Saturday, June 22, 2019

اصلاح معاشرہ 08-2019


اصلاح معاشرہ مگر کیسے؟!

تحریر: جناب سید اکرام اللہ گیلانی
انسان سے غلطی کا صادر ہوجانا ایک فطری عمل ہے، جو کسی بھی بنی نوع انسان سے سرزد ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا}
اس فطری ضعف انسانی کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان بہت کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے علم وعمل اور تقویٰ و ورع کے بلند ترین مقام پر پہنچ جانے کے باوجود بھی اس غلطی کے احتمالات باقی رہتے ہیں ۔ جیسا کے نبی مکرمe نے فرمایا:
((کُلُّ بَنِی آدَمَ خَطَّائٌ، وَخَیْرُ الْخَطَّائِینَ التَّوَّابُونَ)) [ابن ماجہ : ۴۲۴۱۔ حسن]
’’ہر انسان خطا کار ہے اور خطا کاروں میں سے توبہ کرنے والے ہی بہترین لوگ ہیں ۔ ‘‘لیکن بعض اوقات گناہ لا علمی کی بجائے جان بوجھ کر اور نیت کے ساتھ سر زدہو رہا ہوتا ہے ، اس صورت میں بھی خطا کار کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے تاکہ وہ اپنی اس غلطی کو چھوڑنے کے لیے تیار ہو سکے اور یہی شریعت اسلامیہ کامقصد  دعوت ہے ۔
لہٰذا اگر اصلاح معاشرہ کے لیے نبوی اسلوب کی طرف التفات کیا جائے تو بہت آسانی سے مقاصد دعوت اور اسلوب دعوت کو سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ زبان نبوی e سے صرف وہی بات نکلتی ہے جو فرمان الٰہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیx اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی} [النجم : ۳،۴]
’’اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے‘ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔‘‘
آپe اپنی مرضی سے نہیں بولتے بلکہ آپ جو بھی بولتے ہیں وہ وحی الٰہی ہی ہوتا ہے ۔ لہٰذا اب اسلوب دعوت کو سمجھنے کے لیے حیات نبوی e ہمارے لیے بہترین مشعل راہ ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
{ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ  یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا} [الاحزاب: ۲۱]
’’بلاشبہ یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔‘‘
نبی مکرم e کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپe گفتگو فرماتے ہوئے بہت ہی نرم لہجہ اور خوب صورت الفاظ کا چناؤ فرماتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
{ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ} [آل عمران: ۱۵۹]
’’پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کر لے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘
نبی کریم e نے فرما یا :
[یَا عَائِشَۃُ اِنَّ اللہَ رَفِیق یُحِبُّ الرِّفْقَ، وَیُعْطِی عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَی الْعُنْفِ۔]
’’اے عائشہ! بے شک اللہ تعالی رفیق ہے نرمی کو پسند کرتا ہے‘ نرمی سے وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی سے نہیں دیتا ۔ ‘‘ (صحیح مسلم)
اس کی مثال سیدنا معاویہ بن الحکم السلمیt بیان کرتے ہیں کہ میں نبیe کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ دین کا علم حاصل کر سکوں ، جب میں خدمت اقدس میں پہنچا تو نبی مکرمe اپنے صحابہ کو نماز پڑھارہے تھے ۔  ایک آدی نے چھینک ماری تو میں نے اس کے جواب میں [یرحمک اللہ] کہہ دیا ، اس وجہ سے سب لوگ مجھے گھورنے لگے ، میں نے کہا: تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں تم مجھے اس طرح کیوں گھور رہے ہو ؟ تو انہوں نے مجھے خاموش کروانے کے لیے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارے اور میں خاموش ہو گیا ، نمازکی تکمیل کے بعد نبی مکرمe نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اللہ کی قسم! آپ نے نہ مجھے ڈانٹا ، نہ مارا پیٹا اور نہ ہی برا بھلا کہا بلکہ آپ نے صرف یہی بات فرمائی ۔
[إِنَّ ھَذِہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فِیھَا شَیئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ، إنَّمَا ھُوَ التَّسْبِیحُ وَ التَّکْبِیرُ وَقِرَائَۃُ الْقُرْآنِ۔] (صحیح مسلم)
’’بے شک یہ نماز ہے اس میں لوگوں کے کلام میں سے کچھ بھی درست نہیں، اس میں تو صرف تسبیحات، تکبیرات اور قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔‘‘
اندازہ کیجئے کس قدر عظیم انداز اصلاح ہے کہ جس کی بدولت ایک ایسا آدمی جو دینی و شرعی امور سے بالکل نا بلد تھا ، وہ بات اس قدر سمجھا کہ تعریف کرتے ہوئے اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں نے آپ سے بہتر معلم اور مربی نہیں دیکھا ۔
اسی طرح آپe مخاطب کو اس انداز سے اسکی غلطی کا احساس دلاتے کہ وہ خود ہی اپنی غلطی کو چھوڑنے کا عہد کر لیتا ۔نبی مکرمe کے پاس ایک نوجوان آیا اور کہنے لگا:
[یَا رَسُولَ اللہِ ،إِئذَنْ لی بالزنیٰ۔]
’’یا رسول اللہ ! مجھے زنا کی اجازت دیجئے ۔ ‘‘
ایک صاحب ایمان و حیا آدمی کے لیے یہ گناہ بالکل ناقابل برداشت تھا اور صحابہ کرام نے ناپسندیدگی کے ساتھ منع کیاکیونکہ یہ ایک خطر ناک عمل تھا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کام کو حلال کرنے کا تقاضا کیا گیا تھا ۔
مگر رسول اللہe نے انتہائی پیارسے فرمایا: ’’میرے قریب ہو جاؤ جب وہ قریب آیا تو نبی مکرمe نے فرمایا : کہ اے نوجوان! کیا تم اس بات کے لیے راضی ہو کہ تمہاری ماں کے ساتھ کوئی زنا کرے ؟  وہ کہنے لگا نہیں یا رسول اللہ ! تو آپ e نے فرمایا : لوگ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ ایسا ہر گز پسند نہیں کرتے ، پھر آپe نے فرمایا: کیا تم ایسا پسند کرتے ہو کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا کرے ؟ کہنے لگا ہر گز نہیں‘ اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول ! تو آپe نے فرمایا : لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہر گز پسند نہیں کرتے ، اسی طرح آپ نے اس سے اسکی بہن ، پھوپھی ،خالہ کے متعلق سوال کیا جس پر اس نے نفی میں جواب دیا ۔ یوں آپe نے اس کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
[اللَّھُمَّ اغْفِرْلہ وَطَھِّرْ قَلْبَہُ، وَحَصِّن فَرْجَ۔]
’’اے اللہ! اس نوجوان کو معاف فرما‘ اس کے دل کوپاک فرما اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ فرما ۔ ‘‘
اس کے بعد وہ نوجوان‘ نبیe کی مجلس سے اٹھ کر چلاگیا اور دوبارہ کبھی اس نے ایسی چیز کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا ۔ [السلۃ الصحیحۃ :۳۷۰]
کیا احسن انداز اصلاح ہے کہ ایسا نوجوان جو کنوارہ بھی ہے تو نبیe سے محارم اللہ کی حلت کا سوال کر رہا ہے ، آپ نے اس کو ڈانٹنے اور جھڑکنے کی بجائے اس پر اس کام کی برائی کو بڑے احسن انداز میں واضح کر دیا کہ اگر وہ اس کام میں اپنے اہل پر راضی نہیں تو لوگ کیسے راضی ہو سکتے ہیں؟؟
اسی طرح ایک اور آدمی آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اپنی پاک بازبیوی کے متعلق ایک شبہ کا اظہار کیا کہ یا رسول اللہ ! میری بیوی نے ایک سیاہ بچے کو جنم دیا ہے ، اس کا مطلب یہ تھا کہ نہ میرا رنگ سیاہ ہے اور نہ میری بیوی کا تو میرے بچے کا رنگ کیوں سیاہ ہے ؟ جس کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کے معاملہ میں شک میں مبتلا تھا ۔
نبی کریمe نے اس کے اس شبہ کو دور کرنے کے لیے اسی انداز کو اختیار کیا جس کو وہ آسانی سے سمجھ سکے لہٰذا آپe نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے ہاں میں جواب دیا ، تو آپ نے پوچھا کہ ان کا رنگ کیسا ہے؟ اس نے کہا سرخ ہے ۔ آپe نے فرمایا: ان میں کوئی سیاہ اونٹ ہے؟ اس نے کہا ہاں ، آپ نے پوچھا وہ کہاں سے سیاہ ہوگیا ؟ اس نے کہاکہ ہو سکتا ہے اس کو کسی پچھلی رگ نے کھینچ لیا ہو ۔ تو آپe نے فرمایا [ولعل ھذا عرق نزعہ۔]  ہو سکتا ہے اس کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو ۔ [صحیح مسلم: ۱۵۰۰]
مطلب یہ ہے کہ ہو سکتا ہے تیرے بھی باپ دادا میں سے کوئی سیاہ رنگ کا ہو اور تیرا بیٹا بھی رنگت میں ان پر چلا گیا ہو ۔ جس کی بدولت اس کے ذہن میں موجود ایک بہت بڑے شبہے کا خاتمہ ہو گیا۔
آپe کے اندز دعوت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ غلطی کرنے والے کو براہ راست مخاطب نہ کیا جائے بلکہ اس کے پاس موجود چند دوسرے لوگوں کو مخاطب کیا جائے تاکہ اس خطا کار اور اس کے پاس موجود لوگوں کی اصلاح ہو سکے۔ مثلاً آپe کے سامنے دو آدمی جھگڑرہے تھے حتی کہ ایک دوسرے کوگالی گلوچ کرتے ہوئے ان کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور ان کی باچھوں سے تھوک نکل رہا تھا ۔
نبیe نے موقعہ کو دیکھتے ہوئے فرمایا:
[إِنِّی لَاَعْلَمُ کَلِمَۃً ،لَوْ قَالَھَا لَذَھَبَ عَنْہُ مَایَجِدُ، لَوْ قَالَ: اَعُوذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔] (صحیح بخاری)
’’میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر یہ کلمہ پڑھ لیتے تو ان کا غصہ رفع ہو جائے گا وہ کلمہ ہے:
[اَعُوذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ۔]
آپ نے گالی گلوچ کر نیوالے کی بجائے دونوں کو مخاطب کیا تاکہ دونوں کی اصلاح ہوجائے ۔
بعض اوقات آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے :
[ما بال رجال یشترطون شروطا لیست فی کتاب اللہ] (صحیح بخاری)
’’اور بعض جگہ ’’مابال اقوام‘‘ کے الفاظ ہیں ۔ یہ کلمہ بولنے کا مقصد یہ ہے کہ غلط کام پر پردہ بھی رہ جائے اور اس کے ساتھ ساتھ باقی عوام کی اصلاح بھی ہو جائے ۔ ‘‘
بعض اوقات آپ غلطی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اسکی قدرت سے خبردار فرماتے، سیدنا ابو مسعود انصاری t بیان فرماتے ہیں کہ میں ڈنڈے کے ساتھ اپنے غلام کی پٹائی کر رہا تھا اچانک مجھے ایک آوازسنائی دی:
[اعْلَمْ اَبَا مَسْعُودٍ۔]
خبر دار ابو مسعود ! میں غصے کی وجہ سے یہ بات سمجھ نہ پایا لیکن جب وہ آواز لگانے والا آدمی میرے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ تو رسول اللہe ہیں ، میں نے اپنے ہاتھ سے ڈنڈا پھینک دیا ۔ آپ نے فرمایا :
[اعلم أبا مسعود، أن اللَّہَ أقدر علیک منک ھذا الغلام۔] (صحیح مسلم)
’’اے ابو مسعود! اس بات کو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر اس سے زیادہ قادر ہے اس کی نسبت جیسا کہ تو اس پر قادر ہے ۔ ‘‘
سیدنا ابو مسعودt کہتے ہیں کہ اس کے بعد کبھی بھی میں نے اپنے غلام کو نہیں مارا ۔ بعض اوقات آپ اصلاح کی خاطر خطاکار سے تعلق قطع کر لیتے تاکہ اس کو اس بات کا احساس ہو کہ یہ کام اللہ اور اس کے رسول کی نظر میں قابل عتاب ہے ، اس کی سب سے واضح مثال تین صحابہ یعنی کعب بن مالک t اور ان کے دوسرے دو ساتھی جو جنگ تبوک سے بلا شرعی عذر پیچھے رہ گئے تھے ، تو رسول اللہe نے ان سے قطع تعلقی کردی تھی حتی کہ ان کی بیویوں کو ان سے جدا کر دیا گیا تاآنکہ انکی توبہ قبول ہونے کا فرمان جاری ہو‘ یہ دورانیہ پچاس دن کا تھا ۔
بعض اوقات کسی آدمی کی سنگین غلطی کے باوجود بھی آپ اس سے نرمی کا معاملہ فرماتے‘ جیساکہ ایک دن نبی مکرمe ام المؤمنین سیدہ عائشہr کے گھر تشریف فرما تھے‘ سیدہ ام سلمہ r کا غلام ایک پیالے میں کچھ کھانا لے کر نبی مکرمe کی خدمت میں حاضر ہوا تو سیدہ عائشہ صدیقہr نے دیکھتے ہی ہاتھ مار کر پیالہ گرادیا ، جس سے پیالہ ٹوٹ گیا ، نبی مکرمe نے خود پیالے کے ٹکڑوں کو اٹھایا اور کھانا اس میں ڈالتے ہوئے فر مایا :
[غَارَتْ اُمُّکُمْ۔] (صحیح بخاری)
’’تمہاری ماں کو غیرت آگئی۔‘‘
پھر سیدہ عائشہ r کے گھر سے ایک درست پیالہ لے کر سیدہ ام سلمہr کے گھر بھیجا۔
اسی طرح سیرت النبیe کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ خطاکار کی شخصی نوعیت کو مد نظر رکھنا چاہیے مثلا وہ غلطی کرنے والا آدمی جاہل ہے اور اس کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ غلط کام کر رہا ہے۔ تو اس کو یہ بتلایا جائے کہ وہ غلط ہے اور درست سمت یہ ہے یاوہ آدمی جاہل تو نہیں بلکہ علم کے باوجود غفلت و بے پرواہی کا شکار ہے تو ایسے آدمی کو اس کا دنیاوی اور اخروی مقام یاد دلایا جائے اور ایسے لوگوں کو آخرت میں ہونے والی گرفت کے متعلق خبردار کیا جائے۔
اگر آدمی کم علمی کی وجہ سے شبہات کا شکار ہے ، جس کی وجہ سے وہ غلط و صحیح میں کوئی خاص فرق نہیں کر سکتا تو ایسے آدمی کو مناظرانہ انداز میں دلائل و براہین کے ساتھ راہ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کی جائے۔

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)