درسِ قرآن
ایک موقع اور
ارشادِ باری ہے:
﴿وَ اَنِيْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ
الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۰۰۵۴﴾ (الزمر)
’’تم اپنے پروردگار
کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کا رویہ اپنائو‘ اس سے پہلے کہ تمہاری طرف عذاب
آ جائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔‘‘
اللہ تعالی نے اس فانی دنیا کو دار الامتحان قرار دیا ہے۔تاکہ
وہ اپنے مطیع فرماں ‘ محسنین ومتقین بندوں کو ان لوگوں سے متمیز کردے جو اس دنیا میں
رہتے ہوئے اللہ کی بیش بہا نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود اس کے سامنے سجدہ شکر نہیں
کرتے‘ اس رب کائنات کے احسانات کے عوض ا س کی بندگی کرنے کی بجائے شیطان کے پیچھے لگتے
ہیں اور اپنی خواہشات کے غلام بن کرہدایت ربانی اور تعلیمات محمدیe سے
اعراض کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا شمار اللہ تعالیٰ نے مجرمین میں کیا ہے۔ ان مجرمین کو
اس امتحان کے نتیجے کے دن الگ کرکے کھڑا کیا جائے گا۔ تاکہ ان کی سرکشی اور شیطان دوستی
اور احسان فراموشی کی سزا دی جا سکے:
﴿وَ امْتَازُوا الْيَوْمَ
اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ۰۰۵۹ اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا
تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ١ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌۙ۰۰۶۰﴾ (يٰس)
’’اے اولاد آدم!کیا
میں نے تم سے قول و قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا‘ وہ تمہارا کھلا
دشمن ہے۔‘‘
بے مروت‘ سرکش‘ نافرمان‘ امتحان کے نتیجہ سے لاپروا اورغافل
انسان امتحان کے نتیجہ کے دن اس وقت بہت پچھتائے گا جب وہ ناکامی کی صورت میں اپنا
انجام دیکھ رہا ہو گا تب وہ اللہ تعالیٰ سے ایک اور موقع کے لیے درخواست کرے گا :
﴿وَ لَوْ تَرٰۤى
اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا
وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۰۰۱۲﴾ (السجدة)
’’کاش! آپ دیکھتے
کہ جب گناہ گار لوگ اپنے رب کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں گے اور کہیں گے اے ہمارے رب!
ہم نے (جہنم کو) دیکھ لیا اور(اپنا برانتیجہ) سن لیا‘ اب تو اگر ہمیں واپس لوٹا دے
تو ہم نیک اعمال کریں گے۔‘‘
لیکن وہاں مہلت کا وقت ختم ہو چکا ہو گا ‘ وہ صرف اور صرف فیصلہ
کا وقت ہو گا‘ اس لیے انہیں سوائے مایوسی کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا:
﴿اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ
مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ﴾ (فاطر)
’’کیا ہم نے تمہیں
اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتے تھے۔‘‘
انسان کو چاہیے کہ وہ اس پچھتاوے سے بچنے کا سامان اس دنیا میں
ہی کرے۔ وگرنہ موت کے بعد اس کے پاس عمل صالح کا کوئی موقع نہیں ہوگا۔
درسِ حدیث
لباس میں مشابہت
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:
"لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِﷺ الرَّجُلَ يَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَةِ، وَالْمَرْأَةَ
تَلْبَسُ لِبْسَةَ الرَّجُلِ".] (ابوداود)
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ ’’رسول اللہe نے
اس آدمی پر لعنت فرمائی جو عورتوں کا سا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی
جو مردوں کا سا لباس پہنتی ہے۔‘‘ (ابوداود)
لباس انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ عمدہ اور صاف ستھرا
لباس پہننے والا انسان قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ قیمتی اور فاخرہ
قسم کا لباس ہو بلکہ صاف ستھرا اور مناسب لباس زیب تن کیا جائے۔ اللہ نے اگر مالی وسائل
دیئے ہیں تو اس کی نعمت کا اثر بندے پر نمایاں نظر آنا چاہیے۔ لباس کا مقصد جھوٹی
عزت بنانا نہیں بلکہ ستر پوشی ہے اور اگر لباس پہننے کے باوجود جسم کے اعضاء جنہیں
چھپانا لازم ہے نظر آتے ہیں تو وہ لباس لباس نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق رسول اللہe نے
فرمایا کہ بہت سی عورتیں لباس پہننے کے باوجود ننگی ہیں۔ وہ ایسی خواتین ہیں جو بہت
باریک لباس پہنتی ہیں جس سے واضح طور پر نظر آتا ہو یا اتنا تنگ ہو کہ جسم کا ہر عضو
نمایاں محسوس ہوتا ہو۔ آج کل تنگ پاجامہ اور کھلا کرتا پہننے کا رواج ہے جس سے ستر
پوشی نہیں ہوتی۔ عورت کے لیے پیروں سے لے کر سر کے بالوں تک پردہ ہے‘ صرف چہرہ اور
ہاتھ ننگے رکھنے کی اجازت کا ثبوت ملتا ہے‘ چہرے کو ڈھانپ کر صرف آنکھیں ننگی رکھنا
زیادہ بہتر ہے۔ زینت کا سب سے بڑا مظہر چہرہ ہے اور اللہ نے قرآن میں اپنی زینت کو
چھپانے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا مردوں اور عورتوں کو ایسا لباس پہننا چاہیے جس سے ستر
پوشی ہو۔ کچھ مرد اور خواتین اپنا مخصوص لباس استعمال کرنے کی بجائے جنس مخالف کا لباس
پہننا پسند کرتے ہیں۔ یعنی عورتیں مردوں کا لباس اور بعض مرد عورتوں جیسا لباس پہننا
پسند کرتے ہیں۔ اس کام سے رسول اللہe نے واضح طور پر منع فرمایا اور فرمایا کہ جو مرد عورتوں
جیسا لباس پہنے اور عورت مردوں جیسا لباس پہنے تو اس پر اللہ کی طرف سے لعنت برستی
ہے۔ یعنی مرد ریشمی لباس پہنے یا رنگ جو عورتوں کے لیے خاص ہیں مرد پہننا شروع کر دیں
اور وہ لباس یا ڈیزائن جو مردوں کے لیے خاص ہے اسے عورتیں استعمال کریں۔ مثلاً قمیص‘
پتلون‘ ٹائی وغیرہ یعنی دونوں کو لباس میں ایک دوسرے کی نقل اور مشابہت اختیار کرنے
کی ممانعت ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے‘ اس لیے ایسا کرنے پر لعنت وارد ہوئی ہے۔
No comments:
Post a Comment