فتح مکہ ... رمضان المبارک کا ایک تحفہ
تحریر: جناب مولانا عبدالمالک مجاہد
صلح حدیبیہ ۶ہجری کے آواخر
میں ہوئی۔ اللہ کے رسولeحدیبیہ سے مدینہ طیبہ واپس تشریف لائے تو آپ نے بادشاہوں اور
امراء کے نام خطوط ارسال فرمانے کا سلسلہ شروع کیا۔ محرم ۷ ہجری میں غزوہ خیبر ہوتا ہے۔اللہ تعالی یہود کے خلاف مسلمانوں
کو فتح عظیم سے ہمکنار کرتا ہے۔ خبیث یہودیوں کی قوت پاش پاش ہو چکی ہے۔ ان کی زمینوں،
جائیدادوں اور باغات پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ کچھ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں
ہوئی ہیں مگر دشمن پر لشکر اسلام کی قوت اور دھاک بیٹھتی چلی جا رہی ہے۔ ذو القعدہ
۷ہجری میں ’’عمرۃ القضاء‘‘ کے لیے آپeمکہ تشریف لے جاتے ہیں۔ واپس آئے تو جمادی الاولی ۸ہجری میں معرکہ
موتہ پیش آتا ہے۔ یہ معرکہ بھی تاریخ کا عجیب و غریب معرکہ تھا۔ مسلمانوں کی فوج صرف
تین ہزار اور رومی فوج ۲لاکھ کے قریب تھی۔ سیدنا خالد بن ولیدؓ نہایت خوبصورتی سے اسلامی
فوج کو بچا کر مدینہ طیبہ لے آتے ہیں۔
معرکہ موتہ کے بعد اسلام کی دعوت پہنچانے کا ایک نیا انداز اختیار
کیاجاتاہے۔ مختلف ممالک کے بادشاہوں اور قبائل کے روساء کو خطوط لکھے جا رہے ہیں۔ انہیں
پیغام دیا جا رہا ہے کہ ہمیں تمہارے اقتدار اور حکومت سے غرض نہیں۔ اسلام قبول کر لو،
تمہاری حکومت تمہارے ہی پاس رہے گی۔ ان میں سے بعض نے اسلام قبول کر لیا۔ ایران کے
بادشاہ بد بخت کسریٰ نے اس خط کو پھاڑ ڈالا۔ اس نے اس خط کے ٹکڑے ٹکڑے کیا کیے کہ اس
کی اپنی حکومت پاش پاش ہو گئی۔ مصر کے بادشاہ مقوقس نے نامہ مبارک کی بہت عزت و توقیر
کی۔ رسول اللہ eکے قاصد کو بیش قیمت تحائف پیش کیے۔ اللہ کے رسولeکی خدمت میںایک
قیمتی خچر ارسال کیا اور ساتھ ہی اپنی قوم کی نہایت معزز بیٹی سیدہ ماریہ قبطیہ کو
بھجوایا کہ اللہ کے رسولeاس سے نکاح کر لیں‘پھر ایسا ہی ہوا۔ اللہ کے رسولeنے اس خاتون سے
نکاح کیا اور اس کے بطن سے آپeکے صاحبزادے ابراہیم بن محمدeپیدا ہوئے۔ آپ نے جو خط بحرین کے حاکم کے نام ارسال کیا تھا
اسے پڑھ کر بحرین کے حاکم نے اسلام قبول کر لیا۔
ہجرت کا آٹھواں سال شروع ہو چکا ہے۔ جزیرہ عرب میں اسلام کی
ضیا پاشیاں عروج پر ہیں۔ ادھر قریش کے حسد
اور عناد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بظاہر تو وہ حدیبیہ کے میدان میں ہونے
والے معاہدے کا احترام کر رہے ہیں مگر اندر ہی اندر اس کی خلاف ورزیاں شروع کرچکے ہیں۔
بنو بکر قریش کے حلیف تھے۔ مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنوخزاعہ سے بنو بکر کی صدیوں پرانی
دشمنی چلی آ رہی تھی۔ صلح حدیبیہ ہی کے زمانے میں بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا
اور ان کے بیس افراد کو شہید کر دیا۔ قریش نے رات کے اندھیرے میں نہ صرف اسلحہ سے ان
کی مدد کی بلکہ خود بھی عملا لڑائی میں شرکت کی۔
اس ظلم اور زیادتی کی شکایت لے کر بنو خزاعہ کا ایک سردار اور
شاعر عمرو بن سالم خزاعی مدینہ طیبہ پہنچتا ہے۔ وہ اشعار پڑھ رہا ہے جن میں حلیف مسلمانوں
سے مدد طلب کر تا ہے۔ وہ مظلوموں کا نمائندہ ہے، اس کے بیس رشتہ دار قتل ہو چکے ہیں۔
اللہ کے رسولeکو صورت حال سے آگاہ کرتا ہے۔قریش کی غداری اور بد عہدی کا
ذکر بڑے مؤثر انداز میں کرتا ہے۔ مسلمان اخلاقی طور پر بنو خزاعہ کی مدد کرنے کے پابند
ہیں۔ کائنات میں ایسے معاہدوں کی پابندی کرنے والی سب سے بڑی شخصیت عمرو بن سالم سے
فرما رہی ہے: (نُصِرْتَ یَا عَمْرَو بْنَ سَالِمٍ) ’’ عمرو بن سالم فکر نہ کرو( یوں
سمجھو)تمہاری مدد ہوگئی‘‘۔
قریش اپنے کرتوتوں سے غافل نہیں، انہیں اپنی غلطی کا اعتراف
ہے۔ ابو سفیان مدینہ آتا ہے کہ حالات کی اصلاح کر سکے۔ اس کی بیٹی ام المومنین سیدہ
ام حبیبہr اللہ
کے رسولeکی زوجہ محترمہ ہیں۔ بیٹی کے گھر گیا تو رسول اللہ e کے
بستر پر بیٹھنے لگا ۔سیدہ نے بستر کو الٹ کر تہہ کر دیا۔ حواس باختہ ہو کر پوچھتا ہے:
یہ بستر میرے لائق نہیں یا میں بستر کے لائق نہیں؟ سیدہ جواب میں فرما رہی ہیں کہ تم
مشرک ہو اور یہ میرے پاک اور مقدس نبیeکا بستر ہے تم اس بستر کے لائق نہیںہو۔ کبیدہ خاطر ہو کر بیٹی
کے گھر سے نکلا تو سیدنا ابوبکر صدیق‘ سیدنا عمر فاروق اور سیدنا علی بن ابی طالب سے ملتا ہے۔ صلح
کی درخواست کرتا ہے مگر وہاں سے ٹکا سا جواب ملتا ہے۔ ناکام نامراد ہو کر واپس مکہ
آجاتا ہے۔
اللہ کے رسولeنے نہایت خاموشی سے مکہ فتح کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
راز داری کا عالم یہ ہے کہ مدینہ کے اطراف میں حفاظتی چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ کوئی اجنبی شخص نہ شہر کے اندر آ سکتا
ہے نہ باہر جا سکتا ہے۔
حاطب بن ابی بلتعہt بدری صحابی ہیں۔ انہوں نے غلطی سے مکہ والوں کو خط لکھ
کر سارہ نامی ایک لونڈی کے حوالے کیا کہ اسے مکہ لے جائے، مگر اللہ تعالی نے اپنے پیارے
رسولeکو اس کی خبر دے دی۔ وہ ابھی مکہ کے راستے ہی میں تھی کہ رسول
اللہ eکے ارسال کردہ دستے نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی قیادت میں اس کے سر کے بالوں میں سے خط کو برآمد کر لیا
اورکسی کو بھی آپ کی تیاریوں کا علم نہ ہو سکا۔ مدینہ شریف میں اللہ کے رسولeکے حکم سے مختلف
علاقوں کے مسلمان جمع ہونا شروع ہو گئے۔ یہ رمضان المبارک کے مقدس اور مبارک مہینہ
کی دس تاریخ تھی جب اللہ کے رسولe دس
ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں۔ آپ سمیت بعض صحابہ نے رمضان کا روزہ
رکھا ہوا تھا۔ آپeنے عسفان اور قدید کے درمیان کدید نامی چشمے پر پہنچ کر عصر
کے بعد روزہ توڑ دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ضروری نہیں اور مسافر کو اگرشدید مشقت کا
سامنا ہو تو اس کے لیے روزہ رکھنا منع ہے۔
اسلام غیر ضروری مشقت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے مسلمانوں کو یہ
سہولت میسر ہے کہ وہ سفر میں روزہ افطار کر سکتے ہیں‘ آپeنے روزہ توڑا تو اکثر صحابہ نے بھی روزہ توڑ دیا۔ چند صحابہ
نے کہا:
تھوڑی دیر بعد غروب آفتاب ہونے والا ہے ہم صبر کر سکتے ہیں۔ آپeکو علم ہوا تو تین
مرتبہ ارشاد فرمایا: یہ لوگ نافرمان ہیں۔ اسلام میں اللہ کے رسولeکے احکامات اور
آپt کی
سنت پر عمل کیے بغیر دین داری کا کوئی تصور ہی نہیں۔ راستہ میں جحفہ کے قریب آپeکے چچا عباس بن
عبدالمطلب مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے ہوئے مل جاتے ہیں، یہ قدیم الاسلام تھے۔
مکہ کے قریب جا کر اسلامی لشکر پڑاؤ ڈالتا ہے۔ رات کا وقت ہے
اور اللہ کے رسولeلشکر کو حکم دے رہے ہیں کہ تمام مجاہدین اپنی اپنی آگ جلائیں۔
وادی فاطمہ میں دس ہزار چولہوں میں آگ جل رہی ہے۔ پہرے پر سیدنا عمر فاروقt ہیں۔
یہ آگ مکہ میں نظر آ رہی ہے۔ اہل مکہ کہنے لگے: یہ آگ بنوخزاعہ نے جلائی ہے، مگر
ابو سفیان کہنے لگا: نہیں! بنو خزاعہ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہو سکتے۔ سیدنا عباسt بن
عبدالمطلب اللہ کے رسولe کے
سفیربن کر خچر پر سوار ہو کر کیمپ سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ کوئی شخص‘ کوئی لکڑ ہارا
مل جائے اور قریش کو پیغام بھجوا دوں کہ آپe کے مکے میں داخلہ سے پہلے پہلے حاضر ہو کر امان طلب
کر لیں۔ان کا کام اس وقت آسان ہو گیا جب انہوں نے دیکھا کہ عرب کا ذہین وفطین شخص
ابو سفیان اپنے دو ساتھیوں سمیت اس آگ کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے مکہ سے باہر
نکلا ہوا ہے۔ وہ گفتگو کر رہا تھا کہ سیدنا عباسt نے آواز پہچان لی۔ ارے !یہ تو ابو حنظلہ ہے۔ آواز
دی: ابو حنظلہ! ابوسفیان بولا: ابو الفضل! میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں، کہو کیا
بات ہے؟
ابو الفضل بولے: یہ اللہ کے رسول eہیں۔
ہائے رے! قریش
کی تباہی… اب مسئلے کا حل کیاہے؟
ابو حنظلہ! میرے
ساتھ خچر پر بیٹھ جاؤ اور میں تمہیں اللہ کے رسولeکے پاس لیے چلتا ہوں۔ تمہارے لیے امان طلب کرتا ہوں۔
لوگ اللہ کے رسولeکے خچر کو دیکھ رہے ہیں اس پر دو آدمی بیٹھے ہیں اور امام المرسلین
کے خیمہ کی طرف جا رہے ہیں۔
ارے! یہ تو اللہ کے رسول کا خچرہے اور اس پر آپeکے چچا سوار ہیں۔
سیدنا عمر فاروق tکے الاؤ کے پاس سے خچر گزرا تو انہوں نے ابو سفیان کو پہچان
لیا۔ارے! یہ تو اللہ کا دشمن ہمارے قابو آگیا ہے۔ وہ اللہ کے رسولeکے خیمہ کی طرف
بھاگ رہے ہیں کہ آپ سے اجازت لے کر ابو سفیان کو قتل کر دیں۔ ادھر سیدنا عباسt نے
بھی خچر کو ایڑ لگا دی۔ سیدنا عباسt پہلے پہنچ گئے ہیں۔ یا رسول اللہ! میں نے ابو سفیان
کو امان دی ہے۔ یہ گفتگو ہو رہی ہے کہ سیدنا عمرt بھی پہنچ جاتے ہیں۔ عرض کر رہے ہیں:
اللہ کے رسولe! اجازت دیجیے کہ
میں ابو سفیان کی گردن مار دوں۔
مگر میں اسے پناہ دے چکا ہوں سیدنا عباسt عرض
کر رہے ہیں۔
اللہ کے رسولeنے ارشاد فرمایا: عباس اسے اپنے ڈیرے پر لے جاؤ اور صبح میرے
پاس لے آنا۔ اس وقفہ میں اللہ رب العزت ابو سفیان کا سینہ کھول دیتے ہیں اور وہ اسلام
قبول کر لیتے ہیں۔ اللہ کے رسولeنے ان کو معاف کر دیا اور انہیں امان دے دی گئی۔
اللہ کے رسولe لشکر
کی دائیں جانب (میمنہ) پر خالدt بن
ولید کو، بائیں جانب (میسرہ) پر زبیر بن عوامt کو اور درمیانی حصہ (قلب) پر ابو عبیدہ بن جراحt کو
قیادت سونپتے ہیں۔
یہ 17رمضان المبارک منگل کی صبح تھی جب اسلامی لشکر مکہ کی طرف بڑھتا ہے۔
ابوسفیان کو ایک حکمت عملی کے تحت پہاڑی کے دامن میں روکا جاتا ہے تاکہ وہ اسلامی لشکر
کی وسعت اور قوت کا بچشم خود مشاہدہ کر سکیں۔ ان کے ہمراہ سیدنا عباسt بن
عبدالمطلب ہیں جو انہیں پھریرے لہراتے قبائل کے بارے میں بتاتے جارہے ہیں۔ انصار کا
پرچم سیدنا سعد بن عبادہt کے
پاس تھا۔ ابو سفیان کو دیکھا تو ان کی اسلام کے ساتھ دشمنیاں یاد آگئیں، کہنے لگے:
آج خونریزی اور مار دھاڑ کا دن ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اللہ کے رسول e وہاں
سے گزرے تو ابوسفیان نے آپ سے سعد کی شکایت کردی۔ آپe نے
سعد سے پرچم لے کر ان کے بیٹے قیس کے حوالے کر دیا۔
ادھر ابو سفیان تیزی سے مکہ پہنچتے ہیں۔ وہ بلند آواز سے کہہ
رہے ہیں: قریش کے لوگو! یہ محمد eہیں۔ ان کے ساتھ اتنا بڑ ا لشکر ہے کہ ہم اس کا مقابلہ نہیں
کر سکتے۔ سنو! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں آ جائے یا بیت اللہ شریف میں چلا جائے،
یا اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ جائے اسے امان ہے۔
ابو سفیان کی
بیوی ہند اسلام کی شدید دشمن تھی، اسے خاوند کی بات پسند نہ آئی۔ ابوسفیان کی مونچھ
پکڑ کر کہہ رہی ہے: لوگو! اس بزدل شخص کو پکڑو، اسے مار ڈالو۔ ابو سفیان قریش سے مخاطب
ہیں:مکہ والو! اس عورت کی باتوں میں نہ آنا۔ صورت حال یہ ہے کہ ہم واقعی مقابلہ نہیں
کر سکتے۔
تھوڑے سے سر پھرے، عکرمہ بن ابی جہل‘ صفوان بن امیہ اور سہیل
بن عمرو کی کمان میں خندمہ کے علاقے میں جمع ہوئے۔ خندمہ کے علاقے میں سیدنا خالدt بن
ولید سے ان کا مقابلہ ہوتا ہے۔ جب 12مشرک جہنم رسید ہو چکے تو بقیہ بھاگ جاتے ہیں۔ خالدt بن
ولید مکہ کے گلی کوچوں میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کو روندتے ہوئے صفا پہاڑی پر اللہ کے رسولeسے آملتے ہیں۔ اللہ کے رسولeکدی کے راستے سے مکہ میں اس طرح داخل ہو رہے ہیں کہ آپ نے اپنا
سر مبارک تواضع سے جھکا رکھا ہے۔ اسلامی لشکر کا کسی نے مقابلہ نہیں کیا۔ اللہ کے رسولeکی کتنی کامیاب
پلاننگ ہے کہ کم سے کم لوگ قتل ہوتے ہیں۔ صرف دو مسلمان جام شہادت نوش کرتے ہیں۔
اللہ کے رسولeمہاجرین اور انصار کے ہمراہ کسی خونریزی کے بغیر بیت اللہ شریف
میں داخل ہو رہے ہیں۔ حجر اسود کو چومتے ہیں۔ اب بیت اللہ کا طواف ہو رہا ہے۔
اللہ کے رسولeکے ہاتھ میں کمان تھی۔ بیت اللہ کے گرد اور چھت پر تین سو ساٹھ
بت رکھے ہوئے تھے۔ اسی کمان سے ان بتو ں کو ٹھوکر مار رہے ہیں اور زبان اقدس پر قرآن
حکیم کی یہ آیت کریمہ جاری ہے:
{جَائَ الْحَقُّ
وَزَھَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوقًا}
’’حق آگیا اور باطل
مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والی چیز ہے‘‘۔
یہ آپeکا معجزہ ہے کہ کمان کی ٹھوکر سے بت چہروں کے بل گرتے چلے جارہے
ہیں۔پھر آپ eکی آواز فضا میں گونجتی ہے: عثمان بن طلحہ کہاں ہے؟ ان کو بلایا
گیا۔ فرمایا: جاؤ کعبہ کی چابی لاؤ۔ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا۔ آپ eاندر تشریف لے گئے۔
قارئین کرام! کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہمراہ کعبہ کے اندر
جانے کا اعزاز کس کو ملا؟ اسے کہتے ہیں مساوات محمدی‘ آپ کے ساتھ سیدنا اسامہ اور
سیدنا بلال wاندر گئے۔ ان میں سے ایک تو وہ ہیں جن کے والد غلام رہے تھے
اور دوسرے بذات خود غلام رہے ہیں۔ آپeنے کعبہ کے اندر شکرانے کے نوافل ادا کیے۔ باہر تشریف لائے تو
دیکھا کہ قریش حرم شریف کے صحن میں بیٹھے ہیں۔ سوچ رہے ہیں کہ آپeان کے ساتھ کیا
سلوک کرتے ہیں؟
اللہ کے رسولeحرم شریف کے دونوں دروازوں کو پکڑ کر کھڑے ہیں اور قریش سے خطاب
فرما رہے ہیں۔ اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی تعریف بیان فرما رہے ہیں:تمام تعریفیں اس
مولائے کریم کے لیے ہیں جس اکیلے رب نے اپنے بندے کی مدد کی اوراس اکیلے نے تمام دشمن
گروہوں کو شکست فاش سے دو چار کیا…قریش کے لوگو! اللہ تعالی نے جاہلیت کی نخوت اور
باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کر دیاہے۔ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے ہیں…
اللہ کے رسولeقریش سے خطاب فرما رہے ہیں۔آپ قریش سے ایک سوال کرتے ہیں:
قریش کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے ،میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک
کرنے والا ہوں؟
حاضرین پر سناٹا ہے۔ سب لوگ خاموش ہیں۔ سہیل بن عمرو قریش کا
مانا ہوا خطیب ہے، اس کی آواز آتی ہے: آپ تو کریم ابن کریم ابن کریم ہیں۔ اللہ کے
رسولeفرماتے ہیں:
آج میں تم سے وہی بات کہنے لگا ہوں جو یوسف uنے اپنے بھائیوں
سے کہی تھی: {لَا تَثْرِیبَ
عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ} ’’آج تم پر کوئی
سرزنش نہیں‘‘ (اذْہَبُوا فَأَنْتُمُ
الطُّلَقَاءُ) ’’جاؤ تم سب آزاد ہو‘‘۔
سیدنا علیؓ بن ابی طالب کے ہاتھ میں کعبے کی کنجی تھی۔ ان کی
اور سیدنا عباسt کی
خواہش تھی کہ انہیں حجاج کو پانی پلانے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ کعبہ کی کلید برداری
کا اعزاز بھی بخش دیا جائے، مگر اللہ کے رسولeفرما رہے ہیں: عثمان بن طلحہ کہاں ہیں؟انہیں بلاؤ۔
وہ آئے تو آپeنے ان کے ہاتھ میں کنجی پکڑاتے ہوئے فرمایا: یہ لو اپنی کنجی،
آج نیکی اور وفاداری کا دن ہے۔ قارئین کرام! اس نبی رحمتeکی عنایت کو تو دیکھیے عثمان بن طلحہ کو صرف کنجی نہیں پکڑائی
بلکہ قیامت تک کے لیے آنے والی امت کے لیے ایک حکم بھی جاری فرما دیاکہ یہ کنجی قیامت
تک عثمان کے خاندان میں رہے گی۔ جو اسے ان لوگوں سے چھینے گا وہ ظالم ہو گا۔
نماز کا وقت ہوا تو اللہ کے رسولeنے سیدنا بلالt کو
حکم دیا کہ وہ کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔ ایک غلام کو یہ اعزاز مل رہا ہے کہ
وہ بیت اللہ کی چھت پر کلمہ توحید بلند کر رہے ہیں۔ وہ بلال جو کبھی مکہ میں یہ کلمہ
’’لاالہ الا اللہ‘‘ کہنے کی پاداش میں پتھروں پر گھسیٹے جاتے تھے‘ آج آزادی کے ساتھ
انہی قریش کے سامنے اللہ کی کبریائی کا پوری قوت سے اعلان کر رہے ہیں۔
مکہ فتح ہو چکا ہے۔ یہ آپ کے آباؤ اجداد کا گھر ہے۔ آپeنے اپنا بچپن اور
اپنی جوانی اسی شہر میں گزاری ہے، یہ دنیا کا مقدس ترین شہر ہے۔ انصار کے دل میں ایک
خیال آگیا۔ آپس میں گفتگو کر رہے ہیں کہ اللہ کے رسولeاب اسی شہر میں قیام فرمائیں گے۔ اللہ کے رسولeاس وقت صفا پر ہاتھ
اٹھائے اللہ سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔
فارغ ہوئے تو انصار سے با اصرار پوچھا: تم لوگوں نے آپس میں
کیا باتیں کی ہیں۔ جب انہوں نے بتایا تو آپeنے ارشاد فرمایا:میرے پیارے انصار! اب زندگی موت تمہارے ہی ساتھ
ہے۔
مکہ کے لوگ جوق در جوق اسلام قبول کر رہے ہیں۔ ان میں ابو سفیان
کی بیوی ہند بھی شامل ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے گھر گئی تو اپنے بت کو پاش پاش
کر دیا ۔ وہ کہہ رہی تھی: ارے بدبخت! ہم تیرے متعلق کتنے دھوکے میں تھے۔ فتح مکہ کے
فورا بعد پورے جزیرہ عرب میں اسلام کا بول بالا ہو جاتا ہے۔ ہر طرف کلمہ توحید گونجنے
لگتا ہے۔مرکز ہدایت پر مسلمانوں کا کنٹرول ہو گیا تو وہ قبائل تیزی سے اسلام میں داخل
ہو نے لگے جو ابھی تک شک اورگو مگو میں مبتلا تھے۔
No comments:
Post a Comment