احساسِ گناہ کا فقدان
تحریر: جناب مولانا امیر افضل اعوان
وقت اپنی مخصوص
رفتار کے ساتھ محو سفر ہے، انسان دنیا میں آتا ہے اور ایک مقررہ وقت پر واپس لوٹ جاتا
ہے۔ ماں کی گود میں ہوش سنبھالنے والی اس کی زندگی لب گور ختم ہوجاتی ہے اور دنیا میں
کئے جانے والے نیک و بد اعمال و افعال اس کا زاد راہ بن کر اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ دنیا
کے لیے کی جانے والی محنت کام نہیں آتی اور یہاں سے تو انسان محض اپنے اعمال ہی ساتھ
لیجاتا ہے۔ وقت اپنی مخصوص رفتا ر کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور کچھ عرصہ کے
بعد اس کے وہ متعلقین کہ جن کے لئے وہ جھوٹ و سچ اور نیکی و بدی کی تمیز بالائے طاق
رکھتے ہوئے جی جان لڑا دیتا ہے وہ بھی اسے فراموش کردیتے ہیں‘ اپنے اپنے مسائل میں
الجھ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی تواتر کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ ہم یہ سب کچھ اپنی زندگی
میں بچشم خود دیکھتے بھی ہیں اور اس پر یقین بھی رکھتے ہیں کہ ہمیں ایک مقرر وقت پر
اس دار دفانی سے کوچ کرجانا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس تلخ حقیقت سے پوری طرح آگاہی
کے باوجود دنیا کے ناقص رنگ ہمارے اوپر اس
قدر حاوی ہیں کہ ہم اپنا قبلہ درست نہیں کرپاتے۔ موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو
بخوبی علم ہوتا ہے کہ جھوٹ و فریب سمیت بہت سے گناہ آج ہماری زندگی اور معاشرہ کا
حصہ بن چکے ہیں اور ہم ان چیزوں کو پوری طرح قبول کرچکے ہیں۔ تعجب یہ کہ احکامات خداوندی
سے آگاہی کے باوجود ہم جھوٹ و فریب سے بہت سے گناہوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے ہوئے
ہیں اور ہمارے اندر سے ان امور بارے احساس گناہ ہی ختم ہوچکا ہے۔
بلاشبہ اس دنیا سے رخصتی کا وقت آنے پر در توبہ بند ہوجائے
گا اور اس کے بعد کے تمام مرحلے اللہ پاک کی رحمت کے بعد ہمارے اعمال و افعال کے نتیجہ
میں سرپائیں گے، اسی لئے اسلام ہمیں گناہوں سے بچنے کا درس دیتا ہے۔ یہ بھی بڑی وضاحت
کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ روز حشر جزاء و سزا کا مرحلہ درپیش ہوگا، اسی لئے دنیا
میں معبوث فرمائے گئے انبیاء کرام نے خلق خدا کو بدی کے کاموں سے روکتے ہوئے نیکی کی
ترغیب دی۔ اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’کہہ دو میرے رب
نے صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے خواہ وہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ اور ہر گناہ
کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو بھی اور یہ کہ اللہ پر وہ باتیں کہو جو تم نہیں جانتے۔‘‘
(الاعراف: ۳۳)
یہاں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے کہ اللہ پاک نے ہر
گنا ہ کو حرام قرار دیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو ترک گنا ہ کا حکم
دیتا ہے اور گناہ کی سزا سے بھی ڈرایا جارہا ہے۔ اس حوالہ سے قرآن کریم میںارشاد ربانی
ہے کہ
’’اور ظاہری اور
پوشیدہ (ہر طرح کا) گناہ ترک کردو، جو لوگ گناہ کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا
پائیں گے۔‘‘ (الانعام: ۱۲۰)
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے کہ
’’اور جو گناہ کرتا
ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے اور خدا جاننے والا ہے (اور) حکمت والا ہے۔‘‘ (النساء:
۱۱۱)
یعنی کہ اللہ پاک اپنے بندوں کے اعمال سے بخوبی واقف ہے اور
یہ بات دنیا میں تو ہوسکتی ہے کہ کسی کے کیے کی سزا کسی اور کو مل جائے مگر اللہ رب
العزت کی بارگاہ میں گناہ کا وبال صرف گنہگار کے لئے ہی ہوگا۔
بلاشبہ گناہوں کی طرف انسان کی رغبت اسے مزید خرابیوں کی طرف
گامزن کرتی ہے اور انسان کے گناہوں کی صورت میں ایک غلط روش پیدا ہوتی ہے جس کا خمیازہ
کسی نہ کسی طرح خلق خدا کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مثلا اگر آپ جھوٹ بولتے ہیں تو اس سے لازمی
خرابی پیدا ہوگی ، غلط بیانی سے آپ اگر کسی کا حق کھاتے ہیں تو اس کے بھی یقینا بداثرات
مرتب ہوں گے مگر ان تمام باتوں سے ہٹ کر گناہ کے کام دراصل اپنے خالق و مالک کی نافرمانی
سے عبارت کئے جائیں تو خلاف شرح امور کا معاملہ کہاں جانکلتا ہے‘ اس کا اندازہ ہی لگائیں
تو روح کانپ جاتی ہے مگر انتہائی افسوس کا مقام تو یہ کہ ہم نے کبھی ان معاملات کو
اس زاویہ سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ خیر مختصر یہ کہ کسی نہ کسی گناہ کی صورت اللہ
پاک کی نافرمانی کرنے والی پہلی قوموں کو غرق کردیا جاتا تھا، کسی پر ہوا کا عذاب آیا
تو کسی کو پانی کی غضب ناکی صورت میں گرفت کی گئی۔ اسی حوالہ سے قرآن پاک میں ارشاد
باری تعالیٰ ہے کہ
’’کیا ان لوگوں نے
(اس بات پر) نظر نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر مارا جنہیں ہم
نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو تمہیں نہیں دیا، ان پر ہم نے موسلا دھار مینہ برسایا
اور ان کے نیچے سے نہریں رواں کردیں، پھر ہم نے ان کے گناہوں کے باعث ان کو ہلاک کر
مارا اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوموں کو نکال کھڑا کیا۔‘‘ (الانعام: ۶)
یہاں قوم عاد وثمود کا ذکر کیا جارہا ہے جنہیں بے پناہ طاقت
اور سازو سامان دیا گیا، ان کے باغ اور کھیت شاداب اور عیش وخوشحالی کا دور دورہ تھامگر
جب وہ گناہوں پر آمادہ ہوئے تواور بغاوت اور تکذیب پر کمر باندھی توان کو ایسا پکڑا
کہ نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا جارہاہے کہ
’’اور البتہ ہم تم
سے پہلے کئی امتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جب انہوں نے ظلم اختیار کیا حالانکہ پیغمبر ان
کے پاس کھلی نشانیاں لائے تھے اور وہ ہر گز ایمان لانے والے نہ تھے ہم گناہگاروں کو
ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘ (یونس: ۱۳)
یعنی گناہوں پر اللہ پاک کی طرف سے ڈھیل دیئے جانے کو یہ نہ
سمجھا جائے کہ دنیا میں عذاب آہی نہیں سکتا، پچھلی قوموں کی تاریخ اور ان کی سرکشی
و نافرمانی کی سزا میں مختلف قسم کے عذاب اسی دنیا میں آچکے ہیں، اس امت میں اگرچہ
اللہ تعالی نے سید الانبیاء e کے
اکرام کی وجہ سے یہ وعدہ فرما لیا ہے کہ عذاب عام نہ آئے گا اور اللہ تعالیٰ کے اسی
لطف و کرم نے ان لوگوں کو ایسا بے باک کر دیا ہے کہ وہ آج اپنے گناہوں پر نادم تک
نظر نہیں آتے۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گناہ و ثواب کی تفریق واضح کی
گئی ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی گناہوں سے بچنے کی تلقین اور اس کے وبال و عذاب
بارے تفصیلی بیان ملتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں مذکور ہے۔
سیدنا نعمان بن بشیرt سے روایت ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا کہ ’’حلال بھی کھلا ہوا ہے اور حرام ظاہر ہے ان کے درمیان چند امور مشتبہ ہیں،
چنانچہ جس نے اس چیز کو چھوڑ دیا جس کے گناہ ہونے کاشبہ ہو تو وہ اس کو بھی چھوڑ دے
گا جو صاف گناہ ہے۔ اور جس نے ایسے کام کرنے کی جرات کی جس کے گناہ ہونے کا شک ہو تو
وہ کھلے ہوئے گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱/۱۹۷۲)
اس حدیث مبارکہ میں واضح کردیا گیا ہے کہ گناہ حرام ہے اور گناہ
و ثواب کی تفریق الگ ہے ان میں کوئی یکسانیت نہیں اور یہ کہ گناہوں سے بچنا چاہیے یہاں
تک کہ جو امور مشتبہ ہوں ان میں بھی گریز سے کام لینا چاہیے۔ یہ اس بات کی بھی واضح
دلیل ہے کہ چھوٹے گناہوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ اس کی بھی سخت ہدایت
کی گئی ہے۔ اس حوالہ سے ایک حدیث پاک میں منقول ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہr سے روایت ہے کہ آنحضرتe نے
مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’تو ان گناہوں سے بچی رہ جن کو لوگ حقیر جانتے ہیں اس لئے کہ
اللہ تعالیٰ ان کا بھی مواخذہ کرے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۳/۱۱۲۳)
غور فرمائیے کہ یہا ں ان امور بارے کتنے سخت احکامات ہیں کہ
جن کو ہم روز مرہ زندگی میں معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔
گناہوں کی دلدل میںہمارے مسلسل اترتے جانے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے اندر سے نہ صرف اس کا شعور
ختم ہوتا جارہا ہے بلکہ ہمارے دلوں پر زنگ لگے چکا ہے‘ کیوں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ
یہ امور گناہ کے زمرہ میں آتے اس کے باوجود ہم ان سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس باب
میں ایک حدیث مبارکہ میں مرقوم ہے۔
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا:
’’مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے پھر اگر توبہ کرے
اور آئندہ کیلئے اس سے باز آئے اور استغفار کرے تو اس کا دل چمک کر صاف ہو جاتا ہے
اور یہ دھبہ داغ دور ہو جاتا ہے لیکن اگر اور زیادہ گناہ کرے تو یہ دھبہ سیاہ ہو جاتا
ہے اور ان سے یہی مراد ہے اس آیت میں ’’ہر گز نہیں بلکہ ان کے (بڑے) کاموں سے ان کے
دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔‘‘ (المطففین: ۱۴)
یعنی گناہ سے ڈرتے رہنا اور اس کی عادت ہو جانا‘‘سنن ابن ماجہ،
جلد سوم، حدیث ۱۱۲۴، ذرا غور کیجئے کہ مسلسل گناہوں کی زندگی گزارنے پر ہمیں گناہوں
کی عادت ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے دل کس طرح زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ ہمیں آج بہت سے کاموں پر گناہوں کا شائبہ تک نہیں ہوتا اور بہت سے گناہ
ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ گنا ہ ہے مگر ہماری بدقسمتی کہ ہمیں
ان کی اس طرح عادت ہوچکی ہے۔
معاشرہ پر نظر ڈالی جائے تو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ بہت سے گناہوں
کو ہم نے اپنا اوڑھنا، بچھونا بنا لیا ہے، جن کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں۔ جیسے ہمارے
سسٹم میں جھوٹ ایک رواج کی طرح پرورش پارہا ہے اور یہاں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دنیا
اور اس کا فخریہ اظہار بھی عام سی بات بن چکی ہے۔ بسا اوقات ہم وہاں بھی جھوٹ بولنے
سے گریز نہیں کرتے کہ جہاں اس کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ موبائل پر بھی جھوٹ بڑی روانی
کے ساتھ بولا جاتا ہے اور ہم اپنے گھروں میں بچوں کے سامنے جھوٹ بولتے ہوئے انہیں بھی
اس کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی گھر آئے اور ہم اسے ملنا نہ چاہتے
ہوں تو بچوں کو کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’ ابو گھر پر نہیں ہیں۔‘‘ اسی طرح غیبت بہت بڑا
گناہ ہے مگر ہمارے معاشرہ میں دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی کو ایک فیشن سمجھ کر قبول
کر لیا گیا ہے‘ بلکہ اکثر تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اپنی بات میں وزن بڑھانے کے لئے
ہم اس غیبت کے سلسلے کو بہتان بازی تک لیجاتے ہیں اور وہ باتیں بھی گھڑ لی جاتی ہیں
کہ جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیبت و بہتان کا یہ سلسلہ سینہ بہ سینہ چلتا
ہے اوردوسرے، تیسرے فرد تک بات کا مفہوم یکسر بدل جاتا ہے مگر ہم بڑی کامیابی سے اس
پر کاربند نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں اور گناہ کے کام ہماری روز
مرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں مگر چونکہ ہمیں ان گناہوں کی عادت پڑ چکی ہے‘ اس لئے ہم
ان کے بد اثرات یا عذاب سے بھی خوف نہیں کھاتے اور اسی وجہ سے ہی ہمارے اندر سے احساس
گناہ ہی مفقود ہوتا جارہاہے جو کہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
دنیا سے اپنی رخصت کا وقت آنے سے قبل ہی اللہ پاک کے حضور اپنے ان گناہوں پر صدق دل
سے توبہ کریں۔ ورنہ یاد رہے کہ در توبہ بند ہوجانے کے بعد ہمارے یہی اعمال جن کو ہم
نے اپنا معمول بنارکھا ہے ہمارے گلے کا پھندا بن جائیں گے اور پھر کہیں بھی نجات کی
کوئی صورت نہیں ہوگی۔
No comments:
Post a Comment