Tuesday, June 11, 2019

Khutba22-2019


رمضان المبارک کے بعد مسلمانوں کا طرز عمل

امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر خالد غامدیd
12 رمضان 1440ھ بمطابق  17 مئی  2019ء
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور تمام معاملات میں اس سے خوف کھائو۔ خوب جان لو کہ اللہ کا ڈر کامیابی ،اللہ کی نصرت وحمایت اور توفیق الہٰی کے حصول کا سب سے عظیم ذریعہ ہے ۔جو نیکی میں آگے بڑھا،جس نے بلندی ورفعت حاصل کی اورجس نے عزت ووقار حاصل کیا ،اسے یہ نعمت تقوے ہی کے ذریعے حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی تعظیم ،اس کے تقوے ،دلوں کی سلامتی، اور برائیوں سے دور رہ کر ہی یہ نعمتیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’جو اللہ سے ڈرے , اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا،اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو، اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے، بیشک اللہ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے۔‘‘ (سورت طلاق ۲،۳)
برداران اسلام! ہم نے ابھی ابھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے لبریز دنوں اور سال بھر کے افضل ترین مہینے  رمضان المبارک کو الوداع کہا ہے ۔اس کی آمد سے قبل ہم اس کے استقبال کی بھرپور تیاریاں کر رہے تھے،پھر یہ بابرکت دن اور راتیں تیز رفتاری سے ختم ہوگئیں ،ہمارے نیک اعمال سر بمہر ہو گئے،اب وہ قیامت کے روز علیم وخبیر اللہ کے سامنے ہی کھولے جائیں گے۔
جسے اس دن اللہ کی رحمت حاصل ہو گئی ،وہ شکر گزار ہوگا۔اسے اللہ کی قبول رضا مبارک ہو۔جنت کے دروازے ـالریان ـ سے جنت میں داخلہ مبارک ہو ۔کیونکہ روزے دار وں کو ان کے صبر کابدلہ بغیر حساب کے دیا جائے گا۔ جس کو اس روز ناکامی کا سامنا ہوا وہ خود ہی کو ملامت کرے‘ خود کو کوستا رہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے برکتوں والا مہینہ عطا کیا تھا،اپنی رحمت وفضل کے دروازے اس کیلئے کھول دیئے تھے۔لیکن اس نے خود ہی اس سے فیض یاب ہونے سے انکار کر دیا تھا۔تم سب جنت میں داخل ہو گے سوائے اس کے کہ جس نے خود داخل ہونے سے انکار کیا ۔
اے اللہ کے بندو ! عبادات اور نیک اعمال کی بجا آوری کے بعد ایک مسلمان کے ہاں سب سے اہم چیز ا سکی قبولیت ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ وہ نیک اعمال کے ذریعے اللہ کاتقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔وہ ریا کاری اور دکھلاوے سے بچتا ہے ،لوگوں کی واہ واہ اور تعریف کی تمنا نہیں کرتا بلکہ پورے اخلاص سے نیک اعمال کرتا ہے اور ساتھ ساتھ ڈرتا ہے کہ کہیں اس کے عمل رد نہ کر دیئے جائیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیزیں ہی قبول فرماتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور انہیں پڑھ کر سناؤ آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر  جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ قبول ہوئی‘ بولا کہ قسم ہے! میں تجھے قتل کردوں گا‘ کہا: اللہ اسی سے قبول کرتا ہے، جسے ڈر ہے۔‘‘ (المائدہ ٢٧)
یعنی وہ لوگ جوہر نیک عمل کرتے ہوئے اللہ سے ڈرتے ہیں ،پورے اخلاص اور صدق دل سے وہ عمل کرتے ہیں ،سنت کی اتباع کرتے ہیں ،اور ساتھ ہی ساتھ خوف کھاتے ہیں کہ کہیں اللہ ان کے عمل رد نہ کردے ،اسی لئے اللہ کے مومن بندوں کا یہ خصوصی وصف بیان ہوا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’اور وہ جو دیتے ہیں جو کچھ دیں اور ان کے دل ڈر رہے ہیں ،یوں کہ ان کو اپنے رب کی طرف پھرنا ہے۔‘‘ ( المومنون ٦٠)
ام المومنین سیدہ عائشہr نے رسول e سے اس آیت کی تفسیر پوچھی کہ یہ کون لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں؟کیا یہ چور، شرابی اور بدکار  ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اے ابو بکر صدیق کی لخت جگر! اس سے یہ لوگ مراد نہیں بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو نمازیں ادا کرتے جائیں۔ ـ (مسند احمد‘ ترمذی)
امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں  نے نیک اعمال کئے اور اللہ سے ڈرتے رہے کہ ان کے یہ اعمال انہیں عذاب الہٰی سے بچا سکیں گے یا نہیں۔بلا شبہ مومن نیکی اور خشیت الہٰی کو ساتھ ساتھ رکھتا ہے جبکہ منافق برائیاں اور بے خوفی کو ساتھ  لئے پھرتا ہے۔
سچا مسلمان شاہراہ زندگی پر چلتے ہوئے اپنے رب کی رضا کے حصول میں امید وخوف کے دو پروں کے ساتھ اڑانیں بھرتا ہے ،وہ نیک اعمال سر انجام دیتا ہے ، اور اللہ سے قبولیت کی امید رکھتا ہے ،ارحم الراحمین کی رحمت اور اس کے فضل کی تمنا رکھتا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ کے عذاب اور ناراضی سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں اس کے نیک اعمال رد نہ کر دیئے جائیں ۔
بہت سارے روزے داروں کو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔بہت سے قیام کرنے والوں اور قرا ء کو سوائے تھکاوٹ  اور شب بیداری  کے کچھ نہ ملے گا۔بہت سارے تلبیہ پڑھنے والوں کو جواب ملے گا کہ : تمہاری بیت اللہ کی حاضری قبول نہیں۔ نیک اعمال کی قبولیت اللہ تعالیٰ کی رضا اور نیک اعمال کے ثواب کا حصول صالحین کی امید ہے۔ عابدوں کا مقصد اور اللہ کے تقرب چاہنے والوں کی تسلی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو جاو ،جب رسول تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجاتا ہے اور یہ کہ تمہیں اس کی طرف اٹھنا ہے،، اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں خاص ظالموں کو ہی نہ پہنچے گا اور جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ (الانفال ٢٤،٢٥)
برادران اسلام ! اللہ کی رضا اور تقرب کے حصول کے لئے کوشش کرنے والے مسلمانوں کو جس سب سے بڑی آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ پست ہمتی اور سستی ہے۔ انہیں بے حسی، سستی اور بے عملی کی مصیبت گھیر لیتی ہے، اللہ تعالیٰ نے نماز میں سستی کرنے والوں اور صدقہ وخیرات میں بد دلی دکھانے والوں کی تشہیر کی ہے ۔ان کے اس عیب کو دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے ،تو جو شخص بالکل عبادت چھوڑ دے  اور بے حس ہو کر بیٹھ جائے وہ کیا برا آدمی ہو گا۔؟
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے لوگوں کی حالت سے ڈرایا ہے جواپنے نیک اعمال کی عمارت کو خوب مضبوط بناتے ہیں ۔اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں اور پھر بد عملی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا۔‘‘ (النحل ٩٢)
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی کریمe نے عبداللہ بن عمرو t سے فرمایا تھا :ـاے عبد اللہ! فلاں شخص جیسا مت بننا ،وہ تہجد گزار تھا پھر اس نے تہجد پڑھنا چھوڑ دی۔ ـامام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب شعب الایمان  میں صحیح سند کے ساتھ نبی کریم e سے بیان کیا ہے کہ :
ہر عمل کا جوش ہوتا ہے اور ہر جوش میں سستی آجاتی ہے تو جس کی سستی سنت کے مطابق ہو ئی وہ ہدایت پا گیا اور جس کی سستی اسے سنت سے دور لے گئی وہ ہلاک ہو گیا۔
جامع ترمذی میں نبی کریم e کا فرمان منقول ہے :بلاشبہ ہر عمل کا جوش اور پھرتی  ہوتی ہے اور پھر جوش میں سستی لاحق ہو جاتی ہے ،اگر صاحب عمل درست عمل کرے اور قریب قریب رہے تو اس کے درست رہنے کی امید کی جا سکتی ہے، اگر لوگ اس کی طرف انگلیاں اٹھانے لگیں تو اسے کچھ مت شمار کرو۔
 ہر عبادت گزار اور عمل کرنے والے کوعمل میں سستی اور وقفہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی دوران عبادت  اور کبھی عبادت کے بعد ،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان اورآزمائش  ہوتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے سچے اور محبوب لوگوں کودیگر لوگوں سے ممتاز کر دے ،کون مخلص ہو کر اس کی عبادت کرتا ہے اور کون مطلب برآری کیلئے عبادت گزار ہے ،ان میں فرق کرنے کیلئے یہ امتحان ہے ،مطلب برآری کیلئے عبادت کرنے والے کو اللہ کی نعمتیں ملتی رہیں تو وہ خوش وخرم رہتا ہے اور کوئی مشکل آجائے تو وہ سر پٹ بھاگ  نکلتا ہے۔
خوش بخت وہ شخص ہے جس کا وقفہ اور سستی عارضی ہو ،اس کے دوران میں وہ سنت کے مطابق زندگی گزارتا ہے ،اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ درست عمل بجا لاتا ہے ،حکمت وبصیرت کے ساتھ اپنی اصلاح کرتا ہے اور پھر پورے جوش وجذبے کے ساتھ نیک عمل اور تقرب الہٰی کے حصول کیلئے کوششیں تیز کردیتا ہے ،یہ وہ سچا اور مخلص آدمی ہے جسے اللہ توفیق بخشتا ہے اور ثابت قدمی سے نوازتا ہے ،وہ وقفے کے دوران ڈگمگاتا نہیں ،اپنے رب کے ساتھ اس کے تعلقات تبدیل نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ سوئے ظن کا شکار ہوتا ہے۔
جبکہ حقیقی برباد  وہ شخص ہے جو سستی اور وقفے کے بعد واجبات اور فرائض میں بد عملی کا شکار ہو جاتا ہے ،ممنوعات میں سستی برتنے لگتا ہے ،وہ اپنے اعمال کی عمارت منہدم کر دیتا ہے،اپنی ایمانی گرہیں کھول دیتا ہے اور اپنے عزائم توڑ دیتا ہے۔
اسے انسانی اور جنی شیاطین اپنا شکار بنا لیتے ہیں،یہ خواہشات نفسانی کا اسیر ہو جاتا ہے ،اسے دنیا دائیں بائیں گھماتی رہتی ہے ،یہ بدعت کا شکار ہو جاتا ہے ،یاقرآن وحدیث میں تحریف وتبدیلی یا غلو و انتہا پسندی یا تساہل وتفریط کا نشانہ بن جاتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے ایک اسرائیلی عالم کا حال قرآن  مجید میں بیان کیا ہے ،اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا،پھر اسے دنیا کی زیب وزینت نے اندھا کر دیا،وہ اپنی خواہشات کا اسیر ہو کر پستی میں گر گیا ۔وہ حق کے بیان سے سست ہو گیا، وہ علماء کرام کے کردار اور وقار سے نکل گیا، اللہ تعالیٰ کی آیات میں تبدیلی اور تحریف کا مجرم بن گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اے محبوب! انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہوگیا،،اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے اٹھالیتے مگر وہ تو زمین پکڑ گیا اور اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر بوجھ لادے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے‘ یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں۔‘‘ (الاعراف ١٧٥ ،١٧٦)
اللہ کے بندو ! یقینا سچا مسلمان وہ ہے جس کی ساری زندگی میں تقوی ہی اس کا امتیاز اور اوڑھنا بچھونا ہو، جونیکی کے کاموں کو بجا لائے اور گناہوں اور برائیوں سے اجتناب کرے ،یہی اس کا منہج و کردار ہو،نیکیوں کے موسم بہار میں عبادت کے ذریعے اللہ کا تقرب تلاش کرے  اور موقع سے فائدہ اٹھائے ،ا پنے آپ کو خیر وبھلائی کے کاموں کا عادی بنائے اور عمدہ اخلاق کو ترک نہ کرے ،نہ غفلت کا شکار ہو ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عبادت اور تقرب کا موقع انسان کی موت تک جاری رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو،،۔(الحجر ۹۹)
دوسرا خطبہ!
حمد وثناء کے بعد:
اللہ کے نزدیک بڑے گناہوں میں اور بد ترین جرائم میں سے یہ بھی ہے کہ انسان جان کر سرکشی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ معصوم جانوں کو قتل کرنے اور پاکیزہ خون بہانے میں شریک کار بنا رہے۔ زمان ومکان کی حرمت اور تقدس کا لحاظ کیے بغیر دھماکوں اور تخریب کاری کے ذریعے نسل وفصل کی بربادی کرنے، کھیتوں کی غارت گری اور بد امنی پھیلانے کو اپنا مقصد بنائے رکھے۔ بد ترین مقاصد اور انتہائی مذموم اہداف ہیں کہ تخریب کاری کر کے امن تباہ کیا جائے۔
یقین جانیے کہ ان مجرمانہ اعمال کے پیچھے دہشت گرد تنظیمیں، فرقہ واریت پھیلانے والے گروہ اور حسد کرنے والے دشمن ہیں، جنہوں نے عالم اسلامی میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے اور بد امنی پھیلانے کے لیے کم سن نوجوانوں کو استعمال کیا ہے۔ انہوں نے حرمین شریفین کے خادم سعودی عرب پر حملہ کیا ہے۔
رمضان المبارک میں اور بالخصوص اس کے آخر میں ہونے والے حادثات جو اس ملک میں پیش آئے ہیں، جن میں دھماکے کیے گئے اور خون ریزی کی گئی،  امن پسند شہریوں کو ہراساں کیا گیا ، یہاں تک کہ معاملہ رسول مکرم e کے شہر مدینہ تک بھی جا پہنچا،  یہ ہر لحاظ سے بڑی بدنصیبی ہے ۔ حرمین کی غیرت رکھنے والے ہر مسلمان کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ الم ناک اور بیک وقت حیرت ناک اور تشویش ناک مرحلہ ہے۔ الم ناک اس لیے کہ یہ حرمین کی سرزمین پر ہوئے ہیں، اس مقدس مقام پر کہ جہاں وحی نازل ہوتی رہی۔
اس کے نتیجے میں بے قصور مسلمان قتل ہوئے ہیں، وفا دار سپاہی قتل ہوئے ہیں۔ ہم انہیں اللہ کے یہاں شہید سمجھتے ہیں۔ (اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے۔) اگر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت نہ ہوتی اور پھر ہمارے بہادر جوانوں کی کاوشیں نہ ہوتیں تو یہ دھماکے رسول اکرم e کی مسجد مبارک تک پہنچ ہی چکے ہوتے۔ اللہ ہمارے سپاہیوں کو مزید ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔
حیرت ناک اور تشویش ناک اس لیے کہ دانشمند سوال کر رہے ہیں: یہ جاہل حملہ آور کہاں سے آتے ہیں؟ جو مؤمنوں کے متعلق نہ کسی عہد کا پاس رکھتے ہیں اور نہ کسی تعلق کا لحاظ۔ جنہوں نے نہ حرمتوں کا پاس رکھا ہے اور نہ زمان ومکان کے تقدس کا لحاظ۔ آخر ان کی نظر میں خون ریزی کا گھناؤنا جرم اتنا ہلکا کس طرح ہو گیا؟ انہوں نے والدین‘ رشتہ داروں اور بے قصور لوگوں کے خون کو حلال سمجھ لیا اور مقدس ترین زمان ومکان پر حملہ کر دیا؟!!
اے امت اسلام! یہ آفت مسلمان معاشرے اور بالخصوص حرمین شریفین میں تو بالکل نا مانوس ہے۔ یہ تو وہ سرزمین ہے کہ جہاں اعتدال، وسطیت اور اسلام کے حسین نظام کے تحت عوام اور حکمران بستے ہیں۔
ہم بھرپور انداز میں یہ تاکید کرتے ہیں کہ یہ جرائم گمراہ فکر اور غیر معتدل تصورات کا نتیجہ ہیں اور یہ اسلامی معاشروں میں ایک انوکھی چیز ہے۔ اسے پھیلانے اور بڑھانے کا ذمہ حاسد دشمنوں نے لے رکھا ہے جو حقیقت میں جرم اور فساد، دہشت گردی اور بد امنی کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے ملک کے امن وامان، صحت وعقیدے اور حجاج کی خدمت کے لیے کی گئی کاوشوں کو تباہ وبرباد کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔
اللہ کے بندو! یہ ایک حقیقت ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس خطرے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔  اسے سمجھنے کے بعد مکمل عزم اور ہمت کے ساتھ اس الم ناک سوچ کی روک تھام کریں۔ اکٹھے ہو جائیں، اپنی صفیں مضبوط کر لیں، اختلافات اور جھگڑے چھوڑ دیں، فرقہ واریت اور نام نہاد عصبیتوں کو پس پشت ڈال کر اکٹھے ہو جائیں۔ معاشرے کے جو مؤثر افراد اصلاح کر سکتے ہیں اور معاشرے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں جیسے علما، مفکرین، سیاست دان، میڈیا کے لوگ‘ دانش ور اور سوشل میڈیا کے فعال لوگ، ان کا فرض ہے کہ وہ معاشرے کو ان افراد سے خبردار کریں، ان کے شبہات کا ازالہ کریں اور ان کے افکار کے جوابات لکھیں اور ان سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ اسی طرح حکمرانوں کا ساتھ دیں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
اللہ کے بندو! ہم میں سے ہر کوئی حرمین شریفین کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اس حوالے سے ہر کسی پر چند چیزیں لازم آتی ہیں۔
اے امت اسلام! سرزمین حرمین اور مقدسات اسلامیہ کے عقیدے دین کا دفاع کرنا جہاد کے بلند مرتبوں میں سے ہے اور واجب الادا واجبات میں سے ہے اور سب سے بڑھ کر تقرب الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
سنو! حسد کرنے والی شر کی طاقتیں ناکام ونامراد ہو گئیں۔ جو فساد برپا کرنا چاہتی ہیں، امن وامان تباہ وبرباد کرنا چاہتی ہیں۔ سنو! اپنا غصہ اور حسد لیے خود ہی مر جاؤ۔ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اللہ کا دین غالب آ کر رہے گا، سرزمین حرمین اللہ کی حفاظت اور نگہبانی میں ہے اور ان کا معاملہ امانت دار ہاتھوں میں ہے۔ جو پورے عزم اور طاقت کے ساتھ ہر اس ہاتھ کو کاٹ ڈالے گی جو تخریب کاری کے لیے اس کی طرف بڑھے گا اور جو مقدسات اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت و رسوائی تو اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے‘‘ (مائدہ: ٣٣)۔
اے اللہ! اے طاقت وعزت والے! جو ہمارے بارے میں، ہمارے ملک کے بارے میں یا مسلمان ممالک کے بارے میں برا اردہ رکھے، یا اللہ اس کی چال اسی پر لوٹا دے اور اسے خود میں مشغول کر دے۔ اے اللہ! ہمارے ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو امن وامان نصیب فرما اور ہر جگہ سے اسے رزق مہیا فرما۔ آمین!

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)