تقاریب بخاری شریف کی تاریخی حیثیت
(قسط سوم آخری) تحریر: جناب مولانا صاحبزادہ برق التوحیدی
ہم جب الجامع الصحیح للبخاری کی قرأت اور تعلیم و تدریس پر
بات کررہے تھے تو یقینا کتب تراجم و تاریخ کے مطالعہ سے بہت سی ارواح سعیدہ ایسی اور
بھی مل سکتی ہیں جنہوں نے رسول اللہ e اور
ان کی حدیث پاک سے محبت و عقیدت میں صحیح بخاری کی قرأت و تدریس کو زندگی کا بہترین
مصرف سمجھا اور اپنے شب و روز کو اس کے مطالعہ میں مشغول رکھا ہو گا۔ تاہم اس موقعہ
پر شیخ القرآن والحدیث‘ پیکر زہد وتقوی، علم وعمل کے مجمع البحرین‘ صاحب کرامت‘ سید
ی و مرشدی حضرت مولانا مولا بخش کومویa کا ذکر بھی مناسب ہو گا جن کے متعلق ان کے تلمیذ رشید
اور اس کی مسند علم و عمل کے جانشین شیخ الحدیث حضرت علامہ حافظ محمد یوسف صاحبd نے
بتا یا کہ حضرت ممدو ح موصوف نے تقسیم ہند سے قبل شمع قرآن و حدیث کو روشن کیا اور
تدریس قرآن و حدیث کی مسند بچھائی‘ اس وقت ممدو ح و مو صوف مرحوم نے صحاح ستہ سمیت
بخاری شریف کتنی مرتبہ پڑھائی اس کا تو اندازہ نہیں البتہ جب وہ ہمارے ہا ں تشریف لائے
اور ہمیں ان سے کسب ِ فیض کا موقعہ ملا تو ہم نے ان کو ہمیشہ الجامع الصحیح للبخاری
کا مطالعہ کرتے پایا اور اُنہوں نے باقاعدہ طور پر پچیس مرتبہ قرأت بخاری مکمل کی
۔
تحدیث نعمت کے طور پر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ راقم الحروف نے
جب کچھ عرصہ قبل حضرت سید ی و مرشدی کا یہ معمول سنا کہ وہ روزانہ قرأت بخاری شریف
کرتے تھے تو اسی وقت سے راقم الحروف نے بھی کم از کم سال میں ایک مرتبہ بخاری شریف
کی قراۃً ختم معمول بنا یا ہوا ہے اور اختتام پر تقریب کا انعقاد بھی ہوتا ہے، و ھذا
بتو فیق اللہ تعالیٰ ولہ الحمد علی ذلک ۔
حضرات ِ محدثین و فقہاء اور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ نے امام
بخاریa کی
’’ الجامع الصحیح ‘‘ سے جو اعتنا برتا اور مختلف پہلوئوں سے اس سے محبت و عقیدت اور
اپنی وابستگی و دلچسپی کا مظاہرہ کیا یہ تو ایک طویل داستان ہے اس موقع پر ہم صرف ختم
بخاری شریف پر انعقاد ِ تقریب پر عرض کرنا چاہتے ہیں ، چنانچہ ہمیں یہ تو معلو م نہیں
ہو سکا کہ برصغیر بالخصوص پاکستان میں ختم بخاری شریف کے موقع پر اظہارِ تشکر و امتنان
یا اس سعادت اور فضل و شرف کے حصول پر فرحت و مسرت کے لیے ایسی تقریب کا انعقاد کب
سے اور کہاں سے شروع ہوا۔ البتہ آنحضرت e کے ارشادات ِ مجموعہ ،کتب ِ حدیث کی تکمیل پر بالخصوص
اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی تعلیم و تدریس کی تکمیل پر ایسی تقریب کا انعقاد یقینا
مستحسن ہے کہ حضرات سلفS نے
بھی اس کا مظاہرہ کیا ہے۔ بلکہ ان تقاریب میں جس قسم کے عنوانات اور موضوعات پر گفتگو
ہوتی ہے ان میں خواص و عوام کو مقام ِ حدیث ، حجیت ِ حدیث ، عمل ِ بالحدیث اور خدمات
ِ محدثین سے آگاہ کیا جاتا ہے ، نیز دینی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے جو گفتگو کی جاتی
ہے وہ بہت ہی عظیم کار خیر ہے جس پر اسے کم از کم ’’ نعمت البدعۃ ھذہ ‘‘ کہنا چاہیے۔
بہر حال علامہ قسطلانیa شارح بخاری کا ایک ختم بخاری ہے ’’ تحفۃ السامع والقاری
بختم صحیح البخاری ‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ قسطلا نی کے دور میں ختم بخاری
پر تقریبات کا وجود تھا جبکہ حافظ سخاوی نے بھی متعدد بار ختم بخاری کیا اور اس کا
نام رکھا ’’ عمد ۃ القاری والسامع فی ختم الصحیح الجامع ‘‘ اور اسی طرح شیخ الا سلام
حافظ ابن حجر عسقلانیa کے
متعلق آتا ہے۔ جبکہ نو یں صدی کے محدث و فقیہ احمد بن صدقہ ابو الفضل العسقلانی الشافعی
کے متعلق آتا ہے ۔
[وكان یجتمع عنده
فی ختومه الأئمة و عمل بسبب ذلك التذكرة فی مجالس الكرام فی ختم البخاری۔] (الضوء
اللامع: ۱/۲۶۴)
ان کے پاس ( ان کے مشیخہ ) کے اختتام پر أئمہ و علماء کرام جمع ہوتے اسی بنا پر
اُنہوں نے ختم بخاری کی نسبت سے ’’ا لتذکرۃ فی مجالس الکرام فی ختم البخاری‘‘ کتاب
لکھی۔ گویا اس وقت ختم بخاری پر تقریبات کا انعقاد نسبتاً معمول بن چکا تھا۔ جبکہ مغاربہ
میں بھی تقریباً گیارہویں صدی ہجری سے اس قسم کی تقریبات و ختمات کا وجود ملتا ہے بلکہ
برصغیر میں ان تقریبات سے وہاں یہ روایت متقدم معلوم ہوتی ہے۔
دلچسپ خواب
گیارہویں صدی میں مشہور و معروف مفسر و محدث اور صاحب تصانیف
امام محمد علی بن محمد علان بن ابراہیمa گزرے
ہیں‘ ان کے تعارف میں لکھا گیا ہے۔
[مقریٔ كتاب صحیح
البخاری من اوله الی آخره فی جوف كعبة الله۔]
’’اُنہوں نے بیت
اللہ کے اندر بخاری شریف کو اول تا آخر پڑھا۔‘‘
موصوف نے [القول الحق والنقل الصریح بحواز ان یدرس بجوف الكعبة الحدیث الصحیح۔] کتاب بھی لکھی اور
ایک کتاب ۔ الوجہ الصحیح فی ختم الصحیح ‘‘ کے نام سے تصنیف فرمائی ، ان کے متعلق کسی
متقی اور صالح شخص نے خواب دیکھا کہ ۲۶ رجب کی رات ہے ۔ نبی اکرم e الحجون
کے پاس سے مکہ مکرمہ کی طرف جا رہے ہیں اُنہوں نے آگے بڑھ کر دست ِ مبارک کو بوسہ
دیتے ہوئے عرض کیا ::
[یا سید المرسلین
یارسول الله الناس قصدوا حضرتك الشریفة للزیارة فلما ذاوصلت؟ قال: لختم صحیح البخاری
(أولختم ابن علان) ثم یوم الختم الثامن والعشرین من رجب ذلك العام حضر بعض الصالحین
فحصلت له واقعة رأی خیمة خضراء بأعلی ما بین السمآء والارض فسأل، هذا النبیﷺ حضر
لختم البخاری۔] (خلاصة الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر تالیف محمد المحبی: ۴/۱۸۶)
’’سید الرسل، یا
رسول اللہ e آپ
یہاں تشریف لا رہے ہیں جبکہ لوگ آنجناب e کی زیارت کو (وہاں) جا رہے ہیں ۔ ارشاد فرمایا : میں
ابن علان کے ختم صحیح بخاری کے لیے آیا ہوں ، پھر ۲۸ رجب کو جب ختم بخاری تھا بعض
نیک لوگوں نے دیکھا کہ زمین سے آسمان کی بلند یوں پر ایک سبز خیمہ ہے پو چھا : یہ
خیمہ کیسا ہے ؟ تو بتایا گیا کہ پیغمبرe ختم بخاری پر تشریف لائے ہیں۔ ‘‘
حضرات انبیاء و رسلo کے علاوہ ہر کسی کا خواب اگرچہ خواب ہی ہوتا ہے لیکن
نیک خواب کو نبوت کا چالیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا اس خواب کی حیثیت کو یکسر
نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ ختم بخاری پر تعامل سلف کی تائید ہے۔
جس طرح امام ابن علانa کے متعلق آتا ہے کہ اُنہوں نے بخاری شریف کو بیت اللہ
کے اندر پڑھا اسی طر ح علامہ محدث عبداللہ بن سالم البصری الملکی کا تعارف بھی ان الفاظ
میں کروایا گیا ہے:
[قاریٔ صحیح البخاری
فی جوف الكعبة المشرفة ، له شرح علیه عزان یلقی فی الشروح مثله لكن ضاق الوقت عن اكماله
سماه ’ضیاء الساری … ومن مناقبه تصحیحه للكتب الستة حتی صارت نسخته یرجع الیها من جمیع
الاقطار، ومن اعظمها صحیح البخاری، أخذ فی تصحیحه نحوا من عشرین سنة۔] (التاج المكلل:
۴۹۸)
’’موصوف صحیح بخاری
کو کعبہ کے اندر پڑھنے والے ہیں‘ ان کی صحیح بخاری پر ایک شر ح بھی ہے دیگرشروحات میں
کوئی بھی اس جیسی نہیں لیکن افسوس اُنہیں یہ شر ح مکمل کرنے کا وقت نہ ملا۔ موصوف نے
اس شرح کا نام ’’ ضیاء الساری‘‘ رکھا … موصوف کے فضائل و مناقب میں سے یہ بھی ہے کہ
آپ نے کتب صحاح کی تصحیح کا بیڑا اُٹھایا جس کے نتیجہ میں ان کا نسخہ مرجع خلائق بن
گیا اور سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ صحیح بخاری کی تصحیح بھی کی جس میں بیس سال لگے۔‘‘
بخاری شریف کے درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کی طرح اس کی کسی
اعتبا ر سے بھی خدمت کوئی کم حیثیت نہیں رکھتی بالخصوص اس کی شرح کا شرف و اعزاز بڑا
فرحت و مسرت کا موقعہ ہے ، چنانچہ علامہ قسطلانی کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ اُنہوں
نے ایسے موقعہ پر دعوت کا اہتمام کیا۔ اسی طرح شیخ الا سلام حافظ ابن حجرa جن
کی کتاب فتح الباری کے متعلق کہا گیا کہ :
’لا ھجر ۃ بعد الفتح‘
یعنی فتح الباری کے بعد فہم ِبخاری اور حل ِبخاری کے لیے کسی
اور شر ح کی ضرورت نہیں ، موصوف نے جب یہ شر ح مکمل کی تو اس خوشی میں تقریب منعقد
کی۔ علامہ شو کانیa لکھتے
ہیں:
[وكذا وقع لسلطان
الغرب ابی فارس عبدالعزیز الحفصی فانه أرسل یستد عیه فجهزله ما كمل من الكتاب وكان
یجھز لكتبة الشرح ولجماعة مجلس الاملاء ذهبا یفرق علیهم هذا ، ومصنفه حي رحمه الله
، ولماكمل شرح البخاری تصنیفا و قرأة عمل مصنفه رحمه الله ولیمة عظیمة بالمكان الذی
بناه المؤید خارج القاهرة فی یوم السبت ثامن شعبان ۸۴۲ ھ وقرأ المجلس الأخیر هناك
وجلس المصنف علی الكرسی، قال تلمیذه السخاوی وكان یوما مشهود الم یعهد اهل العصر مثله
بمحضر من العلماء والقضاء والرؤساء والفضلاء وقال الشعراء فی ذلك فاكثروا وفرق علیهم
الذهب وكان المستغرق فی الولیمة المذكورة نحو خمسمائة دینار۔] (البدر الطالع:
۱/۹۰)
’’اسی طرح کا واقعہ
سلطان مغرب ابو فارس عبدالعزیز الحفصی کا ہے کہ اس نے ان سے درخواست کی کہ جس قدر کتاب
مکمل کی ہے وہ مجھے بھیج دی جائے اور سلطان مصنف کی زندگی میں شرح لکھنے والوں یا مجلس
املاء میں شرکت کرنے والوں کے لیے سونا تیار رکھتے جو ان پر نچھاور کیا جاتا ۔ جب اُنہوں
(ابن حجر ) نے بخاری شریف کی شرح کو تصنیف و قرأت میں مکمل کیا تو مصنف (ابن حجر)
نے ہفتہ کے دن ۸ شعبان ۸۴۲ھ کو قاہرہ کے باہر مؤید کے تیار کر دہ مقام پر ایک بہت
بڑی دعوت کا اہتمام کیا جہاں مصنف نے کرسی پر بیٹھ کر آخری مجلس املاء قائم کی۔‘‘
حافظ بن حجرa کے
شاگرد علامہ محمد بن عبدالعزیز السخاویa نے لکھا ہے کہ یہ دن بڑی دلچسپ حاضری والا تھا کہ اس
جیسا دن اس زمانہ میں اور کوئی دیکھنے کو نہیں ملتا جس میں علماء و قضاہ اور رؤسا
ء و فضلاء اتنی بڑی تعداد میں شریک ہوئے ہوں اور شعراء نے بھی بڑی تعداد میں اپنا کلام
پیش کیا‘ ان (حاضرین ) پر سونا (درہم ) تقسیم اور نچھاور کیا گیا اور اس ولیمہ پر تقریباً
پانچ سو دینار خرچ ہوئے۔
دسویں صدی ہجری کے معروف عالم و مفتی مولانا محمد محدث لاہوریa کے
متعلق آتا ہے:
[وكان كثیر الدرس
والا فادة وكلما كان یختم صحیح البخاری ومشكاة المصابیح، یدعو العلماء والمشائخ الی
مأدبة ویطعمهم الا طعمة اللذیذة من الحلویات وغیرها۔] (الاعلام، الكھنوی: ۴/۲۹۱)
’’موصوف کا حلقہ
درس و تدریس اور فیض بڑا وسیع تھا۔ آپ جب بھی صحیح بخاری اور مشکا ۃ المصابیح ختم
کرتے تو علماء و مشائخ کے لیے دستر خوان سجاتے اور ان کی لذیذ مٹھائیوں وغیرہ سے ضیافت
کرتے۔‘‘
خاتمہ
یہاں دو چیزوں کی طرف توجہ دلانا بھی مناسب ہوگا کہ ہم نے جب
تقاریب ِبخاری کو پہلے پہل دیکھا اور سناتب جو صاحب مسند ِتدریس استاذ گرامی اور شیخ
محترم پورا سال درس بخاری دیتے وہی بخاری شریف کی تقریب اختتام میں آخری حدیث پاک
کا درس دیتے تھے پھر آہستہ آہستہ یہ روایت بدل گئی‘ کسی اور صاحب فضل و علم کو دعوت
دی جانے لگی‘ جو طلبہ و حاضرین کو آخری حدیث پاک کا درس ارشاد فرماتے ہیں۔ اس کا بھی
ایک مستحسن پہلو ہے کہ مدعو شخصیت اپنے علم و فضل میں معمول کے شیخ محترم سے اعلیٰ
مقام و مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں بلکہ وہ ان کے بھی شیخ ہوتے ہیں تو اپنے دور اور عصر
حاضر کے بزرگوں اور اپنے سے افضل شخصیت سے کسب و فیض کے لیے ایسا کرنا مناسب سمجھا
جاتا ہے۔ بظاہرایسا معمول کے شیخ محترم کی اجازت بلکہ خواہش ہی سے کیا جاتا ہے بصورت
ایسی روایت مناسب نہیں۔ ہمارے خیال میں
اگرمعمول کے شیخ محترم درس حدیث دیں اور باہر سے مدعو حامل فضل
و علم شخصیت سیرت بخاری ، الجامع الصحیح، حدیث ، اصول حدیث اور محدثین او ر ان کے منہج
کے متعلق مقالات سے طلبہ و حاضرین کو فیض یاب کریں تو سب سے مناسب ہے۔
دوم یہ کہ اگر کسی بیرونی شخصیت کو بلایا جانا ہوتو پھر کسی
ایسی شخصیت کا انتخاب ہو جو نہ صرف اپنے علم و فضل کے اعتبار سے اولیٰ و اعلیٰ ہو بلکہ
بخاری شریف کے حوالہ سے بھی خصوصی حیثیت کی حامل ہو اور بالخصوص جن سے طلبہ کو علو
سند کا اعزاز ملے۔ یعنی ایسی شخصیت کو مدعو کیا جائے جو نہ صرف کہ جامع الا سانید ہو
بلکہ عالی السند بھی ہو تاکہ یوں ان سے اجازہ حدیث کی سعادت پائی جا سکے۔ ہمارے زمانہ
طالب علمی میں شیخ المشائخ حضرت العلام حضرت الحافظ محمد محدث گوندلویa ایسی
ہی شخصیت تھے جن کو ایسی تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی کو درس
حدیث کا حق تھا نہ حوصلہ ، اب شاید ایسی جامع الصفات شیخ المعقولات والمنقولات مسند
وقت کوئی شخصیت نہیں تاہم مذکور ہ بالاترجیحات کے تناظر میں بعض دیگر مشائخ عظام میں
ہمارے شیخ محترم محدث العصر حضرت العلام فضیلہ الاستا ذ مولانا ارشاد الحق اثریd و
متعنا اللہ تعالیٰ بطول حیاتہ بھی ہیں جن سے طلبہ حدیث کو کم از کم ایسی تقریبات میں
زیارت کے ساتھ کسب ِ فیض حاصل کرتے ہوئے سند و اجازہ کی سعادت حاصل کرنی چاہیے ۔
بہر حال ہماری ان گزارشات سے یقینا یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بخاری
شریف کی قرأت یا تدریس کے اختتام پر دعوت و تقریب کا انتظام و اہتمام سلف کی روایت
ہے جس سے نہ صرف محبت و عظمت حدیث کا اظہار ہوتا ہے بلکہ محدثین کے ساتھ بالخصوص امام
بخاریa کی
خدمات کے اعتراف کے ساتھ الجامع الصحیح کے مقام ومرتبہ سے بھی آگاہی ملتی ہے۔ آج
کل حدیث پاک اور محدثین کے خلاف جو مکروہ پراپیگنڈہ ہو رہا ہے اور ایک مخصوص طبقہ امام
بخاری اور ان کی الجامع الصحیح کو ہدف تنقید و تنقیص بنا رہا ہے اس کے پیش نظر ان تقریبات
کی اہمیت و ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ جس طرح حدیث پاک کی تدریس بالعموم اور
الجامع الصحیح کی تدریس بالخصوص وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ لوگوں کے عقائد و عبادات
، اخلاق و معاملات کی اصلاح کی خاطر احادیث رسول e کے اس صحیح ترین مجموعہ کو ہر گھر کی زینت بنا دیا جائے۔
بلکہ موجودہ فکری و عملی اختلاف و انتشار کی خلیج کو پا ٹنے کے لیے بھی یہی وہ واحد
نقطہ اتحاد ہے جس کے متعلق بلا تردد کہا جا سکتا ہے کہ
[تعالوا الی كلمة
سواء بیننا وبینكم]
کے تحت وہی ایسی مشترکہ چیز ہے جس پر کسی کو اختلاف نہیں اور سب کے لیے قابل قبول
ہے۔
ہمارے خیال میں تقریبات بخاری کا بنیادی مقصد لوگوں کو براہ
راست قرآن و حدیث سے متعلق کرنا ہو نا چاہیے کہ یہی جادہ مستقیم ہے جو انسان کو فکر
ی انحراف و الحاد سے بچا کر منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے اور اسے شاہراہ زندگی پر پر
امن اور بامقصد سفر کی ضمانت دے سکتا ہے۔ بلاشبہ کتب حدیث بالخصوص بخاری شریف کی یہ
برکت بلکہ کرامت ہے کہ اس پر عمل پیرا شخص نہ صرف ہر قسم کے فتنہ سے محفوظ رہتا ہے
بلکہ ہر شعبہ حیات میں ہر منفعت کو اپنے ساتھ پا تا ہے۔ ہم تقریب بخاری کے انعقاد کو
اس لیے بھی مناسب خیال کرتے ہیں کہ اس کی قرأت و ختم خیروبرکت کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس
پہلو پر ہم نے الگ سے ’’سیرت بخاری کے امتیازی پہلو۔‘‘ کے عنوان سے بحث کی ہے تاہم
ان تقریبات میں حصول خیرو برکت اور جلب شرف و سعادت کے لیے حاضری کو یقینی بنانے کی
کوشش کرنی چاہیے تاکہ دوسری طرف بخاری شریف پڑھنے پڑھانے والوں کے ساتھ اس سلسلہ خیر
کا انتظا م و انصرام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو سکے۔
بہرحال تقریب بخاری کی ایک تاریخی حیثیت ہے جسے اپنانا ہو تو
اس کی حقیقی روح اور معنویت کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ لوگوں کے دل و دما غ محبت
حدیث سے منور و معطر ہونے کے ساتھ مقام ِ حدیث کے ساتھ مقام ِ صحیح بخاری اجاگر و مستحکم
ہو سکے۔
No comments:
Post a Comment