خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید
تحریر: جناب مدیر اعلیٰ کے قلم سے
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خوں غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
23 مارچ 1987ء
کو جمعیت اہلحدیث
پاکستان پر مینار پاکستان کے پہلو میں جو سانحہ گزرا وہ اپنے نتائج و عواقب کے اعتبار
سے انتہائی غمناک اور المناک تھا۔ متعدد فعال اور سرگرم کارکنوں کے شہید اور زخمی ہونے
کے علاوہ جمعیت اہلحدیث اپنے چار انتہائی قابل قدر اور عظیم رہنمائوں، حضرت علامہ احسان
الٰہی ظہیرؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن یزدانیؒ، حضرت مولانا عبدالخالق قدوسیؒ اور جناب
محمد خان نجیبؒ سے محروم ہو گئی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ نہ صرف جمعیت اہلحدیث بلکہ
پورے عالم اسلام کی متاع عزیز تھے بلکہ آپ کی ہمہ جہت خدمات ملک و ملت کی تاریخ کا
ایک روشن باب ہیں۔ آپ کی خوبصورت اور پروقار شخصیت جہاں باطل کیلئے شمشیر برہنہ تھی
وہاں حق گوئی اور راست بازی کیلئے شفقت و محبت اور خلوص و وفا کا حسین مرقع تھی۔ اسی
طرح مولانا حبیب الرحمن یزدانی نے مسلک اہلحدیث کی ترویج و اشاعت اور دعوت و تبلیغ
کیلئے شب و روز جس قدر محنت کی اس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ مولانا عبدالخالق
قدوسیؒ اور محمد خان نجیبؒ کی دینی و جماعتی خدمات نہایت قابل قدر ہیں۔ سچی بات یہ
ہے کہ اب علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کی للکار، حضرت یزدانی کی یلغار، حضرت قدوسی کی پکار
اور محمد خاں نجیبؒ کی دھاڑ سنائی نہیں دیتی۔
امام کعبہ الدکتور صالح ابن حمید کے تاثرات:
23 مارچ کے سانحہ سے
اگلے سال ہم نے قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوریؒ اور مولانا محمد یوسفؒ ضیاء (قلعہ دیدار
سنگھ) کے ہمراہ کویت اور سعودی عرب جانے کا پروگرام طے کیا تا کہ سعادت عمرہ کے ساتھ
ساتھ ماہنامہ ترجمان الحدیث لاہور کے ’’شہدائے اہلحدیث‘‘ نمبر اور ’’علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ ایک عہد، ایک تحریک‘‘
کتاب کے لئے عرب شیوخ کے تاثرات حاصل کئے جائیں۔ ان سطور میں صرف امام کعبہ کے مختصر
تاثرات دئیے تفصیلی انٹرویو ’’ترجمان الحدیث‘‘ کے شہدائے اہلحدیث نمبر میں ملاحظہ کیا
جا سکتا ہے۔ جو اپریل 1988ء میں شائع ہوا۔
انٹرویو کا وقت طے تھا چنانچہ ایک روز صبح دس بجے سینیٹر ڈاکٹر
حافظ عبدالکریم صاحب (ناظم اعلیٰ) مولانا محمد یوسف ضیاء، حافظ عبدالغفار ریحان اور
عزیزی شاہد بشیر کی معیت میں امام کعبہ کی رہائش پر حاضر ہو گئے۔ ترجمانی کا فریضہ
حافظ عبدالغفار ریحان نے انجام دیا۔ میرے استفسار پر علامہ شہیدرحمہ اللہ کے بارے میں
فرمایا کہ حضرت علامہ مرحوم عربی میں اپنے ایک الگ حکیمانہ اسلوب تحریر کے موجد تھے۔
انہوں نے کسی کا اسلوب نہیں اپنایا۔ ان کی تحریر میں عجیب قسم کا بانکپن تھا۔ زبان
پر کمال قدرت‘ اظہار خیال پر مکمل قابو، انداز میں خود اعتمادی، اسلوب میں شائستگی
اور پیرایہ اظہار میں تازگی تھی۔ عجمی ہونے کے باوصف ان کے لب و لہجہ سے عربیت ٹپکتی
تھی۔ انہوں نے فِرق پر جتنی کتابیں لکھی ہیں ان کے حوالوں پر مکمل اعتماد کیاجا سکتا
ہے۔ علامہ شہید بنیادی طور پر خطیب تھے اس لئے ان کی تحریر میں بھی خطابت کا رنگ نمایاں
ہے۔ شیخ صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی بجائے علامہ شہیدؒ
کی عربی تحریر میں زیادہ چاشنی ہے۔ جس طرح ان کی خطابت میں آبشار کا بہائو اور پہاڑوں
کا جلال تھا اسی طرح ان کی تحریر میں جلال بھی ہے اور جمال بھی۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا
کہ مرحوم کی کتابوں پر دکتورہ ہونا چاہیے۔ تا کہ ان کی اہمیت اور معنویت مزید اجاگر
ہو سکے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ علامہ شہیدؒ نے بہت تھوڑی عمر پائی اور بہت زیادہ کام کیا
ہے۔
جناب قائد اہلحدیث پروفیسر سینیٹر ساجد میرd
امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میر صاحب نے لکھا کہ وہ خطیب
بھی تھا اور ادیب بھی، مصنف بھی تھا اور مفکر بھی اور محرک بھی اور سب سے بڑی بات یہ
ہے کہ وہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو مسلک اور جماعت کے فائدے کیلئے استعمال کرنا جانتا
تھا۔
جناب پروفیسر عبدالجبار شاکرؒ
ممتاز سکالر پروفیسر عبدالجبار شاکر (رحمہ اللہ) ڈپٹی ڈائریکٹر
دعوہ اکیڈمی اسلام آباد نے لکھا کہ میدان خطابت میں وہ شیر کی طرح گرجتے، چیتے کی
طرح لپکتے، ہیرے کی طرح دمکتے اور موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔ ان کی فکر میں شاہین کا
تجسس اور نظر میں عقاب کی سی لپک تھی۔ ان کی حیات جو ایک شعلۂ مستعجل کی صورت تھی،
سراسر غیرت ایمانی اور حمیت دینی سے لبریز تھی۔ وہ توحید الٰہی کی پرکار، حب نبویe میں
سرشار، جماعت اہلحدیث کا افتخار، علم و تحقیق کی دستار، قلم و قرطاس کا وقار، حریت
و حمیت کی تلوار، آئمہ سلف کا کردار، آمروں کے لئے للکار اور خیر القرون کا تذکار
تھے۔
جناب آغا شورش کاشمیریؒ
علامہ شہید کے بارے میں آغاز شورش کاشمیری نے لکھا کہ انشاء
پردازی ان کی جیب کی گھڑی اور تقریر وخطابت ان کے ہاتھ کی چھڑی ہے۔ یہ مستقبل میں برصغیر
پاک و ہند کے سب سے بڑے خطیب ہیں۔ آپ کی تقریر سامعین کے دلوں سے غیر اللہ کا خوف
دور کر دیتی اور روشن مستقبل سے ہمکنار کر دیتی ہے۔
جناب پروفیسر ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری
مشہور مؤرخ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانیوزی نے انہیں ابو الکلام
ثانی اور اس دور کے نمرودوں کیلئے ابراہیم کا لقب دیا تھا۔
حضرت مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم
دیوبندی عالم دین مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم نے شاہی مسجد
لاہور کے باطل شکن اجتماع میں ان کی خطابت کی جلوہ سامانیوں اور بگڑے ہوئے حالات پر
قابو پانے کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں پر آفرین کہتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اللہ کا شیر
ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دین کی خدمت کیلئے منتخب کر لیا ہے۔ ان کی معرکۃ الآراء کتاب
الشیعہ والسنۃ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بہتر اور جامع کتاب اس موضوع پر آج
تک میری نظر سے نہیں گزری۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر مقام پر نیک نامی،
شہرت اور عزت و توقیر سے نوازا تھا۔ ایک دنیا ان کی شعلہ نوائیوں سے مسحور اور ایک
زمانہ ان کی آمد کا منتظر رہتا تھا۔ لوگ ان کی راہوں میں دیدہ و دل فرش راہ کرتے تھے۔
ڈاکٹر مصطفی السباعی مرحوم
شہرہ آفاق شخصیت ڈاکٹر مصطفیٰ السباعیؒ نے کہا تھا کہ ان کے
لب و لہجہ اور اسلوب بیان نے قدیم عرب خطباء کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ہم نے عالم اسلام
میں ان سے بڑا خطیب نہ یکھا ہے اور نہ سنا ہے۔ ممتاز صحافی اور دانشور مجیب الرحمن
شامی نے لکھا تھا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر سے کوئی اتفاق کرے یا اختلاف یہ حقیقت
ہے کہ ان کی تقریر دلوں سے خوف کو نکال باہر کرتی تھی۔ طاقتوروں کے خلاف لڑنے کا حوصلہ
دیتی تھی۔ کمزوروں کے دل سے کمزوری کا احساس ختم کر دیتی تھی اور وہ کہا کرتے تھے کہ
حکمرانو! ہم تمہارے باغی ہیں‘ تمہارے جھوٹے نظام کے باغی ہیں۔ ہم محمدe کی
ختم نبوت کی چوکھٹ کے چوکیدار ہیں۔
جناب ایم حمزہ سابق ایم۔این۔اے
ممتاز سیاسی راہنما ایم حمزہ (سابق ایم این اے) جو ملتان اور
بہاولپور جیل میں حضڑت علامہ کے ساتھ تھے وہ علامہ شہید کی استقامت، جرأت، راستبازی،
ایثار، شب خیزی اور تلاوت قرآن کی کثرت کے مداح تھے۔
جناب رانا شفیق خاں پسروری
ممتاز خطیب اور ادیب رانا شفیق خاں پسروری نے لکھا تھا کہ وہ
تقریر میں اعلیٰ، تحریر میں یکتا، لیاقت میں منفرد ذہانت میں اولیٰ، سیاست میں برتر،
قیادت میں عظیم، شریف النفس، تجارت میں کریم، باس عظمت والا، باپ کرامت والا، علم و
فضل میں رفعت والا اور تعلیم و تجزیہ میں شوکت والا رہنما تھا۔
جناب مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
مفسر قرآن مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے لکھا کہ ان
کی تقریر قوت استدلال کا شاہکار ہوتی اور خطابات کے طنطنوں اور ہمہموں سے بھرپور بھی۔
اس میں آبشار کی سی روانی بھی ہوتی اور سمندر کا سا جوش وطغیان بھی۔ اس میں محبوب
کی سی دلآویزی بھی تھی اور بادلوں کی سی گھن و گرج بھی، اس میں پھولوں کی سی لطافت
بھی تھی اور برق خاطف کی حشر سامانیاں بھی، بولتے تو مجمع پر سناٹا چھا جاتا گویا رفتار
کائنات رک گئی ہے۔ وقت جامد و ساکت ہو گیا ہے اور جوش طیور بھی ان کی سامعہ نوازی سے
مسحور و مبہوت ہیں۔
مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری (مرحوم)
نامور اہل قلم مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوریؒ نے کہا
تھا کہ علامہ صاحب کے خطاب کا طنطنہ، تقریر کا دبدبہ اور گفتگو کا ہمہمہ مسلم امر تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کا خمیر ایسی مٹی سے اٹھایا تھا جس میں ڈر‘ خوف، اندیشہ و فکر نام
کی کوئی چیز نہ تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت علامہ شہیدؒ کی شخصیت فکر و عمل کا ایک
نہایت دل آویز اور حسین مرقع تھی۔ قدرت نے انہیں نہایت فیاضی سے اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں
اور عمدہ قلبی کیفیتوں سے نوازا تھا۔ چالیس پینتالیس برس کی عمر میں انہوں نے بطور
سکالر اور سیاستدان، پاکستان میں ایک قابل رشک مقام پیدا کر لیا تھا۔ وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ انہوں نے بین الاقوامی، علمی، دینی اور فکری حلقوں سے خراج تحسین وصول کیا۔
اسلامی قانون، تاریخ، فرق، اسلامیات اور عرب امور کے ماہر کی حیثیت سے وہ دنیا کے فاضل
اشخاص میں شمار ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرت نے خطابت کا جوہر ایسے شاندار انداز
میں ودیعت کیا تھا جو سامعین کو مسحور کر دیتا تھا۔ نجی محفلوں میں بھی وہ بھرپور گفتگو
کے عادی تھے۔ جس محفل میں ہوتے نمایاں ہوتے۔ ان کی بھاری بھر کم آواز محفل کو اپنی
آغوش میں لے لیتی تھی۔ سٹیج پر ایک ادائے بے نیازی اور اعتماد کے ساتھ نمودار ہوتے
اور سامعین کی نگاہوں کا مرکز بن جاتے اور پھر چند لمحوں میں ایک ساحر کی طرح سارے
مجمع کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتے۔ بلاشبہ وہ فن خطابت پر زبردست قدرت رکھتے
تھے۔ خوبصورت الفاظ، تیکھے جملے، قرآنی آیات اور برمحل اشعار کا ایک سیل رواں تھا
جو موتیوں کی مانند ان کے منہ سے نکلتا اور فضائوں میں صوتی شکل اختیار کر کے تحلیل
ہو جاتا تھا۔ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان سامعین میں ایک عجیب کیفیت پیدا کر دیتی
تھی۔ اظہار خیال کا ایسا دلکش اسلوب پاکستان میں کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کی
خطابت کی جاذبیت اور علمی وسعت کو اغیار نے بھی تسلیم کیا ہے‘ پھر ان کے قدوقامت میں
اعتدال، حسن و زیبائی و رعنائی سامعین کو اپنی طرف کھینچے لیتی تھی۔
علامہ شہید نامور خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ عربی اور اردو کے منجھے
ہوئے ادیب بھی تھے۔ انہوں نے بلند پایہ عربی تصانیف کے ذریعے علمی دنیا میں ایک تہلکہ
مچا دیا تھا۔ فرق باطلہ کے خلاف ان کے باطل شکن قلم نے تلوار کا کام دیا۔ یہ فخر کی
بات نہیں بلکہ تحدیث نعمت کا اظہار ہے کہ علامہ شہید نے مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے
بعد جب قلم و قرطاس کو دین کی خدمت کیلئے وقف کیا تو ان کی عربی میں مایہ ناز علمی
و تحقیقی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر نہ صرف اہل علم سے خراج تحسین حاصل
کر چکی ہیں بلکہ عرب یونیورسٹیوں میں داخل نصاب ہونے کے ساتھ ساتھ اب دنیا کی بہت سی
زبانوں میں ان کے ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں انگریزی، فارسی، انڈونیشی، سواحلی
اور اردو زبانیں شامل ہیں۔ نیز یہ کتابیں اب حوالے کا کام دیتی ہیں۔ علامہ شہید نے
اپنی عربی کتاب القادیانیہ میں مرزا قادیانی کے جھوٹے اور لغو دعاوی کی نہ صرف خبر
لی بلکہ اس کے عقائد و نظریات کا علمی و تحقیقی انداز میں محاسبہ کیا اور قرآن و سنت
کی روشنی میں اس طرح رد کیا کہ قادیانیت کے تارو پود بکھر کر رہ گئے اور وہ عالم اسلام
میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہی۔
آپ علم و تحقیق، تقریر و تحریر اور انشاء پردازی کے ساتھ ساتھ
عملی سیاست میں بھی گہری دلچسپی لیتے تھے۔ 1977ء کے انتخابات میں قومی اتحاد کے ٹکٹ
پر پتوکی کے حلقہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ بھائی پھیرو کے حلقہ میں راقم الحروف
اور مولانا عبیداللہ عفیف ان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ حکمرانوں نے علامہ صاحب کے مدمقابل
سرکاری امیدوار کو کامیاب کرنے کیلئے چھانگا مانگا میں ناجائز طور پر بیلٹ بکس بھر
لئے، رات کی تاریکی میں علامہ صاحب نے اپنے کارکنوں کے ہمراہ یہ سراغ لگایا کہ اے سی
چونیاں اس جعل سازی کی نگرانی کر رہا تھا۔ اس تاریخی دھاندلی پر بی بی سی کے نمائندے
مارک ٹیلی سے علامہ صاحب نے رابطہ کیا اور اسے صورت حال سے آگاہ کیا پھر بین الاقوامی
میڈیا نے اس کی تفصیلات نشر کیں۔ ان انتخابات میں حکومت نے دھاندلی اور جعلسازی کا
ریکارڈ توڑ دیا۔ چنانچہ اپوزیشن نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے متحد ہو کر اس جعلی الیکشن کے خلاف تحریک شروع کر دی
جس نے تحریک نظام مصطفی کی صورت اختیار کر لی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک مضبوط حکومت
ریت کے ذروں کی طرح بکھر کر رہ گئی۔ اس تحریک میں علامہ شہید نے بڑا نمایاں کردار ادا
کیا۔
جرأت و حق گوئی کا ایک واقعہ:
یہ 1973ء
کی بات ہے جب ملک
دولخت ہونے کے بعد ’’نئے پاکستان‘‘ میں فکر و نظر پر پہرے بٹھا دئیے گئے۔ شرفاء پر
نا اہل مسلط ہو چکے تھے۔ ملک میں ہر طرف سناٹا تھا، حق بات کہنا سینکڑوں مصائب کو دعوت
دینے کے مترادف تھا۔ لیکن اس وقت بھی اہلحدیث کے نامور فرزند علامہ احسان الٰہی ظہیر
حق گوئی کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ اسی پاداش میں ’’عوامی حکومت‘‘ نے ان پر متعدد
مقدمات قائم کر رکھے تھے۔ جب وہ ساہیوال، ملتان، بہاولپور اور رحیم یارخاں کے اضلاع
کے دورہ سے واپس لاہور پہنچے تو عارفوالہ میں کی گئی تقریر کے سلسلہ میں لاہور کے ایڈیشنل
ڈپٹی کمشنر نے آپ کو عدالت میں طلب کر لیا۔ راقم الحروف ان دنوں ہفت روزہ ’’اہلحدیث‘‘
کی ادارت سے منسلک تھا۔ جس کا دفتر 6 ایبک
روڈ انارکلی میں اشرف پریس کی دوسری منزل پر تھا۔ علامہ شہید دفترمیں تشریف لائے اور
مجھے کہنے لگے کہ آئو ذرا کچہری تک چلیں‘ وہاں اے ڈی سی نے مجھے بلایا ہے۔ جب ہم عدالت
میں پہنچے تو اے ڈی سی نے علامہ صاحب کو عارفوالہ کی تقریر کی رپورٹنگ دکھلانے کے بعد
کہا کہ میں آپ کو اپنی تقریر میں آئندہ محتاط رویہ اختیار کرنے کی وارننگ دیتا ہوں۔
علامہ صاحب نے فوراً کہا کہ میں اس وارننگ کو تسلیم نہیں کرتا اور آپ نے اس وقت اپنے
تحریری بیان میں لکھا کہ ’’میں نے اس تقریر کو پڑھا ہے‘ میں بنیادی طور پر اس رپورٹنگ
کو غلط سمجھتا ہوں۔ فقرات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے لکھا گیا ہے۔ باقی جو کچھ میں
نے کہا تھا اسے حق و صداقت کے طور پر پیش کیا تھا اور حق و صدارت سے اعراض‘ گریز اور
پسپائی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ 73/3/8۔
جب ہم دفتر واپس پہنچے تو جناب علیم ناصری مدیر اعلیٰ ہفت روزہ
’’الاعتصام‘‘ میرے منتظر تھے۔ میں نے یہ واقعہ سنایا تو ناصری صاحب نے اگلے روز یہ
اشعار دئیے جسے میں نے ’’اہلحدیث‘‘ میں شائع کیا۔ آپ وہ اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
کمال جرأت کردار و جوش حق گوئی
یہی رہا ہے جہاں میں نشان اہل حدیث
ہے سرد آتش داؤدؒ و سوز اسمٰعیلؒ
فقط ظہیرؔ ہے اب ترجمانِ اہلحدیث
آپ جانتے ہیں کہ علامہ صاحب کی ولولہ انگیز قیادت میں کاروان
عمل بالحدیث بڑی تیزی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ سانحہ
قلعہ لچھن سنگھ لاہور سے دو روز قبل 20 مارچ 1987ء
کو چنیوٹ میں خاتم
النبیین کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں علامہ صاحب کا خصوصی خطاب تھا۔ جب آپ نے
تقریر شروع کی تو آسمان سے بوندا باندی شروع ہو گئی۔ جو دھیرے دھیرے موسلا دھار بارش
کی صورت اختیار کر گئی۔ لوگ بارش سے گھبرا گئے تو ایسے میں علامہ صاحب نے اپنی ٹوپی
اتار لی اور آستینیں چڑھا لیں اور کہنے لگے کہ تم بارش سے بھاگتے ہو مجھے تو وہ دیوانے
چاہئیں جو گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے محمد عربیe کی عظمت کیلئے سینہ سپر ہو جائیں۔ یہ سننا تھا کہ جو
کوئی جہاں کھڑا یا بیٹھا تھا وہ وہیں جم گیا۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ بارش کے قطرات
کی رفتار تیز تھی یا علامہ صاحب کے الفاظ کی۔
آخر وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب اہل حدیث یتیم ہو گئے۔ ان کی متاع
دین و دانش لٹ گئی۔ 23 مارچ کو آپ مینار پاکستان کے پہلو میں جلسہ عام سے خطاب کر
رہے تھے کہ بم کا دھماکہ ہوا اور آپ شدید زخمی ہو گئے۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ
فہد بن عبدالعزیزؒ کی خواہش پر انہیں علاج کے لئے خصوصی طیارہ پر سعودی عرب لے جایا
گیا۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے ان کے علاج میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی۔ تقدیر کے آگے تمام
تدبیریں ناکام ہو گئیں۔ 30 مارچ کو علم و دانش کا یہ آفتاب وادی بطحا میں غروب
ہو گیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) مسجد نبوی میں نماز جنازہ پڑھی گئی اور جنت البقیع
میں امام مالکa کے
پہلو میں آسودہ خاک ہیں۔
آخر میں ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ المناک سانحہ کیوں
رونما ہوا؟ اس کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں؟ ابھی تک کسی حکومت اور اس کی
تفتیشی ایجنسیوں نے اس بارے میں کسی تسلی بخش پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی
ابھی تک قاتل گرفتار ہوئے ہیں۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں: ؎
حاکمو! یا ہمیں قاتل کا پتہ بتلا دو
یا ہمارے گہرو لعل ہمیں لوٹا دو!
No comments:
Post a Comment