے کے لحاظ سے دنیا کے ۱۵ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
امت مسلمہ کے روحانی مرکز سعودی عرب کے پاکستان سے تعلقات چونکہ
شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں، اس لیے وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری
چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو سرزمین
حرمین شریفین کے لیے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا
نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثار وقربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔
پاک سعودی تعلقات اگرچہ ابتداء سے ہی خوشگوار رہے ہیں لیکن شاہ فیصلa کے
دور میں ان تعلقات کو بہت زیادہ فروغ ملا، انہوں نے پاکستان سے تعلقات بڑھانے اور صرف
دونوں ملکوں کو قریب کرنے کے لیے ہی نہیں پوری امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے زبردست کوششیں
کیں جن پر دنیا بھر کے مسلمان انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سبھی مسلم حکمرانوں
کو ان جیسا کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں دیکھنا چاہتے تھے۔
سعودی عرب ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر
پر کھل کر پاکستان کے مؤقف کی تائید وحمایت کی۔ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کی وسیع پیمانے پر مدد کی۔ اپریل
۱۹۶۶ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع
پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد
آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ ۱۹۶۷ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی
عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل
۱۹۶۸ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو
رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ پنجاب کے ایک
بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا، جب کہ کراچی کی سب سے
بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ شاہ فیصل کے دورِ حکومت میں سعودی
عرب نے ۱۹۷۳ء کے سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی۔ دسمبر ۱۹۷۵ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر وترقی کے لیے ایک کروڈ ڈالر کا عطیہ دیا۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا، انہوں
نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ شاہ فیصل
کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ شاہ
عبداللہ مرحوم پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا، جس سے وہ
بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہا کہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔
۲۰۰۵ء میں آزاد کشمیر‘
کے پی کے‘ کے خوفناک زلزلہ اور ۲۰۱۰ء کے سیلاب کے دوران
بھی مصائب ومشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں سعودی عرب سب سے آگے رہا
اور روزانہ کی بنیاد پر امدادی طیارے پاکستان کی سر زمین پر اترتے رہے۔
سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے تیل کے ذخائر کی دولت سے نواز رکھا
ہے۔ اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے لیے اقتصادیات، تعلیم اور دوسرے موضوعات پر ماہرین
کی عالمی کانفرنسیں طلب کرنے جیسے اقدامات کر کے سعودی عرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے
کہ وہ ایک دوسرے کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان کو حل کرنے کے لیے مشترکہ
طریقہ کار طے کر سکیں۔ سعودی عرب کی مالی امداد سے دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا کام
بھی تیزی سے جاری ہے۔ سعودی عرب میں مختلف اسلامی ممالک سے جو طلبہ تعلیم کی غرض سے
آتے ہیں انہیں نہ صرف مفت کتابیں ورہائش فراہم کی جاتی ہے، بلکہ انہیں ایک ہزار سعودی
ریال وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ حج کے لیے لاکھوں مرد وخواتین میں ان کی مادری زبانوں
میں قرآن پاک اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں کتاب وسنت
کی دعوت جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اس میں سعودی عرب کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔
تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر سعودی عرب کی حکومت بے پناہ خرچ کرتی ہے، پاکستانی حکمرانوں
کو چاہیے کہ وہ سعودی عرب کی پالیسیوں واقدامات سے راہنمائی لیں اور ملک میں حدود اللہ
نافذ کریں، تا کہ پاکستان امن وسلامتی کا گہوارہ بن سکے۔
No comments:
Post a Comment