اداریہ ... کشمیر .. پاکستان کی
شہ رگ
قائد اعظم محمد علی جناحؒ
نے بالکل درست کہا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔‘‘ کشمیر کی آزادی کے بغیر
پاکستان صحرا میں تبدیل ہو جائے گا کیونکہ پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کے منابع کشمیر
میں ہیں۔ آج بھی بھارت پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کے پانی روک رہا ہے
مگر ہماری حکومت اس سے ہر وقت مذاکرات کے لیے تیار رہتی ہے۔ کسی بین الاقوامی فورم
پر اس مسئلے کو دو ٹوک انداز میں پیش کرنے کی جرأت نہیں رکھتی اور کشمیر کا مسئلہ
قیام پاکستان کے ساتھ ہی پیدا ہو گیا تھا۔ جب بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل
نہرو نے دیکھا کہ مجاہدین جس انداز سے کشمیر کی آزادی کے لیے سرگرم عمل ہیں وہ جلد
سرینگر پر قبضہ کر لیں گے۔ چنانچہ وہ اپنی دھوتی سنبھالتے ہوئے فوراً یو این او پہنچا
اور ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو اقوام متحدہ نے یہ قرار داد منظور کر لی
جس کی رو سے ریاست جموں وکشمیر کے باشندے اپنے مستقبل کا فیصلہ جمہوری طریقے سے آزادانہ
اور غیر جانبدارانہ طور پر اقوام متحدہ کی زیر نگرانی منعقد ہونے والی رائے شماری کے
ذریعے کریں گے۔ چنانچہ بھارت کے وزیر اعظم نے دنیا کے سامنے اقرار کیا تھا کہ کشمیر
کا فیصلہ کشمیر کے لوگ کریں گے۔ پھر انہوں نے ۲۵ جنوری ۱۹۵۲ء کو بھارت کی پارلیمنٹ میں بھی اس وعدے کا اعادہ کیا کہ ہم کشمیری عوام کے فیصلے
کے پابند ہوں گے اور اس پر عمل در آمد کے لیے تیار ہوں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اقوام
متحدہ کی قرار دادوں کو پوری دنیا نے تسلیم کر رکھا ہے اور بھارتی حکمران بھی کئی سال
تک ان قرار دادوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ دنیا کو ان پر عمل درآمد کی یقین
دہانی بھی کرواتے رہے۔ اب بھارت نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو تسلیم نہ کرنے کے
ساتھ ساتھ کشمیر‘ بھارت کا اٹوٹ انگ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ
کی قرار دادوں اور تقسیم ہند کے ایجنڈا کے مطابق پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک باقاعدہ
فریق ہے۔ چنانچہ قرار دادوں کی موجودگی میں وہ اس مسئلے کو سلامتی کونسل میں بھی اٹھا
سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی اہمیت کے بارے میں ایک موقع پر امیر محترم سینیٹر پروفیسر
ساجد میر d نے کہا تھا کہ ’’مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا‘
حکومت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اپنی اخلاقی‘ سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کو تیز
تر کرنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق
حل ہونا چاہیے۔ وقت کا تضاضا ہے کہ اپنی پالیسی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ستم کی
بات یہ ہے کہ بھارت‘ پاکستان میں دہشت گردی
اور تخریب کاری کے واقعات کی سرپرستی کر کے پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کر رہا
ہے۔ اس کے افغانستان میں قونصل خانے دہشت گردی کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔‘‘
دنیا اس امر پر شاہد ہے کہ کشمیر کا تنازعہ ۷۱ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک حل طلب اور پاکستان اور بھارت کے درمیان شدید تلخی
کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس دوران دونوں ملکوں کے کئی بار مذاکرات ہوئے اور تین جنگیں بھی
ہوئیں۔ آئے روزپاکستان‘ بھارت کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزی ہوتی رہتی ہے۔ امسال
فروری میں بھی بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کے نام سے بالا کوٹ میں جنگی طیاروں کے ذریعے
حملے کی جسارت کی اور دم دبا کر بھاگ گئے۔ اگلے دن پھر دراندازی کی کوشش کی تو پاک
شاہینوں کے ہاتھوں دو طیارے گنوا بیٹھے جبکہ ایک پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اقوام
متحدہ اس نازک مسئلہ پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح برطانیہ جس کا پیدا کردہ
یہ مسئلہ ہے وہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں حریت
پسندوں کی سرگرمیاں تیز تر ہو گئی ہیں اور بھارت کی ظالم فوج کے مظالم بھی بڑھ گئے
ہیں۔ مگر حریت پسندوں کے عزم واستقلال اور جذبۂ قربانی وآزادی میں کوئی فرق نہیں
آیا۔ ایک عالم گواہ ہے کہ بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کے وسیع رقبے پر فوجی طاقت کے
بل بوتے پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن بھارت اپنی دیرینہ آرزو کے مطابق کشمیری
حریت پسندوں کی جد وجہد آزادی کو آٹھ لاکھ ظالم وجابر فوج کے جبر وتشدد کے باوجود
انہیں زیر نہیں کر سکا۔ ہزاروں افراد کی قربانیوں کے باوصف خون شہیداں سے وادی جتنی
رنگین ہو چکی ہے حصول آزادی کا جذبہ اور اسلامی
تشخص کا ولولہ اتنا ہی تیز ہو رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ کشمیری حریت پسند جس جذبہ ایمانی‘
اتحاد اور عزم وہمت کے ساتھ ایثار وقربانی کی لازوال داستانیں رقم کر رہے ہیں اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب وادی جموں وکشمیر پنجۂ ہنود سے آزاد ہو گی اور
وہاں سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔
تاریخ شاہد ہے کہ قربانیاں کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتیں اور کشمیریوں پر جس قدر
ظلم ڈھائے جا چکے ہیں اور ڈھائے جا رہے ہیں‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وادئ کشمیر میں مسلمانوں
کا کوئی گھر ایسا نہیں جس کا کوئی فرد آزادی کی راہ میں شہید نہ ہوا ہو اور کوئی شخص
ایسا نہیں جو بھارت کی ظالم فوج کے قہر کا نشانہ نہ بنا ہو۔ ڈوگرہ فوجیوں کی درندگی
کا عالم یہ ہے کہ مسلمان عورتوں کو عصمت دری کا نشانہ بناتے ہوئے کمسن بچوں اور عمر
رسیدہ خواتین کو بھی معاف نہیں کیا۔ بے شمار مساجد کا تقدس پا مال ہوا۔ پورا خطہ خون
سے لالہ زار ہوا۔ اس طرح خطے کا امن ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
بھارت کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ کشمیری حریت پسندوں پر مظالم بند کر دے اور اقوام
متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق انہیں حق خود ارادیت دینے سے پس وپیش نہ کرے۔ حکمرانوں
کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو سیاسی‘ سفارتی سطح پر دنیا میں اس طرح پیش
کریں کہ بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرنے پر مجبور ہو جائے۔ ہم کشمیری
مسلمانوں کے ساتھ ہیں‘ ان کی سیاسی واخلاقی حمایت کرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے
فضل وکرم سے وہ دن آکر رہے گا جب کشمیر بنے گا پاکستان۔
No comments:
Post a Comment