نمازِ عید اور خواتین
تحریر: جناب مولانا حافظ عبدالقادر
اثری
ہر قوم کے لئے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے۔ اس دن وہ خوشیاں مناتی
ہے۔ کھیل کود کر دن گزارتی ہے۔ ہمیں بھی دو خوشی کے دن اللہ تعالیٰ نے عطا کئے ہیں،
وہ ہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی۔
ماہ رمضان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ایک ماہ کی محنت
پر ان کی جزاء اور انعام کیلئے ایک دن مقرر کر دیا ہے جس کو عیدالفطر کہا جاتا ہے۔
عیدالفطر کی رات کو فرشتوں میں ایک دھوم مچی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرماتا
اور ان سے کہتا ہے کہ بتائو جب مزدور اپنا کام پورا کر لے تو اس کی جزاء کیا ہونی چاہئے؟
فرشتے کہتے ہیں کہ اس کو اس کی پوری پوری مزدوری ملنی چاہئے۔ اس لئے لیلۃ العید کا
نام لیلۃ الجزاء ہے۔ ماہ رمضان سے جس طرح مردوں کا تعلق ہے بالکل اسی طرح عورتوں کا
بھی تعلق ہے اور جس طرح عیدین میں مردوں کو جانے کا حکم ہے اسی طرح عورتوں کو بھی حکم
ہے۔ عیدین کے موقعہ پر آپe نے
فرمایا:
[إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ
عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا](بخاري)
’’ہر قوم کے لئے
عید اور خوشی کے دن ہیں اور آج ہماری عید و خوشی کا دن ہے۔‘‘
آپe کے
اس فرمان میں مردوں کی تخصیص نہیں بلکہ اس میں عورتیں بھی شامل ہیں کیونکہ لفظ ’’عیدنا‘‘
میں جو ’’نا‘‘ ہے اس میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ بوڑھے، بچے، جوان، مرد، عورتیں سب شامل
ہیں۔ جس طرح مردوں کو عیدگاہ جانے کا حق ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہے۔ عورتوں سے یہ
حق چھینا نہیں جاسکتا کیونکہ آپeنے عورتوں، مردوں، بچوں بوڑھوں حتیٰ کہ حائضہ عورتوں کو بھی
عیدگاہ جانے کا حکم دیا ہے۔ تا کہ اس عظیم اجتماع سے وہ تمام لوگ فائدہ اٹھائیں اور
مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ آپؐ نے عورتوں کو خاص طور سے عیدگاہ جانے کی سخت تاکید
فرمائی۔ حضرت ام عطیہؓ کی حدیث ہے:
[أُمِرْنَا أَنْ
نُخْرِجَ الحُيَّضَ يَوْمَ العِيدَيْنِ، وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ
المُسْلِمِينَ، وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ.] (بخاري)
سیدہ ام عطیہؓ فرماتی ہیں: ہم کو آپؐ کا حکم تھا کہ عید کے دن نکلیں پھر حیض والیوں،
کنواری دوشیزائوں اور پردہ نشین عورتوں، سب کو نکالیں مگر حائضہ عورتیں صرف مسلمانوں
کی جماعت اور دعا میں شریک ہوں، نماز کے مقام سے الگ رہیں۔
عورتوں کو عیدگاہ لے جانے کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے بخوبی
ہوتا ہے کہ جب آپe نے
عورتوں کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا تو کسی عورت نے پوچھا کہ اگر وہ حائضہ ہو تب بھی
اے اللہ کے رسولؐ! اسے عیدگاہ لے جائیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں تب بھی مگر حائضہ مصلی
سے دور رہ کر صرف مسلمانوں کی دعاء خیر میں شامل رہے گی۔ اس کے علاوہ ام عطیہؓ کی دوسری
حدیث میں ہے:
[عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ، جَمَعَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ
فِي بَيْتٍ، فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَامَ عَلَى الْبَابِ
فَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَرَدَدْنَا عَلَيْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ قَالَ: أَنَا رَسُولُ
رَسُولِ اللَّهِﷺ إِلَيْكُنَّ، وَأَمَرَنَا بِالْعِيدَيْنِ أَنْ نُخْرِجَ فِيهِمَا
الْحُيَّضَ، وَالْعُتَّقَ، وَلَا جُمُعَةَ عَلَيْنَا وَنَهَانَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ.]
(سنن أبي داود)
’’جب رسول اللہe مدینہ
تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو ایک گھر میں جمع ہونے کا حکم دیا، جب سب آگئیں تو
آپe نے
عمرؓ کو ہمارے پاس بھیجا، حضرت عمرؓ آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کیا تو ہم
سب نے ان کے سلام کا جواب دیا۔ آپ نے کہا کہ میں تمہاری طرف اللہ کے رسول کا بھیجا
ہوا قاصد ہوں۔ آپe نے
ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم حائضہ اور پردے والی عورتوں کو عیدین میں لے جائیں۔ آپ پر جمعہ
کی نماز فرض نہیں اور جنازے کے پیچھے جانا منع ہے۔‘‘
ان احادیث کے علاوہ اور بھی بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں جن
سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیدین میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی شامل ہوا کرتی تھیں
اور آپe خود
ان کو وعظ و نصیحت کرتے اور انہیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں
اللہ تعالیٰ کے اس واضح فرمان کو سمجھتے ہوئے کہ
﴿وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر: 7)
’’جو کچھ رسول تمہیں
دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے تم رک جائو۔ امر رسولe کی
بلاچوں و چراں تعمیل کرنی چاہئے۔‘‘
عیدین میں عورتوں کی شرکت سے ملت کی عظمت، اجتماعیت اور اتحاد
و یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی شرکت اور اپنے مذہب سے دلچسپی و لگائو دیکھ
کر معاندین اسلام پر رعب و دہشت طاری ہوتی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے عیدین میں شریک ہونے
سے ان کو خوشی ہوتی اور اس شرکت سے محرومی پر ان میں احساس کمتری اور حق تلفی ہوتی
ہے۔ احادیث مذکورہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سال بھر میں ہماری خوشی کے دو دن ہیں،
ایک عیدالفطر اور ایک عیدالاضحی۔ لہٰذا ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ مرد حضرات اپنے گھر
کی عورتوں اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ عید کے مزے لوٹیں۔
ساتھ جائیں اور ساٹھ واپس لوٹیں۔ خواتین کو اس خوشی سے، اللہ کے انعام سے اور ان کے
حق سے محروم نہ رکھیں۔
No comments:
Post a Comment