Friday, June 28, 2019

احکام ومسائل


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

ایک خطرناک بیماری
O میں ایک انتہائی خطرناک اور پوشیدہ قسم کے مرض میں مبتلا ہوں‘ اس کے اظہار میں بھی شرم محسوس ہوتی ہے‘ شاید آپ کی رہنمائی سے میں اس سے نجات پا جاؤں‘ وہ یہ ہے کہ مجھے بدکاری کی عادت ہے‘ کئی دفعہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کی ہے لیکن اس سے تحفظ عارضی ہوتا ہے‘ اس سلسلہ میں مجھے کیا کرنا چاہیے‘ از راہ کرم میری رہنمائی کریں۔
P قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہر جسمانی اور ذہنی بیماری کا علاج رکھا ہے بشرطیکہ اس پر یقین کامل ہو۔ مذکورہ بیماری کے لیے بھی ضروری ہے کہ مریض کو اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ مجھے ایک دن اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے برے کردار کے متعلق جوابدہ ہونا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے نفس کو بُری خواہشات سے روکتا رہا‘ اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘ (النّٰزِعٰت: ۴۰-۴۱)
اسے دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ تقویٰ کو اپنے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا ایک خاردار وادی ہے‘ اس میں اپنی آنکھیں کھول کر اور پھونک پھونک کر قدم رکھے‘ یہ تقویٰ گناہوں سے بریک کام دیتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرے گا‘ اللہ تعالیٰ دنیا کی آزمائشوں سے نکلنے کی صورت پیدا کر دے گا۔‘‘ (الطلاق: ۲)
سائل کو تیسرا کام یہ کرنا چاہیے کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کرے اور انہیں مسجد میں باجماعت ادا کرے۔ نماز بھی انسان کو بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔‘‘ (العنکبوت: ۱۵)
سائل اگر شادی شدہ نہیں تو اسے چاہیے کہ شادی کے قلعے میں خود کو محفوظ کر لے۔ ایسا کرنے سے بھی انسان شیطان کے داؤ وپیچ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھتا ہے تو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ وہ نگاہوں کو نیچا رکھنے اور عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے زیادہ مؤثر ہے۔‘‘ (بخاری‘ النکاح: ۵۰۶۶)
اگر وقتی طور پر نکاح کی استطاعت نہیں تو بکثرت روزے رکھے۔ یہ روزے بھی اس بیماری کے زہر کا تریاق ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہe کا ارشاد ہے: ’’جو شخص عقد نکاح کی طاقت نہ رکھے اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ یہ روزے اس کی شہوت کو کم کرنے کا مؤثر ذریعہ ہیں۔‘‘ (مسلم‘ النکاح: ۳۳۸۹)
اس کے علاوہ بُری سوسائٹی اور گندے ماحول سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرے‘ گندی صحبت بھی انسان کو گندے کاموں پر مجبور کر دیتی ہے۔ نیز مسلمانوں کے اخلاق وکردار کو تباہ کرنے والے دجالی میڈیا سے خود کو بچائے رکھے‘ خاص طور پر سمارٹ موبائل کا استعمال بالکل ترک کر دے کیونکہ اس سے شر اور بے حیائی کے دروازے کھلتے ہیں۔ ضرورت کے پیش نظر صرف سادہ موبائل استعمال کیا جائے۔
آخری بات یہ ہے کہ رسول اللہe کے پاس ایک اس قسم کا مریض آیا تو آپe نے اس کے ضمیر کو بیدار کر کے اس کے لیے بایں الفاظ دعا کی: ’’اے اللہ! اس کے دل کو پاک کر دے‘ اس کی شرمگاہ کو محفوظ کر دے اور اس کے گناہوں کو معاف کر دے۔‘‘ (مسند امام احمد: ج۵‘ ص ۲۵۶)
اس حدیث کے پیش نظر سائل کو درج ذیل دعا بکثرت پڑھنی چاہیے: [اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ وَحَصِّنْ فَرْجِیْ وَاغْفِرْ ذَنْبِیْ]
اس کے علاوہ [لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ] اور سید الاستغفار بکثرت پڑھتا رہے۔ اللہ سے امید ہے کہ مذکورہ بالا کام بجا لانے سے اس خطرناک پوشیدہ بیماری کا علاج ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
پریشانی کا علاج
O میری ایک آٹھ نو سال کی بہن ہے۔ اسے اچانک جھٹکا سا لگتا ہے جس سے وہ بے ہوش ہو جاتی ہے اور اس کے جسم میں تناؤ آ جاتا ہے۔ میں اس سلسلہ میں بہت پریشان ہوں۔ بہت علاج ومعالجہ کیا ہے لیکن بے سود‘ مجھے اس پریشانی سے نجات کے لیے کیا کرنا چاہیے؟!
P اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے تا کہ اس کے ایمان کو جاندار اور مضبوط کیا جائے۔ نیز اسے ایسے حالات میں صبر کرنے اور استقامت دکھانے کی عادت ڈالی جائے لہٰذا انسان کو گھبرانے کی بجائے صبر اور ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی پریشانی میں صبر کے دامن کو تھامے رکھے اور استقامت کا مظاہرہ کرے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شیطان‘ بندوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے اس قسم کے امتحان میں ڈال دیتا ہے‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ شیطان ہی تو ہے جو تمہیں اپنے کارندوں سے ڈراتا ہے‘ اگر تم مومن ہو تو اس سے مت ڈرو بلکہ صرف مجھ سے ڈرو۔‘‘ (آل عمران: ۱۷۵)
شیطان عام طور پر انسانوں کو درج ذیل تین طریقوں سے خوفزدہ کرتا ہے:
|          مس الشیطان: … اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا ذکر کیا ہے۔ (البقرہ: ۲۷۵)
|          نظر بد: … احادیث میں اس کا بکثرت ذکر آیا ہے۔
|          حسد: … اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آخری سورت الناس میں اس کا ذکر کیا ہے۔
مذکورہ ہر سہ شیطانی حرکات سے محفوظ رہنے کے لیے سائل کو چاہیے کہ وہ درج ذیل امور کو عمل میں لائے اور مستقل مزاجی کے ساتھ ان پر ہمیشگی کرے۔
\          اپنے گھر کو شیطانی آوازوں سے پاک وصاف رکھیے‘ بالخصوص ٹی وی اور سمارٹ فون پر کڑی نظر رکھیے‘ گھر میں ان کا غلط استعمال نہ ہو۔
\          گھر کے تمام افراد اپنے دن کا آغاز تلاوت قرآن سے کریں اور اسے ہمیشہ کے لیے معمول زندگی بنائیں۔ اس کی خیرات وبرکات جلد ہی نظر آئیں گی۔
\          اپنے گھر میں نماز پنجگانہ کی پابندی کریں‘ تمام بالغ افراد مسجد میں باجماعت نماز ادا کریں اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
\          بچی پر درج ذیل وظیفہ کا دم کیا کریں: [لا حول ولا قوۃ الا باللہ، لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر] دس مرتبہ صبح اور دس مرتبہ شام
\          پانی کے ایک جگ پر درج ذیل دم کریں: سورہ الفاتحہ‘ سورہ البقرہ کی پہلی پانچ آیات‘ آیۃ الکرسی اور آخری چار قل‘ تین مرتبہ پڑھیں اور صبح کی نماز کے بعد ایک ایک گلاس پانی بچی کو پلا دیں اور باقی پانی کو دوسرے پانی کے ساتھ ملا کر نہلا دیں۔ اسی طرح مغرب کے بعد بھی ایسا کرنا ہے۔ یہ عمل تین دن تک کریں۔
\          خمیرہ گاؤزبان عنبری‘ نصف چمچ بچی کو کھلائیں اور پھر دار چینی‘ سونف کا قہوہ پلائیں‘ ایک ہفتہ اس نسخہ کو استعمال کریں۔
امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بچی کو شفا دے گا اور آپ کی پریشانی کو دور کرے گا۔ کسی بابے‘ پیر وفقیر اور عامل کے پاس جانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
رخصتی سے پہلے خلع
O ہم نے کسی جگہ اپنی بیٹی کا نکاح کیا تھا‘ ابھی رخصتی نہیں ہو ئی تھی کہ ہمیں لڑکے کے بدچلن ہونے کا علم ہوا‘ ہم نے طلاق کا مطالبہ کیا‘ اس نے انکار کر دیا تو ہم نے عدالتی خلع لے لیا ہے۔ کیا اس صورت میں ہماری بیٹی کو عدت گذارنا ہو گی؟ کیونکہ ہم اس کا آگے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔
P نکاح زندگی کا ایک سنجیدہ عمل ہے‘ اسے انتہائی غور وفکر اور سوچ وبچار کے بعد عمل میں لانا چاہیے‘ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ اگر نکاح ہو جائے تو اسے نبھانے کی بھر پور کوشش کی جائے‘ اسے جذبات میں آکر سبوتاژ نہ کیا جائے۔ صورت مسئولہ میں اگر لڑکا واقعی بدچلن ہے تو اس کے والدین کے ذریعے اسے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن سوال میں عدالتی طور پر خلع لینے کا ذکر ہے۔ واضح رہے کہ خلع کی ڈگری جاری ہوتے ہی نکاح ختم ہو جاتا ہے‘ پھر اگر رخصتی کے بعد خلع ہوا ہے تو اس کی عدت ایک حیض ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (ترمذی‘ الطلاق: ۱۱۸۶)
اور اگر خلع یافتہ حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ (مغنی لابن قدامہ: ج۱۱‘ ص ۲۲۷)
صورت مسئولہ میں رخصتی سے قبل ہی خلع لے لیا گیا ہے‘ لہٰذا اس کی کوئی عدت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قبل از رخصتی مطلقہ عورت کے متعلق فرمایا ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم اہل ایمان عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے یعنی مباشرت سے پہلے ہی طلاق دے دو تو تمہارا ان پر کوئی حق عدت نہیں جسے تم شمار کرو۔‘‘ (الاحزاب: ۴۹)
اس آیت میں اس مطلقہ عورت کا حکم بیان ہوا ہے جسے رخصتی سے پہلے ہی طلاق ہو جائے۔ قبل از رخصتی خلع کو اس پر قیاس کیا جائے گا۔ لہٰذا اس قسم کی خلع یافتہ عورت پر کوئی عدت نہیں۔ وہ خلع ملتے ہی آگے نکاح کرنے کی مجاز ہے۔ اگر حالات سازگار ہو جائیں تو پہلے خاوند سے بھی نکاح ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)