Saturday, June 22, 2019

احکام ومسائل 10-2019


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

اضافی وقت کی مزدوری
O ہمارے ہاں مختلف دفاتر اور کمپنیوں میں یہ روش عام ہے کہ ملازمین کو چھٹی کے بعد بھی کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے‘ مزدور یا ملازم اس اضافی وقت کی اُجرت کا حقدار نہیں ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا شرعا کیسا ہے؟!
P شرعی طور پر ملازمت کرنا اجارے کی ایک قسم ہے‘ کسی سے اجرت پر کام لینا دو طرفہ معاہدہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کام کرے گا اور دوسرا اس کے بدلے اسے مقررہ رقم ادا کرے گا۔ عام طور پر یہ معاہدہ دو طرح سے کیا جاتا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
\          وقت مقرر کر دیا جاتا ہے کہ تو نے فلاں وقت سے فلاں وقت تک کام کرنا ہے‘ اس میں ملازم صرف مقررہ وقت میں حاضر رہنے اور کام کرنے کا پابند ہے۔ اگر مالک زیادہ وقت لیتا ہے تو اس میں ملازم کی قلبی رضامندی ضروری ہے اور اس کے ساتھ اسے اضافی وقت دینے کا معاوضہ بھی ملنا چاہیے۔
\          کام طے کر دیا جاتا ہے کہ تو نے یہ کام کرنا ہے اور اس پر اتنی مزدوری دی جائے گی‘ اس میں ملازم وہ کام کرنے کا پابند ہے خواہ تھوڑے وقت میں کر لے یا زیادہ وقت لگا کے‘ اگر مالک زیادہ کام لیتا ہے تو ملازم کو اضافی کام کا معاوضہ ملنا چاہیے۔
کام یا وقت پورا ہونے کے بعد ملازم کے لیے تو معاہدہ توڑنا ممکن نہیں رہتا البتہ کام لینے والا اس کا استحصال کرتے ہوئے ملازم پر ظلم کر سکتا ہے۔ اس کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں:
\          ملازم پر ظلم کرتے ہوئے اس کی پوری اُجرت نہ دے۔
\          اس سے اضافی کام یا زیادہ وقت لینے کی مزدوری نہ دے۔
ان دونوں صورتوں میں رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’تین شخص ایسے ہیں جن کے خلاف قیامت کے دن میں خود مدعی ہوں گا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس نے کسی کو اجرت پر رکھا پھر اس سے کام تو پورا لیا لیکن اسے اُجرت پوری نہ دی۔‘‘ (بخاری‘ البیوع: ۲۲۲۷)
ایک روایت میں ہے کہ ’’جس شخص کے خلاف میں دعویدار بنا تو میں اس سے مقدمہ جیت جاؤں گا۔‘‘ (ابن ماجہ‘ الرہون: ۲۴۴۲)
ملازم یا مزدور کی مجبوری کی وجہ سے یہ ایک بڑا اور سنگین جرم بن جاتا ہے کیونکہ اس میں ظلم بھی ہے‘ عہد شکنی بھی ہے اور حرام کھانا بھی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ہاں اگر قرائن سے واضح ہو کہ ملازم یا کوئی مزدور خوش دلی سے زیادہ کام کرتا ہے یا اضافی وقت دیتے ہوئے گھٹن محسوس نہیں کرتا تو اس میں چنداں حرج نہیں جیسا کہ سیدنا موسیٰu کا معاملہ ہے۔ ان سے شیخ مدین نے کہا تھا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے کر دوں‘ اس عہد میں تم آٹھ برس میری خدمت کرو اور اگر دس سال پورے کر دو تو یہ تمہاری طرف سے احسان ہے۔ میں تمہیں مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ تم مجھے ان شاء اللہ نیک لوگوں میں پاؤ گے۔‘‘ (القصص: ۲۷)
اس معاہدے کے بعد سیدنا موسیٰu نے اپنی مرضی اور دل کی خوشی سے دس سال کی مدت کو پورا فرمایا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیرa سے ایک یہودی نے سوال کیا‘ سیدنا موسیٰu نے دو مدتوں میں سے کونسی مدت پوری کی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ میں اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک عرب کے بڑے عالم کے پاس جا کر نہ پوچھ لوں۔ چنانچہ میں سیدنا عبداللہ بن عباسwکے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ’’جو مدت ان میں سے زیادہ اور عمدہ تھی سیدنا موسیٰu نے اسے پورا کیا۔‘‘ (بخاری‘ الشہادات: ۲۶۸۴)
وہ مدت دس سال کی تھی حالانکہ سیدنا موسیٰu نے دس سال کا وعدہ نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی اسے پورا کر دکھایا۔ اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وضاحت کر دی جائے۔ دراصل مالک اور ملازم کے تعلق کی نوعیت ہر جگہ مختلف ہوتی ہے‘ اگر کسی جگہ صورت حال اس طرح ہو کہ مالک کا معاملہ ملازم کے ساتھ لچکدار اور چشم پوشی کا ہو اور وہ بجائے شرائط ملازمت کے درگذر اور نرمی سے کام لیتا ہو تو پھر ملازم کو بھی شرائط ملازمت پر ڈٹ جانا اور اصولوں کی راگنی الاپنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ سیدنا موسیٰu کے واقعہ سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ انہیں شیخ مدین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیونکہ وہ گھر داماد تھے‘ ان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر آٹھ سال خدمت کرنے کی بجائے دس سال کی مدت پوری کی۔
افسران بالا اور مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت عملہ اور مزدور پیشہ لوگوں سے اچھا برتاؤ کر کے ان کے دلوں میں جگہ بنائیں‘ ان کی اور ان کے بچوں کی دعائیں لیں‘ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے میں ہی خیر وبرکت ہے۔ واللہ اعلم!
گم شدہ بچوں کا مساجد میں اعلان
O ہمارے ہاں اکثر مساجد میں گم شدہ بچوں اور دیگر اشیاء کا اعلان کیا جاتا ہے‘ بعض مقامات پر کچھ رقم مسجد کے نام پر دے کر اس میں اشیاء فروخت کا بھی اعلان کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے اعلانات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟!
P مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت‘ ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن وغیرہ کے لیے بنائی جاتی ہیں جیسا کہ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’مساجد اللہ کے ذکر‘ نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کے لیے بنائی جاتی ہیں۔‘‘ (مسلم‘ الطہارہ: ۲۸۵)
مساجد میں گمشدہ چیز‘ جانور اور بچوں کا اعلان کرنا درست نہیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’اگر کوئی مسجد میں اپنی گم شدہ چیز کو تلاش کرتا ہے یا اس کا اعلان کرتا ہے تو اسے ان الفاظ میں جواب دیا جائے ’’اللہ تعالیٰ تجھے وہ چیز واپس نہ کرے۔‘‘ کیونکہ مساجد کی تعمیر اس مقصد کے لیے نہیں ہوتی۔‘‘ (مسلم‘ المساجد: ۵۶۸)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے مسجد میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جو لوگوں سے اپنے گم شدہ سرخ اونٹ کے متعلق دریافت کر رہا تھا تو آپe نے فرمایا: ’’اللہ کرے تو اپنے اونٹ کو نہ پائے کیونکہ مساجد تعمیر کرنے کا مقصد عبادت الٰہی ہے۔‘‘ (مسلم‘ المساجد: ۵۶۹)
بعض حضرات کا کہنا ہے بقائے نفس اور احترام آدمیت کے پیش نظر کم از کم گم شدہ بچوں کا اعلان مساجد میں جائز ہونا چاہیے۔ نیز اصول فقہ کا قانون ہے کہ ضروریات‘ ممنوع احکام کو جائز قرار دیتی ہیں۔ اس کے متعلق ہماری گذارش یہ ہے کہ یقینا یہ ضابطہ اور اصول صحیح ہے لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب اس کا کوئی متبادل انتظام نہ ہو سکتا ہو۔ اگر اس کا متبادل ممکن ہے تو مساجد میں اس طرح کے اعلانات جائز نہیں۔ اسی طرح اشیاء فروخت کے اعلانات تو بالکل ہی ناجائز ہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق مسجد سے باہر کسی دکان یا مناسب مقام پر الگ سے کوئی انتظام کر لیا جائے بلکہ عملاً بعض مقامات پر یہ انتظام موجود ہے۔ واللہ اعلم!
اِک مسئلہ وراثت
O میرے بھائی سعودیہ میں ایک حادثہ کی وجہ سے فوت ہو گئے ہیں۔ پسماندگان میں اس کی بیوہ‘ دو بیٹے‘ تین بیٹیاں اور میں ایک بھائی موجود ہیں۔ اس کا ترکہ تقریبا بتیس لاکھ روپے ہے۔ ورثاء میں سے کس کو کتنا ملے گا؟!
P مرنے والے کے ترکہ سے پہلے قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے پھر اس کی طرف سے وصیت کا نفاذ ہوتا ہے بشرطیکہ وصیت ۳/۱ سے زیادہ نہ ہو۔ صورت مسئولہ میں اگر مرحوم کے ذمے قرض نہیں اور نہ ہی اس نے کوئی وصیت کی ہے تو سب سے پہلے بیوہ کا آٹھواں حصہ نکالا جائے‘ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ’’اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘ (النساء: ۱۳)
بیوہ کا آٹھواں حصہ نکال کر باقی ترکہ اولاد کا ہے۔ اسے یوں تقسیم کیا جائے کہ ایک بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ دیا جائے‘ حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دیا جائے پھر جو باقی بچے وہ میت کے قریبی رشتہ داروں کے لیے ہے۔ (بخاری‘ الفرائض: ۶۷۳۵)
میت کے قریبی رشتہ دار اس کی اولاد ہے‘ اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں‘ تمہاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘ (النساء: ۱۱)
اس تفصیل کے مطابق جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں‘ ان میں آٹھواں یعنی ایک حصہ بیوہ کا اور باقی سات حصے اس طرح تقسیم ہوں کہ بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دوگنا حصہ دیا جائے۔ مرحوم کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں‘ اس لیے دو حصے فی بیٹا اور ایک حصہ فی بیٹی ہو گا۔ چونکہ مرحوم کا ترکہ بتیس لاکھ روپیہ ہے اس لیے اس کا آٹھواں حصہ چار لاکھ روپیہ ہوں گے اور باقی اٹھائیس لاکھ روپیہ اس طرح تقسیم کیا جائے کہ آٹھ‘ آٹھ لاکھ فی لڑکا اور چار چار لاکھ فی بیٹی دیا جائے۔ اس طرح اس کی جائیداد پوری پوری تقسیم ہو جائے گی۔ اولاد کی موجودگی میں بھائی محروم ہے کیونکہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والے رشتہ دار محروم ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم!

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)