گناہوں کی نحوست
تحریر: جناب سید اکرام اللہ گیلانی
انسانیت کی تخلیق
جنت میں ہوئی کیونکہ انسانوں کے باپ آدم اور ماں حواi کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنے کے بعدجنت میں ٹھہرایا
اور حکم دیا کہ جہاں سے چاہے کھاؤ پیو مگر اس درخت کے قریب نہیں جانا ۔ آخر وہ کون
سی چیز تھی؟ جس نے انہیں نعمتوں ، لذتوں ، عیش وعشرت اور لطف و سرور والی جنت سے نکال
کر آلام و مصائب، حزن و غم کی اتھاہ گہرائیوں والی دنیا میں بھیج دیا۔ آخروہ کون
سی چیز تھی؟ جس نے ابلیس کو فرشتوں کی نورانی محفل سے باہر نکال کر لعنت و پھٹکار کا
مستحق قرار دیا ۔ جسے قرب کے بدلے دوری ، رحمت کے بدلے لعنت ، باغات وآسائشوں والی
نعمتوں کے بدلے بھڑکتی آگ کا مستحق قرار دیا ۔ آخر وہ کون سی چیز تھی؟ جس کا ارتکاب
کرتے ہی زمین کے باسیوں کو ایسے سیلابوں میں غرق کردیا گیا کہ ساری دنیا پر سوائے پانی
کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ آخر وہ کیا تھا؟ کہ جس کی وجہ سے قوم عاد پر ایسی تندوتیز
آندھیاں چلیں کہ انہیں گھروں سے باہر نکال کر اوپر اٹھا کر اس زمین پر پٹخ دیا جیسا
کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں ۔ آخر وہ کس عمل کا نتیجہ تھا؟ کہ جس کی وجہ سے قوم
ثمود پر ایسی زور دار کڑک و چیخ وارد ہوئی کہ جس نے ان کے دلوں کو چیر دیا اور ان کے
سینوں کو پھاڑ کر انہیں اپنے گھروندوں میں اوندھے گرا کر ان کی باقیات کو نشان عبرت
بنادیا۔ آخر لوطu کی
قوم نے ایسا کون سا کام کردیا تھا؟ کہ جس کے نتیجے میں ان کی بستی کو آسمانوں تک اٹھا
کر زور سے نیچے پھینک دیا گیا اور ان پر زور دار تیز پتھروں کی بارش برسا کر بعد والوں
کے لیے نصیحت کا سامان بنادیا گیا۔ قارون جس کے خزانے اتنے زیادہ تھے کہ جس کے محلات
میں خزانے تھے ان کی چابیاں اونٹوں کی ایک جماعت اٹھایا کرتی تھی‘ آخر قارون کو اس
کے خزانوں بھرے محلات سمیت کس وجہ سے زمین میں دھنسا دیا گیا؟ جو کہ قیامت تک دھنستا
چلا جائے گا ۔ آخر سابقہ امتوں سے ایسا کون سا کام ہواتھا کہ جس کی وجہ سے کسی کو
زلزلے نے دہلا دیا تو کسی کے دل چیخ اور کڑک نے پھاڑ دیے۔ کوئی طوفانوں کی نذرہوئے
تو کچھ کو سیلابوں میں غرق کیا گیا۔ کسی پر پتھروں کی بارش برسی تو کئی بستیوں کو الٹا
دیا گیا ۔ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ان سب کا سبب وہ گناہ تھے جن کا ارتکاب
ان سے ہوا تو رب کے غضب نے جوش مارا‘ نتیجتاً سب اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد کردیے
گئے۔
علامہ ابن قیم جوزیہa نے اپنی کتاب [الجواب الکافی لمن سأل عن الدواء الشافی] میں صفحہ ۵۹ میں
لکھا ہے:
[لما فتحت قبرص فرق
بین أھلھا فبکی بعضھم إلی بعض، فرأیت أبا الدرداء جالسا وحدہ یبکی، فقلت یا أبا الدرداء
ما یبکیک؟ فی یوو أعز اللہ فیہ الاسلام وأھلہ؟ فقال: و یحک، یا جبیر ما أھون الخلق
علی اللہ عزوجل اذا أضاعوا أمرہ بینما ھی أمۃ قاھرۃ ظاھرۃ لھم الملک، ترکوا أمر اللہ
فصاروا إلی ماتری]
’’(مسلمانوں کے ہاتھوں)
قبرص فتح ہوا تو اہل قبرص ایک دوسرے کے گلے لگ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، جبیر
بن نفیر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابودرداءt اکیلے بیٹھ کر رورہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا: اے ابو
درداء! آج جب اللہ نے اہل اسلام کو فتح دی تو آپ کیوں رو رہے ہیں؟ تو وہ فرمانے لگے
کہ تو عجیب ہے، اے جبیر! یہ لوگ اللہ کے سامنے کتنے بے بس ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے
انہیں غلبہ و بادشاہت دی تھی‘ طاقت وجرأت تھی، اختیارات ووسائل تھے مگر جب انہوں نے
اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرکے اللہ کے حکموں کو پامال کیا تو آج اللہ تعالیٰ
نے ان کا یہ حال کردیا جو تو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
[حَدَّثَنَا مَحْمُودُ
بْنُ خَالِدٍ الدِّمَشْقِیُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ
اَبُو اَیُّوبَ، عَنِ ابْنِ اَبِی مَالِکٍ، عَنْ اَبِیہِ، عَنْ عَطَائِ بْنِ اَبِی
رَبَاحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: اَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِﷺ،
فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِہِنَّ، وَاَعُوذُ
بِاللَّہِ اَنْ تُدْرِکُوہُنَّ، لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِی قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّی
یُعْلِنُوا بِہَا، إِلَّا فَشَا فِیہِمُ الطَّاعُونُ، وَالْاَوْجَاعُ الَّتِی لَمْ
تَکُنْ مَضَتْ فِی اَسْلَافِہِمُ الَّذِینَ مَضَوْا، وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ
وَالْمِیزَانَ، إِلَّا اُخِذُوا بِالسِّنِینَ، وَشِدَّۃِ الْمَئُونَۃِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ
عَلَیْہِمْ، وَلَمْ یَمْنَعُوا زَکَاۃَ اَمْوَالِہِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ
السَّمَائِ، وَلَوْلَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوا، وَلَمْ یَنْقُضُوا عَہْدَ اللَّہِ،
وَعَہْدَ رَسُولِہِ، إِلَّا سَلَّطَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ،
فَاَخَذُوا بَعْضَ مَا فِی اَیْدِیہِمْ، وَمَا لَمْ تَحْکُمْ اَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ
اللَّہِ، وَیَتَخَیَّرُوا مِمَّا اَنْزَلَ اللَّہُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّہُ بَاْسَہُمْ
بَیْنَہُمْ] (سنن ابن ماجہ: ۴۰۱۹، قال الالبانی صحیح، الصیحۃ:۱۰۶)
سیدنا عبداللہ بن عمرw بیان
کرتے ہیں کہ نبی کریمe نے
فرمایا: ’’اے مہاجرین کی جماعت ! جب تم پانچ چیزوں میں مبتلا ہو جاؤ گے اور میں اللہ
کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم انہیں پاو ، جب کبھی کسی قوم میں فحاشی عام ہوتی ہے اور اس
کا ارتکاب علانیہ کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر طاعون کی بیماری عام کردیتا ہے
اور ایسی بھوک کہ جو ان سے پہلے والوں میں کبھی نہ گزری ہو ، اور جو قوم ناپ تول میں
کمی شروع کردے تو اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی و فقرو آلام اور ظالم بادشاہ مسلط کر
دیتا ہے، جو قوم اپنے اموال میں سے زکوۃ ادا نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش
برسانا بند کر دیتا ہیے حتیٰ کہ وہ ایک ایک بوند کو ترس جاتے ہیں اگر اللہ کی بے زبان
مخلوق(جانور) زمین پر نہ ہوں تو ان پر کبھی بارش نہ برسے اور جو قوم اللہ تعالیٰ اور
اس کے رسول سے کیا ہوا عہد توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر باہر سے دشمن مسلط کر دیتا
ہے جو ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہوتا ہے سب چھین لیتا ہے اور جس قوم کے حکمران اللہ
تعالیٰ کی کتاب اور نبیe کے
فرامین کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو انہیں آپس میں لڑوادیتا ہے۔‘‘
موجودہ دورکو اس حدیث کی نظر سے دیکھا جائے تو عقلمندوں کو بہت
کچھ سمجھ آجائے گا ۔ گناہوں کی نحوست بہت ہی زیادہ اور انجام بہت ہی خطرناک ہے۔ گناہ
، گناہ ہوتا ہے اگرچہ چھوٹاہی کیوں نہ ہو کیونکہ حدیث میں آتا ہے:
[ایاکم ومُحَقَّراتَ
الذنوب، فانھن یجتمعن علی الرجل حتی یُھْلِکْنَہُ] (مسند احمد: ۳۸۱۸، قال الالبانی:
حسن، صحیح الجامع الصغیر: ۲۶۸۷]
’’گناہوں کو حقیر
مت سمجھو کیونکہ یہ حقیر اور چھوٹے گناہ جمع ہو کر اپنے کرنے والے کو تباہی کے دہانے
پر پہنچا دیتے ہیں۔‘‘
پھر آپe نے
مثال بیان فرمائی کہ جیسے کوئی قافلہ کسی چٹیل میدان میں ٹھہر جائے پھر سب لوگ پھیل
جائیں اور ایک ایک لکڑی لے کر آئیں تو وہاں لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے گا پھر وہ انہیں
جلا کر کھانا بنائیں اور کھا لیں۔ تو بعض اوقات انسان گناہ کو چھوٹا سمجھ کر کرتا چلا
جاتا ہے اور بھلا تا چلا جاتا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ ریت کا ایک ایک ذرہ ایک جگہ
گر کر پہاڑنما ٹیلا بنادیتا ہے تو یہ گناہ بھی جمع ہو کر کرنے والے کو تباہ کردیتے
ہیں۔
آج معاشرہ میں بعض گناہ لوگ سر عام کر رہے ہوتے ہیں اور وہ
انہیں کچھ سمجھتے ہی نہیں‘ حالانکہ انس t فرماتے ہیں کہ
[اِنَّکُمْ لَتَعْمَلُونَ
اَعْمَالاً، ھِیَ اَدَقُ فِی اَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعَرِ، اِنْ کُنَّا لَنَعُدُّھَا
عَلَی عَھْدِ النَّبِیِّﷺ مِنَ المُوبِقَاتِ] (البخاری: ۶۴۹۲)
’’تم لوگ کچھ ایسے
کام کرتے ہو جن کی وقعت تمہاری نظر میں بال سے بھی کم ہے مگر نبیe کے
دور میں انہیں ہلاک کردینے والے اعمال میں شمار کیا کرتے تھے۔ ‘‘
آج کچھ ایسی ہی حالت ہماری بنی ہوئی ہے غیبت، چغلی، بدکلامی،
بد زبانی، آنکھوں کا غلط استعمال، چوری، سود، رشوت، ماپ تول میں کمی میوزک سے دل بہلانا،
کسی کو ناحق تکلیف پہنچانا، جس مال پر میرا حق نہیں ہڑپ کر جانا‘ عورت کا نمود و نمائش
کا سامان بن کر بے پردہ پھرنا، تنگ وچست اور باریک لباس پہن کر بدکاری کی کھلی دعوت
دینا، مردو خواتین کا نمازوں کو ضائع کرنا، دھوکہ بازی کا بازار گرم کرنا، نوجوانوں
کو اپنی جوانی کے قیمتی اوقات کو فضولیات میں ضائع کرنا، والدین کی نیکی کی باتوں میںنافرمانی
اور اس جیسے بے شمار گناہ ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آتے ہیں مگر ہم انہیں کوئی
اہمیت نہیں دیتے اور کرتے چلے جاتے ہیں۔ بلال بن سعدh نے فرمایا :
[لا تنظر الی صغر
الخطیئۃ، ولکن انظر من عصیت] (العلل المتناہیۃ)
’’کہ تم یہ نہ دیکھوکہ
گناہ چھوٹا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کتنے بڑے رب کی نافرمانی کا ارتکاب کر رہے ہو۔‘‘
اس وقت امت مسلمہ کا اجتماعی طور پر رحمت الٰہی سے محروم ہونا
اس امت کے افراد کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ غیرت مند ہے اور اس کی
غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ انسان گناہ کرے۔ اس لیے تو آپe نے
فرمایا:
[لاَ اَحَدَ اَغْیَرُ
مِنَ اللَّہِ، وَلِذٰلِکَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ]
(بخاری: ۴۶۳۴)
’’اللہ تعالیٰ سے
بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں، اس لیے تو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی بے حیائی کو حرام کردیا
ہے چاہے وہ ظاہرہو یا چھپی ہو۔ ‘‘
اس لیے ہر قسم کے گناہوں سے اجتناب ضروری ہے ۔ جب انسان ایک
گناہ کرتا ہے تو وہ اسے دوسرے گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور جب کوئی چھوٹا گناہ مسلسل
کرتا رہتا ہے تو وہ اسے بڑے گناہ کی طرف لے جاتا ہے یوں انسان گناہوں کی دلدل میں اترتا
چلا جاتا ہے اور اپنے رحیم رب کی مہربانیوں سے کوسوں دور چلاجاتا ہے ۔ پھر اس کی کیفیت
یہ ہو جاتی ہے کہ گناہ کرنا اس کی مجبوری بن جاتی ہے کیونکہ جب تک وہ گناہ نہ کرے اس
کا نفس امارہ اسے چین سے جینے نہیں دیتا ۔ یوں اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ غافلوں
میں سے ہوجاتا ہے ۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں گناہ بہت ہی جدید شکلوں میں رائج ہوچکے
ہیں اور یہ گناہوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر سو بد امنی کا عالم ہے، ہر بندہ ہی پریشان
ہے، امن کی جگہ خوف نے لے لی، راحت کی جگہ بے چینی نے لے لی، سکون کی جگہ بے اطمینانی
نے لے لی، غرض جدھر نظر اٹھتی ہے تباہی ہی تباہی ہے۔ اس لیے اے امت مسلمہ کے باسیو!
پلٹ آؤ اور اپنے کریم رب کو منا لو، گڑ گڑا کر رورو کر آنسو بہا کر اپنے رب سے توبہ
کر لو، وہ نہ صرف سچی توبہ کے نتیجے میں گناہوں کو معاف کرے گا بلکہ انہیں نیکیوں میں
بدل دے گا، اس لیے مایوس نہ ہونا اور جلدی کرو اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ
ہمیں گناہوں سے بچائے اور اپنا فرمانبردار بنائے اور اسی حال میں موت آجائے۔ (آمین)
No comments:
Post a Comment