احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
عیسائی کی طرف سے افطاری
O میرا
ایک عیسائی دوست ہے جو میرے ساتھ سکول پڑھتا تھا‘ وہ ماہ رمضان میں بعض اوقات میرے
لیے افطاری کا بندوبست کرتا ہے۔ کیا مجھے اس کی دعوت افطار قبول کر لینی چاہیے؟ اس
کے متعلق قرآن وحدیث میں کیا ہدایات ہیں۔
P قرآن ہمیں غیر مسلم حضرات کے ساتھ مروت اور روا داری
کا حکم دیتا ہے‘ ایسے حالات میں اگرو ہ ہمیں کوئی تحفہ دیتا ہے تو ا سے قبول کرنے میں
کوئی امر مانع نہیں۔ بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ تحفہ غیر مسلم افراد کے مذہبی
تہوار کی خوشی میں نہ ہو‘ ایسے موقع پر ان کی حوصلہ افزائی کرنا ایک مسلمان کے شایان
شان نہیں۔ رسول اللہe نے
خود بعض کفار سے تحائف کو قبول کیا۔ چنانچہ سیدنا ابوحمید ساعدیt بیان
کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہe کے
ہمراہ غزوہ تبوک میں تھے کہ ایلہ کے بادشاہ نے رسول اللہe کو
سفید خچر بطور تحفہ دیا تو آپe نے
بھی اسے ایک ریشمی چادر عنایت فرمائی۔ (بخاری‘ الزکوٰۃ: ۱۴۸۱)
اس حدیث پر امام بخاریa نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’مشرکین سے ہدیہ
قبول کرنا۔‘‘ (بخاری‘ الہبہ‘ باب نمبر ۲۸)
اسی طرح سیدنا انسt کا بیان ہے کہ ایک یہودی عورت رسول اللہe کے
پاس زہر آلود بکری کا گوشت لے کر آئی تو آپe نے اسے قبول کیا اور اس میں سے کچھ تناول بھی فرمایا۔
(بخاری‘ الہبہ: ۲۶۱۷)
ان احادیث وواقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار ومشرکین اور اہل
کتاب سے تحائف قبول کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ لیکن صرف دو باتوں کا خیال رکھا جائے:
\ وہ تحائف حلال
اور طیب ہوں‘ کسی حرام چیز پر مشتمل نہ ہوں۔
\ وہ تحائف ان
کے مذہبی تہوار کی خوشی میں نہ ہوں۔
ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی مشرک یا اہل کتاب کسی
مسلمان کی افطاری کا بندوبست کرتا ہے تو اسے قبول کرنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں‘ البتہ
اس قسم کا ہدیہ دینے یا افطاری کرانے میں اسے آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ
آخرت میں صرف اس عمل کا فائدہ ہو گا جو ایمان کی حالت میں کیا جائے اور جس کی بنیاد
اخلاص پر ہو۔ اس میں نمود ونمائش کا شائبہ نہ ہو۔ واللہ اعلم!
تراویح پڑھنے کی فضیلت
O ہم
رات کو با جماعت نماز تراویح ادا کرتے ہیں‘ اس کا روزے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ نیز احادیث
میں اس کی کیا فضیلت آئی ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں ان دونوں امور کی وضاحت کریں۔
P صیام رمضان اور قیام رمضان کا باہمی گہرا تعلق ہے۔ غالباً
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہe نے
ان دونوں کی فضیلت کو اکٹھا بیان کیا ہے۔ (بخاری‘ الصوم: ۱۹۰۱)
لیکن یہ دونوں لازم ملزوم نہیں کہ اگر ایک کی ادائیگی نہ ہو
تو دوسرا ناقص یا ادھورا رہے۔ اس کی فضیلت بھی متعدد احادیث سے ثابت ہے‘ ان میں سے
کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
\ سیدنا ابوہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جو شخص رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی امید سے رات کا قیام کرتا ہے تو
اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری‘ الایمان: ۳۷)
\ سیدنا ابوذرt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام نماز پوری کرے تو اس کے لیے
ساری رات کے قیام کا ثواب ہے۔‘‘ (ترمذی‘ الصوم: ۸۰۶)
اس حدیث کے پیش نظر قیام رمضان با جماعت ادا کرنا چاہیے اور
امام کے ساتھ ہی اسے مکمل کرنا چاہیے تا کہ نمازی کو پوری رات کے قیام کا ثواب ملے۔
آخری عشرہ میں قیام رمضان کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے‘ کیونکہ
اس کے متعلق سیدہ عائشہr کا
بیان ہے کہ جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے۔ خود بھی شب
بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی عبادت کے لیے بیدار رکھتے تھے۔ (بخاری‘ فضل
لیلۃ القدر: ۲۰۲۱)
ہمیں چاہیے کہ رمضان کے دنوں اور اس کی راتوں میں جی بھر کر
عبادت کریں تا کہ اللہ کے ہاں اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں۔ واللہ اعلم!
عشرۂ رمضان کی تقسیم
O اکثر
خطباء بیان کرتے ہیں کہ رمضان کا پہلا عشرہ باعث رحمت‘ دوسرا عشرہ ذریعۂ بخشش اور
تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔ کیا واقعی یہ بات درست ہے؟ اس کے متعلق کوئی حدیث
ہو تو اس کی صراحت کریں۔
P رمضان کا پورا مہینہ رحمت ومغفرت اور جہنم سے آزادی
کا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول
دیئے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری‘ الصوم: ۱۸۹۸)
ایک روایت میں ہے کہ آسمان کے دروازے اور دوسری روایت میں ہے
کہ رحمت کے دروازے وا کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ فضیلت سارا مہینہ رہتی ہے صرف پہلے عشرہ
تک محدود نہیں۔ سیدنا عبادہ بن صامت t کا
بیان ہے کہ رسول اللہe نے
رمضان کی آمد پر فرمایا: ’’تمہارے پاس برکتوں والا مہینہ آگیا ہے‘ اس میں اللہ تعالیٰ
تمہیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے‘ تمہارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور تمہاری دعائیں
قبول کرتا ہے۔‘‘ (ترغیب وترہیب: ج۲‘ ص ۶۰)
گناہوں کی معافی بھی پورا مہینہ ہوتی رہتی ہے‘ اس کا تعلق کسی
خاص عشرے سے نہیں۔ سیدنا ابوہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جب رمضان آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار مخلوق کو جہنم سے آزاد کرتا
ہے اور یہ سلسلہ رمضان کی ہر رات ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی‘ الصوم: ۶۸۲)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جہنم سے آزادی کا سلسلہ بھی رمضان
کی تمام راتوں میں جاری رہتا ہے۔ اس کا تعلق صرف آخری عشرہ سے نہیں۔ لیکن ہم لوگوں
نے رمضان کو بایں طور تقسیم کیا ہے کہ پہلا عشرہ رحمت‘ دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا
عشرہ نجات‘ پھر ہر عشرہ کی مناسبت سے دعائیں مخصوص کر لی ہیں۔ مثلاً:
پہلے عشرہ کی یہ دعا ہے: ’’اے رب! تو مجھے بخش دے‘ مجھ پر رحم
فرما‘ تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
دوسرے عشرہ کے لیے درج ذیل دعا کو مخصوص کر رکھا ہے: ’’میں اللہ
سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘
تیسرے عشرہ میں درج ذیل دعا پر زور دیا جاتا ہے: ’’اے اللہ!
تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے‘ مجھے معاف فرما دے۔‘‘
ان عشروں کو تقسیم کرنے کے لیے جس روایت کو بنیاد بنایا جاتا
ہے‘ اسے صاحب مشکوٰۃ نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ سیدنا سلمان فارسیt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
ہمیں شعبان کے آخری روز خطاب فرمایا‘ اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’وہ رمضان ایسا مہینہ ہے
جس کا پہلا عشرہ رحمت‘ درمیانی مغفرت اور آخری جہنم سے آزادی کا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ‘ الصوم:
۱۹۶۵)
اسے امام بیہقیa کی
تالیف شعب الایمان کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ شعب الایمان میں ایک طویل حدیث
ہے جس میں مذکورہ الفاظ ہیں۔ (شعب الایمان: ج۷‘ ص ۲۱۶) لیکن یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ اس میں کئی ایک ایسے راوی ہیں
جو محدثین کے ہاں ثقہ نہیں بلکہ ضعیف ہیں۔ مثلاً
\ ابوبکر اسماعیل
بن محمد الضریر مجہول ہے‘ اس کے حالات نہیں ملتے۔
\ علی بن زید
بن جدعان راوی ضعیف ہے۔
\ ایاس بن عبدالغفار
راوی کی احادیث بھی غیر محفوظ ہیں۔ (کتاب الضعفاء: ج۱‘ ص ۳۵) امام عقیلی نے اس پر سخت جرح کی ہے۔
\ یوسف بن زیاد
کے متعلق امام بخاریa نے
منکر الحدیث کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (التاریخ الکبیر: ج۷‘ ص ۳۸۹)
محدث ابن خزیمہa نے
بھی اس روایت کو بیان کیا ہے اور اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (ج۳‘ ص ۱۹۱‘ حدیث نمبر: ۱۸۷۸)
بہرحال! یہ حدیث صحیح نہیں۔ علامہ البانیa نے
اس حدیث پر مفصل بحث کی ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ: ج۲‘ ص ۲۶۲) واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment