حکیم مولانا محمد ابراہیم طارق رحمہ اللہ
تحریر: جناب پروفیسر یٰسین ظفر
۱۹۷۰ء میں جب میں مدرسہ دارالقرآن والحدیث جناح کالونی فیصل آباد
میں داخل ہوا تو یہ ماحول میرے لیے بالکل اجنبی تھا۔ چند دن تو یہ سب چلتا رہا اور
اپنے آپ کو اس ماحول کا عادی بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ میرے ہم جماعت میں شاید میں
ہی اکیلا تھا جس نے مڈل کیا ہوا تھا۔ مجھے بہر حال کسی ایسے ساتھی کی تلاش تھی جو ذرا
کھلے ذہن اور معروضی حالات سے آگاہی رکھتا ہو۔ تاکہ مل جل کر ماحول کو بدلنے میں کوشش
کریں۔ اگرچہ پہلی کلاس کے میرے مہربان اساتذہ میں جناب پروفیسر عبدالقیوم صاحب موجود
تھے۔ وہ بڑی حوصلہ افزا باتیں کرتے جو میری سوچ سے مطابقت رکھتی تھیں۔ ( پروفیسر عبدالقیوم
صاحب آج کل کراچی میں ہیں اور جامعہ احسان میں چند اسباق پڑھاتے ہیں۔ جس کا کو ئی
معاوضہ نہیں لیتے) اسی اثنا میں بڑی کلاسوں میں زیر تعلیم چند ایسے طلبہ سے بھی آشنائی
ہوئی جن سے مل کر مجھے بڑا حوصلہ ہوا۔ ان میں ایک محمود احمد جن کا تعلق کامونکی سے
تھا۔ یہ اپنے ماموں کے گھر چوہڑماجرا میں رہتے تھے اور سائیکل پر آتے تھے۔ ہر روز
بہترین لباس پہنتے۔ گرمیوں میں کاٹن کا استعمال کرتے۔ صاف ستھرے دھلے دھلے سے‘ اللہ
تعالیٰ نے انہیں شکل بھی خوبصورت دی۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی۔ آواز بہت خوبصورت
تھی۔ اذان اس قدر عمدہ کہتے کہ سماں باندھ دیتے۔ فراغت کے بعد کامونکی چلے گئے۔ چند
سال قبل وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔) دوسرے طالب علم
بھی گورے چٹے خوبصورت اور پرکشش چہرے کے مالک تھے۔ شکل سے بہت ہی دانا لگتے۔ اکثر اساتذہ
کرام کی صحبت میں بیٹھتے‘ خاص کر پروفیسر عبدالقیوم صاحب کے ساتھ تو گویا خصوصی تعلق
تھا۔ یہ میرے ممدوح علامہ محمد ابراہیم طارق تھے۔ کشادہ پیشانی ، چمکدار بڑی آنکھیں
، روشن چہرہ لبوں پر مسکراہٹ‘ قابل قبول قد اور مناسب جسم کے مالک ابراہیم طارق سنجیدگی
اور متانت کے پیکر تھے۔ چونکہ میں پہلی کلاس میں تھا‘ لہٰذا انہیں دیکھ سکتا تھا لیکن
بے تکلف نہیں ہو سکتا تھا۔ البتہ کبھی کبھار یہ بڑے لڑکوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے ہوتے
تو میں بھی قریب بیٹھ کر ان کی باتیںسنتا۔ یہ بھی صاف ستھرا لباس زیب تن کرتے اور باوقار
رہتے تھے۔ فضولیات سے اجتناب کرتے تھے۔ اکثر وہ پروفیسر عبدالقیوم صاحب کا سائیکل پکڑ
کر باہر جاتے اور واپس نہ آتے۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے گھریلو تعلقات ہیں
اور اکثر ان کے ہاں قیام بھی کرتے ہیں۔ غالباً دو سال کے عرصہ میں ہمارے درمیان میں
برادرانہ تعلق قائم ہوا اور دکھ سکھ بانٹنے لگے۔ لیکن یہ جلد ہی مدرسہ دارالقرآن سے
جامعہ سلفیہ منتقل ہوگئے اور جامعہ سلفیہ سے فارغ التحصیل بھی ہو گئے۔ آپ کا تعلق
منڈی ڈھاباں (حال منڈی صفدر آباد) سے تھا۔ لہٰذا یہاں آکر دعوت وتبلیغ میں مصروف
ہوگئے۔ میرا تعلق بھی ان سے منقطع ہوگیا۔ میں ۱۹۷۴ء میں جامعہ سلفیہ داخل ہوا اور ۱۹۷۷ء میں فراغت پائی۔
ایک سال جامعہ میں مختلف خدمات انجام دیں پھر مدینہ یونیورسٹی چلا گیا۔ ۱۹۸۲ء کے آخر میں دوبارہ جامعہ سلفہ چلا آیا۔ میاں فضل حق مرحوم کے ساتھ خاص تعلق
کی وجہ سے مختلف پروگرامز میں شرکت کا موقعہ ملتا اور میاں صاحب کے گھر III ملتان روڈ لاہور میں بھی جماعتی احباب سے ملاقات ہو
جاتی۔ یہ ۱۹۸۴ء کا واقعہ ہے کہ میں کسی ضروری کام سے لاہور میاں صاحب کے ہاں
تھا کہ وہاں منڈی ڈھاباں سے حکیم محمد حنیف صاحب چند رفقاء کے ساتھ تشریف لائے۔ ان
میں علامہ ابراہیم طارق بھی تھے۔ انہیں دیکھ کر میں باغ باغ ہو ا۔ ایک مدت بعد ملاقات
ہوئی۔ ہم الگ بیٹھ گئے اور ڈھیروں باتیںکیں۔ حال احوال دریافت کیے اور درمیانی مدت
کی سرگرمیوں پر خوب باتیں کیں۔ گویا یہ سلسلہ دوبارہ بحال ہوا۔
علامہ ابراہیم طارق کی پہلی شادی سانگلہ ہل کے معروف جماعتی
ساتھی اور جامعہ سلفیہ کے مخلص ترین کارکن مولانا محمد ابراہیم مرحوم کی صاحب زادی
سے ہوئی لیکن بوجوہ یہ شادی قائم نہ رہ سکی۔ اس کے بعد حافظ آباد میں حکیم مولوی محمد
ابراہیم کی صاحبزادی سے شادی ہوئی۔ یہ شادی آپ کے لیے بہت خوشگوار ثابت ہوئی۔ اللہ
تعالیٰ نے اولاد صالحہ سے نوازا۔ ان کی اہلیہ بہت صالحہ اور پاک باز خاتون تھیں۔ کالج
میں پڑھاتیں مگر علامہ صاحب کی خوب خدمت مدارت کرتی تھیں۔ علامہ صاحب کا وسیع حلقہ
تھا۔ گھر میں مہمانوں کی آمد ورفت جاری رہتی۔ یہ صحیح ہے کہ اگر خاتون خانہ خدمت کا
جذبہ رکھتی ہو اور آنے والے مہمانوں کا اکرام کرتی ہو تو مرد کا وقار بلند ہوتا ہے۔
مجھے متعدد بار آپ کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر دفعہ اپنائیت ملی۔ گھر جیسا ماحول
اور بہترین مہمان نوازی ۔
جامعہ سلفیہ میں خدمت انجام دیتے ہوئے ا سکی ضرورتوں کو پورا
کرنے کے لیے میں دیہاتوں میں جاتا۔ خاص کر گندم کے سیزن میں تو یہ سلسلہ کافی دراز
ہوتا۔ سانگلہ ہل اور اس کے گرد ونواح میں مولانا محمد ابراہیم مرحوم بہت سرگرمی سے
یہ کام کرتے اور دو سو بوری گندم جامعہ میں پہنچاتے۔ ان کی رحلت کے بعد یہ سلسلہ منقطع
ہوگیا۔ ذاتی رابطے قائم کیے اور سانگلہ ہل کے گردونواح کے متعدد دیہاتوں میں جانا ہوا۔
اس میں علی آباد ، مڑھ بلوچاں وغیرہ شامل ہے۔لیکن منڈی ڈھاباں اور اس کے گرد ونواح
نہ جا سکے۔
اتفاق سے سن ۲۰۰۱ء میں مولانا فاروق
الرحمن یزدانی صاحب بطور مدرس جامعہ سلفیہ میں مقرر ہوئے۔ ان کی وساطت سے جہاں سانگلہ
ہل کے پروگرام کامیاب ہوئے‘ وہاں منڈی ڈھاباں بھی جانے لگے۔ منڈی میں مرکزی جامع مسجد
میں پہلا درس ہوا توعلامہ ابراہیم طارق مرحوم نے ہی استقبال کیا اور درس کے بعد گھر
میں بہترین عصرانہ دیا۔ جماعتی سرگرمیوں پر تفصیلی بات ہوئی۔ نیز جامعہ سلفیہ کے بارے
میں بھی انہوں نے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا اور مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ کچھ
عرصہ بعد باصرار میرا خطبہ جمعہ رکھا۔ میں نے معذرت چاہی مگر قبول نہ کی اور مجبوراً
حاضر ہوا۔ میں نے تعلیم کی اہمیت اور بچوں کی تربیت پر گفتگو کی۔ جمعہ کے بعد نہ صرف
شکریہ ادا کیا بلکہ بے حد توصیفی کلمات سے نوازا۔ اس دن شہر میں تما م مسالک میں مشترکہ
احتجاجی پروگرام تھا اور ریلی کے بعد کسی ایک چوک میں جلسہ بھی تھا۔ ہم پہلے گھر آئے‘
مولانا مرحوم نے بہت اہتمام کیا ہوا تھا۔ بھابھی مرحومہ نے بڑی محبت اور اخلاص سے بہت
عمدہ کھانے تیار کیے اور بڑا دستر خوان سجایا گیا۔ میں بغیر کسی تصنع اور مبالغہ کے
یہ بات کر رہا ہوں کہ مجھے لاتعداد جگہوں پر جانا ہوتا ہے۔ مگر جو محبت تعلق اور اخلاص
مولانا مرحوم کے گھر سے ملا میں الفاظ میں اس کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ کھانے سے فراغت
کے بعد ہم جلسہ گاہ پہنچے۔ جہاں جم غفیر موجود تھا۔ نہایت پرچوش تقرریں ہو رہی تھیں۔
مجھے بھی کچھ کہنے کو کہا گیا۔ نہایت سادہ الفاظ میں اپنامدعا بیان کیا اور مطالبات
کی حمایت کی۔ میرے بعد علامہ ابراہیم طارق کا خطاب ہوا۔ بلامبالغہ انہوں نے عوام کی
صحیح ترجمانی کی اور نعروں کی گونج میں حکومت کو للکارا۔
آپ منڈی ڈھاباں میں ہردلعزیز تھے۔تمام مکاتب فکر سے علماء اور
عوام آپ سے یکساں محبت کرتے اور سب کے دلوں میں بے حد احترام تھا۔ آپ بہت خلیق اور
ملنسار تھے۔ ہمیشہ آنے والوں کو خندہ پیشانی سے ملتے۔ مسائل سنتے اور حل کرنے کی ہر
ممکن مدد کرتے تھے۔ منڈی میں اتحاد واتفاق کی فضا قائم تھی۔ تمام شہری مسائل کو مل
جل کر حل کرتے تھے۔
آپ ایک طرف مذہبی رہنما تھے تو دوسری طرف مرکزی جمعیت اہل حدیث
سے گہری وابستگی کی وجہ سے سیاست میں بڑا قدرکھتے تھے۔ علاقے کے سیاسی قائدین آپ کا
بے حد احترام کرتے تھے۔ ان کی حمایت کے بغیر کسی بھی سیاسی لیڈر کی کامیابی ممکن نہ
تھی۔ آپ کا تیسرا پہلو سماجی خدمات اور رفاہی کاموں میں حصہ لینا تھا۔ یہ کام انسان
کو تمام لوگوں میں محبوب بنا دیتا ہے۔ لہذا آپ کسی بازار یا گلی سے گزرتے تو لوگ ادباً
کھڑے ہو جاتے۔ آپ چونکہ حکمت بھی کرتے تھے جس کی وجہ سے علاقے بھر کے لوگ آپ سے بخوبی
متعارف تھے۔
آپ دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں متعدد دیہاتوں میں جاتے تھے اور
بلا معاوضہ یہ خدمت سرانجام دیتے تھے۔ ہمارے رفقاء میں ایک مولانا عبدالستار مرحوم
بھی تھے۔ جب آپ کی صحت اچھی تھی تو بکثرت فیصل آباد آتے اور بارہا جامعہ سلفیہ تشریف
لاتے۔ آپ کو برادرنسبتی ممتاز عالم دین اور خطیب قاری محمد اسماعیل اسد کے ساتھ خاص
پیار تھا۔ اکثر یہ دونوں احباب جامعہ میں تشریف لاتے اور بعض دفعہ محترمہ بھابھی صاحبہ
بھی ہمراہ ہوتیں تو ہمیں بھی خدمت کا موقعہ ملتا۔ آپ دل کے عارضہ میں مبتلا ہوئے تو
اہلیہ نے خوب خیا ل رکھا۔بلکہ کسی جگہ اکیلے نہ جانے دیتیں۔ فاروق آباد میں مولانا
محمد یحییٰ خلیق کی وفات ہوئی تو ہم جنازہ میں شرکت کے لیے گئے۔ اسٹیشن کے قریب جنازہ
ہوا۔ لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جنازہ سے فراغت کے بعد علامہ صاحب سے ملاقات
ہوئی۔ فرمانے لگے کہ آپ کی بھابھی بھی آئی ہیں اور یاد کر رہی ہیں۔ میں خود جا گر
ملا ۔ وہ گاڑی میں تشریف فرما تھیں۔ بہت خوش ہوئیں اور بڑی دعاؤں سے نوازا۔ اس کے
تقریباً دس دن بعد مولانا یزدانی صاحب نے اطلاع دی کہ علامہ ابراہیم طارق کی اہلیہ
رحلت فرماگئی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو
گی۔ وہ تو بالکل تندرست تھیں۔ البتہ علامہ صاحب علیل ہیں۔ فرمانے لگے نہیں‘ ان کی اہلیہ
کو بخار ہوا اور اسی وجہ سے رحلت کر گئی۔ دوسرے دن جنازہ تھا۔ غالباً یہ منڈی ڈھابا
ںکا تاریخی جنازہ تھا۔ میں نے ایک مقامی آدمی کو یہ کہتے سنا کہ جب یہ جناز گاہ بن
رہی تھی تو میں نے کہا کہ اتنی بڑی جناز ہ گاہ کی کیا ضرورت ہے ؟ لیکن آج احساس ہوا
کہ اس کا دامن بھی تنگ پڑ گیا۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی وفات پر پورا شہر امڈ
آتا ہے۔
علامہ ابراہیم طارق صاحب اپنی اہلیہ کی جدائی پر بے حد افسردہ
تھے مگر رضائے الٰہی پر راضی تھے۔ بڑے صبر وتحمل سے یہ صدمہ برداشت کیا۔ ان کے بچے
لاہور (ٹھوکر نیاز بیگ ویسٹ وڈ کالونی) میں رہائش پذیر ہیں۔ علامہ صاحب بھی وہاں منتقل
ہو گئے۔ البتہ منڈی صفدر آباد میں مسلسل رابطہ اور خطبہ جمعہ دینے تشریف لاتے رہے۔
علالت کے باعث بعض دفعہ کوئی اور صاحب خطبہ جمعہ دیتے تھے۔ ان سے گاہے بگاہے رابطہ
رہا۔
شعبان کے شروع میں منڈی صفدر آباد میں ایک تقریب میں شریک ہوا۔
تو علامہ مرحوم کی بہت یاد آئی۔ میں نے تفصیل سے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا اور ان
کی عدم موجودگی پر اظہار افسوس بھی کیا۔تقریب کے منتظمین نے بتایا کہ انہیں دعوت دی
گئی تھی لیکن علالت کے باعث تشریف نہ لائے۔ واپسی پر میری ان سے فون پر بات ہوئی۔ خاص
کر مرکزی جامع مسجد کے مستقبل کے بارے میں انہوں نے بھی خیر سگالی کے جذبات کا اظہار
کیا اور فرمایا کہ بہت جلد مل کر کوئی فیصلہ کریں گے۔ لیکن بیماری نے یہ فرصت نہ دی
اور دن بدن صحت خراب ہوتی چلی گئی۔ میری آخری بار ٹیلی فون پر بات ۲۸ اپریل ۲۰۱۹ء بروز اتوار بعد نماز مغرب ہوئی۔ جب میں جامعہ محمدیہ شیخوپورہ کی تقریب اختتام
صحیح بخاری کی تقریب میں شامل تھا۔ کافی علیل تھے اور آواز میں کمزوری تھی۔ لیکن خیالات
بہت بلند تھے اور مستقبل کے بارے میں بڑے پرعزم تھے۔ میں بھی رمضان المبارک سے قبل
مصروف ہوگیا اور دوبارہ رابطہ نہ کر سکا۔ اچانک جمعرات کو مولانا فاروق الرحمن نے گلو
گیر آواز میں یہ اندوھناک خبر سنائی کہ علامہ ابراہیم طارق ہمارے درمیان نہ رہے۔ انا
للہ وانا الیہ راجعون۔ اور فرمایا کہ ان کے بچوں کی خواہش ہے کہ حضرت حافظ مسعود عالم
صاحب جنازہ پڑھائیں۔ میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی اور حافظ صاحب کو پابند کردیا۔
دوسرے دن ہم ظہر سے قبل ہی فیصل آباد سے روانہ ہوئے اور ظہر
کی نماز منڈی میں ادا کی۔ پھر مرکزی جنازگاہ چلے گئے۔ جہاں تھوڑی دیر بعد جنازہ لایا
گیا۔ دو بجے کا وقت مقرر تھا۔ جنازہ سے قبل مجھے چند جملے ادا کرنے کا حکم ہوا۔ میں
نے علامہ ابراہیم طارق کی مذہبی ، دینی، دعوتی، سیاسی اور سماجی خدمات پر خراج تحسین
پیش کیا۔ تمام اہل خانہ اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا اور بتایا کہ موصوف جامعہ سلفیہ
سے گہری محبت رکھتے تھے۔ لہٰذا آج ہم خود ایک مدبّر اور دانا عالم دین کی محبت شفقت
سے محروم ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ان کے چھوٹے بھائی بریگیڈیئر محمدیوسف نے بھی گفتگو فرمائی
اور کہا کہ آج چالیس سال بعد ہم دوبارہ باپ کی شفقت سے محروم ہوئے ہیں،۔ کیونکہ علامہ
صاحب میرے بڑے بھائی نہ تھے بلکہ انہوں نے ہمیں باپ کی شفقت سے نوازا۔ انہوں نے عوام
سے اپیل کی کہ وہ خلوص سے دعا مغفرت فرمائیں۔ انہوں نے بتایا کہ علامہ ابراہیم طارق
کی موت قابل رشک ہے۔ انہوں نے آخری لمحات میں اپنے بیٹے اور ایک ساتھی کو بلایا ۔
ان کے سامنے تین بار کلمہ پڑھا اور کہا کہ گواہ رہنا کہ میں اس حالت میں اللہ کے حضور
پیش ہو رہا ہوں ۔ حدیث میں ہے [من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنة] انہوں نے کہا کہ
یہ حسن خاتمہ کی دلیل ہے۔
حضرت حافظ مسعود عالمd نے بھی ان کی وفات کو دینی وملی نقصان قرار دیا اور
ان کی خدمات کو سراہا۔ پھر رقت آمیز انداز میں نماز جنازہ پڑھائی اورمرحوم کے لیے
دعا مغفرت کی۔
اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
No comments:
Post a Comment