سعودی وژن 2030ء کے معمار
تحریر: جناب راشد علی سدیس
سعودی عرب کے ساتھ
پاکستان کے تاریخی برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔پاکستان ان تعلقات کو قدر کی نگاہ
سے دیکھتا ہے ۔سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کو سپورٹ کیا جبکہ پاکستان نے
ہمیشہ تحفظ حرمین شریفین کے لیے ہرممکنہ تعاون کی یقین دہائی کرائی ہے۔پاکستان کا بچہ
بچہ حرمین شریفین کا سپاہی ہے۔ پاک سعودی عرب تعلقات کوہ ہمالیہ سے بلند اورکئی عشروں
پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک ان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دیتے
رہتے ہیں۔اسلامی افواج کے سربراہ کے لیے سعودی عرب نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف
کا انتخاب کیا جو پاکستان کی عسکری مہارت اورعلاقائی امور پر مضبوط گرفت کی نشاندہی
کرتاہے ۔بلاشبہ پاکستان کی عسکری صلاحیت کا لوہا پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتاہے۔ پاکستان
ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات کا خواہش مندرہا ہے جبکہ بھارت اپنی جارحانہ
پالیسیوں کی وجہ سے ہمیشہ پاکستا ن کو تنہاکرنے کی سازشیں کرتا رہتا ہے ۔بھارت اپنے
منصوبے میں نہ پہلے کامیاب ہوا نہ آئندہ ہوگا کیونکہ پاکستان کے معمار انتہائی قابل
اور حالات حاضرہ پر گہری نظررکھنے والے محب وطن ہیں۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان
سعودی وژن ۲۰۳۰ء کے معمار اور اتحاد ساز رہنما ہیں۔۔شہزادہ محمد بن سلمان کو
اپریل ۲۰۰۷ء میں سعودی کابینہ کے ماہرین بورڈ کا مشیر مقرر کیا گیا۔ دسمبر
۲۰۰۹ء میں گورنر ریاض (شہزادہ سلمان) کا مشیر متعین کیا گیا۔ پھر
انہیں ریاض مسابقتی مرکز کا سیکریٹری جنرل اور کنگ عبدالعزیز اکیڈمی کی مجلس انتظامیہ
کے چیئرمین کا مشیر خاص نیز الدرعیہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا رکن بنایا گیا۔ ۲۰۱۳ء کے آغاز میں ولی عہد کے نجی امور اور دفتر کا نگران و مشیر خاص مقرر کیا گیا۔
مارچ ۲۰۱۳ء میں انہیں ولی عہد کے ایوان کا صدر اور مشیر خاص بدرجہ وزیر
متعین کیا گیا۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں وزیر دفاع کے دفتر کا سربراہ بنایا گیا۔ اپریل ۲۰۱۴ء میں وزیر مملکت و رکن کابینہ متعین کیا گیا اور جب ۲۰۱۵ء میں شاہ سلمان ملک کے حکمران بنے تو انہیں وزیر دفاع ، ایوان شاہی کا سربراہ
اور شاہ سلمان کا نجی مشیر بنایا گیا۔ شاہ سلمان نے اپریل ۲۰۱۵ء میں انہیں نائب ولی عہد اور اقتصادی و ترقیاتی کونسل کا چیئرمین مقرر کیا۔
شہزادہ محمدبن سلمان نے وزیردفاع اورنائب ولی عہد کی حیثیت سے
جدید سعودی عرب کی داغ بیل ڈالی، سعودی عرب کو خطے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے
بالخصوص ایران پر برتری پانے کے لیے وژن ۲۰۳۰ء کی بنیادرکھی۔ شہزادہ محمدبن سلمان اسلامی افواج کاقیام عمل میں لے کرآئے اوریمن
میں تشدد کے خاتمے اورخوثی باغیوں کو شکست دینے کے لیے فوج کشی کی تاکہ یمن میں امن
کویقینی بنایا جاسکے۔سعودی عرب شہزادہ محمدبن سلمان کی قیادت میں انتہاپسندی، دہشت
گردی کے خاتمہ پر عمل پیرا ہے۔ شہزادہ محمدبن سلمان نے خطے میں امن اور اتحاد قائم
کرنے کے لیے چین، جاپان، روس اورامریکہ سمیت متعدد ممالک کے دورے کیے۔ شاہ محمدبن سلمان
کا موجودہ دورۂ پاکستان بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان میں قیام کرتے ہوئے ۸ سے زائد معاہدوں پر دستخط کیے گئے اورتقریبا ۲۰ ارب ڈالر کی سرمایہ
کاری کرنے کا عہد ہوا۔ ان معاہدوں میں آئل ریفائنری، انرجی پراجیکٹ ،دیامربھاشاڈیم
فنڈ، کنسٹرکشن اور کان کنی وغیرہ کے معاہدے شامل ہیں ۔ولی عہدکی آمد سے پہلے اسلامی
افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ۲۷۵ افسران کے ساتھ پاکستان پہنچ چکے تھے۔ جنہوں نے یہاں وزیراعظم‘
آرمی چیف‘ چیئرمین سینٹ، وزیرخارجہ سے علاقائی صورتحال اورولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان
کی آمد سے متعلق منصوبہ بندی کی۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ سے متعلق چند روز پہلے یہاں سیرینا
ہوٹل میں پاک سعودی تعلقات کی تاریخ پر ایک تصویری نمائش بھی منعقد ہوئی جس کا افتتاح
چیئرمین سینٹ نے کیا۔ سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی اور کئی دوسرے عرب سفراء
اس افتتاحی تقریب میں موجود تھے۔ اس تصویری نمائش میں سب سے زیادہ تصاویر سعودی عرب
کے سابق سربراہ شاہ فیصل مرحوم کی تھیں۔ متعدد تصاویر ۱۹۷۴ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کی تھیں جس کے میزبان
اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ شاہ فیصل کا استقبال کرتے ہوئے ذوالفقار
علی بھٹو کی تصویر نمائش میں موجود تھی۔ شاہ فیصل نے طورخم کا دورہ کیا۔ اس موقع پر
قبائلی سردار سعودی فرماں روا کا استقبال کر رہے ہیں اور شاہ کو روایتی قبائلی لباس
پیش کر رہے ہیں۔ ولی عہد کے دورہ کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تصویری نمائش میں شاہ
فیصل مسجد کی تعمیر کی ابتدائی تصویر بھی موجود تھی۔ اس نمائش کا مقصد دونوں ممالک
کے تاریخی تعلقات کی اہمیت کو اجاگرکرنا تھا۔
شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد پر تاریخی استقبال
کی تیاریاں کی گئیں، وزیر اعظم ہاوس آمد پر ولی عہد کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، جہاں
وزیر اعظم اور شہزادہ محمد بن سلمان کی ون آن ون ملاقات بھی ہوئی جبکہ مہمانوں کو ظہرانہ
بھی دیا گیا۔ اگلے روز ایوان صدر میں ظہرانے کے ساتھ سعودی ولی عہد کو پاکستان کا سب
سے بڑا اعزاز نشان پاکستان دیا گیا۔
پاکستان مہمان نوازی اور اہم شخصیات کے استقبال میں ایک خاص
مقام رکھتا ہے ۔ملکی اورغیر ملکی میڈیا شہزادہ محمدبن سلمان کی آمد کو شہ سرخیوں سے
سجا رہا۔ پوری قوم نے شہزادہ محمدبن سلمان کو دل کی اتھاہ گہرائیوںسے خوش آمدید کہا۔
یہ رشتہ صدیوں پراناہے ۔ہرصاحب ایمان سعودی عرب سے محبت کرتاہے ۔سعودی ولی عہد کا دورہ
وطن عزیز میں ترقی اورخوشحالی کے نئے راستے ہموار کرے گا۔ شہزادہ محمدبن سلمان کے اس
دورہ پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ اس دورے سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات
مرتب ہوں گے۔ چینی سی پیک سرمایہ کاری کے بعد یہ تاریخی اوردوسری بڑی سرمایہ کاری پاکستان
میں ہونے جارہی ہے۔ چین پہلے ہی ۶۰ ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری کررہا ہے ۔جس کے متعدد منصوبے
تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکے ہیں۔ مستقبل میں مزید ۴۰ارب ڈالر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے ۔روس پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات کی راہ
ہموار کررہا ہے اورمتعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کا بھی ارادہ رکھتا ہے ۔ممکنہ سرمایہ
کاری کودیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان ایشیاء کاٹائیگر بننے جارہا ہے ۔دوسری
جانب بھارت اسرائیل سے جاسوس طیارے اور ۷۶۰۰۰ جدید بندوقوں کا
معاہدہ کرنے جارہا ہے۔ بھارت جو چاہے کرے مگردنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ پاکستان عسکری
اعتبار سے بہت بڑی پاور ہے جو اپنے دشمنوں کو ناکوں چنے چپواناجانتاہے۔ پاکستان کی
ایٹمی صلاحیت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ افواج پاکستان ہرقسم کے چیلنجز سے نمٹنا جانتی ہے۔
قوم کے عظیم سپوت اوررہنما وطن عزیز کی ترقی اورخوشحالی کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔
دنیا کی تین بڑی بین الاقوامی قوتیں، امریکہ، چین، روس پاکستان
کو محل وقوع کے اعتبار سے ایشیاء کا ٹائیگر سمجھتی ہیں ۔طالبان سے شکست کے بعد امریکہ
کو سمجھ آگئی ہے کہ بھارت کی گود میں بیٹھ کر خطے کوکنٹرول نہیں کیا جاسکتا اور نہ
ہی چین کی سپرمیسی کو چینلج کیا جاسکتاہے۔ امریکی ماہرین کو اندازہ ہوگیا ہے کہ بھارت
کی عسکری قوت پھٹے غبارے کی مانندہے جس میں صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ بھارتی قیاد ت انتہا
پسندی کوپروان چڑھانے میں مہارت تامہ رکھتی ہے۔ جبکہ دنیا کو نہ پھٹے غبارے کی ضرورت
ہے نہ ہی انتہاپسندی کی۔ لہٰذا خطے میں اپنے مفادات کے تحفظات کے لیے پاکستان سے بہتر
تعلقات ازبس ضروری ہیں۔ چین پوری طاقت اورقوت سے ہمسایا ممالک اور افریقی ممالک میں
اپنا اثرورسوخ بڑھاتا جارہا ہے۔ بھارت اپنے کرتوتوں کے سبب بیک وقت پاکستان اورچین
کا دشمن ہے ۔دونوں ممالک کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات خطے کے امن کے لیے سوالیہ نشان
ہیں۔
روس جو مستقبل میں بھارت کا سٹریٹیجک پارٹنر تھا اب بھارت سے
آہستہ آہستہ دور ہورہا ہے‘ اس کی وجہ بھارت کا امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک معاہدہ ہے
۔بھارت اسرائیل اورامریکہ کی پشت پناہی میں مصرو ف عمل ہے جبکہ پاکستان ہمسایہ ممالک
کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو نئی سمت دینے میں مصروف عمل ہے ۔بھارت پاکستان کو تنہا کرنے
کی سازشیں کر رہا ہے جبکہ پاکستان دنیا کے امن کے لیے کلیدی کردار اداکررہا ہے ۔اس
تمام صورتحال کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ بھارت نالائق بچے کی طرح چیٹنگ کے
راستے پر گامزن ہے جبکہ پاکستان محنت اوراخلاص کی بنیاد پر دنیا میں اپنی قوت اورصلاحیت
کا لوہا منوارہا ہے۔
ان تمام تر کامیابیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی قیادت کو انتہائی
بردباری اورتحمل سے کام کرنا ہو گا۔ چین، امریکہ اورروس کے ساتھ تعلقات میں سب سے پہلے
پاکستان کے مفادات کو تحفظ دینا مضبوط پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے۔ گوادر پورٹ ایک
گیم چینجرہے۔
مشترکہ سرمایہ کاری پاکستان کو خوشحالی اورترقی کے راستے پر
گامزن کرے گی۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے دورے میں اہم معاہدوں پر دستخط
کیے۔ خام تیل صاف کرنے کے اس کمپلیکس پر دس ارب ڈالر سرمایہ کاری ہو گی۔ آئل ریفائنری
کے قیام سے پاکستان کو زرمبادلہ کی مد میں کئی ارب ڈالر سالانہ بچت ہوگی جبکہ گوادر
خطے میں تیل کی تجارت کا مرکز بن جائے گا۔ نئی آئل ریفائنری سے پاکستان میں تیل صاف
کرنے کی صلاحیت پانچ لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ جائے گی۔سعودی عرب اور عرب امارات کی
جانب سے امدادی پیکیج اور ۱۰ ارب ڈالر کی آئل ریفائنری سمیت اگلے تین سال میں مجموعی سرمایہ
کاری کا حجم اربوں ڈالر ہو جائے گا۔چین کی طرح سعودی عرب کو بھی پاکستان میں سرمایہ
کاری پر ٹیکس استثنیٰ ملے گا۔آنے والے دنوں میں وطن عزیز کی معیشت میں استحکام آئے
گا۔ یاد رہے کہ اس تمام کے باوجود پاکستان کی علاقائی پوزیشن مستحکم ہے۔ دنیاکا جھکائو
پاکستان کی جانب ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایشیاء کا ٹائیگربن جائیگا۔
پاکستانی حکومت کو تیل ،گیس ،انرجی ،تعلیم اورصحت کے منصوبوں
پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان شعبوں پر پوری صلاحیت سے توجہ مرکوز کرلیتے
ہیں تو بین الاقوامی دنیا میں بلندمقام حاصل کرسکتے ہیں۔پاک سعودی عرب تعلقات زندہ
وپائندہ باد۔
No comments:
Post a Comment