شوال کے چھ روزے ... فضائل ومسائل
تحریر: جناب مولانا عبدالحفیظ مدنی
ہر سال کی طرح رمضان
المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے۔ ہر ایک اپنے ظرف اور بساط بھر
توفیق ربانی کے تحت اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لیکن چند دنوں کے بعد یہ مبارک مہینہ
ختم ہو جائے گا تو کیا ایک صاحب ایمان بندے کا نیک عملی کا یہ سلسلہ قبل از موت منقطع
ہو جاتا ہے؟ قرآن ہمیں اس کا جواب نفی میں دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَاعْبُدْ رَبَّك
حَتَّی یَأْتِیَك الْیَقِیْنُ} (حجر: ۹۹)
’’اور اس آخری گھڑی
تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے۔‘‘
چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ بندۂ مومن کے اعمال و تکالیفِ شرعیہ
کا انقطاع صرف مابعدِ وفات ہونا ممکن ہے۔ اگر رمضان کا مبارک مہینہ اپنے اختتام کے
قریب ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مومن سال بھر کے لیے روزہ جیسی عظیم الشان
عبادت سے محروم کر دیا گیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس نے روزہ جیسی عبادت
کو سارے سال کے لیے مشروع و جائز رکھا ہے۔
سیدنا ابوایوب انصاریt روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولe نے
فرمایا: جو رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے فوراً پیچھے شوال میں چھ روزے رکھے تو اس
کے لیے پورے سال کے روزوں جیسا (اجر) ہے۔
[من صام رمضان ثم
اتبعہ ستا من شوال كان كصیام الدھر۔] (صحیح مسلم)
شوال کے چھ روزوں کا شرعی حکم:
شوال میں چھ روزے رکھنا سنت ہے، اس کی دلیل حدیث ابوایوب انصاریؓ
ہے جسکا تذکرہ اوپرہو چکا ہے۔ جمہورِ فقہائے اسلام بشمول مالکیہؒ، شافعیہؒ، حنابلہؒ
و متاخرین احنافؒ کے نزدیک یہ روزے سنت ہیں۔ (الموسوعۃ الفقہیہ: ۲/۹۹۷۹) امام ابن قدامہؒ فرماتے ہیں کہ بیشتر اہل علم کے نزدیک یہ روزے مستحب ہیں۔ (المغنی،
ابن قدامہؒ: ۶/۱۹۳)
ان روزوں کی فضیلت
سیدنا ابوایوب انصاریؓ سے مروی حدیث میں آپe نے
ان روزوں کو صیام دھر یعنی پورے سال کے روزوں کے برابر قرار دیا ہے۔ ابن ماجہؒ کی ایک
روایت سے صیام دھر کی تفسیر ہوتی ہے۔ آپe کا فرمان ہے کہ جو عیدالفطر کے بعد چھ روزے رکھتا ہے
تو یہ پورے سال جیسا ہے:
{مَن جَائَ بِالْحَسَنَة فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا وَمَن
جَائَ بِالسَّیِّئَة فَلاَ یُجْزٰی إِلاَّ
مِثْلَہَا وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ}
’’جو اللہ کے حضور
نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی
بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘ (الانعام)
[من صام ست ایام
بعد الفطر كان تمام السنة، من جاء بالحسنة فلہ عشر أمثالھا… الخ] (سنن ابن ماجہ)
ایک اور روایت میں ہے: اللہ نے ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر
بنایا ہے، سو (رمضان کا) ایک مہینہ دس ماہ کے برابر ہوا اور اس کے بعد چھ روزے (بقیہ
دو ماہ کے برابر ہوئے جس سے) سال کا تکملہ ہوا۔‘‘
[جعل اللہ الحسنة
بعشر امثالھا، الشھر بعشرة أشھر وصیام ستة ایام بعد الشھر تمام السنة۔] (صحیح الجامع)
نیز ایک روایت یہ ہے: ایک ماہ (رمضان) کے روزے دس ماہ کے مساوی
ہوئے اور چھ روزے اس کے بعد دو ماہ کے مساوی ہوئے۔ لہٰذا یہ سال بھر کے روزوں کا اتمام
ہے۔
[صیام شھر بعشرة
أشھر وستة ایام بعدہ بشھرین، فذٰلك تمام السنة۔] (صحیح الجامع)
امام نوویؒ، حضرات علمائے دین کے حوالے سے یہی تشریح کرتے ہیں۔
(شرح مسلم، امام نووی: ۴/۱۸۶)
ان روزوں کے فوائد
حافظ ابن رجب حنبلیa فرماتے ہیں: ماہِ رمضان کے بعد ماہ شوال کے چھ روزوں
سے سارے سال روزوں کے التزام کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس کی چند وجوہات
درج ذیل ہیں:
1 ماہ شعبان اور ماہِ شوال کے روزوں کی حیثیت فرض نمازوں کے آگے پیچھے پڑھی جانے
والی سنن و نوافل کی سی ہے۔ سنت نمازوں کی مشروعیت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بندے
کی فرض نمازوں میں پائے جانے والے خلل و نقص کی تلافی و تدارک کے لیے رکھی گئی ہیں۔
روایات میں آیا ہے کہ بروزِ قیامت نفل عبادات کے ذریعہ فرائض کی تکمیل و اتمام کیا
جائے گا۔ اس لحاظ سے دیکھئے تو اکثر لوگوں کے فرض روزوں میںکچھ نہ کچھ خلل یا کمی واقع
ہو ہی جاتی ہے، چنانچہ ان روزوں کے ذریعہ سے اس نقص و خلل کو رفع کرنے کا نسخہ مشروع
ہوا ہے۔
2 رمضان کے بعد شوال میں بھی روزوں کا التزام کرنا دلیل ہوتا ہے کہ بارگاہِ ایزدی
میں رمضان کے فرض روزے قبول کر لیے گئے۔ قرآن و حدیث کی نصوص میں جابجا یہ اصول ملتا
ہے کہ اللہ رب العزت اگر بندہ کے کسی نیک عمل کو مقبول بنا لیتے ہیں تو مزید اس کی
توفیق دیتے ہیں۔ اس لیے بعض علمائے دین فرماتے ہیں کہ کسی نیکی کا ثواب یہی ہے کہ اس
کے بعد اگلی نیکی کی توفیق مل جائے۔ ایک نیکی کے فوراً بعد دوسری نیکی کرنا پہلی نیکی
کے قبول کی علامت ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نیکی کے بعد برائی کا ارتکاب کرنا علامت ہوتا
ہے کہ سابقہ نیکی شرفِ قبولیابی سے محروم رہی ہے۔
3 ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان میں روزے رکھنے سے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے
ہیں، لیکن خود رمضان المبارک میں ارتکاب کی گئیں کوتاہیوں کی مغفرت کا ایک مؤثر ترین
و کارگر وسیلہ شوال کے روزے ہیں۔
رمضان کے روزہ داروں کے اجر کو عیدالفطر کے دن بانٹا جاتا ہے
کہ اس دن کو انعام کا دن (یوم الجوائز) بھی کہا گیا ہے۔ اب عیدالفطر کے بعد پھر روزہ
رکھنا اس نعمت و اجر پر شکرگزاری کی دلیل ہے۔ واضح رہے کہ گناہوں کی مغفرت و سِتر سے
بڑھ کر انسان کے لیے کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔ اللہ کے رسولe کا اسوۂ یہ تھا کہ آپ عبادات و قیام اللیل کا اس درجہ
اہتمام فرماتے کہ پائے مبارک میں ورم آجاتے، آپe سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سابق و لاحق تمام
گناہ معاف فرما دئیے ہیں (پھر ایسا کیوں؟) آپe نے یہ سن کر فرمایا: کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
[افلا أكون عبدا
شكورا۔] (بخاری، مسلم)
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صومِ رمضان کی ادائیگی کی نعمت
و توفیق پالینے پر ذکرِ الٰہی و تکبیر و تسبیح وغیرہ طریقوں سے اپنی شکر گزاری کے اظہار
کا حکم فرمایا ہے۔
رمضان کی توفیق پالینے، اس پر تائید و اعانتِ ربانی سے مستفیض
ہونے اور گناہوں کی مغفرت پر شکرگزاری میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد ازخود چند روزے
رکھے جائیں۔ حضرت وہیب بن الوردؒ سے اگر کسی نیکی پر مرتب ہونے والے ثواب کے بارے میں
پوچھا جاتا تو فرماتے: نیک عمل کے اجر و ثواب کے بارے میں مت پوچھو، بلکہ یہ جاننے
کی کوشش کرو کہ اس عمل کی ادائیگی پر شکریہ کیسے ادا کیا جائے کہ رحمن و رحیم رب نے
تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘ بارگاہِ رب سے بندہ پر دین و دنیا میں حاصل ہونے والی
ہر نعمت موجب شکر و سپاس مندی ہے، لیکن غور کیجئے تو شکرگزاری کی توفیق پا لینا بھی
ایک نعمتِ خداوندی ہے۔ اس طرح ہر شکر گزاری ایک دوسری مستوجب الشکر نعمت کا پیش خیمہ
بن جاتی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ بندگانِ خدا کے لیے ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر
نعمت کا شکر ادا کر سکیں، لہٰذا شکر گزاری کی حقیقت اتنی ہی ہے کہ ہم اپنے تئیں ادائیگی
شکر سے عاجزی اور درماندگی کا اعتراف و اقرار کر لیں۔(لطائف المعارف، ابن رجب حنبلی:
۲/۳۴-۳۶ بالاختصار)
ان روزوں کے احکام و مسائل
شوال کے چھ روزوں کو عیدالفطر کے معاً بعد رکھنا مستحب ہے کہ
یہ نیکی و خیر کے کاموں میں مسارعت و مسابقت کی قبیل سے ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَسَارِعُواْ إِلَی
مَغْفِرَة مِّن رَّبِّكمْ وَجَنَّة عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ
لِلْمُتَّقِیْنَ} (ال عمران)
’’دوڑ کر چلو اس
راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف لے جاتی ہے جو کہ وسعت میں زمین اور
آسمانوں جیسی ہے اور خدا ترس لوگوں کیلئے مہیا کی گئی ہے۔‘‘
{سَابِقُوا إِلَی
مَغْفِرَة مِّن رَّبِّكمْ وَجَنَّة عَرْضُہَا كعَرْضِ السَّمَاء وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا بِاللّٰہِ
وَرُسُلِہِ ذَلِك فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ
الْعَظِیْمِ} (حدید: ۲۱)
’’دوڑو اور ایک دوسرے
سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان
و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان
لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘
{فَاسْتَبِقُوا الخَیْْرَاتِ
إِلَی اللّٰہ مَرْجِعُكمْ جَمِیْعاً}
’’لہٰذا بھلائیوں
میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخر کار تم سب کو خدا کی طرف پلٹ کر جانا
ہے۔‘‘ (المائدۃ)
2 ان روزوں کو پورے ماہِ شوال میں بانٹ کر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ایک ساتھ بھی۔
متابعت کے ساتھ رکھنا ضروری نہیں کیونکہ اللہ کے رسولe نے روزوں کا تذکرہ مطلقاً فرمایا ہے، اس میں متابعت
و عدمِ متابعت کا ذکر نہیں۔ (دیکھیں مذکورہ بالا حدیث ابوایوب انصاری)
3 جو ان روزوں کو ایک بار رکھ لے اس پر لازم نہیں ہوتا کہ آئندہ سال بھی انکی پابندی
کرے، البتہ ہر سال رکھنا مستحب و مسنون رہے گا۔ اللہ کے رسولe کا ارشادِ گرامی ہے: اللہ کو محبوب ترین عمل وہ ہے جو
دائمی رہے اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
4 ان روزوں میں بھی دیگر تمام مقید نفل روزوں کی طرح رات ہی میں نیت کر لینا لازمی
ہے۔ اللہ کے رسولe کا
ارشاد گرامی ہے: جو رات ہی میں فجر سے پہلے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ
نہیں۔
[من لم یبیت الصیام
قبل الفجر فلا صیام لہ۔] (صحیح الجامع)
امام شوکانی ؒفرماتے
ہیں: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نیت رات ہی کے کسی حصہ میں کی جائے گی۔ متعدد صحابہ
و تابعین حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت جابر بن یزید اور امام مالک، لیث اور ابن ابی ذئب
وغیرہ نے اس حکم میں فرض اور نفل روزوں کی تفریق نہیں کی۔ (نیل الاوطار، امام شوکانی: ۷/۳۰ مختصراً) امام ابنِ
حزم، امام صنعانی، علامہ ابن عثیمین اور علامہ بن باز نے بھی طویل مناقشہ و تقابل کے
بعد یہی موقف اختیار کیا ہے۔(المحلی، ابن حزم: ۴/۵۱، سبل السلام، صنعانی: ۳/۳۰۸، الشرح الممتع،
ابن عثیمین: ۶/۳۷۲، فتاوی الصیام، ابن عثیمین: ص۱۸۵، الحلل الابریزیۃ بن باز: ۲/۱۳۵)
ان روزوں کو رکھنا شروع کر دینے سے لازم نہیں ہو جاتا کہ چھ
روزوں کو رکھا ہی جائے یا رکھے ہوئے روزہ کو پورا کیا ہی جائے۔ جو چھ روزے رکھ لے تو
بہت بہتر، بصورتِ دیگر روزہ توڑ دینے یا چھوڑ دینے سے اس پر کوئی حرج نہیں۔ اللہ کے
رسولe کا
ارشادِ گرامی ہے: نفلی روزہ رکھنے والا اپنی ذات کا حاکم ہوتا ہے، اگر چاہے تو روزہ
رکھے اور چاہے تو چھوڑ دے۔
جس پر رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے، اس کے لیے افضل ہے کہ
پہلے وہ قضا پوری کرے اگرچہ شوال کے روزے اس سے فوت ہو جائیں۔ ایسا اس لیے کہ رمضان
کے روزوں کی قضا واجب الذمہ ہے جس کی برأت کرنا ضروری ہے۔ نیز وہ فرض ہیں جو بہرحال
نفل کے مقابلے میں مقدم رکھے جانے کا حق دار ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی فرض روزوں کی قضا
کو مؤخر کر کے پہلے شوال کے چھ روزے رکھتا ہے تو اہلِ علم کی اس بارے میں دورائے ہیں:
ایک یہ کہ اس کو اِن روزوں کی فضیلت و ثواب حاصل نہ ہوگا کہ تمام احادیث میں ان روزوں
کا تذکرہ اس طرح آیا ہے کہ ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد انکو رکھا جائے۔ (دیکھیں ابتدا
میں مذکورہ روایات۔
دوسرا قول اس بارے میں یہ ہے کہ اگر اس نے عذرِ شرعی کی وجہ
سے رمضان میں روزے ترک کئے تھے تو وہ ان کی قضا سے پہلے شوال کے روزے رکھ سکتا ہے۔(حاشیہ
البجیرمی علی الخطیب: ۲/۳۵۲) معتدل بات یہ ہے کہ اگر رمضان کے اتنے روزے فوت ہو گئے تھے جنکی
قضا کرنے سے شوال میں چھ روزے رکھنا مشکل ہوگا تو پہلے شوال کے روزوں کو رکھ لیا جائے،
بصورتِ دیگر رمضان کی قضا ہی کو اولیت دی جانی چاہیے۔(حکم صیام الست، خالد المصلح:
ص ۱۵۳)
بعض لوگوں نے سابقہ احادیث کی روشنی میں صیامِ دھر یعنی روزانہ
روزہ رکھنے کو مستحب مانا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر صیامِ دہر مکروہ ہوتا تو
احادیث میں اس سے تشبیہ نہ دی جاتی۔ علامہ ابن القیمؒ اس استدلال کو فاسد مانتے ہوئے
کہتے ہیں کہ وجہ تشبیہ دراصل ایک نیکی کا دس کے برابر ہونا ہے نہ کہ صیامِ دہر۔(تہذیب
سنن ابوداؤد: ۱/۴۹۴) خود اللہ کے رسولe سے صیامِ دہر کے بارے میں استفسار کیا گیا تو آپe نے
فرمایا: ایسے شخص نے نہ روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔
[لا صام ولا أفطر۔]
(صحیح مسلم)
ایک روایت کے الفاظ ہیں: نہیں روزہ دار ہوا وہ شخص جس نے ہمیشہ
روزہ رکھا۔‘‘
[لاصام من صام الأبد۔]
(بخاری، مسلم)
پھر صحیحین میں آپ e ہی کا ارشادِ گرامی ہے کہ حضرت داؤد کا روزہ افضل ترین
ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے۔
[افضل الصیام صیام
داؤد، كان یصوم یوما ویفطر یوما۔] (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
ان روزوں کو کسی اور ماہ میں اسی نیت کے ساتھ رکھنا درست نہیں
کیونکہ یہ نصوص میں وارد تخصیص کے خلاف ہے، نیز ایسا کرنے سے نیک کام میں مبادرت و
مسارعت کے شرعی حکم کا ترک لازم آتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ امر اِن روزوں کی حیثیت کو
مجروح کرتا ہے جو فرائض کے بعد نوافل جیسی ہے۔ (دیکھیں تہذیب سنن ابوداؤد:۱/۴۹۰-۴۹۱)
اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیماری یا رمضان کے روزوں کی قضا کے
باعث شوال میں یہ روزے نہیں رکھے جا سکے تو قریب ترین فرصت میں ان کی قضا کی جا سکتی
ہے اور مانا جائے گا کہ جس طرح فرض یا نفل نمازوں کو کسی عذرِ شرعی کی خاطر مؤخر کیا
جائے تو ان کی قضا کر لینے سے ثواب حاصل ہو جاتا ہے اسی طرح ان روزوں کا معاملہ بھی
ہوگا۔ (الشرح الممتع: ۶/۳۷۲ بالاختصار)
بعض کوتاہ بینوں کا خیال ہوتا ہے کہ ہر سال پابندی سے ان روزوں
کا التزام کرنے سے عوام الناس میں ان کی فرضیت کا غلط تصور پھیل سکتا ہے۔ اس طرح کی
غلط اندیشیاں برخود غلط و فاسد ہیں۔ اس خیال کو مان لیا جائے تو فرض نمازوں کے آگے
پیچھے سنن و نوافل کو ترک کرنا بھی لازم آئے گا۔ مزید یہ کہ اجتماعی تراویح وغیرہ
علاماتِ ماہِ رمضان کا غیاب اور اہل علم حضرات کی وضاحت و رہنمائی کسی ایسے تصور کے
انتشار سے مانع ہوگی۔ حقیقی بات یہ ہے کہ ان روزوں کی شکل میں رب رحمن و رحیم نے ہمارے
لیے خیرات در خیرات لوٹنے اور اپنے جذبہ شکر گزاری و سپاس مندی کو ظاہر کرنے کا زریں
موقع دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{منْ عَمِلَ صَالِحاً
مِّن ذَكرٍ أَوْ أُنثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاة طَیِّبَة وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ
أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا كانُواْ یَعْمَلُونَ٭} (نحل: ۹۷)
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ
مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان
کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں شوال کے روزے رکھنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment