Saturday, June 22, 2019

سبسڈی۔ اخراجات نہیں آمدنی کا ذریعہ 08-2019


سبسڈی کا شوشہ ... اخراجات نہیں آمدنی کا بڑا ذریعہ

تحریر: جناب پروفیسر محمد عاصم حفیظ
حج سبسڈی کے معاملے پر بعض دانشور اس طرح اسلامی دلائل دے رہے ہیں کہ جیسے سارے کا سارا حکومتی نظام اسلامی قوانین کے تحت ہی چل رہا ہو۔یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے حکومت حج اپنے خرچے پر کراتی تھی اور اس مرتبہ عازمین کو خرچہ کرنا پڑے گا۔ قرآن کی وہ آیات اور احادیث سامنے لائی جارہی ہیں کہ جن میں حج کی فرضیت صرف صاحب استطاعت لوگوں کے لئے ہے۔جناب والا معاملہ یہ نہیں‘ نہ تو حکومت حج مفت کراتی تھی اور نہ ہی کبھی عازمین پر بڑا احسان کیا گیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حج بہت سے حکومتی محکموں کے لیے آمدن کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ حج سیزن شروع ہوتے ہیں آپ ہر بینک کے باہر ایک فلیکس ضرور دیکھیں گے کہ حج درخواستیں یہاں جمع کروائیں‘ دراصل حج درخواستیں جمع کرنے کی صورت میں ایک بڑی رقم عازمین سے وصول کی جاتی ہے جو کہ کئی ماہ تک بنکوں میں موجود رہتی ہے۔ حکومت عوام کا یہ پیسہ استعمال کرتی ہے اور جن کی درخواست نہیں نکلتی پھر ان کو کافی بڑے پراسیس کے بعد پیسہ واپس کیا جاتا ہے۔اس کی مثال یوں بھی لے لیں کہ آجکل عمرہ کے اشتہارات دیکھے جاسکتے ہیں جن میں ۲۱ دن کے لیے عمرے کا خرچہ ایک لاکھ کے قریب بتایا جاتا ہے۔اگر چالیس دن کے لیے حج ہونا ہو تو آپ اس خرچے کو ڈبل کر سکتے ہیں یعنی کہ دو لاکھ اگر حکومت تین لاکھ کے قریب بھی وصول کرتی ہے تو یہ کوئی احسان نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی خاص رعایت کی جاتی ہے۔ بلکہ ان اخراجات میں بھی حکومت کو کچھ بچت بھی ہوتی ہے کیونکہ ماضی کے چند سال حکومت نے پیسے واپس بھی کیے تھے۔حج سبسڈی پر بات کرنے والے دانشور ذرا ریسرچ کریں کہ پی آئی اے حج آپریشن سے کتنے کروڑ روپے کماتی ہے اور حج کی ٹکٹ عام دنوں سے کس قدر مہنگی ہوتی ہے۔کیا حج کے لئے جانے والی فلائٹ میں کوئی خاص فیول استعمال ہوتا ہے کہ جو یہ ٹکٹ ایک لاکھ روپے سے زیادہ تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ حج کے حوالے سے صاحب استطاعت کی بحث وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جو حکومتی عیاشی کے لئے بھی دلائل دیتے ہیں‘ کیا حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کے لیے بھی کوشش کی ہے۔ حج آپریشن بچت پر حکومت کی تعریفیں کرنے والے ذرا یہ بھی تو بتائیں کہ ۵۰/۵۰ گاڑیوں کے پروٹوکول اور پرائیویٹ جہازوں میں بیرون ملک سفر پر کتنے اخراجات آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف حکومتی عیاشیاں کی جارہی ہوں وزراء ہیلی کاپٹر کو رکشے کی طرح استعمال کرتے ہوں‘ تھر جیسے علاقوں کے سفر کے لئے پچاس گاڑیوں کے قافلے جاتے ہوں وہاں پر حج آپریشن کے اخراجات کی بچت کو صرف منافقانہ پالیسی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ کس قدر منافقت ہے کہ ایک جانب حکومت بیرون ملک اثاثے رکھنے والوں کے لئے مراعات کا اعلان کرتی ہے ان سے جرمانے کم وصول کرنے اور انہیں سہولت دینے کا اعلان کرتی ہے۔ کیا یہ حکومتی نقصان نہیں؟ کیا اس سے قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ اس پر تو کوئی بات نہیں کرتا۔ حج سبسڈی کا شوشہ چھوڑ کر ایک عجیب وغریب بحث شروع کرائی گئی ہے دراصل حکومت کچھ بھی چھوٹ نہیں دیتی بلکہ حج آپریشن حکومت کے لئے اربوں روپے کی آمدن کا ذریعہ بنتا ہے۔ دیہات اور دور دراز علاقوں کے لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کرتے ہیں جس سے حکومت کے کئی محکمے بھاری آمدن کماتے ہیں۔ان دانشوروں کو چیلنج ہے کہ ذرا تحقیق کریں کہ کتنے حکومتی محکموں کے سینکڑوں اہلکار عازمین حج کے خرچے پر مفت حج کے مزے اڑاتے ہیں۔ ان سب اہلکاروں کے اخراجات بھی عازمین کے کھاتے میں ڈالے جاتے ہیں۔ دوسری طرف شوشا چھوڑا جاتا ہے کہ حکومت کوئی بڑی سبسڈی دیتی ہے۔ عازمین حج کی لیے عمارتوں کے حصول اور ٹرانسپورٹ کے ٹھیکوں میں کروڑوں روپے کی بدعنوانیاں ہوتی ھیں اور یہ سب بڑے آفیسر اور سیاستدان مل کر اپنے رشتہ داروں کی مدد سے پیسہ کماتے ہیں۔ بحث یہ ہے کہ حکومت تو جیسے سارا حج فری کراتی ہے اور یہ سب قومی خزانے سے رقم ادا ہوتی ہے ایسا ہرگز بھی نہیں۔ سابق وزیر مواصلات ڈاکٹر حافظ عبدالکریم جو کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے سربراہ بھی رہے انہوں نے کئی مرتبہ اس چیز کا اظہار کیا کہ اگر حکومتی محکموں سے لازمی سروس مثلاً پی آئی اے‘ پولیس اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کو ادائیگیاں نہ کی جائیں تو حج اخراجات کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب جب ریاست بہت سے دوسرے شعبوں کو سہارا دینے کے لئے اور عوامی مفاد میں کئی منصوبوں کو سبسڈی فراہم کرتی ہے تو ایک اسلامی ملک میں ایک اہم ترین رکن کی ادائیگی کیلئے سہولیات کی مد میں اگر کچھ اخراجات کرنا بھی پڑ جائیں تو اس میں مضائقہ ہی کیا ہے۔ کیونکہ سرکاری حج سکیم میں زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ دلچسپی لیتے ہیں جن کے پاس پرائیویٹ حج کے اخراجات نہیں ہوتے۔ کیا حکومت نے فنکاروں کے لئے ہیلتھ کارڈ اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کیں؟ کیا صحافیوں وکلاء ۔ واپڈا ۔ ایف بی آر ۔ یونیورسٹیوں۔ تینوں مسلح افواج اور بہت سے دیگر محکموں کے لئے ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور دیگر سہولیات کی مد میں اخراجات نہیں کئے جاتے۔ اس وقت کیوں نہیں دلائل دیے جاتے کہ یہ سب لوگ اپنے خرچے سے ترقیاتی کام کروائیں‘ اپنے خرچے سے پلاٹ خریدیں‘ حکومت ان کو کسی بھی قسم کی سہولت سرکاری خرچے پر فراہم نہیں کرے گی۔ حج اخراجات اور سبسڈی کی بحث وہی لوگ کر رہے ہیں کہ جنہیں عید قربان کے موقع پر جانوروں کی خریداری سے تکلیف ہوتی ہے۔ اس وقت انہیں غریب یاد آ جاتے ہیں لیکن جب ان کے کچھ تہوار آتے ہیں ویلنٹائن ڈے ہو‘ نیوایر نائٹ ہو یا کوئی بھی ایسا ایونٹ تو اس وقت کروڑوں کے اخراجات اور بڑی بڑی پارٹیاں سب کچھ قبول ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حج سبسڈی کی بحث ہی فضول ہے کیونکہ کوئی سبسڈی یا کوئی رعایت دراصل دی ہی نہیں جاتی بلکہ بہت سے سرکاری محکمے اس حج آپریشن سے کروڑوں روپے کماتے ہیں شاید اس بار آمدن میں کچھ کمی ہونے کا خطرہ تھا جس کے لیے اخراجات مزید بڑھا دیے گئے ہیں۔ حکومت نہ تو پہلے کچھ خرچ کرتی تھی اور نہ ہی اس بار کچھ خرچ کرے گی بلکہ اپنی آمدن میں مزید اضافہ کرے گی اور یہ سب بحث صرف اس لیے ہے کہ حکومت حج آپریشن سے کچھ زیادہ آمدن حاصل کرنا چاہتی ہے۔

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)