اسلام میں انسان کی عزت افزائی
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر علی عبدالرحمن الحذیفیd
حمد و ثناء کے بعد!
تقوی الٰہی اپناؤ اور تقوی حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رضا تلاش
کرو اور اللہ کے غضب و عذاب سے بچو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَرَبُّکَ یَخْلُقُ
مَا یَشَآئُ وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَتَعَالٰی
عَمَّا یُشْرِکُونَ}
’’اور آپ کا رب جو
چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے‘ ان میں سے کسی کو کوئی اختیار
نہیں ، اللہ پاک ہے‘ وہ ہر اس چیز سے بلند تر ہے جسے لوگ شریک بناتے ہیں۔‘‘ (القصص:
۶۹)
اللہ تعالی نے ساری مخلوقات کو اپنی قدرت، علم، حکمت اور رحمت
کے ذریعے پیدا کیا، اس مشاہداتی کائنات کو وجود بخشا اور اس کا ایک وقت مقرر فرمایا
جس سے کائنات ایک لمحے کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ اس مشاہداتی کائنات میں
اسباب بھی پیدا فرمائے اور ان اسباب سے پیدا ہونے والی چیزیں بھی پیدا کیں، اس طرح
اللہ تعالی سبب اور مسبب دونوں کا خالق ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہ
ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{اللّٰہُ خَالِقُ
کُلِّ شَیْئٍ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیلٌ٭ لَہٗ مَقَالِیدُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ
وَالَّذِینَ کَفَرُوا بِآیٰتِ اللّٰہِ اُولَپکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ٭}
’’اللہ ہی ہر چیز
کا خالق ہے اور وہ ہر ایک کا نگہبان ہے۔ اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں،
اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے ہی خسارہ پانے والے ہیں۔‘‘ (الزمر: ۶۲-۶۳)
ایک اور مقام پر فرمایا:
{اَلَا لَہُ الْخَلْقُ
وَالْاَمْرُ تَبَارَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِینَ}
’’پیدا کرنا اور
حکم چلانا اسی کے لائق ہے، جہانوں کا پروردگار اللہ بہت ہی بابرکت ہے۔‘‘ (الأعراف:
۵۴)
انسان بھی اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے اور یہ
اللہ تعالی کی ایک انوکھی مخلوق ہے، اس میں اللہ تعالی نے دیگر مخلوقات میں بکھری ہوئی
خوبیاں یکجا کر دی ہیں، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{لَقَدْ خَلَقْنَا
الْإِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیمٍ}
’’یقینا ہم نے انسان
کو بہترین قالب میں پیدا کیا ہے۔‘‘ (التین: ۴)
ایسے ہی فرمایا:
{وَفِی اَنْفُسِکُمْ
اَفَلَا تُبْصِرُونَ}
’’اور تمہارے ہی
اندر (نشانیاں)ہیں کیا تم دیکھتے نہیں۔‘‘ (الذاریات: ۲۱)
ایک اور مقام پر فرمایا:
{وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ
اَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ}
’’اس کی نشانیوں
میں یہ بھی شامل ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا تو پھر تم بشر اس دھرتی پر پھیل
جاتے ہو۔‘‘ (الروم: ۲۰)
اللہ تعالی نے اولاد آدم کی عزت افزائی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا
بَنِیٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ
وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلٰی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا٭}
’’بلاشبہ! ہم نے
بنی آدم کی عزت افزائی کی اور بحر و بر میں انہیں سواری مہیا کی، کھانے کو پاکیزہ چیزیں
دیں اور جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے کثیر مخلوق پر انہیں نمایاں فوقیت دی۔‘‘
(الاسراء: ۷۰)
یہاں دنیا میں اللہ تعالی کی طرف سے نعمتوں کے ذریعے عزت افزائی
تمام اولاد آدم کے لئے ہے چاہے کوئی نیک ہے یا فاجر ، یہ عام عزت افزائی ہے، جبکہ آخرت
میں ملنے والی رضائے الٰہی اور جنت کی صورت میں عزت افزائی خاص ہوگی اور یہ صرف اہل
ایمان کو ملے گی آخرت میں کافر کے لئے کچھ نہیں ہو گا؛ یہ بھی واضح رہے کہ تمہارا پروردگار
کسی پر ظلم بھی نہیں فرماتا۔
آخرت میں اللہ تعالی صرف اسی انسان اور جن کو عزت دے گا جس نے
اللہ تعالی کی اطاعت کی ہو گی، جیسے کہ ابن عساکر نے سیدنا انس بن مالکt سے
روایت کی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’فرشتے کہتے ہیں:
پروردگار! تو نے ہمیں پیدا کیا اور آدم کی اولاد کو بھی پیدا فرمایا، تو نے انہیں کھانے،
پینے ، پہننے اور شادیاں کرنے کی صلاحیت دی، وہ سواری بھی کرتے ہیں، سوتے بھی ہیں اور
آرام بھی کرتے ہیں، لیکن ان چیزوں میں سے کچھ بھی ہمیں عطا نہیں کیا لہٰذا آدم کی اولاد
کو دنیا دے دے اور ہمیں آخرت دے دے، تو اللہ تعالی نے فرمایا: ایسی مخلوق جس کو میں
نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اس کو کسی ایسی مخلوق کے
برابر نہیں کروں گا جسے میں نے کلمہ کن کہہ کر پیدا کیا ہے۔‘‘
اس حدیث کا ایک شاہد عبد اللہ بن عمرو سے بھی مروی ہے جسے طبرانی
نے روایت کیا ہے۔
بنی آدم کو دی گئی بڑی نعمتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی
نے انسانوں کے لئے بہت سی مخلوقات، چیزیں اور نعمتیں کام پر لگائی ہوئی ہیں، اسی کا
ذکر اللہ تعالی نے کرتے ہوئے فرمایا:
{اَلَمْ تَرَوْا
اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ
عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً}
’’کیا تم دیکھتے
نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ نے تمہارے لئے کام پر لگا
دیا ہے اور اس نے اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔‘‘ (لقمان:
۲۰)
ایک اور مقام پر فرمایا
{وَسَخَّرَ لَکُمْ
مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیعًا مِّنْہُ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ
لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُون} (الجاثیۃ: ۱۳)
’’اللہ نے جو کچھ
آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے فضل سے تمہارے لیے کام پر لگا دیا
ہے، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘
یہاں اولاد آدم پر نعمتوں کی بھر مار کرنے میں حکمت یہ ہے کہ
سب کے سب اللہ تعالی کے سامنے سرنگوں ہوں اور اسی کا شکر ادا کریں، نیز کسی کو بھی
اس کا شریک مت ٹھہرائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{کَذَلِکَ یُتِمُّ
نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُونَ} (النحل: ۸۱)
’’یہ اس لیے ہے کہ
تم پر اپنی نعمتیں پوری کر دے اور تم اسی کے سامنے سرنگوں رہو۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’اللہ تعالی اسی
طرح تمہارے لیے ایسی چیزیں بناتا ہے جن سے تم اپنے کام نکالو اور اپنی ضرورت پوری کرو
تا کہ یہ چیزیں تمہارے لیے اللہ کی اطاعت اور عبادت میں معاون بن جائیں۔‘‘
انسان کا تذکرہ کر کے اللہ تعالی نے جو اسے بلند مقام دیا ہے
کہ اللہ تعالی نے اسے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، پھر اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں
منتقل کیا؛ اس سب کا مقصد یہی ہے کہ انسان کو اپنی دنیاوی ذمہ داری معلوم ہو جائے،
انسان فرض شناس ہو، اسے علم ہو کہ اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالی نے اسے اپنے
اوامر اور نواہی کا مکلف بنایا ہے، اس انسان کو شرعاً ذمہ داری سونپی ہے، نیز اسے اللہ
تعالی کی بندگی کا شرف بھی حاصل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{اَیَحْسَبُ الإِنْسَانُ
اَنْ یُتْرَکَ سُدًی}
’’کیا انسان یہ سمجھتا
ہے کہ اسے بے مہار چھوڑ دیا جائے گا؟‘‘ (القیامۃ: ۳۶)
امام شافعیa بے
مہار کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
’’اسے نہ کوئی حکم
دیا جائے گا اور نہ ہی کسی کام سے منع نہ کیا جائے گا۔‘‘
اللہ تعالی کا ایک جگہ فرمان ہے:
{اَفَحَسِبْتُمْ
اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ} (المؤمنون:
۱۱۵)
’’کیا تم یہ سمجھتے
ہو کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری جانب نہیں لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
اس کے علاوہ اللہ تعالی نے اس کائنات کے جو اصول ہمارے لیے بیان
کیے ہیں اور جو اسباب اس کائنات میں وجود پانے کے بعد مؤثر ہوتے ہیں انہیں بھی بیان
کیا اور واضح کیا کہ
اگر انسان کے اعمال اچھے ہوں تو انسان کی زندگی بھی سنور جاتی
ہے، اور اگر اعمال ہی گھٹیا ہوں تو زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے یہ بھی
بتلایا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل اور عدل کی بدولت انسانی اعمال کا منفی یا مثبت اثر
حیوانات اور نباتات پر بھی ہوتا ہے؛ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ اطاعت گزاری پر کار
بند رہیں اور حرام کردہ امور سے بچیں۔
چنانچہ انسانی اعمال کی بدولت زندگی سنور جانے کا تذکرہ کرتے
ہوئے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ
الْقُرَی اٰمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ
وَلٰکِنْ کَذَّبُوا فَاَخَذْنَاہُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ}
’’اگر بستی والے
ایمان لاتے اور تقوی اپناتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن
انہوں نے جھٹلا دیا تو ہم نے انہیں ان کی کارستانیوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔‘‘ (الاعراف:
۹۶)
ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ
الْکِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنَاہُمْ
جَنَّاتِ النَّعِیمِ٭ وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرَاۃَ وَالإِنْجِیلَ وَمَا
اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِنْ رَبِّہِمْ لَاَکَلُوا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ}
’’اگر اہل کتاب ایمان
لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان کی خطائیں ضرور مٹا دیتے اور انہیں نعمتوں والی
جنت میں لازمی داخل کرتے اور اگر وہ تورات اور انجیل پر اور جو دوسری کتابیں ان پر
انکے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی تھیں، ان پر عمل پیرا رہتے تو انکے اوپر سے بھی
کھانے کو رزق برستا، اور پاؤں کے نیچے سے بھی ابلتا۔‘‘ (المائدۃ: ۶۶)
قرآن کریم ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور اہل کتاب کے لئے نازل
فرمایا، قرآن کریم میں کوئی بھی رد و بدل نہیں کر سکا کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ
تعالی نے لیا ہوا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{اَلَّذِینَ اٰمَنُوا
وَلَمْ یَلْبِسُوا اِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولَئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُہْتَدُونَ}
(الانعام: ۸۲)
’’جو لوگ ایمان لائے
اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم کی آمیزش نہیں کی تو انہی لوگوں کے لئے امن ہے اور
یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
یعنی مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایمان کے ہوتے ہوئے شرک نہیں کیا،
رسول اللہe نے
ظلم کی یہی تفسیر بیان فرمائی ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یَا اَیُّہَا الَّذِینَ
اٰمَنُوا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ}
’’اے ایمان والو!
اگر تم اللہ (کے دین)کی مدد کرو تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ (محمد: ۷)
ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{اَلَّذِینَ اِنْ
مَّکَّنَّاہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکـٰوۃَ وَاَمَرُوا
بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُورِ}
’’اگر ہم انہیں زمین
کا اقتدار بخشیں تو وہ اقامت نماز، زکاۃ کی ادائیگی ، اچھے کام کا حکم دیں اور برے
کام سے روکیں گے، تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔‘‘ (الحج: ۴۱)
ابن کثیرa اپنی
تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک بار خطاب کیا تو
اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا:
’’توجہ کریں! یہ
صرف حکمران کی ہی ذمہ داری نہیں، اس میں رعایا بھی برابر کی شریک ہے، کیا میں تمہیں
یہ نہ بتلاؤں کہ اس ضمن میں تمہارے حکمران پر کیا حقوق ہیں؟ اور حکمران کے تم پر کیا
حقوق ہیں؟ ’’تمہارے حقوق یہ ہیں کہ حقوق اللہ کے متعلق تمہارا محاسبہ کرے، تمہارے درمیان
انصاف کرے، اور حسب استطاعت تمہاری صحیح ترین سمت میں رہنمائی کرے۔ جبکہ تم پر یہ لازمی
ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو۔‘‘
مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان: {وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ} میں ایسے شخص کے لئے دشمنوں اور غیروں کی مکاریوں سے پروانہ
امان ہے جو یہ چار چیزیں بجا لاتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ
{وَِنْ تَصْبِرُوا
وَتَتَّقُوا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ}
’’اگر تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو ان کی مکاری تمہارا
کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ یقینا اسے جانتا ہے۔‘‘
(آل عمران: ۱۲۰)
جس طرح نیک عمل کی تاثیر عام ہوتی ہے اسی طرح خود نیک عمل کرنے
والے پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا
مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّــہٗ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ
اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ}
’’جو کوئی بھی مرد
یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم لازمی طور پر اسے دنیا میں بہترین زندگی
عطا کریں گے اور آخرت میں اسے اس کے عمل سے بھی بہترین اجر ضرور عطا کریں گے۔‘‘ (النحل:
۹۷)
جبکہ اس کے مد مقابل یہ بھی ہے کہ بد اعمالیاں جس طرح برے شخص
کو نقصان پہنچاتی ہیں اسی طرح زندگی بھی خراب کر ڈالتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَوِ اتَّبَعَ
الْحَقُّ اَہْوَائَہُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیہِنَّ} (المؤمنون:
۷۱)
’’اگر حق ان کی خواہشات
کی پیروی کرتا تو آسمانوں اور زمین اور جو بھی ان میں ہیں؛ سب تباہ ہو جاتے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
{ظَہَرَ الْفَسَادُ
فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیقَہُمْ بَعْضَ الَّذِی
عَمِلُوا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ} (الروم: ۴۱)
’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہو گیا ہے تاکہ
اللہ لوگوں کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آ جائیں۔‘‘
ایسے ہی سورت الشوری میں فرمایا:
{وَمَا اَصَابَکُمْ
مِنْ مُصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ} (الشورٰی:
۳۰)
’’تمہیں جو بھی دشواری
آئے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے، حالانکہ اللہ بہت سی کوتاہیوں کو
معاف کر دیتا ہے۔‘‘
اے انسان! تم سابقہ امتوں میں ان لوگوں کی صورت حال پر غور کرو
جنہوں نے برائیاں کی تھیں کہ ان پر کیا تکالیف آن پڑیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَکَمْ قَصَمْنَا
مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَأنْشَاْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِینَ} (الانبیاء:
۱۱)
’’اور ہم نے بہت
سی ظالم بستیاں تباہ کر کے رکھ دیں اور ان کے بعد دوسرے نئے لوگ پیدا کر دیے۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمرw کہتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’پانچ چیزوں کے بدلے پانچ چیزیں رونما ہوں
گی۔‘‘
جب کسی قوم میں علانیہ فحاشی ہونے لگ جائے تو ان میں طاعون اور
ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو پہلے نہ تھیں۔
جب ان کے حکمران اللہ تعالی کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے
، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے ، تو اللہ تعالی ان میں پھوٹ
اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔
جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے تو اللہ تعالی آسمان
سے بارش کو روک دیتا ہے اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ
بھی نہ گرتا۔
جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط ، معاشی
تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں
تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے ، وہ ان
کی ملکیت کا جزوی حصہ چھین لیتا ہے۔ (ـابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَاَنْ لَیْسَ لِلإِنْسٰنِ
اِلَّا مَا سَعٰی٭ وَاَنَّ سَعْیَـہٗ سَوْفَ یُرٰی٭ وَاَنَّ اِلَی رَبِّکَ الْمُنْتَہٰی}
’’انسان کو وہی کچھ
ملے گا جس کی اس نے کوشش کی اور وہ اپنی کوشش عنقریب دیکھ لے گا اور بیشک تیرے رب کی
طرف ہی پہنچنا ہے۔‘‘ (النجم: ۳۹-۴۱)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
تقوی اپناؤ تا کہ تم راہ الٰہی پر چل نکلو تو وہ تمہیں اپنی
جنتوں میں داخل کر دے گا اور تم رضائے الٰہی حاصل کر کے کامیاب ہو جاؤ گے۔
اے انسان! تم دیکھو کہ اللہ تعالی نے تم پر کیا کیا نعمتیں کی
ہیں، ان نعمتوں کو کوئی شمار میں نہیں لا سکتا، تم ان کا شکر ادا کرو؛ کیونکہ اگر کوئی
معمولی سی بھی نعمت تم سے چھن گئی تو اللہ کے سوا کوئی بھی اسے واپس نہیں لوٹا سکتا،
اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی کوئی نعمت معمولی نہیں ہوتی۔
اے انسان! تم استقامت، صلاحیت، بہتر کارکردگی اور برائی سے رک
کر اپنے معاشرے کو تحفظ دے سکتے ہو، اپنے آپ کو نقصانات اور سزاؤں سے بچا سکتے ہو۔
یہ بھی ذہن نشین کر لو کہ تم دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں باز پرس کا سامنا کرو
گے، تو دیکھو کہ تمہارے پاس کیا جواب ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الإِنْسَانُ
اِنَّکَ کَادِحٌ اِلَی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیہِ٭ فَاَمَّا مَنْ اُوتِیَ کِتَابَـــہٗ
بِیَمِینِہِ٭ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیرًا٭ وَیَنْقَلِبُ إِلٰٓی اَہْلِہٖ
مَسْرُورًا٭ وَاَمَّا مَنْ اُوتِیَ کِتَابَــہٗ وَرَآئَ ظَہْرِہٖ٭ فَسَوْفَ یَدْعُو
ثُبُورًا٭ وَیَصْلٰی سَعِیرًا}
’’اے انسان تیری
کد و کاوش تجھے تیرے رب کی طرف دھکیل رہی ہے اور تو اپنے رب سے ملنے والا ہے۔ جس کو
نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں مل گیا تو اس کا حساب آسان ترین لیا جائے گا۔ اور وہ اپنے
اہل خانہ میں خوشی خوشی واپس لوٹے گا اور جسے نامہ اعمال پیٹھ کے پیچھے سے دیا گیا
تو وہ تباہی مانگے گا اور جہنم میں داخل ہو گا۔‘‘ (الانشقاق: ۶-۱۲)
ایک حدیث میں ہے کہ
’’اس وقت تک بندے
کے قدم ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے: عمر کہاں
گزاری، جوانی کہاں فنا کی، دولت کہاں سے کمائی اور کہاں خرچ کی؟ اور سیکھے ہوئے علم
پر کتنا عمل کیا؟‘‘
اے انسان! تمہارا دائمی گھر وہی ہے جو موت کے بعد تمہیں ملے
گا، اگر تم نے اپنے اس دائمی گھر کو نیکیوں سے آباد کر لیا ہے تو تمہارے لیے مبارکباد
ہے، اور اگر تم دنیا میں مشغول ہو کر اخروی گھر بھول گئے ہو تو تمہارے لیے بربادی ہے۔
تمہاری دنیا تم سے منہ موڑ کر چلی جائے گی چاہے تم دنیا سے محبت رکھو یا بیزاری کا
اظہار کرو، جبکہ آخرت تمہارے اعمال کے ساتھ تمہاری طرف بڑھ رہی ہے ۔
یا اللہ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،
یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا۔ یا
اللہ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر
چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، اور کرم کے
صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
No comments:
Post a Comment