ہستی باری تعالیٰ کے وجود کے دلائل
تحریر: جناب مولانا عبیداللہ لطیف
محترم قارئین!اللہ
تعالی کے وجود کے بارے میں آج میں آپ کے سامنے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں‘
ہر ایک کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہے لیکن دلائل کے ساتھ نہ کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی
بنا پر۔
محترم قارئین! میری تحقیقات کے مطابق ہر انسان خواہ مسلمان ہو
یا غیر مسلم ٗ مذہب کا پیروکار ہو یا ملحد ایمان بالغیب کا لازمی طور پر قائل ہوتا
ہے۔ مسلمان کے لیے تو ایمان بالغیب ویسے ہی بنیادی شرط ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی
نے ایمان والوں کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ
{الَّذِینَ یُومِنُونَ
بِالغَیبِ}
یعنی ’’جو لوگ غیب کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔‘‘
مسلمانوں نے اللہ تعالی کی ذات کو دیکھا نہیں لیکن اس کے باوجود
ہستی باری تعالی پر ایمان لاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہی ہے جو اولاد دینے
والا ہے‘ وہی ہے جو رزق عطا کرنے والا ہے‘ وہی ہے جو مشکلات حل کرنے والا ہے‘ اس پروردگار
عالم کے علاوہ نہ تو کسی کی عبادت کی جا سکتی اور نہ ہی کوئی اس کا شریک ہے‘ فقط وہ
یکتا و اکیلا ہے جس نے یہ زمین و آسمان‘ چاند سورج ستارے الغرض ساری کائنات کو پیدا
فرمایا ہے۔
محترم قارئین! یہ تو ہو گیا مسلمانوں کا عقیدہ ایمان بالغیب‘
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ نہ صرف مذہب سے بے زار ہیں بلکہ اللہ تعالی کے وجود
کے سرے سے ہی منکر ہیں تو وہ ایمان بالغیب کے کیسے قائل ہیں تو قارئین! سوچیے ذرا وہ
لوگ کسی نہ کسی کو تو اپنا باپ تسلیم کرتے ہی ہیں تو کیا انہوں نے اپنے ماں باپ کو
اس وقت حقوق زوجیت ادا کرتے ہوئے دیکھا کہ جس وقت ان کے والد کا نطفہ کہ جس سے وہ معرض
وجود میں آئے تھے ان کی والدہ کے رحم میں گرایا جا رہا تھا‘ اگر نہیں دیکھا اور یقینًا
کسی بھی انسان نے نہیں دیکھا تو اس کے باوجود کسی ایک شخص کو اپنا باپ قرار دے رہے
ہوتے ہیں تو جناب عالی یہی ان کا ایمان بالغیب ہے۔ اور جو لوگ ڈارون کے نظریے کے قائل
ہیں کیا ان میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے بندر سے انسان بنتے
ہوئے دیکھا ہے۔ اگر وہ بغیر دیکھے محض کسی کے بتانے کی وجہ سے اس بات پر یقین رکھتے
ہیں کہ انسان پہلے بندر تھا اور تغیرات زمانہ کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ بندر انسان
بنتے گئے۔ بغیر دیکھے محض کسی کے بتانے پر یقین کر سکتے ہیں کہ ان کا باپ کون ہے تو
پھر اس بات پر یقین کرنا کیسے مشکل ہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جس نے اس ساری کائنات کو
نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ کائنات میں موجود ساری مخلوقات کے لیے رزق کا بھی انتظام و
انصرام فرمایا ہے اور وہ ہستی کوئی اور نہیں صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔
محترم قارئین! یہ تو
واضح ہو گیا کہ دنیا میں ہر شخص ایمان بالغیب کا قائل ہے اور اللہ تعالی کے وجود پر
ایمان لانا بھی ایمان بالغیب میں شامل ہے۔ اس کے بعد سمجھنے کا دوسرا نقطہ یہ ہے کہ
دنیا کی کوئی بھی چیز خودکار نظام کے تحت نہیں چلتی۔ آج کے دور میں اگر کوئی کہے کہ
فلاں مشینری خودکار سسٹم کے تحت چلتی ہے تو تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ اس مشینری اور
اس کے خودکار سسٹم کو تخلیق کرنے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی
کہ اس نظام کائنات اور اس ساری کائنات کا کوئی نہ کوئی تخلیق کار ضرور ہے تو سوال پیدا
ہوتا ہے کہ وہ کون ہے؟ امت مسلمہ کے نزدیک اللہ تعالی، ہندوئوں کے نزدیک رام وغیرہ
ہیں۔ میں بحیثیت مسلم طالب علم اللہ تعالی کے وجود کے دلائل پیش کرتا ہوں‘ وہی دلائل قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے اور اسلام کی صداقت
کے دلائل بھی ثابت ہوں گے۔ ان شاء اللہ ۔
محترم قارئین! ہم آج
سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں نئے نئے انکشافات سے روشناس ہو رہے ہیں
یہی انکشافات آج سے چودہ سو برس قبل جب اس ٹیکنالوجی کا وجود بھی نہیں تھا ایک اُمّی
(ان پڑھ) شخص نے کیے‘ میری مراد جناب محمدرسول اللہe جنہوں نے فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیات مجھ پر اللہ
تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے وجود پر دلیل ٹھہرائے
تو اس بات کی صداقت پر ایمان لائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ اب میں اس ضمن میں صرف
چار مثالیں پیش کرنا چاہوں گا اور اللہ تعالی سے دعاگو بھی ہوں گا کہ وہ سب کو حق بات
کو سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
1 سائنس کہتی
ہے کہ یہ چاند سورج اور دیگر سیارے اپنے اپنے مداروں میں گردش کر رہے ہیں اور ان کی
یہ گردش ایسے ہے جیسے کوئی چیز تیر رہی ہو۔ اسی ضمن میں اللہ تعالی قرآن کریم میں
فرماتا ہے کہ
{وَ ہُوَ الَّذِی
خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ}
(الأنبیاء: ۳۳)
’’وہی اللہ ہے جس
نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار
میں تیرتے پھرتے ہیں۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں چاند اور سورج کی گردش کے لیے اللہ تعالی
نے لفظ سبح استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں تیرنا‘ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج سے
چودہ سو برس پہلے ایک ان پڑھ شخص کو کس نے مکمل طور پر درست بات بتائی حتی کہ گردش
کے لیے وہ لفظ بیان کیا جو اس کی اصل کیفیت سے آگاہ کرتا ہے جبکہ سائنس موجودہ دور
میں چاند اور سورج کی گردش کی کیفیت بیان کر رہی ہے
2 زمین کی ماہیت
و شکل کے بارے میں بھی سائنس دانوں کی طرف سے مختلف نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں کبھی
کہا جاتا رہا کہ زمین چپٹی ہے تو کبھی زمین کو گول قرار دیا جاتا رہا‘ اب جا کر اصل
حقیقت واضح ہوئی کہ زمین بیضوی شکل کی ہے۔ اب ہم قرآن کریم سے بھی اس بات کا جائزہ
لیتے ہیں کہ قرآن کریم زمین کی شکل کے بارے میں کیا رہنمائی کرتا ہے‘ چنانچہ قرآن
کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ
{ئَ اَنتُم اَشَدُّ
خَلقًا اَمِ السَّمَآئُ بَنٰہَا}
’’کیا تمہارا پیدا
کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟ اللہ تعالیٰ نے اسے بنایا۔ ‘‘
{رَفَعَ سَمکَہَا
فَسَوّٰہَا}
’’اس کی بلندی اونچی
کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر دیا۔‘‘
{وَ اَغطَشَ لَیلَہَا
وَ اَخرَجَ ضُحٰہَا}
’’اس کی رات کو تاریک
بنایا اور اسکے دن کو نکالا۔‘‘
{وَالاَرضَ بَعدَ
ذٰلِکَ دَحٰہَا}(النّٰزعٰت: ۲۷-۳۰)
’’اوراس کے بعد زمین
کو (ہموار) بچھا دیا۔‘‘
ان آیات کریمہ میں زمین کو ہموار کرنے کے لیے لفظ دَحٰہَا آیا
ہے۔ دَحٰہَا کا مادہ دحوہ ہے جس کے معنی ہیں شتر مرغ کا انڈہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ
زمین کو اللہ رب العزت نے شتر مرغ کے انڈے کی شکل پر ہموار کیا ہے اور عام انڈے کو
عربی میں بیضہ بھی کہتے ہیں لہذا ثابت ہوا کہ زمین کے ہموار کرنے کی اصل ماہیت و شکل
بیضوی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک اُمِّی
(ان پڑھ) شخص کوزمین کی اصل شکل کے بارے میں کس نے بتایا جس کے بارے میں آج آ کر
سائنس انکشاف کر رہی ہے۔
3 پہلے یہ کہا
جاتا تھا کہ ایٹم یعنی ذرہ ناقابل تقسیم ہے لیکن بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم
قابل تقسیم ہے اور ایٹم کے اجزا نیوٹران، پروٹران اور الیکٹران ہیں جبکہ اللہ تعالی
نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی قرآن کریم میں یہ اشارہ د ے دیا تھا کہ ذرہ قابل تقسیم
ہے۔ آئیے آپ کو بتاتا چلوں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کس مقام پر ایٹم یعنی
ذرے کے قابل تقسیم ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں سورۃیونس میں فرماتا
ہے کہ
{وَ مَا تَکُونُ
فِی شَانٍ وَّ مَا تَتلُوا مِنہُ مِن قُراٰنٍ وَّ لَا تَعمَلُونَ مِن عَمَلٍ اِلَّا
کُنَّا عَلَیکُم شُہُودًا اِذ تُفِیضُونَ فِیہِ
وَ مَا یَعزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثقَالِ
ذَرَّۃٍ فِی الاَرضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَ لَااَصغَرَ مِن ذٰلِکَ وَ لَااَکبَرَ اِلَّا
فِی کِتٰبٍ مُّبِین} (یونس: ۶۱)
’’اور آپ کسی حال
میں ہوں اور منجملہ ان احوال کے آپ کہیں سے قرآن پڑھتے ہوں اور جو کام بھی کرتے ہوں
ہم کو سب کی خبر رہتی ہے۔ جب تم اس کام میں مشغول ہوتے ہو اور آپ کے رب سے کوئی چیز
ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی
اور نہ کوئی چیز بڑی مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے۔‘‘
محترم قارئین! اس آیت میں ذرے سے چھوٹی چیز کا بھی ذکر ہے‘
اگر ذرہ قابل تقسیم نہ ہوتا تو ذرے سے چھوٹی چیز کا کبھی ذکر نہ ہوتا۔
4 انسان تخلیق
کے کن کن مراحل سے گزرتا ہے اس کے بارے میں آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے
جو معلومات حاصل کی جا رہی ہیں اللہ رب العزت نے اپنا وجود منوانے کے لیے ان کا تفصیلی
تذکرہ آج سے چودہ سو سال قبل قرآن کریم میں کر دیا اور اس کی تائید موجودہ دور کے
سائنس دان بھی کرنے پر مجبور ہیں۔ اللہ تعالی انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل بیان کرتے
ہوئے فرماتا ہے کہ
{وَ لَقَد خَلَقنَا
الاِنسَانَ مِن سُلٰلَۃٍ مِّن طِینٍ}
’’یقینا ہم نے انسان
کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔‘‘
{ثُمَّ جَعَلنٰہُ
نُطفَۃً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ}
’’پھر اسے نطفہ بنا
کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا۔‘‘
{ثُمَّ خَلَقنَا
النُّطفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقنَا العَلَقَۃَ
مُضغَۃً فَخَلَقنَا المُضغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَونَا العِظٰمَ لَحمًا٭ ثُمَّ اَنشَانٰہُ
خَلقًا اٰخَرَ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحسَنُ
الخٰلِقِینَ} (المؤمنون: ۱۲ تا ۱۴)
’’پھر نطفہ کو ہم
نے جما ہوا خون بنا دیا پھراس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا پھر گوشت کے ٹکڑے
کو ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا
کر دیا۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔‘‘
محترم قارئین! یہ بات قابل غور ہے کہ ایک اُمِّی (ان پڑھ) شخص
کو شکم مادر میں انسان کی تخلیق کے ان مراحل کے جنہیں آج صرف جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے
جانا جا رہا ہے کا علم آج سے چودہ سو برس پہلے کیسے ہوا جیسا کہ محمد رسول اللہ e کا
دعوی ہے کہ ان پر وحی نازل ہوئی اور اللہ تعالی نے ان کے بارے میں آگاہ کیا اور ساتھ
ہی اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں ہی آپ سب کا خالق ہوں تو اس ذات باری تعالی کے وجود
کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اللہ تعالی کی ذات کے منکر اپنی تخلیق پر ہی غور
کر لیتے تو اللہ تعالی کی ذات کا کبھی انکار نہ کرتے۔ اسی تخلیق کے بارے میں اللہ تعالی
ایک اور مقام پر فرماتا ہے کہ
{خَلَقَکُم مِّن
نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنہَا زَوجَہَا وَ اَنزَلَ لَکُم مِّنَ
الاَنعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزوَاجٍ یَخلُقُکُم
فِی بُطُونِ اُمَّہٰتِکُم خَلقًا مِّن
بَعدِ خَلقٍ فِی ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ذٰلِکُمُ
اللّٰہُ رَبُّکُم لَہُ المُلکُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاَنّٰی تُصرَفُونَ}(الزمر: ۶)
’’اس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے پھر اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور تمہارے لئے
چوپایوں میں سے (آٹھ نر و مادہ) اتارے وہ
تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک بناوٹ کے بعد دوسری بناوٹ پر بناتا ہے تین تین
اندھیروں میں، یہی اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے اس کے لئے بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کہاں بہک رہے
ہو۔‘‘
محترم قارئین! جن تین اندھیروں میں انسان کی بناوٹ کا مندرجہ
بالا آیت میں ذکر کیا جا رہا ہے انہی کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر کیتھ مور (Keith L.
Moore) کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں تاریکی کے جن تین پردوں کا تذکرہ
کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
\ شکم مادر کی
اگلی دیوار
\ رحمِ مادر کی
دیوار
\ غلافِ جنین
اور اس کے گرد لپٹی ہوئی جھلی (amnio-chorionic
membrane)
محترم قارئین! پروفیسر مارشل جانسن (Marshal
Johnson) جو کہ امریکہ کے سرکردہ سائنس دانوں میں سے ایک ہیں اور اناٹومی
ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اور تھا مس جیفر سن یونیورسٹی فایلاڈلفیا امریکہ کے ڈینیل انسٹی
ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے علم الجنین (embroyology) سے متعلق قرآنی
آیات پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ ابتداء میں انہوں نے کہا کہ جنین کے مراحل سے
تعلق رکھنے والی قرآنی آیات محض اتفاق نہیں ہو سکتیں۔ ممکن ہے کہ محمد e کے
پاس کوئی طاقت ورخوردبین ہو۔یہ یاد دلانے پرکہ قرآن چودہ سو سال پہلے نازل ہوا اور
خوردبینیں پیغمبر محمد e کے
زمانے سے کئی صدیاں بعد ایجاد کی گئیں۔پروفیسر جانسن ہنسے اور یہ تسلیم کیا کہ ایجاد
ہونے والی اولین خوردبین بھی دس گنا سے زیادہ بڑی شبیہ (image) دکھانے کے قابل
نہیں تھی اور اسکی مدد سے واضح (خردبینی) منظر بھی دیکھا نہیں جاسکتا تھا۔ بعدازاں
انہوں نے کہا: سردست مجھے اس تصوّر میں کوئی تنازعہ دکھائی نہیں دیتا کہ جب محمد e نے
قرآن پاک کی آیات پڑھیں تو اُس وقت یقینا کوئی آسمانی (الہامی) قوت بھی ساتھ میں
کارفرما تھی۔
ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جنینی نشوونما کے مراحل کی وہ
درجہ بندی جو آج ساری دنیا میں رائج ہے آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں‘ کیونکہ
اس میں ہر مرحلے کو ایک عدد (نمبر) کے ذریعے شناخت کیا جاتاہے۔ مثلاً مرحلہ نمبر1، مرحلہ نمبر 2 وغیرہ۔
دوسری جانب قرآن پاک نے جنینی مراحل کی جو تقسیم بیان فرمائی ہیں، اسکی بنیاد جداگانہ
اور آسانی سے شناخت کے قابل حالتوں یاساختوں پر ہے۔ یہی وہ مراحل ہیں جن سے کوئی جنین
مرحلہ وار انداز میں گزرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حالتیں (ساختیں) بھی سائنسی توضیحات
(وضاحتیں) فراہم کرتی ہیں۔جو نہایت عمدہ اور قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اہمیت
بھی رکھتی ہیں۔
محترم قارئین! بندہ نا چیز نے بفضلہ تعالی اللہ تعالی کے وجود
اور دین اسلام کی حقانیت کے دلائل مختصرًا پیش کر دیے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں حق بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!
No comments:
Post a Comment