درسِ قرآن
تحفظِ ذات
ارشادِ باری ہے:
﴿الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ
هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ۰۰۴ اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ۰۰۵﴾ (لقمان)
’’جولوگ نماز قائم
کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ لوگ جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔یہی لوگ اپنے
رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے خصائص قرآن کریم میں بیان کیے ہیں
جو واضح طور پر انسان کی کامیابی کی ضمانت ہیں ۔وہ کون سی خصلتیں اور خصوصیا ت ہیں
جو انسان کو فلاح یاب بنا دیتی ہیںاور وہ کون سا کردار ہے جس کو اختیار کرنے سے دنیا
و آخرت کی فلاح انسانیت کا مقدر بن سکتی ہے؟قرآن کریم کی روشنی میں فلاح نہ صرف احکام
الٰہی کی پابندی کے ساتھ مشروط ہے بلکہ تعلیماتِ قرآنی اس امر کی بھی متقاضی ہے کہ
اہل حق جہاں خود ہدایت پر کاربند ہوں وہاں لوگوں کی رہنمائی اور ہدایت کا بھی سامان
کریںاور پورے معاشرے کو اسلامی تعلیمات پر کاربند رکھنے کی تگ ودو کریں:
﴿وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ
اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ
عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۰۰۱۰۴﴾ (ال عمران)
’’اور تم میں سے
ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی
کا حکم دیںاور برائی سے روکیں اور وہی لوگ بامراد ہیں۔‘‘
اسی طرح خسارہ سے محفوظ اور کامیاب لوگوں کی خصلت کی طرف اشار
ہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿اِلَّاالَّذِيْنَ
اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْابِالْحَقِّ١ۙ۬وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِؒ۰۰۳﴾(العصر)
’’( سب خسارہ میں
ہیں )سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرہ میں)ایک دوسرے
کو حق کی تلقین کرتے رہے اور (راہ حق میں پیش آمدہ مصائب میں)باہم صبر کی تاکید کرتے
رہے۔‘‘
ان اَوصاف کے حامل اہل ایمان کو قرآن حکیم نے حزب اللہ اورکامیاب
کہا ہے :
﴿رَضِيَ اللّٰهُ
عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ
هُمُ الْمُفْلِحُوْنَؒ۰۰۲۲﴾ (المجادلة)
’’اللہ ان سے راضی
ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے یاد رکھو! یہی اللہ کی جماعت ہے۔بیشک اللہ کی جماعت
ہی مرادپانے والی ہے۔‘‘
درسِ حدیث
اللہ کی راہ پر کون؟!
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِﷺ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً،
وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيُقَاتِلُ رِيَاءً، أَيُّ ذٰلِكَ فِي سَبِيلِ اللهِ؟ فَقَالَ
رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ
فِي سَبِيلِ اللهِ". ] (متفق علیه)
سیدنا ابوموسیٰt سے
روایت ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہe سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کے جوہر دکھانے
کے لیے لڑتا ہے‘ ایک شخص غیرت کے نام پر لڑتا ہے اور ایک شخص دکھلاوے کے لیے لڑ رہا
ہے‘ ان میں سے کونسا شخص اللہ کی راہ میں ہے؟ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اس لیے لڑائی کرتا ہے کہ اللہ کا دین بلند ہو جائے پس وہی اللہ
کی راہ میں ہے۔‘‘
ہر کام میں نیت کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ ایک شخص اس نیت سے کھونٹا
گاڑتا ہے کہ کوئی مسافر اپنی سواری کو باندھ سکے اور ایک شخص اس کھونٹے کو اس نیت سے
اُکھاڑ دیتا کہ کوئی راہگیر اس سے ٹھوکر کھا کر گر نہ جائے۔ یہ دونوں کام ایک دوسرے
کے برعکس ہیں لیکن دونوں ثواب کے مستحق ہیں‘ اس لیے کہ دونوں کی نیت درست ہے۔ ایسے
ہی تلاوت کردہ حدیث میں تینوں افراد ایک ہی کام کر رہے ہیں مگر ان میں سے کسی
شخص کا کام اللہ کی نظر میں قابل ستائش نہیں۔ اسی طرح اگر نیت میں فطور ہو تو سخاوت‘
شہادت اور علم بھی کام نہیں آتے۔ حالانکہ یہ تینوں کام بہت نفع بخش اور جنت میں داخلے
کا سبب ہیں مگر نیت کی خرابی کی بنا پر اللہ فرما دے گا تم تو اس لیے سخاوت کرتے رہے
کہ لوگ کہیں یہ شخص بڑا سخی ہے۔ تم تو اس لیے بہادری کے جوہر دکھاتے رہے کہ لوگ کہیں
فلاں بڑا بہادر ہے اور تم تو اس لیے پڑھتے پڑھاتے رہے کہ لوگ کہیں یہ بڑا عالم ہے تمہاری
نیت اور خواہش کے مطابق لوگوں نے تمہیں وہ کچھ کہا جو تمہاری خواہش تھی اور انہیں اُلٹے
منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ رسول اللہe سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کے اظہار کے لیے
لڑتا ہے اور ایک شخص غیرت کے لیے لڑتا ہے اور ایک شخص ریا کے لیے لڑتا ہے‘ ان تینوں
میں سے اللہ کی راہ میں مجاہد کون ہے؟ آپe نے فرمایا: ان میں سے کوئی بھی اللہ کی راہ میں نہیں
ہے‘ اللہ کی راہ میں تو وہ شخص ہے جو صرف اور صرف اس لیے لڑ رہا ہے کہ اللہ کی آواز
بلند ہو۔ توجہ فرمائیں کہ سب کا کام ایک ہی ہے۔ یعنی لڑائی کرنا مگر نیت کی درستگی
کی بنا پر صرف اسی کا جہاد قبول ہو گا جو اللہ کی بات کو بلند کرنے کے لیے لڑ رہا ہے۔
ہر مسلمان کو ہمیشہ اپنی نیت کا زاویہ درست رکھنا چاہیے تا کہ اعمال قبولیت کے مرتبہ
کو پہنچیں۔ کتنا ہی اچھا عمل کیوں نہ ہو اگر اس میں نیت اللہ کی رضا کے علاوہ کوئی
اور ہو گی تو اس پر ثواب مرتب نہیں ہو گا اور نہ ہی اسے توبہ کی توفیق نصیب ہو گی اس
لیے کہ وہ اپنے کام کو اچھا سمجھ کر کیے جا رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment