Saturday, June 22, 2019

فطرت اور ختم نبوت 08-2019


فطرت اور ختم نبوت

تحریر: جناب صاحبزادہ برق التوحیدی
جس طرح محدثین و فقہاء یا متکلمین و فلاسفہ یعنی نقل یا عقل کے پیرو کار وں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بقاء و دوام صرف ذات باری تعالیٰ کو حاصل ہے اسی طرح ان تمام طبقات کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ہر چیز کی ایک طبعی اور فطری انتہا ہے جس کے بعد اس میں نشو و نما کا امکان ہے نہ دوام و بقاء کا ، گو یا فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر چیز کو ایک نہ ایک جگہ جا کر رکنا اور ختم ہونا ہے۔ چنانچہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ حیوانات کی طرح نبا تا ت و جما دات بھی اپنے بدء الأمر سے نشو و نما پا تے ہوئے جب ایک مخصوص حد تک پہنچتی ہیں تو پھر نشوونما اور بڑھوتری کا عمل رک جا تا ہے حا لانکہ وہی آب و ہوا اور ما حول و فضا ہوتے ہیں۔ آپ اس مر حلہ میں کسی پودے کو کتنی ہی خوراک دیں اس کی نشو و نما میں اضافہ نہیں ہوگا ۔ البتہ اسی پودے کی آپ کانٹ تراش کرتے رہیں تو اس کی شا خوں میں نشوو نما کا عمل جاری رہے گا ۔ خود انسان کے اندر بھی فطرت کا یہ عمل جاری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قد کا ٹھ میں ایک مخصوص عمر تک بڑھتا ہے جس کے بعد کتنی بھی غذا اور خوراک کھا لے اس میں بڑھوتری ممکن نہیں ہوتی۔ البتہ اس کے اعضاء کو دیکھیں بال یا نا خن ہیں ان کو چھوڑ دیا جائے تو ایک حد تک بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کو کا ٹتے رہیں تو اس میں نشو ونما کا عمل بھی جاری رہتا ہے گو یا یہ فطرت اور جبلت کا تقاضا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو اصول فطرت وجبلت مقرر کیے ہیں ان میں کوئی ردو بدل ممکن نہیں۔ جیسا کہ فرمایا :
{فِطْرَۃَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ} (الروم: ۳۰)
’’اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں۔‘‘
اس اصول فطرت کی کارفرمائی کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ انسان و حیوان میں اللہ تعا لیٰ نے بصرو سمع کی قوت و صلاحیت رکھی ہے مگر یہ قوت و صلاحیت ایک مخصوص حد تک ہی مؤثر و کار آمد ہوتی ہے۔ جس انسان میں جو صلاحیت جس مقدار میں رکھی گئی ہے وہ اس سے زیادہ اور آگے تک کار آمد نہیں۔ سوچیے آخر کیا چیز ہے جس نے سمع و بصر کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے تو صرف ایک ہی چیز سمجھ آتی ہے اور وہ ہے اصول فطرت کہ اسے بہرحال ایک حد تک پہنچ کر ختم ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول فطرت انسانی ایجا دات میں بھی کارفرما ہے کہ ہر ایجاد کی اپنے مختلف پہلوئوں کی کار کر دگی میں ایک حد اور انتہاء ہے جس سے تجاوز ممکن نہیں ۔
جس طرح مادی چیزوں میں یہ اصول فطرت کارفرما ہے اسی طرح روحانی پہلو میں بھی مؤثر ہے۔ چنانچہ عقل انسانی جس قدر بھی زیادہ یا تیز ہو مگر وہ ایک حد تک ہی سوچ سکتی ہے یا اشیاء کا ادراک کر سکتی ہے بلکہ فطرت و جبلت کے اس اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
{مَّا جَعَلَ اللَّہُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَیْْنِ فِیْ جَوْفِہِ}
’’اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہیں بنائے۔ ‘‘ (الاحزاب: ۴)
اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس عمل نشو و نما اور تاثیر کو لا محدود کیوں نہیں بنا دیا گیا ؟ تو اس کا جواب بھی فطرت کے تحت خود یہ سوال دیتا ہے کہ پھر کیا ہوتا ؟ کہ جب کسی چیز کو دوام و بقا نہیں تو پھر انتہا ہی تو ہے۔ اس مسئلہ کو اس حدیث سے بھی سمجھا جا تا ہے کہ جب سیدنا موسیٰu کے پاس ان کی روح قبض کرنے کو فرشتہ آیا تو اُنہوں نے ناگواری کا اظہار کیا جس پر فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے ماجرا کہہ سنا یا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اُنہیں کہیے کہ ایک بیل کی پیٹھ پر ہاتھ رکھیں جتنے بال ہاتھ کے نیچے آئیں گے اتنے سال ان کی عمر میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ جب سیدنا موسیٰu کو یہ بات بتائی گئی تو پو چھا پھر کیا ہو گا بتا یا، پھر موت ہے تو فرمایا کہ اگر یہی انتہاء ہے تو پھر ابھی چلتے ہیں۔ (بخاری ، ملخصاً)
یا یوں سمجھیے کہ ایک مرتبہ آنحضرت e اپنی سواری پر جا رہے تھے کہ کسی صحابیt کی سواری آپ e کی سواری سے آگے نکل گئی جس پر حضرات صحابہ] نے نا گواری کا اظہار کیا تو آپ e نے ارشاد فرمایا :
[حق علی اللہ أن لا یرتفع شئی من الدنیا الا وضعہ۔] (بخاری کتاب الجہاد، باب ناقۃ النبیﷺ)
’’اللہ تعالیٰ پر فرض ہے کہ جو چیزبھی دنیامیں بلندہوتو (بالآخر) اسے نیچے کر دے۔ ‘‘
خود اس نظام کائنات کا بالآخر اختتام اگر ہمارے ایمان کا حصہ ہے تو اس کا پس منظر بھی اس اصول فطرت کے سامنے اظہار تسلیم و رضا ہے کہ
{کُلُّ مَنْ عَلَیْْہَا فَانٍ وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ} (الرحمن: ۲۶-۲۷)
’’ذات باری تعالیٰ کے علاوہ (زمین پر) ہر چیز نے فنا ہونا ہے۔ ‘‘
فنا واختتام کا یہ اصول فطرت جس طرح حسی و مرئی چیزوں میں ہے اسی طرح غیر مرئی اور غیر محسوس چیزوں میں بھی ہے حتی کہ علوم و فنون کی تاریخ ارتقاء کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک فلسفہ اور فارمو لا عروج پکڑتا ہے تو کچھ عرصہ بعد اس کی جگہ کوئی دوسرا فلسفہ اور فارمو لا جگہ لے لیتا ہے‘ جس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی چیز کو دوام و بقا نہیں یہی چیز ہمیں تاریخ نبوات میں ملتی ہے۔
سلسلہ نبوت و رسالت جب سے شروع ہوا تو اپنے تدریحی مراحل کو طے کرتے کرتے بالآخر نبی آخر الزمان جناب محمد رسول e تک پہنچ کر ختم ہوا۔ اب اس سلسلہ کا یہ اختتام اگرچہ اس منظر میں بھی ہے کہ جن مقاصد کے حصول یا جن اغراض کی تکمیل کے لیے یہ سلسلہ شروع ہو ا اور پھر یکے بعد دیگرے حضرات انبیاء ورسلo تشریف لاتے رہے وہ بیک وقت رسالت ِ محمدیہ سے پورے ہو گئے تو کسی پیغمبر کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہی مگر ایک پہلو اصول فطرت کے تناظر میں بھی ہے کہ اب تکمیل و اتمام کے جملہ مراحل کے بعد بالآخر اسے ختم ہو نا ہی تھا کہ جب فرما دیا :
{الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً} (المائدہ: ۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘
چنانچہ ختم ِنبوت کا ایک پس منظر تو یہ ہے کہ جن مسائل و معاملات یا ضروریات کے لیے حضرات انبیاء ورسلo کی بعث ہو تی رہی ان کی راہنمائی کا موجب مکمل اور دائمی حل شریعت ِ محمدیہ میں کر دیا گیا اور اسی غرض سے اسے محفوظ بنا دیا گیا تو نبوت ِ محمدیہ پر اس سلسلہ کا اختتام ایک فطری عمل تھا۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے :
[ما انزل اللہ دائً والا انزل لہ شفاء۔] (بخاری، باب ماانزل اللہ داء)
’’اللہ تعالیٰ جو مرض اتارتا ہے تو اس کا علاج بھی اتارتا ہے۔‘‘
گو یا جس جس امت میں جو جو بیماری تھی اس کے علاج کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان میں پیغمبرu کو مبعوث کیا۔ جب شریعت ِمحمد یہ میں تا قیامت انسانیت کو پیش آنے والے تمام مسائل کا حل اور امراض کا علاج رکھ دیا گیا تو پھر سلسلہ نبوت کے اجراء کی ضرورت بھی ختم ہو گئی۔
اگر ہم تاریخ نبوات کے مقابلہ میں کسی بھی خود ساز جعلی اور جھوٹے مد عی نبوت کی زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ حیرت ناک تاریخی انکشاف ہوتا ہے کہ کسی نے بھی کوئی قومی ایجنڈا نہیں دیا، کہ بتا یا ہو یا بالفعل کوئی کر دار ادا کیا ہو کہ امت کے اس مسئلہ کو حل کیا گیا یا فلاں معاملہ کے حل کی کوشش کی گئی‘ خواہ یہ مسائل عقیدہ و نظریہ سے متعلق ہوں یا تہذیب و ثقافت یا معاملات و سیاست سے۔ دور مت جائیے آنجہانی مرزا قادیانی کی زندگی کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ اس نے کون سا ایسا کام کیا یا کار نامہ انجام دیا جس سے ادنی تاثر بھی پیدا ہو بلکہ شبہ پیدا ہو کہ یہ شخص نبی ہے۔ اس کی ذات و اخلاق کو تو ایک طرف رکھیے عالمی سطح پر ذرا سوچیے کہ اس نے عقیدہ و نظریہ کی اصلاح، یا معاملات اور رسم و رواج کی درستگی یا پھر سیاسی سطح پر کوئی کارنامہ انجام دیا ؟جس سے قوم کو کوئی سکھ کا سانس نصیب ہوا ماسوائے قوم کو انگریز کی غلامی میں جھونکنے ، اخلاقی پستی ، نظر یاتی انحطاط و زوال اور معاشرتی آوارگی کے علاوہ کیا دیا تو پھر کیوں کر تسلیم کر لیا جائے کہ نبوت کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کو نبی بنا یا گیا ۔ نعوذ باللہ ۔
جب ان جھوٹے اور جعلی کذاب و دجال مدعیانِ نبوت کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے سچے اور برحق انبیاء و رسل علیہم السلام کی زندگیاں اپنی اپنی قوم کی خدمت اور ان کی ترقی و استحکام یا ان میں کسی صالح انقلاب سے تعبیر ہیں بالخصوص خاتم النبیین e کی شریعت مطہرہ میں تب سے قیامت تک ہر مرض کا علاج اور ہر مسئلہ کا حل موجود ہی نہیں بالفعل جاری و ساری بھی ہے۔ تو پھر کہنا چاہیے کہ داء و دواء کا جو فطری تقاضا ہے وہ شریعت اسلامیہ اور نبوت محمدیہ سے پورا ہو رہا ہے تب ہی اس پر اس سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا جس کا پس منظر وہی تکمیل واتمام ہے۔ جب تک ایک اصول و فلسفہ یا عمل اور پر یکٹس میں اس پس منظر کو چیلنج نہیں کیا جا تا تب تک کسی نبوت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی کو یہ ہمت اور جرأت نہیں ہوئی کہ وہ ختم نبوت کے اس پس منظر کو چیلنج کر سکے۔ اور نہ ہی قیامت تک کوئی ایسا چیلنج کیا جا سکے گا ۔ ان شاء اللہ العزیز ۔
اسی اصول فطرت کے تحت صرف سلیم الفطرت مسلمان ہی ختم نبوت کو تقاضائے فطرت نہیں سمجھتے بلکہ فلاسفہ و حکماء نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ ابن سینا جیسے فلسفی و حکیم سے کون واقف نہیں وہ لکھتے ہیں:
[ان الشریعۃ الجائیۃ علی لسان نبینا محمدﷺ جائت افضل مایمکن ان تجئی علیہ الشرائع وأکملہ وہذا صلح ان تکون خاتمۃ الشرائع و آخر الملل۔] (درء تعارض العقل والنقل: ۵/۱۴)
یعنی ’’بلا شبہ ہمارے پیغمبر جناب محمد e کی زبان نبوت سے جو شریعت آئی ہے وہ تمام شریعتوں سے ممکن حد تک افضل اور اکمل ہے‘ اسی لیے وہ اس لائق اور قابل ٹھہری کہ اسے آخری شریعت اور آخری ملت بنا یا جائے۔‘‘
گویا سلسلہ نبوت ورسالت کی یہ انتہاء فطری عمل ہے کہ انسانیت کی فلاح و نجا ح اور دین و دنیا کی بہتری واصلاح کے لیے اس شریعت سے بہتر شریعت کا آنا ممکن نہیں گویا یہ سلسلہ شرائع کی فطری انتہا ہے۔ چنانچہ سلسلہ شریعت کو اس جامع مانع شریعت پر ختم کر دیا گیا‘ حدیث قصر ِ نبوت اسی عمل ِ فطرت کی تعبیر ہے۔ اب اگر کوئی سوال کرے کہ دوسرا پیغمبرu بھی تو مبعوث کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کا ایک جواب تو وہی ہے جو اس شریعت ِ محمدیہ کی تکمیل و اتمام میں ہے۔ جبکہ دوسرا یہی کہ ایسا ہونا فطرت کے خلاف ہے۔ جب معلوم ہے کہ محدثین و فقہاء اور فلاسفہ و منا طقہ سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ دور او ر تسلسل باطل ہے تو پھر اس تکمیل و اتمام کے بعد بھی اگر یہ سلسلہ قائم رہتا تو نہ صرف یہ کہ غیر ضروری بلکہ غیر فطری بھی ہوتا کہ آخر اس دور اور تسلسل کا جواز کیوں کرہے ؟ ہم اسے اس سوال کی صورت میں دیکھ سکتے ہیںکہ (نعوذ باللہ) بالفرض آنجہانی مرزا قادیانی کو پیغمبر تسلیم کر لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ یہ آخری نبی ہے یا نہیں ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو کیوں ؟ جو جواب اس کا ہو گا وہی جواب رسالت ِمحمد یہ پر سوال کا ہے۔ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر سوال ہے کہ اصول فطرت کے تحت اس کا اختتام کب ہو گا اور کیسے ہوگا ؟ جو جواب یہاں ہے وہاں رسالت محمد یہ کے اختتام پر سوال کا ہے ؟ اور ظاہر ہے وہ ہی ہے کہ دور اور تسلسل باطل ہے جس کے نتیجہ میں کہنا چاہیے کہ اسی اصول فطرت ۔دور ِ باطل ہے ۔ کے تحت آنحضرت e کی ختم نبوت تقاضا ئے فطرت ہے۔

No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)