اسلامی معاشرہ کے آداب
تحریر: جناب مولانا حافظ محمد زبیر
اتفاق و اتحاد آپس
میں اخوت و بھائی چارگی، محبت و بیداری‘ احترام و اعتماد کے جذبے سے پیدا ہو گی۔ عقیدہ
و ایمان کی بنیاد پر مومن ایک دوسرے سے جڑ جاتا ہے۔
مومن مثبت پہلو اختیار کرتا ہے جیسے ایثار و تعاون، رحم وکرم،
عفو و درگزر اور منفی پہلو سے گریز کرتا ہے جیسے غصہ و نفرت، انتقام و حسد۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ
اِخْوَۃٌ} (حجرات:۱۰)
’’مومن آپس میں
بھائی ہیں۔‘‘
اگر اخوت نکل جائے تو ذاتی مفاد غالب ہو گا، دشمنی و عداوت جنم
لے گی۔
[لا یومن احدکم حتی
یحب لاخیہ مایحب لنفسہ]
’’تم میں سے کوئی
شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو
وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
{وَتَعَاوَنُوْا
عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ}
(مائدۃ:۲)
’’بھلائی اور تقویٰ
پر تعاون کرو، برائی و عداوت پر تعاون نہ کرو۔‘‘
ایک مومن دوسرے مومن سے محبت کرتا ہے اور اس سے ہمدردی رکھتا
ہے۔
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ}
(فتح:۲۹)
’’محمد رسول اللہe اور
جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔‘‘
اخوت کے اثرات سماجی روابط قائم کرنے میں ایک اہم کردار ادا
کرتے ہیں۔
رسول اللہe نے
فرمایا: کہ اللہ کے بندوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہداء لیکن قیامت
کے دن انبیاء اور شہداء بھی ان پر رشک کریں گے اور ان کے اس مرتبہ کی وجہ سے جو اللہ
کے نزدیک انہیں حاصل ہوگا۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپe نے
فرمایا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں بغیر کسی قرابت داری اور لین دین کے اللہ کی
خاطر آپس میں محبت کرتے تھے۔ خدا کی قسم! ان کا چہرہ پرنور ہو گا اور وہ نور پر ہوں
گے‘ جب لوگ ڈریں گے تو وہ نہیں ڈریں گے اور جب لوگ غمگین ہوں گے تو وہ غمگین نہیں ہوں
گے۔ (ابودائود)
رسول اللہe نے
فرمایا: ’’مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے ملتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑتا ہے تو ان دونوں
کے گناہ ایسے ہی جھڑ جاتے ہیں جیسے تیز ہوا کے دن سوکھے درخت سے پتے جھڑتے ہیں اور
ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ (طبرانی)
رسول اللہe نے
فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: میری خاطر آپس میں محبت کرنے والے کہاں
ہیں؟ آج میں ان کو اپنا سایہ دوں گا جب کہ میرے سایہ کے علاوہ آج کوئی دوسرا سایہ
نہیں ہے۔ (مسلم)
جس روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سات آدمیوں کو
اپنے عرش کا سایہ دے گا جس دن کہ کوئی سایہ نہ ہو گا ان میں ایسے دو آدمی بھی ہیں
جنہوں نے اللہ کی خاطر آپس میں محبت کی اور پھر اس محبت پر اکٹھے ہوئے اور اسی محبت
پر جدا ہوئے۔ (بخاری و مسلم)
رسول اللہe نے
فرمایا: ’’میری محبت واجب ہو جاتی ہے ایسے دو شخصوں پر جو میری خاطر آپس میں محبت
کرتے ہیں اور میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میری خاطر ایک دوسرے کو عطا
کرتے ہیں۔‘‘ (موطا امام مالک)
رسول اللہe نے
فرمایا: ’’ایک شخص دوسرے گائوں میں اپنے بھائی کی زیارت کے لئے گیا، اللہ تعالیٰ نے
اس کے راستے میں ایک فرشتہ بٹھا دیا‘ جب وہ شخص اس فرشتہ کے پاس پہنچا تو اس نے پوچھا
کہ تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ میں اس گائوں میں اپنے ایک بھائی سے ملنے کے لئے
جا رہا ہوں، فرشتے نے کہا کہ کیا تم اس سے کوئی نعمت حاصل کرنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا
کہ نہیں بلکہ میں تو اس سے صرف اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں، فرشتے نے کہا کہ مجھے اللہ
نے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں تم کو بتائوں کہ اللہ بھی تم سے محبت کرتا ہے جیسے کہ
تم نے اللہ کی خاطر اپنے بھائی سے محبت کی ہے۔ (مسلم)
رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جو شخص کسی مریض کی عیادت کے لئے گیا یا پھر اللہ کی خاطر کسی بھائی کی زیارت
کی تو ایک پکارنے والا (فرشتہ) پکارتا ہے کہ تم بہتر رہے اور تمہارا چلنا بہتر رہا
اور تم نے جنت میں اپنا گھر بنا لیا۔‘‘ (ترمذی)
رسول اللہe نے
فرمایا: ’’تین چیزیں جس کے اندر ہوں وہ ایمان کا مزہ پاتا ہے ایک یہ کہ اللہ اور اس
کے رسول اس کے نزدیک ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے یہ کہ وہ اللہ کی خاطر کسی
سے محبت کرے، تیسرے یہ کہ کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اس کے لئے ایسے ہی
ناگوار ہو جیسے کہ آگ میں ڈالا جانا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اگر دوستی ایمان و تقویٰ کی بنیاد پر ہو تو اس کی جڑیں بے حد
مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں، ایسی دوستی کو حوادثات دہر ہلا نہیں سکتے۔ مومن اپنے اخلاق
و کردار اور معاملات میں زمین پر چلتا پھرتا قرآن نظر آئے‘ وہ قرآن و سنت کے منہج
کو لازم پکڑے۔
ایک مومن دوسرے مومن کا خیر خواہ ہو‘ جب وہ اپنے بھائی کے اندر
کوئی خیر دیکھے تو اس کی ہمت افزائی کرے اور کوئی نقص دیکھے تو اسے خفیہ طور پر نصیحت
کرے اور اللہ سے توبہ کرنے کی درخواست کرے۔
سیدنا جریر بن عبداللہt فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہe سے
نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کے لئے خیر خواہی پر بیعت کی تھی۔ (بخاری
و مسلم)
رسول اللہe نے
فرمایا:
[اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ]
’’دین خیر خواہی
کا نام ہے۔‘‘
صحابہ کرام] نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! خیر خواہی کس کے لئے؟
آپe نے
فرمایا: اللہ کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے ائمہ کے لئے
اور عام مسلمانوں کیلئے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسw سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’ایمان کی سب سے مضبوط گانٹھ اللہ کی خاطر دوستی اور اللہ کی خاطر دشمنی ہے
اور اللہ کے لئے محبت اور اللہ کے لئے بغض رکھنا ہے۔‘‘ (طبرانی)
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے غم و خوشی میں شرکت کرے اور بھلائی
و تقویٰ پر ایک دوسرے کا تعاون کرے۔ ایک موقع پر رسول اللہe نے فرمایا: جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اسے اس شخص کو
دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد تو شہ ہو وہ ایسے شخص کو دے دے جس
کے پاس توشہ نہیں ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، وہ
اس پر ظلم نہیں کرتا، اور نہ اسے کسی ظالم کے حوالے کرتا ہے، جو شخص اپنے بھائی کی
مدد میں لگا رہے گا تو اللہ بھی اس کی مدد میں لگا رہے گا اور جس نے کسی مسلمان کی
تکلیف دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے قیامت کے دن اس کی تکلیف دور کرے گا اور
جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے
گا۔ ایک حدیث میں ہے: مومن آپس میں محبت رکھنے‘ رحم اور تعاون کرنے میں ایک جسم کی
مانند ہیں، جسم کے کسی حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے
اور شب بیداری کرتا ہے۔
محبت بڑھانے کے آداب:
1 جب ایک
بھائی دوسرے بھائی سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے۔
سیدنا ابوذرt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’کسی بھی نیکی کو تم حقیر نہ سمجھو اگرچہ وہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے
ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسلم)
2 جب ملے
تو مصافحہ کرے:
رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے
سے پہلے ان دونوں کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘ (ابوداؤد)
3 ایک
دوسرے کی زیارت کریں اور اگر بیمار ہو تو عیادت کریں۔
4 ہدیہ
بھیجا کریں: سیدنا انس سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’تم ہدیہ بھیجا کرو اس لئے کہ اس سے محبت
بڑھتی ہے اور بغض و کینہ دور ہوتا ہے۔‘‘ (دیلمی)
5 ایک
دوسرے کی ضرورت پوری کرنے میں خوب دلچسپی لیں۔
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’جس نے کسی مسلمان سے دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کی تو اللہ
تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کر دے گا اور جس نے
کسی تنگ دست پر آسانی کی تو اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی پیدا
کر دے گا اور اللہ بندہ کی مدد میں ہوتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا
ہے۔‘‘ (مسلم)
سلام کرنا:
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں:
1 جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو۔
2 جب وہ تم کو دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو۔
3 جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اس کو نصیحت
کرو۔
4 جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے
تو اس کے جواب میں تم یرحمک اللہ کہو۔
5 جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔
6 جب وہ مر جائے تو اس کے جنازہ میں شرکت کرو۔
(مسلم)
سیدنا براءt کہتے
ہیں کہ رسول اللہe نے
ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا جن چیزوں کا ہمیں حکم دیا وہ
یہ ہیں:
1 مریض کی عیادت کرنا،
2 جنازہ میں شرکت کرنا،
3 چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا۔ (اگر
وہ الحمد للہ کہے)،
4 قسم کھانے والے کو بری کرنا،
5 مظلوم کی مدد کرنا،
6 سلام کثرت سے کرنا۔ (بخاری و مسلم)
بدگمانی سے بچنا:
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’تم بدگمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اور تم ایک دوسرے
کی جاسوسی نہ کرو اور نہ (مال کمانے میں) ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو اور
آپس میں حسد نہ کرو اور بغض نہ رکھو بلکہ بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک مسلمان دوسرے
مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کو رسوا نہیں کرتا، اس کو حقیر نہیں
سمجھتا، تقویٰ یہاں ہے (اور آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا) آدمی کے لئے یہی گناہ
کافی ہے کہ وہ اپنے مسلم بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان کا خون اس کی عزت اور مال
دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تین دن سے زیادہ ترک تعلق حرام ہے:
حضرت ابو ایوبt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق
قائم رکھے اس مدت کے درمیان دونوں ملیں (تو وہ اپنا منہ ادھر پھیرے اور وہ اپنا منہ
ادھر پھیرے) اور ان میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے۔
غلطیوں کو نظر انداز کرنا، عیوب کو چھپانا، غیبت سے محفوظ رہنا:
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’اگر بندہ دنیا میں کسی بندے کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے
دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ (مسلم)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ
جانتے ہیں آپe نے
فرمایا: کہ غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا ذکر کسی ایسی چیز سے کرو جس کو وہ ناپسند
کرے، آپ سے کہا گیا کہ اگر وہ چیز اس کے اندر موجود ہو تب بھی غیبت ہے، آپe نے
فرمایا: تبھی تو وہ غیبت ہے ورنہ اگر وہ چیز اس کے اندر موجود نہیں جو تم کہہ رہے ہو
تو وہ بہتان ہے۔‘‘ (مسلم)
عفو و درگزر اور رحم دلی مومن کی صفات میں سے ہیں:
{عَفَا وَاَصْلَحَ
فَاجَرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ} (شوریٰ:۴۰)
ایک جگہ ہے:
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ
اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ…} (فتح:۲۹)
لیکن اس کی غلطیوں سے چشم پوشی کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ
تنہائی میں تم اس کو نصیحت نہ کرو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھلا
دو، ایسی اخوت سے کوئی فائدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر لعنت اسی لئے بھیجی
تھی کیوں کہ انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھلا دیا تھا۔
جس مسلم معاشرے میں یہ خوبیاں پیدا ہو جائیں وہ ایک مثالی معاشرہ
ہو گا، اس کے اندر محبت، اخوت، رحم وکرم کا بول بالا ہو گا، اس کی بنیاد انتہائی مضبوط
ہو گی، دشمن اس پر فتح یاب نہ ہو سکیں گے، لیکن افسوس کہ یہ خوبیاں مسلم معاشرے میں
بالکل مفقود ہیں ہر شخص انا کی بات کرتا ہے کبر و حسد کی بیماری عام ہو گئی ہے۔العیاذ
باللہ!
No comments:
Post a Comment