یادِ رفتگان ... حکیم محمد ابراہیم طارق رحمہ اللہ
تحریر: جناب مولانا فاروق الرحمن
یزدانی
غالباً ۱۹۸۳ء میں
جمعے کے دن میں اور میرا کزن فاروق آباد سے گاؤں جانے کے لیے بس پر سوار ہوئے تو گاڑی
کی فرنٹ سیٹ پر ایک بہت ہی باوقار اور پُر رعب شخصیت کو تشریف فرما پایا۔ سرخ و سپید
رنگ ‘ خوبصورت گول چہرہ‘ سیاہ گھنی داڑھی‘ موٹی موٹی آنکھوں پہ رنگدار چشمہ لگائے اور
سر پر قراقلی ٹوپی سجائے‘ صاف ستھرا لباس خوشبو سے معطر‘ بس یوں سمجھیں کہ جو دیکھے
وہ دیکھتا ہی رہ جائے۔ میں نے اپنے کزن سے پوچھا کہ یہ کون ’’صاحب‘‘ ہیں تو اس نے بتایا
کہ یہ اہل حدیث عالم دین علامہ حکیم محمد ابراہیم طارق ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو
’’مولانا حبیب الرحمن یزدانی‘ (a) لگ رہے ہیں‘ مجھے
ان کا اہل حدیث ہونا سن کر خوشی ہوئی۔ چنانچہ میں اپنی نشست سے اٹھ کر ان کے پاس گیا‘
ادب سے سلام عرض کیا اور مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ یہ میری آپ سے پہلی ملاقات
تھی۔ میرے استفسار پر فرمانے لگے کہ میں منڈی واربرٹن جمعہ پڑھانے کے لیے جا رہا ہوں۔
اس کے بعد کئی مرتبہ آپ سے ملاقات بھی ہوئی اور زیارت کا شرف
بھی حاصل رہا لیکن آپ سے تعلق ۱۹۸۸ء کے بعد قائم ہوا کہ جب آپ ہمارے گاؤں جید چک نمبر
۱۶ تحصیل صفدر آباد ضلع شیخوپورہ میں سالانہ کانفرنس کے موقعہ پر تشریف لایا کرتے تھے
بلکہ وہ کانفرنس آپ کی ہی نگرانی میں منعقد ہوا کرتی تھی۔ پھر جب ۱۹۹۵ء میں حضرت مولانا
حکیم محمد حنیف امرتسریa فوت
ہوئے تو اس کے بعد کانفرنس کی صدارت کی ذمہ داری بھی آپ ہی نبھا یا کرتے تھے۔ آپ کانفرنس
کے انتظامات کے حوالے سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔
پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا آپ سے تعلقات گہرے ہوتے چلے گئے حتیٰ
کہ ۲۸ اگست ۱۹۹۷ء جمعرات کا دن آ گیا۔ منڈی فاروق آباد میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ضلع
شیخوپورہ کے انتخابی اجلاس میں تحصیل صفدر آباد کے لیے حضرت علامہ حکیم محمد ابراہیم
طارقa کو
بلا مقابلہ امیر منتخب کر لیا جاتا ہے اور راقم السطور کو بغیر انتخاب کے ان کے ساتھ
بطور ناظم نامزد کر دیا گیا۔ اس کے بعد ۲۰۰۲ء تک پانچ سال حضرت علامہa کے
ساتھ تبلیغی و تنظیمی کام کرنے کا موقعہ ملا‘ آپ سے تعلقات میں ایک نیا موڑ آ گیا اور
آپ کی شخصیت کو جاننے کا موقع ملا جس میں آپ کی شخصیت کے کئی ایک پہلو نمایاں ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ مسلکی تڑپ رکھنے والے پُرخلوص عالم دین تھے۔
مسلک کی ترویج و اشاعت کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے۔
علاقہ بھر میں تیس کے قریب یا اس سے زیادہ ایسی مساجد ہیں جن
کا سنگ بنیاد حضرت علامہ ابراہیم طارقa نے
اپنے ہاتھ سے رکھا‘ بعض میں کئی کئی سال تک بلا معاوضہ خطبہ جمعہ دیکر انہیں آباد کیا۔
اس ساری جدوجہد میں آپ کی اہلیہ محترمہ کا بہت بڑا تعاون‘ کردار اور حصہ ہے۔ جو نہایت
ہی صالحہ اور باہمت خاتون تھیں۔ وہ برصغیر کے مشہور علمی ودینی خانوادے ’’ویرووالوی
خاندان‘‘ کے ایک دبنگ عالم دین حضرت مولانا حکیم محمد ابراہیم حافظ آبادیa کی
صاحبزادی اور خطیب اسلام حضرت مولانا حکیم قاری محمد اسماعیل اسد حافظ آبادی کی ہمشیرہ
محترمہ تھیں۔
۱۹۹۸ء میں حضرت علامہ صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا جس کے نتیجے میں آپ کا
بائی پاس ہوا‘ جب آپ صحت یاب ہوئے تو آپ کی اہلیہ محترمہ نے آپ سے کہا کہ آپ گھر کے
تمام معاملات کی فکر چھوڑ دیں حتیٰ کہ مالی معاملات تک میں اپنے ذمہ لیتی ہوں‘ آپ صرف
اور صرف دین کی تبلیغ کیا کریں کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ سے آپ کی زندگی دین اسلام
کی خدمت کے لیے ہی مانگی ہے۔ آپ اپنے آپ کو اسلام کی خدمت میں وقف کر دیں حتیٰ کہ جب
آپ کسی پروگرام میں تشریف لے جاتے تو آپ کی اہلیہ بھی آپ کے ساتھ جاتیں تاکہ آپ کی
خوراک اور دوائی کی نگرانی کریں اور اس میں کسی قسم کی بے احتیاطی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ
اب دونوں میاں بیوی کو جنۃ الفردوس میں جمع فرما دے کہ انہوں نے ایک مثالی محبت والی
زندگی گذاری اور اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد تو علامہ صاحب نے بھرپور تبلیغی زندگی
گذاری۔
۱۹۹۷ء سے ۲۰۰۲ء تک پانچ سال کا عرصہ علامہ صاحب کی امارت میں جو میرا
ان کے ساتھ گزرا ہے وہ ایک سنہری اور یادگار دور تھا کہ علامہ صاحب کا بائی پاس ہوا
تھا میں تدریسی مصروفیات کی وجہ سے ہمہ وقت تحصیل میں میسر نہیں تھا لیکن اس کے باوجود
تنظیمی و تبلیغی جو کام بھی ہوا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسے انجام دیا۔ ہم مطمئن ہیں
کہ تحصیل صفدر آباد میں سفری سہولتیں نہ ہونے کے باوجود ہفتہ وار اور ماہانہ تبلیغی
پروگرام ہوتے۔ جبکہ رمضان المبارک میں تقریبا ایک سو کے لگ بھگ دروس وغیرہ کا اہتمام
ہوتا رہا۔
آپ کی امارت میں اس پانچ سالہ دور کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی
کہ اس میں احتساب کا نظام قائم تھا کہ پروگرام ماہانہ ہوتے یا رمضان المبارک کے ۔ترتیب
کے ساتھ ایک ایک پروگرام کی باقاعدہ رپورٹ لی جاتی مقررین سے بھی اور انتظامیہ سے بھی۔
آج ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ہمیں پروٹوکول ملے ‘ ہمارا نام ہو
اور اچھے الفاظ میں ہمارا تذکرہ ہو اور بحیثیت امیر یا ناظم میرا تعارف ہو لیکن کچھ
کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی قربانی دیتے ہیں کتنے ہی امیر یا ناظم ایسے ہیں جو
دوستوں کے سامنے یہ شکوہ کرتے ہیں کہ کام نہیں ہو رہا۔ بھئی! امیر آپ ہیں‘ ناظم آپ
ہیں‘ کام کس نے کرنا ہے۔
علامہ صاحبa نے
باوجود بیماری اور پیرانہ سالی کے جدوجہد کی ایک مثال قائم کی حتیٰ کہ زندگی کے آخری
دس سال میں ان کا دل صرف پچیس فیصد کام کرتا تھا جبکہ ڈاکٹر حضرات انہیں بیڈ ریسٹ کا
پابند کرتے تھے لیکن وہ فرماتے تھے کہ میری زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف ہے‘ اگر اسی
راستے میں موت آ جائے تو سعادت ہے۔
آپ زندگی کے آخری چند سال لاہور میں رہائش پذیر ہو گئے لیکن
ہر جمعہ کو منڈی صفدر آباد تشریف لاتے‘ جمعہ پڑھاتے اور اتوار کی شام تک وہاں ہی ٹھہرتے‘
علاقے بھر میں احباب جماعت کی خوشی‘ غمی میں شرکت کرتے‘ تبلیغی پروگرام نمٹاتے اور
اس کے لیے کسی قسم کے موسم یا حالات کی پروا نہ کرتے۔
علامہ حکیم محمد ابراہیم طارقa کی مسلک اہل حدیث کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ سیاسی
و سماجی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے اور آپ کا حلقہ احباب بھی۔ یہ مختصر مضمون
تمام تفصیلات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
سوانحی خاکہ
بات کو سمیٹنے سے پہلے مناسب ہے کہ آپ کا سوانحی خاکہ پیش کر
دیا جائے۔ آپ ۲۱ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم
حکیم محمد حنیف امرتسریa کی
نگرانی میں مرکزی جامع مسجد اہل حدیث میں حاصل کی اور مقامی سکول میں مڈل اور میٹرک
کا امتحان دیا۔ میٹرک کے امتحان کے بعد آپ ۱۰ مئی ۱۹۶۷ کو مدرسہ دارالقرآن و الحدیث
فیصل آباد میں داخل ہوئے اور ۱۹۷۰ء تک وہاں تعلیم حاصل کی‘ اسی دوران پرائیویٹ طور
پر ایف اے کا امتحان دیا۔ پھر آپ جامعہ سلفیہ تشریف لے آئے اورباقی تعلیم مکمل کی۔
اس دوران آپ نے بی۔ اے اور فاضل عربی کے امتحان دیے اور کامیاب ہوئے۔ آپ نے صحیح بخاری
شریف دو دفعہ سبقا پڑھی‘ پہلی دفعہ ۱۹۷۲ء میں حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالویa سے
اور اگلے سال ۱۹۷۳ء میں حضرت حافظ محمد محدث گوندلویa سے بخاری پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔
تعلیمی مراحل سے فراغت کے بعد آپ خطیب اہل حدیث حافظ عبدالحق
صدیقیa کی
معیت وسرپرستی میں ساہیوال کی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے لگے۔
۲ نومبر ۱۹۷۸ء کو آپ کے والد حاجی محمد حسین کا انتقال ہوا تو آپ پھر
صفدر آباد میں ہی سکونت پذیر ہو گئے۔ والد صاحب کا کپڑے کا کاروبار سنبھالا اور ساتھ
ہی مختلف مقامات پر خطابت کا فریضہ نبھاتے رہے‘ آپ پنجابی کے بہترین خطیب تھے۔ شعر
و شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ تقاریر اور عام گفتگو میں بھی موقعہ کی مناسبت سے اردو‘
پنجابی اشعار کا استعمال کثرت سے کرتے۔ آپ کی تقریر قرآن و حدیث کے دلائل سے مزین ہوتی۔
جب جامع مسجد محمدی اہل حدیث بالمقابل ریلوے اسٹیشن صفدر آباد تعمیر ہوئی تو آپ وہاں
مستقل خطبہ جمعہ دینے لگے۔ پھر ۱۹۹۲ء میں حکیم محمد حنیفa بیمار ہو گئے اور کمزوری بڑھ گئی تو انہوں نے خود ہی
اپنی جگہ مرکزی جامع مسجد اہل حدیث مین بازار صفدر آباد کا منبر و محراب آپ کے حوالے
کر دیا۔ اس وقت سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک اس مسجد کے منبر کو نہ صرف رونق بخشتے
رہے بلکہ حکیم صاحب کی وفات ۵ مئی ۱۹۹۴ء سے ادارہ تبلیغ القرآن و الحدیث اور دیگر تعلیمی
وتدریسی منصوبہ جات کی نگرانی کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے تعلیمی تبلیغی ‘ سیاسی
و سماجی ہر میدان میں حکیم صاحبa کی
نیابت کا حق ادا کر دیا۔
علامہ صاحب کی زندگی کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کی تبلیغی
مساعی سے کئی ایک غیر مسلم خاندان حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو آپ نے ان کو بھیک مانگنے
کے لیے معاشرے میں بے یارومددگار نہیں چھوڑا بلکہ انہیں کوئی نہ کوئی کاروبار شروع
کروایا۔ جس سے وہ باعزت اور آسانی کے ساتھ گزر بسر کر رہے ہیں۔
آپ کو تقریباً پچیس تیس سال سے شوگر کا مرض لاحق تھا پھر
۱۹۹۸ء میں آپ کا بائی پاس ہوا لیکن آپ کی جدوجہد میں کوئی فرق نہ آیا تآنکہ آپ کمزوری
و نقاہت کے باوجود ۲۲ مارچ ۲۰۱۹ء کو لاہور سے صفدر آباد معمول کے مطابق جمعہ پڑھانے
کے لیے تشریف لائے ۔ راقم الحروف سے بعد نماز مغرب ملاقات کا وعدہ تھا میں حسب وعدہ
جب حاضر ہوا تو بائیں پاؤں کی دو انگلیوں میں درد کے متعلق بتایا۔ دوسرے دن طبیعت زیادہ
خراب ہو گئی تو لاہور میوہسپتال داخل کروا دیئے گئے۔ علاج معالجہ ہوتا رہا کبھی بیماری
شدت اختیار کر جاتی اور کبھی افاقہ ہو جاتا۔ آپ روبصحت تھے‘ طبیعت کافی حد تک سنبھل
گئی تھی۔ ۵مئی ۲۰۱۹ء بروز اتوار راقم نے ملاقات کی اور تقریباً تین گھنٹے آپ کے پاس
گذارے‘ آپ کافی حد تک مطمئن تھے۔ لیکن ۸ مئی بروز بدھ بعد نماز مغرب آپ کے چھوٹے بیٹے
سجاد طار ق کا فون آیا کہ علامہ صاحب کی طبیعت اچانک بگڑ گئی ہے‘ آپ دعا فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید تھی مگر وہی ہوتا ہے جو منظور خدا
ہوتا ہے‘ تھوڑی دیر بعد شیخوپورہ سے پروفیسرحافظ ثناء اللہ صاحب نے آپ کی وفات کی اطلاع
دے دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
آپ کی وفات کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
باوجود نماز تراویح کے اوقات کے مختلف مقامات سے احباب اطلاع دینے یا خبر کی تصدیق
کرنے لگے۔ دوسرے دن ۹ مئی بروز جمعرات ۲ بجے دوپہر نماز جنازہ کا وقت مقرر ہوا۔
رمضان المبارک کا مہینہ‘شدت کی گرمی لیکن علماء کرام اور احباب
جماعت کا اتنا بڑا جم غفیر صفدر آباد کی سرزمین پر پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
ملک کے طول و عرض سے لوگ جنازہ میں شریک تھے۔ علماء کرام‘ جماعتی
قائدین‘ علاقے بھر سے بچے بوڑھے جوان تھے کہ
امڈے چلے آئے۔ بعد نماز ظہر مرکزی جامع مسجد اہل حدیث میں کئی ایک جید علماء نے علامہ
مرحوم کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
بعدازاں جنازہ گاہ میں پروفیسر محمد یٰسین ظفر (پرنسپل جامعہ
سلفیہ) اور مرحوم کے چھوٹے بھائی بریگیڈیئرحافظ محمد یوسف نے آپ کی خدمات کا تذکرہ
کیا۔
نماز جنازہ شیخ الحدیث حافظ مسعود عالمd نے
پڑھائی‘ بعد ازاں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں آپ کو قبر کی آغوش میں دے دیا گیا۔
تدفین کے بعد قبر پر پروفیسر حافظ عبدالستار حامدd نے
دعا کروائی‘ یوں منڈی صفدر آباد کی ایک جہد مسلسل کی تاریخ تہہ خاک پنہاں ہو گئی۔
No comments:
Post a Comment