Sunday, July 14, 2019

سیدنا زید بن ثابت﷜ 12-2019


سیدنا زید بن ثابت﷜

تحریر: جناب مولانا محمود احمد غضنفر
سنہ ۲ ہجری ہے،مدینہ منورہ میں چہل پہل دکھائی دے رہی ہے، مجاہدین غزوۂ بدرکی تیاری میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ نبی کریمe اپنی قیادت میں جہاد کے لئے روانہ ہونے والے پہلے لشکر پرطائرانہ نگاہ ڈال رہے ہیں کہ اچانک ایک تیرہ سالہ لڑکا جس کے چہرے پرذہانت، متانت، شرافت اورخودداری کے نقوش نمایاں نظر آرہے تھے ہاتھ میں اپنے قدسے بھی لمبی تلوار پکڑے رسول اللہe کے قریب آیا اورعرض کی یا رسول اللہ! میں آپ پہ قربان جاؤں، مجھے اپنے ساتھ لے لیجئے تاکہ میں آپ کے جھنڈے تلے جہاد کی سعادت حاصل کرسکوں۔
رسول اکرمe نے اسے خوشی اورتعجب سے دیکھا اوراس کے کندھے پرمحبت وشفقت بھرے انداز میں تھپکی دی، اس کے دل کو خوش کیا اورکم عمری کی بناپراسے واپس لوٹادیا۔
یہ نوعمرلڑکا اپنی تلوار زمین پرگھسیٹتا ہواغم واندوہ کی تصویر بناہوا واپس لوٹاکیونکہ وہ پہلے غزوے میں رسول کریمe کی رفاقت حاصل کرنے سے محروم ہو گیا تھا۔ اس کے پیچھے ان کی والدہ محترمہ نواربنت مالک غم واندوہ سے نڈھال واپس لوٹیں، کیونکہ ان کے دل کی یہ تمنا تھی کہ میرالخت جگر رسول کریمe کے جھنڈے تلے مجاہدین کے شانہ بشانہ دادِ شجاعت دے اور مجھے یہ منظردیکھ کرآنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو۔ کاش کہ آج اس کا باپ زندہ ہوتا توضروررسول کریمe کی قیادت میں اس غزوے میں شمولیت کی سعادت حاصل کرتا۔
لیکن جب اس انصاری بچے نے اپنی نوعمری کی بناپر میدان جہاد میں رسول اقدسe سے قرب حاصل کرنے میں اپنی ناکامی دیکھی تواس کے ذہن رسا میں نبی کریمe کا تقرب حاصل کرنے کا ایک اورطریقہ آیا جس کا عمرکے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا تعلق علم اورقرآن مجیدکے حفظ سے تھا، جب اس نے اپنی والدہ سے اس کا تذکرہ کیا تووہ بہت خوش ہوئیں اوریہ طریقہ آزمانے کے لئے مستعد وچوکس ہوگئیں۔
والدہ محترمہ نے اپنی قوم کے چیدہ افرادسے اپنے لختِ جگرکی رائے اوراندازِ فکر کاتذکرہ کیا تووہ اسے اپنے ہمراہ رسول کریم e کی خدمت اقدس میں لے گئے۔ اورعرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے بیٹے زید بن ثابت کوقرآن مجید کی سترہ سورتیں زبانی یادہیں اوریہ اس طرح درست پڑھتاہے جس طرح آپ کے قلب مبارک پہ نازل کی گئی تھیں، علاوہ میں یہ بڑاذہین اورلکھناپڑھنا بڑی اچھی طرح جانتا ہے، ان خوبیوں کی وجہ سے وہ آپ کا قرب اورآپ کے دامن سے لپٹناچاہتاہے، آپ چاہیں تو اس سے سن لیں۔ رسول اکرمe نے اس ہونہارلڑکے زید بن ثابتt سے کچھ سورتیں سنیں توالفاظ کی عمدہ ودرست ادائیگی اورخندہ پیشانی ،شیریں کلامی سے آپ بہت متاثر ہوئے۔ اس کے ہونٹوں پرقرآنی کلمات اس طرح چمکتے تھے جس طرح آسمان پر تارے چمکتے ہیں، اس کی تلاوت اپنے اندربے پناہ جاذبیت رکھتی تھی، تلاوت کا ٹھہراؤاس کے تروتازہ حافظے اورفہم وفراست پر دلالت کرتا تھا، رسول کریمe اس ہونہار لڑکے میں یہ خوبیاں دیکھ کربہت خوش ہوئے اورآپ کو زیادہ خوشی اس سے ہوئی کہ وہ عربی زبان عمدہ انداز میں لکھنا بھی جانتا ہے۔ نبی کریمe نے اس کی طرف محبت بھرے انداز سے دیکھا اور ارشاد فرمایا: ’’اے زید! میرے لئے یہودکی زبان عبرانی لکھنا بھی سیکھو،مجھے ان پر اعتماد نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا: حاضر اللہ کے رسول! فوراً عبرانی زبان سیکھنا شروع کردی اورتھوڑے ہی عرصہ میں اس زبان میں مہارت پیداکرلی۔ رسول اللہe یہودکی طرف کوئی پیغام لکھ کربھیجنا چاہتے توجناب زید بن ثابتt تحریر کرتے اورجب وہ کوئی خط بھیجتے تویہ آپ کو پڑھ کر سناتے۔
پھررسول اللہe کے حکم کے مطابق عبرانی کی طرح سریانی زبان بھی سیکھ لی اوریہ نوجوان زید بن ثابتt، رسول اقدسe کا ترجمان بن گیا اوراس طرح انہیں آپ کا قرب حاصل ہوا۔
جب نبی کریمe کو سیدنا زید کی متانت، دیانت، امانت اورمعاملہ فہمی پرمکمل اعتماد ہوگیا تو انہیں خدائی پیغام ضبط تحریر میں لانے کے لئے کاتب وحی کے اہم منصب پرفائز کر دیا گیا۔ جب قرآن مجیدکی کوئی آیت آپ کے قلب مبارک پرنازل ہوتی تو سیدنا زیدt کوبلاتے اوراسے لکھنے کا حکم دیتے، تووہ اسے لکھ دیتے۔ سیدنا زید بن ثابتt، وقتا فوقتا رسول کریمe سے قرآنی تعلیمات حاصل کرتے اوراس طرح دن بدن ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہونے لگا اوروہ آپ کے ذہن مبارک سے تازہ ترین دینی احکامات سنتے، ان کے اسبابِ نزول معلوم کرتے جن سے ان کے دل میں انوارِ ہدایت سے چمک پیداہونے لگی اوران کی عقل اسرارِ شریعت سے منورہونے لگی‘ یہاں تک کہ یہ نوجوان قرآن مجیدکا ماہر اور وصال رسولe کے بعدامت محمدیہ کے لئے مرجع اوّل بنا۔ سیدنا صدیق اکبرt، کے دورِ خلافت میں جن صحابہ کرام کو قرآن مجید جمع کرنے کا فرض سونپاگیاان میں یہ سرفہرست تھے۔
سیدنا عثمانt کے دورِ خلافت میں جن صحابہ کرام نے قرآن مجید کے متعددنسخوں کویکجا کیا ان میں بھی ان کی حیثیت نمایاں تھی، کیا اس سے بڑھ کربھی کوئی مرتبہ ہوسکتا ہے جس کی کسی کوتمناہو؟
قرآن مجید کی برکت سے سیدنا زیدبن ثابتt کے لئے ایسے کٹھن مراحل میں صحیح سمت اختیار کرنے کے راستے روشن ہوجاتے جب کہ بڑے بڑے عقل مندحیران وپریشان ہوجایاکرتے تھے۔
مہاجرین نے کہا: رسول اقدسe کی خلافت کاحق ہمارا ہے، انصارمیں سے چند ایک نے کہا: خلافت کے حقدار ہم ہیں،اوربعض انصارکہنے لگے کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہواورایک مہاجرین میں سے ہو، کیونکہ رسول اقدسe جب کبھی کسی علاقے میں مہاجرین میں سے اپناکوئی نمائندہ بناکربھیجتے تواس کے تعاون کے لئے ایک انصاری کوساتھ ملادیا کرتے تھے، قریب تھاکہ یہ فتنہ سنگین صورت اختیار کرجاتا، حالانکہ اللہ کے نبیe کفن میں ملبوس ان کے سامنے تھے‘ ابھی آپ کے جسداطہر کودفن نہیں کیاگیا تھا،ایسے نازک ترین موقع پرضروری تھاکہ قرآن مجید کی برکت سے کوئی ایسی اچھوتی، حیرت انگیز اورمحتاط بات سامنے آئے جس سے یہ فتنہ فوری طورپردب جائے، یہ بات سیدنا زید بن ثابت انصاریt، کی زبان مبارک سے نکلی جب انھوں نے اپنی قوم کی طرف دیکھا توارشاد فرمایا کہ اے خاندان انصار! رسول کریمe مہاجرین میں سے تھے، آپ کا خلیفہ بھی مہاجر ہوگا۔
ہم جس طرح رسول اللہe کے انصارومددگار تھے اسی طرح ان کے خلیفہ کے بھی انصارومددگار ہوں گے، پھر اپناہاتھ سیدنا صدیق اکبرt، کی طرف بڑھایا بیعت کی اورفرمایا کہ یہ تمہارے خلیفہ ہیں ان کی بیعت کرو۔
سیدنا زیدبن ثابتt، قرآن مجید کی برکت اورطویل زمانہ رسول کریمe کی صحبت کی بناپر مسلمانوں کے لئے مینارۂ نور اوران کے ہادی ومرشدبن گئے۔
خلفائے عظام مشکل ترین مسائل کے حل کرنے میں ان سے مشورہ لیتے، عوام الناس فقہی مسائل میں ان سے فتویٰ لیتے، خاص طورپروراثت کی تقسیم کے سلسلہ میں ان سے زیادہ ماہراورکوئی نہ تھا، فتح دمشق کے موقع پر خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروقt نے جابیہ نامی بستی میں مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’لوگو! جو تم میں سے قرآن مجید کے متعلق معلومات حاصل کرناچاہے، وہ زیدبن ثابت کے پاس جائے، جوتم میں سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھنا چاہے وہ معاذ بن جبلt کی طرف رجوع کرے اورجس کسی کو مال چاہئے وہ میرے پاس آئے کیونکہ مجھے مسلمانوں کے مال کی نگرانی اوراس کی تقسیم کا اختیاردیا گیاہے۔‘‘
صحابۂ کرام اورتابعین ذی وقارمیں سے علم حاصل کرنے والوں نے سیدنا زیدبن ثابتt، کی صحیح معنوں میں قدرپہچانی، علمی مرتبہ اورفضل وشرف کی بناپر ان کی تعظیم بجالائے۔
اس حیرت انگیز منظر کا مشاہدہ کروکہ علم کابحربے کنار سیدنا عبداللہ بن عباسw، سیدنا زید بن ثابتt کی تعظیماً سواری کی لگام پکڑے کھڑے ہیں، سیدنا زید بن ثابتt نے کہا: رسولِ اقدسe کے چچازاد بھائی گھوڑے کی لگام چھوڑیئے مجھے شرمندہ نہ کیجئے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسw، نے ارشاد فرمایا: ’’اسی طرح اپنے علماء کی عزّت کرنے کاحکم دیا گیاہے۔‘‘
سیدنا زیدبن ثابتt نے سیدنا عبداللہ بن عباسw سے کہا: ’’مجھے اپناہاتھ دکھلایئے۔‘‘ انہوں نے اپناہاتھ ان کی طرف کیا، تو انہوں نے اسے پکڑکر چوم لیا اور فرمایا: ’’ہمیں اپنے پیارے نبیe کے اہل بیت کے ساتھ اسی طرح محبت کرنے کاحکم دیاگیاہے۔‘‘
سیدنا زیدبن ثابتt، اپنے رب کو پیارے ہوئے تومسلمان زاروقطار روئے کہ آج علم کا خزانہ مٹی میں دفن ہوجائے گا، سیدنا ابوہریرہt، نے فرمایا: ’’آج اس امت کامتبحرعالم دنیا سے کوچ کرگیا، کاش! اللہ تعالیٰ عبداللہ بن عباسw کواس کا نعم البدل بنادے۔‘‘


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)