اداریہ ... نرخ بالا کن کہ
اَرزانی ہنوز!
عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل اپنی تقاریر اور بیانات میں مسلم لیگ (ن) کے زعماء
کے غیر پیداواری اور غیر ملکی دوروں پر اٹھنے والے اخراجات کو تنقید کا نشانہ بنایا
کرتے تھے۔ ہم شاعر کی زبان میں پی ٹی آئی کے لیڈروں کو یہی کہہ سکتے ہیں ع
ایں گناہیت کہ در شہر شما نیز کنند
عمران خان تبدیلی کے نعرے پر قوم کو ہمنوا بنانے کے لیے کوشش کرتے رہے۔ لوگوں نے
کسی حد تک اس کا ساتھ دیا اور وہ مسند اقتدار تک پہنچ گئے۔ چنانچہ انہوں نے اگست ۲۰۱۸ء میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور قوم سے
وعدہ کیا کہ ہم غیر ملکی دوروں کے اخراجات‘ سرکاری عملہ اور غیر پیداواری اخراجات کم
کر کے کفایت شعاری اپنائیں گے اور پروٹوکول سے بھی ’’پرہیز‘‘ کریں گے۔ دیکھیں! اس پر
کہاں تک عمل ہو رہا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ سابقہ حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ تبدیلی آئی
ہے کہ ضروریات زندگی کی اشیاء بے حد گراں ہو گئی ہیں۔ غریب نانِ شبینہ کے لیے ترس کر
رہ گئے ہیں۔ ادویات بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹ اور
آپریشن فیسوں میں ۲۵ سے ۱۰۰ فیصد اضافہ کی تجویز سامنے آئی ہے۔ ایکسرے‘ الٹرا ساؤنڈ ودیگر ٹیسٹوں کی فیسوں
میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔ جبکہ ادویات کی قیمتوں میں ناروا اضافہ پر لوگ پہلے
ہی پریشان ہیں۔ حالانکہ صحت کی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر حکومت کی
عدم توجہ کی وجہ سے معاشرے میں خطرناک امراض بڑھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آبادیوں
سے کچرا اٹھانے کا معقول بندوبست نہیں ہے۔ وزراء بڑے طمطراق سے بیانات دیتے ہیں کہ
ستر سال کی خرابیاں درست کرنے میں وقت لگے گا۔
جناب! آپ یہ تو بتا دیں کہ آپ نے چھ ماہ میں کونسا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ۳۶ ممالک جن سے حکومت کے ذمہ داران رابطے کا بار بار تذکرہ کیا کرتے تھے یہ بھی بتا
دیا جائے کہ وہاں سے کرپشن کی کتنی دولت واپس آئی ہے؟
لوگ حکومت کے آئے روز کے وعدوں پر ریلیف کی توقع لیے بیٹھے تھے کہ حکومت نے ریلیف
دینے کی بجائے پیٹرولیم‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوامی توقعات پر پانی
پھیر دیا۔ رہی سہی کسر منی بجٹ نے نکال دی جس کا رد عمل حکومت ضمنی انتخابات میں دیکھ
چکی ہے۔ عوام ابھی مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر سراپا احتجاج اور پریشان تھے
کہ ایک روپیہ ۸۰ پیسے فی یونٹ بجلی مزید مہنگی کر دی۔ اس اضافے
کی وجہ سے صارفین پر ۱۳ ارب پچاس کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جس سے
عوام کا جینا دو بھر ہو جائے گا۔ بجلی چوری کی وجہ سے بھی صارفین زیر بار آتے ہیں۔
خرابیٔ بسیار کے بعد حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لیے عجیب منصوبہ تیار کیا ہے اور
سمارٹ میٹرنگ کے لیے ایشیائی ترقیاتی بنک سے ۱۴ ارب روپے کا قرضہ لے کر ملک کے قرضے میں مزید ناروا اضافہ کر دیا ہے۔ شاید اس منصوبے
سے بجلی کی چوری میں کسی حد تک کمی تو ہو جائے مگر پوری طرح چوری کا تدارک نہیں ہو
گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس منصوبے کا سب سے مشکل مرحلہ سمارٹ
میٹرز کی تنصیب کا ہے۔ تقسیم کار کمپنیوں کے پاس وہ وسائل موجود نہیں ہیں جو ان میٹروں
کی کامیاب تنصیب کر سکیں۔ ایسے حالات میں اس منصوبے کے ڈیزائن کو تبدیل کرنے کی اشد
ضرورت ہے۔ انرجی ماہرین نے وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ اس قسم کے غیر ضروری قرضے جس
کے نتیجے میں فوائد حاصل نہ ہو سکیں ایسے منصوبوں کو شروع ہی نہیں کرنا چاہیے۔
بلاشبہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کے ساٹھ فیصد لوگوں کا تعلق زراعت سے ہے۔ اس
طرح ہماری معیشت کا گہرا تعلق زراعت اور کسان سے ہے۔ لیکن یہاں کا کسان مسائل سے دو
چار ہے کیونکہ اس شعبہ میں سہولیات کا فقدان ہے۔ کاشتکار کو اپنی محنت اور فصل پر اُٹھنے
والے اخراجات کے بعد معاوضے کے حصول کے لیے صبر آزما انتظار اور خسارے کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ اگر یہ طبقہ خوشحال نہ ہو گا تو ملک میں خوشحالی کیسے آئے گی؟ یہ افسوسناک
بات ہے کہ کاشتکار کو کماد کی قیمت بروقت نہ ملنے کی وجہ سے ملتان اور بہاولپور ڈویژن
کے کسان کماد کی کاشت نہ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اس شعبے پر حکومت کو خصوصی
توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
باخبر لوگ جانتے ہیں کہ عمران خاں اقتدار میں آنے سے قبل اس امر کا تسلسل کے ساتھ
اظہار کرتے رہے ہیں کہ اگر ہمیں قوم نے خدمت کا موقعہ دیا تو ملک میں کئی طرح کے نظام
ہائے تعلیم کو ختم کر کے یکساں نظام تعلیم رائج کریں گے۔ چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے
اس حوالے سے حکومت کا کوئی اقدام سامنے نہیں آیا۔ البتہ یہ خبر اخبارات کی زینت بنی
ہے کہ اس شعبہ کے لیے کونسل تشکیل دی جا رہی ہے۔ دیکھیں کونسل کب معرض وجود میں آتی
ہے اور وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے؟ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں تعلیم
کی شرح بنگلہ دیش ایسے ممالک سے بھی کم ہے۔ اس لیے کہ یہاں تعلیم کا حصول نہایت گراں
ہے۔ اگر حکومت تعلیم کی شرح بڑھانے میں مخلص ہے تو ہر بچے کے لیے مسجد مکتب سکول کی
سہولت مہیا کرنا ہو گی۔ اس کے لیے تین ابتدائی جماعتوں کا اہتمام کیا جائے اس کے بعد
باقاعدہ پرائمری سکول میں تعلیم جاری رکھی جائے۔
آخر میں اس مسئلے کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اب کاروباری طبقہ کو بھی
بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ امریکی ڈالر ایک سو پندرہ‘ سولہ روپے سے بڑھ کر ۱۳۹ روپے کا ہو چکا ہے اور روپے کی قدر کم ہوتی جا رہی ہے۔ چنانچہ خام مال کی قیمتیں
بڑھ گئی ہیں اور مصنوعات کی قیمت مناسب نہیں ملتی۔ ایسی صورت میں کاروبار کیسے چل سکتا
ہے؟ کارخانے بند ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیروزگاری بڑھ گئی ہے۔ ڈاکے‘ چوری اور اغوا
برائے تاوان کی وارداتیں عام ہو گئی ہیں‘ لوگ پوچھتے ہیں یہ تبدیلی کیسی ہے؟!
No comments:
Post a Comment