محسن ملت ڈاکٹر بہاؤالدین حفظہ
اللہ
تحریر: جناب مولانا محمد سلیم چنیوٹی
اہل حدیث بطور جماعت
ایک مسلمہ جماعت ہے۔ شرک‘ کفر‘ رسوم ورواج‘ فتنہ وفساد‘ غیر شرعی وغیر فطری طریقہ ہائے
باطلہ کے خلاف ہمیشہ اس کی مساعی جمیلہ اظہر من الشمس رہی ہیں۔ اکابرین اہل حدیث میں
بڑے بڑے مصنفین‘ مترجمین‘ مؤلفین اور مضامین ونثر نگاران کی ایک معقول تعداد موجود
رہی اور موجود ہے۔ اپنے اپنے دور اور اپنے اپنے وقت میں اٹھنے والے طوفان‘ شرک وکفر
کے مقابلے کے لیے ایمان ویقین کی روحانی قوت سے ہمیشہ انہوں نے کارہائے نمایاں سرانجام
دیئے۔ عقائد باطلہ ہوں یا جعلی ومن گھڑت نبوت کے دعوے دار ہوں‘ اصل اسلام کو دھندلانے
والے ہوں یا اسلام جیسے نکھرے وصاف ستھرے مذہب کو پیچھے کر کے اپنے فقہی وغلط مذہب
کو پھیلانے والے ہوں ان سب کے سامنے اکابرین اہل حدیث سینہ سپر رہے اور ان کے رد میں
ہمیشہ اپنا فرض نبھایا۔
حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی‘ مولانا محمد حسین بٹالوی‘
مولانا ثناء اللہ امرتسری‘ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی‘ مولانا سید محمد داؤد
غزنوی‘ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید S وغیرہ
اکابرین سے کون واقف نہیں کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام اور اس کی اقدار کو واضح
کرنے میں گذار دیں۔ رحمہم اللہ اجمعین!
تحریک اہل حدیث اور تحریک ختم نبوت کے میدان میں ہمارے اکابرین
نے جہاں مکالمے کے ذریعے کام کیا‘ اسی طرح تحریری طور پر بھی نمایاں رہے ہیں۔ یہ دنیا
ایسے باکمال وبابرکت افراد سے بھری پڑی ہے کہ جنہوں نے اپنے علم وفن اور ہنر مندی سے
اپنے قلم کو استعمال میں رکھا‘ کبھی قلم کو روکا نہیں۔
ابھی کل کی بات ہے‘ علامہ احسان الٰہی ظہیرa‘ مولانا محمد اسحاق
بھٹیa اور
موجودات میں سے زندہ مثال پروفیسر ڈاکٹر محمد بہاؤالدین d ہیں
کہ جنہوں نے فرق ہائے باطلہ اور تحریک اہل حدیث وتحریک ختم نبوت کے لیے دن رات کام
کیا۔ جن کو دین اور اس کے علوم کی نشر واشاعت سے دلچسپی رہی۔ اس کی قدر اور اس کی ضرورت
وچاہت کا احساس یوں بھی کیا کہ اپنے ان تاریخی کاموں اور کارناموں کو انہوں نے آئندہ
نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا۔ ان کے اس ذخیرۂ علم وہنر سے جب جی چاہے اور جس کا جتنا
من چاہے حاصل کرے اور اپنے علم میں اضافہ کرتا چلا جائے۔
محترم المقام پروفیسر ڈاکٹر محمد بہاؤالدینd نے
مسلکی وجماعتی خدمت میں ہزاروں صفحات صرف تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں جمع فرما دیئے
ہیں۔ ان کی مجلدات میں سے اس وقت ہمارے سامنے سینتالیسویں جلد کی صورت میں موجود ہے۔
شنید ہے کہ ستر کے لگ بھگ یہ تیاری کے مراحل میں ہیں اور آہستہ آہستہ طبع ہو کر مارکیٹ
میں آ رہی ہیں۔ ان کا کام ایسا ہے کہ تحریک ختم نبوت کا ایک ایک ورق اور ایک ایک جریدہ
ان کی دسترس میں جیسے آتا گیا اسے انہوں نے اپنے کام میں لا کر جمع فرما دیا۔ پھر اس
پر مفید تعلیقات وتبصرے سے مزین کر دیا جس سے مذکورہ کام کی افادیت وتفہیم بھی ہو گئی۔
یہی اصل کارنامہ تھا اور موجودہ وقت کی ضرورت بھی۔
فتنۂ مرزائیت اور مرزائے قادیان کے جعلی ومن گھڑت دعاوی کے
خلاف اکابر واصاغر اہل قلم نے جس طرح اپنا اپنا فرض سمجھ کر رد کیا اور اس کے دعاوی
کا مقابلہ کیا اس پر ہزاروں صفحات جمع وترتیب پا کر شائقین کی خدمت میں آ رہے ہیں۔
مرزائے قادیان یا اس کے بعد آنے والے نام نہاد جعلی نبوت کے
مدعیان کے اخلاف نے اپنی سرگرمیاں جس انداز اور جس تخریب کاری سے جاری رکھیں ان کے
تدارک میں علمائے حق ہمیشہ سینہ سپر رہے۔
من حیث الجماعت اور ایک مسلم دردمند دل رکھنے والے ہر فرد کو
بلا تفریق مسلک ومشرب ڈاکٹر صاحب موصوف کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ انہوں نے اپنی گوناں
گوں مصروفیات سے آنکھیں ہٹا کر ہند وپاک اور برطانیہ کے علماء وطلبہ وکتب خانوں سے
علمی موتیوں کو چنا اور ان کو ایک تسبیح میں دانہ کے طور پر پرو دیا۔ بڑی جانفشانی ومحنت سے اس موضوع پر
کتب ورسائل جمع فرماتے رہے۔
مرزائیوں نے ہمیشہ مسلمانوں میں انتشار وافتراق پھیلانے کی سازشیں
اور سیاست کی ہے۔ مرزائیت کے بانی آنجہانی مرزا قادیانی نے بہت سے دعاوی کیے۔ اپنے
آپ کو مثل مسیح‘ اصلی مسیح اور نبوت تک کے دعویٰ ہائے باطلہ کیے تو سب نے اس کی تکذیب
کی۔ اسے جھٹلانے والوں میں سب سے پیش پیش فرزندان اہل حدیث ہوئے۔ اس سلسلے کا سب سے
پہلا قدم جس شخصیت کا اٹھا وہ قدم مولانا محمد حسین بٹالویa ایڈیٹر رسالہ ’’اشاعۃ السنہ‘‘ کا تھا۔ مولانا محمد حسین
بٹالویa سے
مرزا قادیانی کی ہر مسئلے پر بات ہوتی رہی۔ اس کے اصلی رمز شناس اور اس کے پلان کے
راز دان حضرت بٹالوی نے اس کے متعلق ایک استفتاء تیار کیا اور اس فتاوے پر حضرت شیخ
الکل سید نذیر حسین محدث دہلویa کی
مہر تصدیق ثبت کروا لی تو اس فتاوے پر دیگر اکابر علمائے ہندوستان کے دستخط حاصل کرنے
کے لیے دور دراز کے اسفار کیے۔ درجہ بدرجہ سب علمائے کرام جن میں احناف کے دونوں مکاتب
فکر (دیوبند‘ بریلوی) اور اہل تشیع کے دستخط بھی کروائے۔
قادیان ہندوستان کے صوبہ پنجاب کا ایک قصبہ تھا۔ بٹالہ وگورداس
پور اس قصبے کے قریب ترین علاقے تھے۔ گورداس پور سے متصل ہی امرت سر کا ضلع ہے۔ مولانا
محمد حسین بٹالویa نے
جب مرزائے قادیان کے عقائد پر تصدیق وتائید علمائے ہندوستان سے کروا لی تو اب عوام
الناس تک مرزا کا کفر ثابت کرنے کے لیے بطور آگاہی مہم امرتسر کے مکین علماء غزنویہ‘
مولانا احمد اللہ اور مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرت سری S تک
آواز پہنچائی۔ جب چہار جانب سے مرزائے قادیان کے دعوؤں کی قلعی کھولی جانے لگی تو
مرزائے قادیان نے سٹ پٹا کر اپنے مخالف علمائے کرام کو مغلظات سے نوازنا شروع کر دیا۔
اول المکفرین کا خطاب مرزائے قادیان نے سید نذیر حسین محدث دہلویa کے
لیے استعمال کیا۔ یوں تحریک ختم نبوت کے روح رواں ابوسعید مولانا محمد حسین بٹالوی
ٹھہرے اور اس تحریک کا وجود مرزا قادیانی کے جھوٹے دعوے اور کذب بیانیاں بنیں۔
جناب شورش کاشمیریa نے اپنی کتاب ’’تحریک ختم نبوت‘‘ میں تحریر فرمایا:
’’مولاناابوالقاسم
رفیق دلاوری نے اپنی کتاب ’’رئیس قادیان‘‘ میں لکھا ہے کہ مولانا محمد حسین بٹالویa مرزا
قادیانی کے بچپن کے دوست اور ہم سبق تھے۔ مرزا کے دعاوی‘ الہامات اور روپے پیسے میں
بد معاملگی سے آپ کاجی کھٹا ہو گیا۔ آپ نے مرزا قادیانی کو ٹوکا‘ لیکن وہ برطانوی استعمار
کے گھوڑے پر سوار تھا‘ کیونکر مولانا بٹالوی کی بات مانتا؟ نتیجتاً جانبین میں ٹکراؤ
ہو گیا۔ مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی نے مرزا کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مرزا نے انہیں
وہابی ہونے کے برطانوی الزام سے مطعون کر کے انگریزوں کو بدظن کرنا چاہا اور حکام کو
لکھا کہ وہابی سرشت کے مطابق وہ مسلمانوں کو برطانوی حکومت کے خلاف جہاد پر اکساتے
ہیں۔ مولانا بٹالوی نے ۱۸۹۱ء میں پانچ اپریل
کو حکیم نور الدین سے مباحثہ کیا اور اس کو بھگایا۔ اس کے بعد مرزا قادیانی نے مولانا
بٹالوی سے مناظرے کی طرح ڈالی‘ مرزا ۲ مئی ۱۸۹۱ء تک بے سر وپا
خط وکتابت کر کے راہ فرار اختیار کرتا رہا۔ ان دنوں مولانا محمد حسین بٹالوی لاہور
کی مسجد چینیانوالی کے خطیب تھے۔ آپ نے مرزا کو ان کے جھوٹے دعاوی پر مناظرے کی دعوت
دی۔ مرزا نے رسید ہی نہ دی۔ مولانا بٹالوی نے لدھیانہ پہنچ کر مرزا کے خسر میر ناصر
نواب دہلوی کے مکان میں ۲ جولائی ۱۸۹۱ء کو تحریری مباحثہ کا آغاز کیا۔ یہ مباحثہ ۱۲ روز رہا۔ مرزا جھوٹ
پر جھوٹ لکھتا رہا اور آخر کار فرار ہو گیا۔ (تحریک ختم نبوت: ص ۳۸-۳۹)
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ قادیانیوں نے
اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ رکھنے کا اعلان خود ہی کیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں
لکھا کہ مرزا قادیانی کو نہ ماننے والے کافر ہیں۔ لہٰذا قادیانی مسلمان مرد وعورت‘
بچوں‘ بوڑھوں کے جنازے نہ پڑھیں۔ انہوں نے مسلمانوں کی اولادوں کو گشتیوں کے بچے اور
ولد الزنا تک کہا۔ مسلمانوں نے تو ان کی اپنی شروع کی ہوئی باتوں کے بہت دیر بعد ان
کا محاسبہ شروع کیا اور انہیں امت مسلمہ سے خارج قرار دیا۔ جب مرزائی اپنے آپ کو مسلمانوں
سے الگ امت کہلاتے ہیں تو پھر انہیں مسلمانوں میں شامل رہنے اور مسلمانوں کی حکومت
میں عہدے بھی نہیں دینے چاہئیں کہ یہ خود کو مسلمان اور دیگر کو غیر مسلم سمجھ کر دھوکہ
دہی میں ملوث ہو کر سیاسی وسماجی وبین الاقوامی سطح پر امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے
کا سوچتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر بہاؤالدین نے دیار غیر میں بیٹھ کر ایک عظیم کارنامہ
’’تحریک ختم نبوت‘‘ مرتب کر کے قادیانیت اور ان کے پرچارک حضرات کے آگے بند باندھ دیا
ہے۔ امت مسلمہ اپنے اندر چھپے مغرب زدہ طبقے پر گہری نظر رکھیں جو ابھی تک قادیانی
سازشوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ان لوگوں سے بجا طور پر سوال کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایک وحدت
کا نام ہے اور یہ وحدت عقیدۂ ختم نبوت پر ایمان وایقان سے اُبھرتی ہے۔ اگر کوئی بھی
اس وحدت کو توڑنے اور اس عقیدے کی مرکزیت کو ظل وبروز کی آڑ میں اپنی طرف منتقل کرے
گا تو وہ وجود خطرناک ہی نہیں بلکہ اسلام اور عقائد اسلامیہ کا باغی ہو گا۔
اتحاد واتفاق بہت ضروری ہے۔ ایک مستحکم اسلامی وحدت کا تقاضا
ہے کہ پوری امت مسلمہ یک جان رہیں اور استعماری سازشوں کے قلع قمع کے لیے اپنے اندر
اتحاد واتفاق رکھیں۔ یہ سب عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے ذریعے ممکن ہے۔ ان شاء اللہ
!
No comments:
Post a Comment